Dawnnews Television Logo

پاکستان کے 11 ویں عام انتخابات کے لیے ملک بھر پولنگ کا عمل ختم ہوگیا اور گنتی کا عمل جاری ہے، الیکشن میں 10 کروڑ 50 لاکھ سے زائد ووٹرز نے 85 ہزار پولنگ اسٹیشنز پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

الیکشن کمیشن نے مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے پولنگ کے وقت میں اضافے کے مطالبے کو مسترد کردیا اور پولنگ کے وقت کے اختتام کے ساتھ ہی انتخابی عملے نے ووٹوں کی گنتی کا آغاز کردیا۔

ووٹنگ کا آغاز صبح 8 بجے ہوا اور یہ سلسلہ شام 6 بجے تک جاری رہے گا، انتخابی عمل کے دوران حفاظتی اقدامات کے پیش نظر 3 لاکھ 71 ہزار فوجی اہلکاروں کو پولنگ اسٹیشنز پر تعینات کیا گیا تھا۔

عمران خان، بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف
عمران خان، بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے پولنگ اسٹیشن کے باہر میڈیا سے بات چیت کرنے کا نوٹس لے لیا۔

اہم سیاسی رہنماؤں کی ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کی ویڈیوز نشر ہونے پر الیکشن کمیشن نے اُمیدواروں پر پولنگ اسٹیشن کے قریب میڈیا سے بات چیت پر پابندی لگادی۔

یاد رہے کہ عمران خان اور شہباز شریف کے علاوہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار اور دیگر نے بھی ووٹ ڈالنے کے بعد متعلقہ پولنگ اسٹیشنز کے باہر میڈیا سے بات چیت کی تھی۔

بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے الیکشن کمیشن سے پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹہ اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا جسے مسترد کردیا گیا۔

الیکشن کمیشن کے ترجمان نے جاری بیان میں کہا کہ پہلے ہی معمول سے ہٹ کر 1 گھنٹہ اضافی دیا چکا ہے، پولنگ اسٹیشن کی حدود میں 6 بجے سے پہلے داخل ہونے والےتمام افراد ووٹ ڈال سکیں گے۔

ترجمان کے مطابق جہاں باونڈری وال موجود نہیں وہاں سیکیورٹی اہلکار ووٹرز کی قطار بنوائیں گے اور قطار میں 6 بجے کے بعد کسی کو بھی داخل ہونے نہ دیا جائے۔

اہم شخصیات کے ووٹ

قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے 270 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے 577 حلقوں میں سے 570 میں انتخابات ہورہے ہیں۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 8 حلقوں پر انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں، جہاں الیکشن اب بعد میں ہوں گے۔

انتخابات 2018 کا سب سے پہلا ووٹ چارسدہ میں کاسٹ ہوا تھا جبکہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے بھی صبح ہی سے ووٹ کاسٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

سربراہ تحریک انصاف عمران خان نے اسلام آباد کے حلقے این اے 53 میں ووٹ کاسٹ کیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ایک پیغام میں کہا گیا کہ چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے اسلام آباد میں قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے اپنا ووٹ کاسٹ کردیا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ 'میں نے اپنا ووٹ کاسٹ کر دیا'۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار راشد سومرو نے بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں اپنا ووٹ حلقہ این اے 200 لاڑکانہ سے کاسٹ کیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا، انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے-130 کے علاقے برکت مارکیٹ میں واقع پولنگ اسٹیشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

اس موقع پر میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے 25 جولائی کو الیکش کروانے کا وعدہ پورا کردیا، اب یہ قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح رہنما کو منتخب کرے۔

اس کے علاوہ انہوں نے انتخابی عمل پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سیہون میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔

اس دوران ان کا کہنا تھا کہ آج شام پیپلز پارٹی کامیابی کا جشن منائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی بہتر الیکشن مہم چلانے کا بہتر نتیجہ آئے گا۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے لوئر دیر میں ثمر باغ میں ووٹ کاسٹ کیا۔

بعد ازاں سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’آج تاریخی دن ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیا اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ساری توجہ اپنے حلقے پر مرکوز ہے اور اہلیان راولپنڈی کا رات 10 بجے شکریہ ادا کروں گا، ان کا کہنا تھا کہ ‘قلم دوات‘ پاکستان کی تاریخی کامیابی حاصل کرے گی۔

