لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر حملہ کرنے والے ملزم کو بری کرنے فیصلے کو متاثرہ طالبہ نے معاشرے کی ہار قرار دیتے ہوئے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام نیوز آئی میں خدیجہ صدیقی نے کہا کہ مقدمے میں 54 دن کی سماعت کے بعد ملزم کو سزا دی گئی تھی جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ملزم کی بریت میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

پروگرام میں شامل پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما نہال ہاشمی نے کہا کہ خدیجہ صدیقی حملہ کیس میں ملزم کے خلاف جو شواہد موجود تھے ان کے علاوہ دیگر شواہد کی ضرورت نہیں تھی۔

مزید پڑھیں:چیف جسٹس کا خدیجہ صدیقی کے حملہ آور کی رہائی پرازخود نوٹس

سینئر صحافی محمد مالک نے کہا کہ ہمارے موجودہ نظام میں متاثرہ فرد کے حق میں نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ اگر آپ خاتون ہیں تو آپ کی مشکلات دوہری ہو جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تھانہ، تفتتیش اور مقدمہ چلنے تک یہ نظام کسی بھی خاتون کو انصاف کی فراہمی مشکل بناتا ہے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے قانون کی طالبہ پر چھریوں کے وار کرنے کے مقدمے میں بری ہونے والے ملزم کی رہائی کا ازخود نوٹس لے کرمقدمے کا ریکارڈ 10 جون 2018 کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں طلب کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:لاہور ہائی کورٹ: قانون کی طالبہ کو زخمی کرنے والا حملہ آور بری

قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ ملزم کے حق میں سنایا تھا۔

یاد رہے کہ خدیجہ صدیقی کو ان کے ساتھی طالب علم شاہ حسین نے 3 مئی 2016 کو شملہ ہلز کے قریب اس وقت چھریوں کے وار سے زخمی کر دیا تھا جب وہ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول چھوڑنے جارہی تھی۔

واقعے کے ایک ہفتے کے اندر لاہور ہائی کورٹ میں ملزم کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا، عدالت کے سامنے شواہد پیش کیے گئے اور شاہ حسین کی شناخت یقینی بنانے کے لیے ویڈیو فوٹیج بھی پیش کی گئی۔

مزید پڑھیں:خدیجہ قانون کے امتحان میں اپنے حملہ آور کا سامنا کرنے سے خوفزدہ

تاہم لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ستمبر 2016 میں ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست خارج کیے جانے کے باوجود دوماہ بعد شاہ حسین کو سیشن کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی۔

بعد ازاں 29 جولائی 2017 کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے شاہ حسین کو 7 برس کی سزا سنادی تھی تاہم رواں سال مارچ میں سیشن کورٹ نے ان کی اپیل پر سزا کم کرکے 5 سال کردی تھی جس پر مجرم نے دوسری اپیل دائر کردی تھی جس پر لاہور ہائی کورٹ نے انھیں بری کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں