لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔

یہ ایک ہفتے پہلے کی بات ہے جب اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق نے کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی اولین رپورٹ جاری کی۔ اقوامِ متحدہ کے کمشنر نے کہا کہ ’یہ ایسا تنازع نہیں جو وقت کے ساتھ منجمد ہوگیا ہو بلکہ یہ تو ایک ایسا تنازع ہے جس نے لاکھوں افراد کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کردیا ہے اور آج تک وہ ان کہی مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں‘۔

رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ’کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے حوالے سے جامع اور آزاد بین الاقوامی تحقیقات کرانے کے لیے انکوائری کمیشن کے قیام پر غور کرے‘۔

رپورٹ کو ریموٹ مانیٹرنگ کے ذریعے مرتب کیا گیا کیونکہ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں واقع اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کو دورے کی اجازت نہیں دی تھی جبکہ پاکستان نے آزاد جموں کشمیر تک ان کی رسائی کو ہندوستان کی اجازت کے ساتھ مشروط کیا تھا۔

رپورٹ میں معروضیت اور غیر جانبداری کو ظاہر کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے ’اقدامات‘ اور آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے ‘خدشات‘ ظاہر کرتے ہوئے دونوں طرف حالات کی یکسانیت کی جھوٹی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مزید براں، ہندوستان پر ہلکا ہاتھ رکھتے ہوئے تنازع کے تاریخی جائزے میں جانبداری نظر آتی ہے۔ اس رپورٹ میں جہاں جموں کشمیر کو ’ہندوستانی ریاست‘ پکارا گیا ہے وہیں ہندوستان کی جانب سے کمشیر میں رائے شماری کے متعلق سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کے ہندوستانی انکار کا حوالہ بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔

پڑھیے: پاکستان کو ہندوستان سے بات کن شرائط پر کرنی چاہیے

اس بددیانتی کے باوجود 49 صفحوں پر مشتمل رپورٹ میں 20 صفحوں میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی خلاف ورزیوں کا ذکر موجود ہے جبکہ صرف 5 صفحوں پر ’پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر‘ میں ان مبینہ ’خدشات‘ کا اظہار کیا گیا ہے جن کے بارے میں رپورٹ یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہ ’بالکل ’مختلف نوعیت‘ کے ہیں اور زیادہ تر ’اسٹرکچرل‘ ہیں۔

’مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘ سے متعلق حصے میں انصاف تک عدم رسائی، فوجی عدالتوں، انتظامی حراستوں، طاقت کے بے دریغ استعمال، 2018ء میں ہونے والے قتل، پیلٹ گنز کے استعمال، ماورائے عدالت گرفتاریاں، ٹارچر، جبری گمشدگیوں، صحت، تعلیم اور اظہارِ رائے کے حقوق کی خلاف ورزیوں، انسانی حقوق کا مقدمہ لڑنے والوں اور صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور جنسی تشدد کو شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 8 جولائی 2016ء کو برہان وانی کے قتل کے بعد جن احتجاجی مظاہروں کا ’سلسلہ‘ شروع ہوا، ’وہ بہت ہی بڑے پیمانے پر کیے گئے تھے‘ اور ان میں پہلے سے کہیں ’زیادہ لوگ شامل تھے‘ جن میں سے زیادہ تر تعداد نوجوان ‘مڈل کلاس نوجوان بشمول خواتین‘ کی تھی۔

جولائی 2016ء سے اب تک 145 کشمیری ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔ جولائی 2016ء سے لے کر اگست 2017ء تک پیلٹ گنز کے استعمال کے سبب 17 افراد کی موت ہوئی اور 6 ہزار 221 زخمی ہوئے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کھلی چھوٹ (جو کہ اسپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کی صورت میں ہندوستانی فورسز کو حاصل ہے) اور انصاف تک عدم رسائی ’انسانی حقوق کو لاحق اہم چیلنجز‘ ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں ’جبری گمشدگیوں کے لیے مکمل استثنیٰ‘ اور ’جنسی تشدد کے لیے دائمی استثنیٰ‘ حاصل ہے۔ 27 سال پہلے کونن پوشپورہ میں ہندوستانی فوجیوں کے ہاتھوں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی کشمیری خاتون نے جب انصاف کے حصول کی کوششیں کی تو انہیں ’مخلتف مرحلوں پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا‘۔

مقبوضہ کشمیر اور آزاد جموں کشمیر کے درمیان مساوی حالات کا جھوٹ، جموں کشمیر کو ’ہندوستانی ریاست’ پکارنا اور مسخ شدہ تاریخی جائزے نے پاکستان کے لیے اس رپورٹ کو مکمل طور پر تسلیم کرنا تو ناممکن کردیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسلام آباد کو یہ جائزہ لینا ہوگا کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پہلی رپورٹ کو کس طرح کشمیری عوام پر جاری ظلم و ستم کو روکنے اور پاک بھارت جنگ کے خطرے کو کم کرنے کے لیے استمعال کرسکتا ہے۔

کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی میں مدد فراہم کرنے کی پاکستانی صلاحیت میں غیر معمولی حد تک رکاوٹ کا سبب ہندوستان کا اسے ’اسلامی دہشتگردی‘ سے جوڑنا اور پھر امریکا کی جانب سے ایسا کوئی اقدام نہ اٹھانے کا دباؤ ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی کشمیر میں 5 لاکھ ہندوستانی فوجی اہلکار کشمیریوں کی تیسری نسل کی جانب سے جاری عوامی اور عظیم بغاوت کو کچلنے میں ناکام ہے۔ اس بات کو ماننے سے انکاری بھارت دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے ہٹانے کے لیے کبھی کبھار پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندی کا الزام دھر دیتا ہے۔

پڑھیے: ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت

ایک بڑے عسکری حملے کے بعد ہوسکتا ہے کہ مودی اور ان کی بے جی پی کے ساتھی لائن آف کنٹرول کے پار واقعتاً ’سزا کے طور پر‘ اور بالخصوص 2019ء میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر بی جے پی اپنی کم ہوتی مقبولیت کو پھر سے بڑھانے کی خاطر شاید کارروائی کرنا چاہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی کو عہدے سے ہٹا دیا اور اب براہِ راست دہلی سے کشمیر پر حکومت کر رہی ہے۔

پریم شنکر جھا نے ’بی جے پی ڈینجرس اینڈ گیم ان کشمیر‘ کے نام سے دی وائر میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں تجزیہ پیش کیا ہے۔ جھا لکھتے ہیں کہ ’بی جے پی نے 2019ء کے انتخابات میں کامیابی کی حکمت عملی یہ بنائی ہے کہ ‘ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دی جائے۔ اس حکمت عملی کے بہت ہی معمولی فائدے ملک کے اندر ملے ہیں لہٰذا اب وقت ہے کہ اس (مسلم) خطرے کو اب ملک کے باہر بھی تلاش کیا جائے۔ یقیناً یہ امیدوار پاکستان ہے اور جس جگہ کو خطرے کی زد میں دکھانا ہے یقیناً وہ وادئ کشمیر ہونی چاہیے۔‘

رپورٹ میں خامیوں کے باوجود پاکستان کو انسانی حقوق کے کونسل کے تجویز کردہ تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے اور اقوام متحدہ کے کمشنر کو آزاد جموں کشمیر میں دورے کی اجازت بھی دینی چاہیے۔ اس کے ساتھ او آئی سی ارکان، انسانی حقوق کے حمایتی مغربی ممالک اور ’انسانی حقوق کی برادری‘ کے ساتھ بیٹھ کر اس فیصلے کے لیے لابنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سدھار لانے سے مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندی میں کمی واقع ہوگی اور یوں امن کے مقصد کو بھی فائدہ ہوگا۔

اگر بھارت کمیشن کے قیام کو مسترد کردیتا ہے تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ دیگر خاص طریقوں سے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے اس رپورٹ کی مدد لے۔ ان میں سے مندرجہ ذیل طریقے بھی ہوسکتے ہیں:

  • ہندوستانی فورسز میں شامل وہ اہلکار جو فائرنگ، قتل، غیر مسلح مظاہرین کو زخمی کرنے اور جنسی تشدد جیسی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار ہوں ان کی انفرادی حیثیت میں نشاندہی کی جائے۔ انہیں جنیوا، جینوسائڈ اور دیگر معاہدوں کے مطابق ملزم قرار دیا جاسکتا ہے۔
  • مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی ایمرجنسی قوانین کی قانونی حیثیت کے خلاف قرارداد کی تجویز دی جائے۔
  • ایک ایسے معاہدے کی تجویز دی جائے جس میں پُرامن مظاہرین کے خلاف پیلٹ گنز اور ایسے دیگر طریقوں کے استعمال کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
  • مطالبہ کیا جائے کہ آئی سی آر سی اور دیگر تنظیمیں کشمیری قیدیوں تک انسان دوستی کے حیثیت میں رسائی چاہتی ہیں ساتھ ہی سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔
  • قرارداد کی تجویز دی جائے جس میں ہندوستان کو مقبوضہ کشمیر میں اظہارِ رائے اور تنظیم کاری کے حقوق اور کشمیریوں کو ہندوستان سے باہر سفر کرنے کا حق فراہم کرنے کا پابند بنانے کا مطالبہ کیا جائے۔
  • مقبوضہ کشمیرمیں جنسی تشدد کے متاثرین بالخصوص کنن پوشپورہ میں ہونے والے اجتماعی ریپ کی متاثرہ کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانے پر غور کرنا چاہیے اور انہیں یہ بتانا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم جتنی سنگین ہیں۔

اگر پاکستان ’انسانی حقوق کی کمیونٹی‘ کی حمایت کے ساتھ ہندوستان پر یہ دباؤ بڑھاتا ہے تو اس سے کشمیری عوام کی تکالیف میں کمی لانے میں مدد ملے گی، عسکری تشدد کم ہوگا اور پاکستان کے خلاف ہندوستانی جارحیت کو درست قرار دینے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی، یوں انسانی حقوق اور امن دونوں مقاصد میں مدد ملے گی۔


یہ مضمون 24 جون 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں