ووٹ کی اہمیت کو پہچاننے کا اس سے اچھا وقت اور کوئی نہیں!

شائع April 25, 2018 اپ ڈیٹ September 14, 2018

موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کی مدت 31 مئی کو ختم ہورہی ہے۔ الیکشن کا طبل بجنے کو ہے اور موسم گرما کے ساتھ سیاسی گرما گرمی بھی عروج پر ہے۔ ساتھ ساتھ اس بحث کا بازار بھی گرم ہے کہ ووٹ کو عزت دینا زیادہ ضروری ہے یا ووٹر کو؟

عوامی نمائندے آستین چڑھائے، تازہ دم ہوکر عوامی میدان میں اتر گئے ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی کو جڑ سے ختم کرنے، بجلی، پانی، گیس گھر گھر تک پہنچانے، علاج اور تعلیم مفت فراہم کرنے کے سہانے خوابوں کی پٹاریاں کھول دی گئی ہیں۔ اپنی ’نیک نیتی‘ کو ثابت کرنے کے لیے 4 سال سے بند گٹر لائنیں کھلوائی جارہی ہیں، سڑکوں کی ملمع کاری ہورہی ہے۔ پانی کی عدم فراہمی پر خودکشی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہی دوسری دنیا پدھار گئے تھے، اب انتخابات سے قبل انہیں اچانک یاد آیا کہ اُن کے ووٹرز مشکل میں ہیں۔

ہر سیاسی جماعت کے نمائندے کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل ہے، لہٰذا ووٹ انہیں ہی دیا جائے کیونکہ وہ منتخب ہوکر چٹکی بجاتے ہی تمام مسائل کا فوری حل نکال لیں گے۔ جبکہ عوام اپنی تقدیر پر حیران و پریشان ہیں کہ ان کے ساتھ یہ مشق کب تک دہرائی جاتی رہے گی؟ کب تک انہیں ووٹ کے تقدس کے نام پر لوٹا جاتا رہے گا؟ منتخب نمائندوں کی جانب سے مسلسل وعدہ خلافیاں، محض کھوکھلے نعروں اور دعوؤں کی وجہ سے آج عوام کی نظر میں ووٹ کی اہمیت تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ انتخابی عمل میں صرف روایتی طور پر شرکت کرتے ہیں۔ سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے، اس لیے وہ ہر بار نئے اور خوشنما دعوؤں کی دکان سجاتے، وعدوں کا نیا جال بنتے اور عوام کو اُس میں پھنسالیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں انتخابات کی تاریخ

ہمارے ہاں سیاسی رہنمائوں کا حافظہ الیکشن جیتتے ہی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جبکہ انتخابات قریب آتے ہی ان کی یادداشت لوٹ آتی ہے، وہ دوبارہ سے 5 سال قبل کیے گئے دعوؤں پر نیا میدان مارنے کی تیاری میں جُت جاتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے، وہ پرانے کو بھول کر نئے راگ پر اعتبار کرلیتے ہیں اور نتیجے میں پھر وہی دیرینہ مسائل کا انبار ہوتا ہے اور ان کے ناتواں کاندھے۔

لیکن اب بہت ہوگیا، 7 دہائیوں میں لوگوں کے مسائل 70 گنا بڑھ چکے ہیں۔ اب عوام کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ انہیں اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح معنوں میں اندازہ ہونا چاہیے، ان کے ووٹ کے ذریعے بہت کچھ بدل سکتا ہے، عوام کو اپنے ووٹ کی عزت خود کروانا ہوگی۔ لوگوں کو اب سمجھنا ہوگا کہ الیکشن کا چاند بن کر آپ کے علاقے یا محلے میں نظر آنے والے امیدوار سے بھرپور انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ ووٹ دینے سے پہلے انہیں وہ وعدے اور دعوے یاد کروانے ہوں گے جو پچھلے انتخابات سے قبل کیے گئے تھے۔ ان برسوں میں اپنی محرومیوں کا جائزہ لیں، درپیش مشکلات اور پریشانیوں پر ایک نگاہ ڈالیں اور یومِ انتخاب پر اُس نام نہاد نمائندوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے یکسر مسترد کردیں۔ بس یہی آپ کا انتقام ہوگا۔

عوام کو رائے دہی کے وقت کسی دباؤ، رنگ نسل، برادری کی بنیاد کے بجائے قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نمائندے چننا ہوں گے۔ ایسے لوگ لانے ہوں گے جو عوام الناس کی حقیقی نمائندگی کرسکیں، جن کے پاس عوامی مسائل کا ٹھوس حل موجود ہو، جن کا منشور الفاظ کے گورکھ دھندوں کے بجائے قابلِ عمل حکمت عملی کا غماز ہو۔

مزید پڑھیے: ووٹ کی طاقت

تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے، ان کی ذرا سی غفلت کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ بلاشبہ بہترین طرزِ حکمرانی اور جمہوریت ہی عوام کے تمام مسائل کا حل ہے۔ سسٹم کو گالیاں دینے، اسے کوسنے کے بجائے سسٹم کو مؤثر اور فعال بنائیں، جمہوری نظام میں جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنے کے لیے ہر پاکستانی اپنا کردار ادا کرے، استعمال ہونے کے بجائے اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں۔ یقین کیجیے حالات بدلیں گے، بس تھوڑا خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

فرحان محمد خان

فرحان محمد خان ہیڈ ڈان نیوز ڈیجیٹل ہیں، 17 برس سے صحافت سے وابستہ، سیاست، سماجیات اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں ٹوئٹر پر یہاں FMKhanZai@ فالو کیا جا سکتا ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 28 جون 2025
کارٹون : 27 جون 2025