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’آزاد خارجہ پالیسی دیں گے، غریب کا راج لائیں گے اور معیشت کو ٹھیک کریں گے‘۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرِ دفاع خرم دستگیر نے گجرانوالہ کے علاقے سیٹیلائٹ ٹاؤن کے گورنمنٹ خواتین کالج میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مری کے علاقے دیوال میں گورنمنٹ بوائز اسکول میں ووٹ کاسٹ کیا۔

پولنگ اسٹیشن کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پہاڑی علاقے کی وجہ سے لوگ کو طویل راستہ طے کرنا پڑتا ہے‘۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ملتان کے پولنگ اسٹیشن پر پہنچے اور اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست این اے 157 سے امیدوار ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی بہن صنم بھٹو نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے بہت خوش ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بلاول کے وزیراعظم بننے میں ابھی بہت وقت ہے۔

سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نے بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، انہوں نے اپنے انتخابی حلقے کے پولنگ اسٹیشن پہنچ کر بہتر پاکستان کے لیے اپنا ووٹ دیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابات 2018 میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد سیاہی لگے ہوئے انگھوٹے کی تصویر شیئر کی۔

اپنی تصویر پر انہوں نے لکھا کہ ووٹ ڈال دیا ہے اور ہر ووٹ شمار کیا جاتا ہے جبکہ انہوں نے جمہوریت سب سے بہتر بدلہ ہے کا ہیش ٹیگ استعمال کیا۔

جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے آئے تھے۔

صدر مملکت ممنون حسین کراچی کے حقلہ این اے 247 میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ ووٹ ڈالنے آئے اور ووٹ کاسٹ کیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ اگر ان کی جماعت اقتدار میں آئی تو وہ عوام کو گھر بنا کر دیں گے۔

لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ایاز صادق نے ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد صحافیوں سے کہا کہ ووٹنگ کا عمل ابھی سست روی کا شکار ہے، مجھے ووٹ کاسٹ کرنے میں 25 منٹ لگ گئے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف اپنی مرضی سے ملک واپس آئے ہیں اور ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی عوام کے اعتماد کا ووٹ ایم کیو ایم کو ملے گا۔

پی آئی بی کالونی میں پولنگ اسٹیشن کے باہر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ووٹرز کو سہولت ملنی چاہیے کہ وہ آسانی سے ووٹ کاسٹ کریں، ایم کیو ایم اپنی تمام روایتی نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ 1988 والا جذبہ نظر آرہا ہے، پولنگ کا عمل سُست روی کا شکار ہے اور پولنگ کا وقت کم ہے۔

ڈی آئی خان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی کی نشست 38 کے علاقے عبدالخیل میں ووٹ کاسٹ کیا۔

بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی ایک قیادت کو جیل میں دھکیلنے پر تحفظات ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما خورشید شاہ نے سکھر میں قومی نشست 207 کے پولنگ اسٹیشن 29 میں ووٹ کاسٹ کیا۔

بعدازاں انہوں نے کہا کہ صاف شفاف الیکشن کرانا فوج کے لئے بڑی ذمہ داری ہے، ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے مشکلات ہیں، بزرگ ،خواتین اور معذوروں کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام ہونا چاہیے۔

پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال نے گلشن اقبال بلاک 13 کے پولنگ اسٹیشن میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا، ووٹنگ کے بعد انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ان کی پارٹی لوگوں کو سرپرائز دے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے پولنگ کا عمل شروع ہوتے ہی اسلام آباد میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا اور اس بات کا اعلان انہوں نے ٹوئٹر کے ذریعے کیا، انہوں نے عوام سے اپیل بھی کی کہ وہ ووٹ ضرور ڈالیں، ان کا کہنا تھا کہ میں نے تبدیلی کے لیے اپنا ووٹ ڈال دیا۔

پُر تشدد واقعات

انتخابی عمل کے دوران ملک کے مختلف علاقوں سے پُرتشدد واقعات کی متعدد اطلاعات سامنے آئیں جس میں صرف صوبہ بلوچستان کے ایک پولنگ اسٹیشن کے قریب ہونے والے خود کش بم دھماکے میں 31 افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے۔

