اپنوں اور بے گانوں کے ماجرے کوئی آج کے تو نہیں، شاید دنیا کے ہر ادب میں ہجر و وصل کے بعد اگر کسی موضوع پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے تو وہ یہی ہے، لوک داستانوں سے لے کر سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات، ضرب المثل، روزمرے اور محاوروں تک میں اپنوں اور غیروں کے یہ قصے استوار نظر آتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ انسان جہاں جاتا ہے، وہ اپنے ہی ڈھونڈتا ہے۔ اب اس ’اپنے‘ کا پیمانہ نظریاتی اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے، مذہبی، نسلی، لسانی سیاسی و خاندانی بھی ممکن ہے۔ یوں کہیے کہ ’اپنوں‘ کے معنوں کا انحصار بندے کی ضرورت اور موقع محل پر ہوسکتا ہے۔ کسی بھی ادارے یا محکمے میں اقربا پروری کا نتیجہ یہی ’اپنائیت‘ تو ہوتی ہے۔ ظاہر ہے افسرانِ بالا بھی تو چاہتے ہیں کہ اُن کے اپنے اُن کے پاس رہیں۔

اپنوں پر ’اعتبار‘ کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ کہا جاتا ہے کہ ’اپنا اگر مارے گا بھی تو چھاؤں میں ڈالے گا‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر واقعی وہ ’اپنا‘ ہوگا تو مارے گا ہی کیوں؟ اور جب مار ہی ڈالے گا، پھر دھوپ چھاؤں چہ معنی دارد؟ اس کے باوجود آنکھوں پر اگر ’اپنائیت‘ کی پٹی بندھی ہوئی ہے تو یہ تو سراسر خود کو دھوکا دینے والی بات ہے!

ایک شاعر اپنوں کی بے رخی کو یوں رقم کرتے ہیں کہ

’ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دَم تھا‘

اس مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ اپنوں کا ’دَم‘ نہ ہو تو لُٹنے سے بچا جاسکتا ہے۔

ایک درد مند سخن وَر کا نعرۂ مستانہ کچھ یوں تھا کہ

چلو اپنوں میں کوئی غیر تو نکلا

ہوتے اگر سبھی اپنے تو بے گانے کہاں جاتے

گویا اس میں اپنوں کے بجائے ’غیر‘ کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، بلکہ جھنجھوڑا گیا ہے کہ بے چارے بے گانوں کا بھی تو کوئی آسرا رکھو!

پڑھیے: ایک اخبار نویس کا المیہ

بازار میں انواع اقسام کی چیزیں بیچنے والوں نے بھی ’اپنا‘ اور اپنائیت کے جذبے کا خوب استعمال بلکہ یوں کہیے کہ استحصال کیا ہے۔ جیسے ’اتنا خیال تو کوئی اپنا ہی رکھ سکتا ہے!‘

ذرا غور کیجیے تو اس میں بلا کی معنی خیزی ہے، گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر کو کیا خبر ’خیال‘ کیسے رکھا جاوے ہے۔

’یہی تو ہے وہ اپنا پن!‘ کے نعرے کو دیکھیے، بھئی سچ پوچھیے تو اس طرح ’اپنا پن‘ جتلانا ہمیں اپنے پن سے زیادہ ’پھکڑ پن‘ لگتا ہے، کیونکہ ہماری دانست میں اپناپن اگر جتانے کی نوبت آجائے تو وہ اپنے پن سے زیادہ منافقت اور دکھاوا ہوچکا ہوتا ہے!

چیزیں بیچنے کے باب میں اپنائیت جتانے کا ایک ڈھب یہ بھی سامنے آیا کہ ’کیونکہ ’فلاں‘ اپنا ہے!‘ بھئی اگر وہ ’اپنا‘ ہے تو کیا مفت میں اپنی سہولیات مہیا کر دے گا، ہرگز نہیں! مقصد یہی ہے کہ اپنا سمجھ کر ہم سے اپنے سودے خریدتے چلے جاؤ اور ہماری جیبیں بھری جاتی رہیں۔ اب آپ خود بتائیے کہ کیا یہ خاک ہوئی اپنائیت!

اسی طرح میدانِ سیاست بھی لوگوں کے اپنے پن کے تذکروں سے خالی نہیں۔ یہاں بھی لوگ اپنا بن کر حق جتانے کی ایسی کوشش کرتے ہیں کہ بس دیکھتے چلے جائیے۔ جیسے ’میئر تو اپنا ہونا چاہیے!‘

گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ بس کسی طرح میئر اپنا ہو، بھلے ڈپٹی میئر کوئی ’غیر‘ ہوجائے، شاید یہی مطلب سمجھ کر یہ نعرہ لگانے والوں کا ڈپٹی میئر (کراچی) بے گانہ ہو کر عملاً بھی ’غیر‘ ہوگیا!

پڑھیے: بیمار ایم کیو ایم اور لاچار ڈاکٹرز!

سیاسی اپنائیت کے اسی بہاؤ میں ایک اور نعرہ بھی مقبول ہوا ’کیونکہ کام تو اپنے ہی آتے ہیں۔‘ بھئی، سچ پوچھیے تو آج کل کے دور میں یہ کوئی ضروری نہیں ہے، مطلب نہ ہو تو غیر بھی بہت ’کام‘ آجاتا ہے، اور غرض نہ ہو تو اپنے کی ’غیریت‘ کی بھی نہ پوچھیے اور شاید سیاست میں عملاً بھی یہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسی اپنائیت کا رنگ جمانے کو بلدیاتی چناؤ میں ایک نعرہ یہ بھی دیا گیا تھا کہ ’آؤ بدلیں اپنا کراچی‘ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ یوں کہتے تو زیادہ اچھا ہوتا کہ ’اٹھو بدلو اپنا کراچی‘ کیونکہ ناقدین اس سے یہ مطلب بھی نکال سکتے ہیں کہ کسی ’غیر‘ کو بلایا جا رہا ہے ’اپنا‘ کراچی بدلنے کو۔

گزشتہ دنوں ہم نے سنا ایک چچا کہہ رہے تھے کہ یوں تو تمام سیاسی جماعتوں نے ظلم کیے، مگر فلاں جماعت نے تو ’اپنوں‘ کو لوٹا گویا

اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں

ایک انہی پر کیا موقوف ابھی ایک خبر پڑھی تھی، جس میں ایک جج نے کہا تھا کہ اپنوں کا پیسہ کھانے والوں کو شرم آنی چاہیے، گویا غیر کے پیسے کھالیتے تو شرم کی کوئی بات ہی نہ ہوتی۔ گویا ہمارے سماج میں رشتوں ناتوں سے لے کر سماج بھر میں ’اپنوں‘ کے کارنامے بھرے پڑے ہیں مگر حیرت اس بات کی ہے کہ بدنام پھر بھی ’غیر‘ ہوتا ہے۔ یہ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا۔

تبصرے (0) بند ہیں