جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن) کی بنیاد 1988 میں رکھی گئی۔
بھارت میں برطانونی سامراج سے سیاسی سطح پر نمٹنے کے لیے 1919 میں دیوبند مکتبہ فکر کے حامل افراد نے جمعیت علماء ہند (جے یو ایچ) کی بنیاد رکھی اور جے یو آئی کی جڑیں اسی نظریے سے ملتی ہے۔
واضح رہے کہ جے یو ایچ نوآبادیات کے خلاف تھی اور متحدہ بھارت کی خواہاں رہی۔ جے یو ایچ بھارتی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کے تصور ‘پاکستان’ کی مخالف تھی اور اسی وجہ سے 1945 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کے تنازع پر ایک دھڑا قائم ہوا۔
اس دھڑے کو جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کا نام ملا اور بعدازاں 1988 میں صدر ضیاء الحق کے دور میں افغانستان جنگ کے دوران مجاہدین کی حمایت کے تنازع پر جے یو آئی مزید تقسیم کا شکار ہو گئی جس کے نتیجے میں جمعیت علماء اسلام (سمیع الحق) اور جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن) کا قیام عمل میں آیا۔
جے یو آئی (ف) کے نمایاں رہنما
- مولانا فضل الرحمٰن
- مولانا گل نصیب خان
- مولانا محمد خان سرہندی
- اکرم خان درانی
- مولانا عبدالغفور حیدری
اہم نکات
- حکومت کے انتظام و انصرام میں نفاذ شریعت کے خواہاں
درج ذیل شعبوں میں بہتری لانے کی خواہش:
- تعلیم
- صحت
- ملازمت
- معیشت اور اقتصادیات
- تجارت
- تنخواہ
- زراعت
- عدلتی نظام
- انتظامیہ
- ٹیکس
- تعلقات عامہ
- اقلیت
- خارجہ پالیسی
- حالات حاضرہ
- اطلاعات اور مواصلات
- دفاع
- 22 اسلامی نکات
- رفاعی ٹرسٹ
انتخابات 2008
قومی اسمبلی کی 41 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ خیبر پختونخوا میں 29 نشستوں پر کامیابی ملی۔
انتخابات 2013
قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے صرف 15 پر سبقت حاصل کر سکی۔
اہم سیاسی کارنامے
مولانا فضل الرحمٰن افغان طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کرانے کے حوالے سے بطور ثالث مشہور ہیں۔
اسی طرح، جے یو آئی (ف) نے حکومت پر طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے پر بھی دباؤ ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن پارلیمانی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین کے بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ دائیں باوزں کی جماعت ہونے کی وجہ سے کشمیر پر واضح مؤقف رہا۔
مولانا فضل الرحمٰن بیان کر چکے ہیں کہ خارجہ پالیسی میں کشمیر کے مسئلے کو ترحیج دینے کی ضرورت ہے اور حکومت پاکستان کشمیری عوام کی اخلاقی اور سفارتی مدد کا اعلان کرے۔
2008 کے انتخابات میں جے یو آئی (ف) نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ سیاسی اتحاد کے ذریعے وفاق میں حکومت بنائی اور دسمبر 2010 تک وفاقی کابینہ کا حصہ رہی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے دسمبر 2017 کو وفاق کے زیر انتظام علاقے (فاٹا) کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا اور قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز کے خلاف مخالفت جاری رکھنے کی قسم کھائی۔
تنقید اور تنازعات
جے یو آئی (ف) نے بھارت کو ‘زیادہ پسند کی جانے والی قوم’ کہلائے جانے کی حمایت کی اور اس کے حق میں دلائل دیئے کہ اس طرح تاجربرادری کو فائدہ پہنچے گا۔
پارٹی کی پالیسی میں خواتین کے حقوق اورمعاشرے میں ان کے کردار کے حوالے سے متعدد حلقوں میں فساد کا باعث رہا ہے۔
جے یو آئی (ف) نے پارلیمانی کمیٹی کے سیشن برائے گھریلو تشدد کے بل کو پاکستان میں ‘مغربی ثقافت’ پھیلانے کی ایک سازش قرار دیا اور دھمکی دی کہ بل نے قانون کا درجہ اختیار کیا تو ملک گیر احتجاج ہوگا۔
پارٹی نے پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے کی سخت مخالفت کی لیکن اب کبھی کبھار حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت کی ‘پرو امریکی پالیسی’ قرار دیتی ہے۔
2002 کے انتخابات سے قبل پارٹی متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ بنی۔ اس حوالے سے الزام لگایا جاتا ہے کہ انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے ایم ایم اے کی بنیاد رکھی تھی۔
ایم ایم اے نے 2003 میں پرویز مشرف کی حمایت میں آکر 17ویں ترمیم منظور کرائی اور یوں صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا۔
بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تکمیل میں تاخیر پر جمعیت علمائے اسلام (ف) نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے مطالبہ کیا کہ وہ رواں برس 20 مئی سے قبل منصوبہ مکمل کریں ورنہ جے یو آئی (ف) صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کرے گی۔