ادھر بلوچستان کے علاقے نصیر آباد میں روپاشاخ اکبر پولنگ اسٹیشن پر فائرنگ سے 2 افراد زخمی ہوگئے۔

جعفر آباد میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں میں تصادم سے 15 افراد زخمی ہوئے۔

کوہستان میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 11 میں جیجال نامی علاقے میں آزاد امیدواروں کے مابین تصادم سے 7 افراد زخمی ہوئے۔

اس سے قبل خیبرپختونخوا کے علاقے صوابی میں صوبائی اسمبلی کی نشست 47 میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کے مابین تصادم میں ایک شخص جاں بحق اور 2 زخمی ہو گئے۔

پشاور کے علاقے زریاب کالونی میں خواتین کے پولنگ اسٹیشن میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خواتین کارکن آپس میں لڑ پڑیں تاہم کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کے اطلاعات نہیں۔

اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کے علاقے راجن پور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں تصادم ہوا، جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔

خانیوال کے حلقہ این اے 153 کے پولنگ اسٹیشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 2 گروہوں میں تصادم کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا۔

صوبہ سندھ کے علاقے لاڑکانہ میں پولنگ اسٹیشن شاہ محمد پرائمری اسکول کے باہر کریکر حملے میں 4 افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

سانگھڑ کے علاقے خیرپور میں خاتون کو پولنگ اسٹیشن میں جانے سے روکنے پر 2 سیاسی جماعتوں کے مابین تصادم کے نتیجے میں 7 افراد زخمی ہو گئے۔

دادو میں انتخابی حلقے پی ایس 84 میں پولنگ اسٹیشن کے باہر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں تصادم کے نتیجے میں 3 افراد زخمی ہوئے۔

بدین کے علاقے گولارچی کے قریب پیپلز پارٹی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے کارکنوں میں تصادم کے بعد پولنگ کا عمل روک دیا گیا۔

گھوٹکی میں پولنگ اسٹیشن غلام حسین میانی کے باہر پی پی پی اور پی ٹی آئی کے حامیوں میں تصادم کے نتیجے میں 5 افراد زخمی ہوگئے، واقعے کے بعد فوج اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر دونوں کے درمیان صلح کرائی تاہم پولنگ آدھا گھنٹہ تاخیر کا شکار ہوگئی۔

علاوہ ازیں شکارپور کے علاقے مدیجی میں پولنگ اسٹیشن نمبر 9 اور 10 کے قریب دستی بم کا دھماکا ہوا، پولیس کے مطابق دھماکے میں جانی نقصان نہیں ہوا تاہم پولنگ اسٹیشن، جو اسکول میں قائم تھا، اس کا گیٹ ٹوٹ گیا۔

الیکشن کمیشن

چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان نے عوام سے حق رائے دہی کا حق استعمال کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کی کوشش کی جارہی ہے، اس لیے ووٹرز بھی ووٹ کا درست استعمال کرکے قومی ذمہ داری ادا کریں۔

پولنگ کا عمل ختم ہوتے ہی انتخابی عملے نے ووٹوں کی گنتی شروع کردی۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ذرائع ابلاغ کو شام 7 بجے سے پہلے انتخابی نتائج کا اعلان نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یاد رہے کہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے 25 جولائی کو عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

ملک کے مہنگے ترین انتخابات

پاکستان میں ہونے والے الیکشن 2018 پر آنے والے اخراجات گزشتہ 2 انتخابات پر خرچ ہونے والی مجموعی رقم سے 3 گنا زیادہ ہیں، جس میں زیادہ تر رقم سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی پر خرچ کی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اندازے کے مطابق انتخابی عمل پر 21 ارب روپے سے زائد رقم خرچ ہونے کا امکان ہے، جس میں سے 10 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد معمول کے انتخابی عمل، جس میں پولنگ اسٹاف کی تربیت، الیکشن میں فرائض انجام دینے والے انتخابی عملے کے معاوضے، انتخابی مواد کی چھپائی، مواصلات اور دیگر معاملات کی مد میں خرچ ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کے تخمینے کے مطابق فوج کو ادا کیے جانے والے فنڈ کی لاگت بھی اتنی ہی رہنے کی توقع ہے، تاہم اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے بعد ادائیگیوں کے بل کی بنیاد پر ہی حتمی طور پر کچھ کہا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ 2008 میں ہونے والے عام انتخابات پر ایک ارب 84 کروڑ روپے کے اخراجات آئے تھے، جو 2013 کے عام انتخابات میں بڑھ کر 4 ارب 73 کروڑ روپے تک پہنچ گئی تھی، یعنی اس میں تقریباً 157 فیصد اضافہ ہوا تھا.

