فاٹا کا عبوری انتظامی قانون آئین سے متصادم قرار
پشاور ہائی کورٹ نے فاٹا کے عبوری انتظامی قانون برائے سال 2018 کی متعدد شقیں آئین سے متصادم قرار دے دیں، جس میں خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے بعد قبائلی علاقوں کے انتظامی افسران کو عدالتی اختیارات دینا بھی شامل ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کی جانب سے سنائے گئے مختصر فیصلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو 30 دن کے اندر آئین کے مطابق متبادل انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مذکورہ فیصلہ ایڈووکیٹ علی عظیم آفریدی کی جانب سے دائر درخواست پر سنایا گیا جس میں انہوں نے فاٹا عبوری انتظامی قانون برائے سال 2018 کو متعدد مقامات پر آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے عدالت سے درخواست کی تھی اسے غیر آئینی قرار دیا جائے، اس بارے میں تفصیلی فیصلہ جلد سنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: فاٹا کے انضمام میں بیوروکریسی کے کردار پر تنقید
درخواست گزار نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ عبوری انتظامی قانون آئین کی دفعہ 175 سے متصادم ہے جس میں اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ عدلیہ اور مقننہ الگ الگ ادارے ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق کمشنرز کو بطور جج فرائض کی انجام دہی کی اجازت، سول اور مجرمانہ معاملات کے لیے قبائلی عمائدین پر مشتمل کونسل کا قیام، قومی جرگے کی تشکیل، مجرمانہ افعال کی کاروائیوں کے معاملات میں ردو بدل، ریگولیشن میں تیسرے شیڈول کی شمولیت جس کے ذریعے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عدالتی اختیارات انتظامی افسران کو دے دیئے گئے تھے۔
دائر کردہ پٹیشن میں سیکریٹری قانون کے ذریعے وفاق، پرنسپل سیکریٹری کے ذریعے صدر ، وزارت داخلہ و خارجہ، حکومتِ خیبر پختونخوا، صوبائی محکمہ داخلہ اور محکمہ قبائلی امور کو فریق بنایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی: فاٹا انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل بھاری اکثریت سے منظور
خیال رہے کہ سابق صدر ممنون حسین نے 25 مئی کو نوٹی فکیشن پر دستخط کیے تھے جو 29 مئی سے نافذالعمل ہوا تھا، جس کے بعد انگریز دور کا قانون فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) ختم ہوگیا تھا۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت کی جانب سے دیے گئے ردعمل میں کہا گیا تھا کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے عبوری انتظامی قانون متعارف کروایا گیا تھا، جو عارضی نوعیت کا ہے اور مستقل قانون کی حیثیت نہیں رکھتا۔
اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ حکومتِ خیبر پختونخوا نے سپریم کورٹ میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ صوبے اور ملک میں نافذالعمل قانون کو 30 دن کے اندر سابق فاٹا، قبائلی علاقے میں بھی نافذ کردیا جائے گا۔











لائیو ٹی وی