2008 میں پاک فوج کو 10 کروڑ 20 لاکھ روپے سیکیورٹی اخراجات کی مد میں ادا کیے گئے تھے جبکہ 2013 میں سیکیورٹی کے لیے ادا کی جانے والی رقم 70 کروڑ 20 لاکھ روپے تھی۔

خیال رہے کہ ان اخراجات میں پولیس سمیت مقامی انتظامیہ کی جانب سے صوبائی سطح پر کیے جانے والے حفاظتی انتظامات کے اخراجات شامل نہیں۔

سیکیورٹی انتظامات

واضح رہے کہ انتخابات کے لیے ملک میں 85 ہزار 2 سو سے زائد پولنگ اسٹیشنز میں سے 17 ہزار کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن کی درخواست پر پولنگ اسٹیشنز کی سیکیورٹی کے لیے 3 لاکھ 71 ہزار سے زائد فوجی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا جبکہ انتخابات کے دوران مجموعی طور پر 8 لاکھ سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

پولنگ کے دوران 2 فوجی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے اندر اور 2 پولنگ اسٹیشن کے باہر خدمات انجام دے رہے ہیں، اس کے علاوہ فوجی افسران کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیے گئے ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ انتخابات میں فوج کی تعیناتی کا مقصد شفاف انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے۔

اس سے قبل بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور ترسیل کے لیے بھی فوج سے مدد لی گئی تھی۔

تنازعات

حالیہ انتخابات کو کچھ سیاسی حلقوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن، آزاد اور شفاف نہیں ہیں۔

الیکشن پر تنقید کرنے والوں نے انتخابی عمل کے دوران فوج کے کردار پر سوالات بھی اٹھائے ہیں، اس کے علاوہ میڈیا پر عائد غیراعلانیہ پابندیاں، کالعدم تنظیموں کی انتخابات میں شرکت، انتخابی امیدواروں پر قومی احتساب بیور کی جانب سے دباؤ اور انتخابی مہم کے دوران سیاسی کارکنان کو قید کیا جانا بھی تنقید کی وجوہات میں شامل ہے۔

انتخابات سے چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے انتخابات میں ہونے والی مبینہ بے ضابطگیوں پر ای سی پی کی جانب سے مجرمانہ خاماشی اختیار کرنے کا الزام لگایا تھا،انہوں نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو سخت نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائے۔

ڈان سروے

25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو اُمید ہے کہ اس مرتبہ وہ حریف جماعتوں کو شکست دے کر واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کرلے گی۔

پاکستان تحریک انصاف اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے کامیابی حاصل کرنے کے دعووں کی تصدیق کے لیے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی نے ایک انتخابی سروے کیا جس میں عوام نے بھرپور حصہ لیا تاہم اس کے نتائج سیاسی جماعتوں کے دعووں کے بالکل برعکس ہیں۔

انتخابات کے سلسلے میں ڈان نیوز نے عوامی رائے پر ایک سروے ترتیب دیا تھا جس کے نتائج مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ملکی سطح پر پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں پر برتری تو حاصل ہے لیکن مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی کا سخت مد مقابل ثابت ہوسکتی ہے۔

تصویروں پر مشتمل یہ سروے 4 جولائی سے 9 جولائی تک جاری رہا، جس میں 13 ہزار 9 سو 26 افراد نے حصہ لیا، جس کے نتائج کچھ یوں ہیں۔

سروے میں سوال کیا گیا تھا کہ کس جماعت کو 2018 کے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل ہوسکتی ہے جس کے جواب میں لوگوں نے پی ٹی آئی کا انتخاب کیا۔

سروے میں حصہ لینے والوں کی تفصیلات

  • زیادہ تر افراد کی عمر 25 سال سے 40 سال کے درمیان تھی۔
  • آدھے سے زیادہ افراد کا تعلق پنجاب سے ہے۔
  • سروے میں رائے دینے والے افراد میں تقریباً 90 فیصد مرد تھے۔
  • سروے میں شامل ہونے والے تقریب 14 فیصد افراد بیرونِ ملک مقیم ہیں۔

ڈان نیوز کے الیکشن سروے کے نتائج دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ووٹرز کی تفصیلات

ملک میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کے لیے جاری ووٹنگ میں 10 کروڑ 56 لاکھ 50 ہزار مرد اور خواتین حق رائے دہی استعمال کررہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے 2 اور صوبائی اسمبلیوں کے 7 حلقوں میں الیکشن نہیں ہوں گے، جس کی وجہ امیدواروں کی وفات اور ایک حلقے میں امیدوار کی نااہلی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کی 2 سو 70 نشستوں پر 3 ہزار سے زائد امیدوار اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 5 سو 70 نشستوں پر 8 ہزار 3 سو 96 امیدوار انتخابات لڑیں گے۔

قومی اسمبلی کی 2 سو 70 نشستوں کے لیے پنجاب سے ایک ہزار 6 سو 23، سندھ سے 8 سو 24، خیبرپختونخوا سے 7 سو 75 اور بلوچستان سے 2 سو 87 انتخابی امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔

ای سی پی کے اعداد و شمار کی رو سے پنجاب کی 2 سو 97 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 4 ہزار 36، سندھ کی ایک سو 30 نشستوں پر 2 ہزار 2 سو 52، خیبرپختونخوا کی 99 نشستوں پر ایک ہزار ایک سو 65، بلوچستان کی 51 نشستوں پر 9 سو 43 امیدوار الیکشن لڑرہے ہیں۔

اہم حلقہ جات

اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 53 پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے درمیان ہے۔

این اے 54 (اسلام آباد) پر پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے انجم عقیل اور پاکستان پیپلز پارٹی کے راجا کامران اشرف کے ساتھ ہے۔

سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف این اے 73 (سیالکوٹ) سے پی ٹی آئی کے محمد عثمان ڈار اور پی پی پی کے ضرار محمود ملک کے مد مقابل ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر دفاع خرم دستگیر کا مقابلہ این اے 81 (گجرانوالہ) پر پی ٹی آئی کے رہنما چوہدری محمد صدیق سے ہے۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 108 (فیصل آباد) پر مسلم لیگ (ن) کے انتخابی امیدوار عابد شیر علی ہیں، جن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے رہنما فخر حبیب اور پی پی پی کے ملک اصغر علی قیصر سے ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ قومی اسمبلی کی نشست 106 (فیصل آباد) پر پی ٹی آئی کے رہنما نثار احمد اور پی پی پی کے رہنما چوہدری سعید اقبال کے مد مقابل ہیں۔

سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق این اے 131 (لاہور) سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران احمد خان نیازی اور پی پی پی کے عاصم محمود بھٹی کے مد مقابل ہیں۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 124 (لاہور) پر پی ٹی آئی کے محمد نعمان قیصر کا مقابلہ پی پی پی کے چوہدری ظہیر احمد اور مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز سے ہے۔

راولپنڈی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 57 پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور پی ٹی آئی کے صداقت علی عباسی مد مقابل ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کا مقابلہ این اے 78 (نارووال) پر پی ٹی آئی کے ابرار الحق سے ہوگا۔

لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقے 129 میں مسلم لیگ (ن) کے رکن اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور پی ٹی آئی کے علیم خان کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے۔

کراچی میں این اے-249 میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا۔

شہر قائد میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے -243 میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے مد مقابل ایم کیو ایم پاکستان کے خواجہ اظہار الحسن ہوں گے۔

کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے 247 میں ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی سے ہوگا۔

شہر قائد کے حلقے این اے -246 میں چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو، مسلم لیگ (ن) کے سلیم ضیا اور ایم کیو ایم کے محفوظ یار خان میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔

کراچی کے ہی قومی اسمبلی کے حلقے 253 میں پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کا مقابلہ ایم کیو ایم کے اسامہ قادری سے ہوگا۔