Dawnnews Television Logo
— فائل فوٹو

سال 2018: جمہوریت کا ’حسن‘ احتجاج اور مظاہرے

ملک میں ایک طرف جمہوریت فروغ پارہی تھی تو وہیں مختلف طبقات کی جانب سے 'احتجاج' کے باعث اس کا حسن بھی نکھرتا رہا۔
اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2018 03:15pm

سال 2018 ویسے تو عام انتخابات کے ذریعے اقتدار کی پرامن منتقلی اور ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے حوالے سے یادگار رہے گا لیکن جہاں ایک طرف جمہوریت فروغ پارہی تھی تو وہیں مختلف طبقات کی جانب سے وقتا فوقتاً 'احتجاج' کے باعث اس کا 'حسن بھی نکھرتا' رہا۔

احتجاج اور مظاہروں میں جو طبقات پیش پیش رہے ان میں سیاسی و مذہبی جماعتیں، وکلا، ڈاکٹرز ،کسان، صحافی اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔

پولیس اہلکاروں کا برطرفی پر احتجاج

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

جنوری میں کراچی پریس کلب کے باہر سندھ ریزرو پولیس کے 400 سے زائد برطرف اہلکاروں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ برطرف اہلکاروں نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت کی روشنی میں غیر قانونی بھرتیوں کے کیس میں سندھ بھر سے پولیس سروس سے نکالے جانے والے اہلکاروں نے نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کی جانب سے ٹیسٹ میں شریک ہو کر اپنی قسمت آزمائی کرنی تھی، تاہم جبکہ محکمہ پولیس نے من پسند اہلکاروں کی فہرستیں بنا کر ان سے محکمہ جاتی ٹیسٹ لیے اور کچھ اہلکاروں کو سندھ سروسز ٹریبونل (ایس ایس ٹی) کی جانب سے بحال کر دیا گیا۔

بعد ازاں ماہ ستمبر میں بھی سندھ ریزرو پولیس کے برطرف اہلکاروں نے کراچی کے آئی آئی چندریگر روڈ پر احتجاجی دھرنا دیا۔ اے آئی جی ویلفیئر سندھ غلام اظفر مہیسر نے مظاہرین کے 6 رکنی وفد سے ملاقات کی اور ان کے تحفظات اور مسائل کو بغور سننے کے بعد سفارشات تیار کر کے اس وقت کے آئی جی سندھ امجد جاوید سلیمی کو پیش کیں۔

خواجہ سرا بھی اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آئے

فائل فوٹو/اے پی
فائل فوٹو/اے پی

یکم جنوری کو سرائے عالمگیر کی نیو ایئر پارٹی میں شراب کے نشے میں دھت افراد کی جانب سے خواجہ سرا کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف خواجہ سراؤں نے جائے وقوع کے متعلقہ تھانے کے باہر احتجاج کیا۔ تھانہ سٹی پولیس کے عملے نے خواجہ سراؤں سے مذاکرات کرکے واقعے کا مقدمہ درج کرلیا اور تحقیقات کا آغاز کردیا۔

جولائی میں پنجاب کے شہر حافظ آباد میں شادی کی تقریب کے دوران چھیڑ چھاڑ سے منع کرنے پر بااثر افراد نے فائرنگ کرکے خواجہ سرا کو قتل کردیا۔ واقعے کے خلاف خواجہ سراؤں کی جانب سے شدید احتجاج اور انتظامیہ سے فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

ستمبر میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں خواجہ سراؤں نے بھیک مانگنے والے ساتھیوں کی گرفتاری پر کلفٹن تھانے پر شدید احتجاج کیا۔ خواجہ سراؤں نے تھانے میں شور شرابہ کیا اور پولیس سے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھیوں کو بے گناہ گرفتار کرکے جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ تھانہ انچارج جاوید ابڑو نے تمام خواجہ سراؤں کی بات سنی اور انہیں سمجھا بجھا کر منتشر کر دیا۔

سیاسی و مذہبی جماعتوں کا مبینہ دھاندلی اور گستاخانہ خاکوں کےخلاف احتجاج

فائل فوٹو
فائل فوٹو

ماہ اپریل میں فیض آباد معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے اور جماعت کے قائدین کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات کے خلاف تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کئی سو کارکنان نے لاہور میں داتا دربار کے باہر دھرنا دیا جو کئی روز تک جاری رہا۔ بعد ازاں حکومت کی جانب سے فیض آباد دھرنے کے دوران بنائے مقدمات سے پیچھے ہٹنے کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا۔

اگست میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور دیگر جماعتوں پر مشتمل متحدہ اپوزیشن کا قومی اسمبلی کے اندر اور باہر، پنجاب اسمبلی، الیکشن کمیشن، خیبر پختونخوا اور دیگر صوبوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسے دھاندلی زدہ قرار دیا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نتائج کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

اگست کے آخر میں ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے خلاف تحریک لبیک کی قیادت میں لاہور سے نکلنے والا لانگ مارچ جہلم سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچا، جہاں شرکا نے توہین آمیز خاکوں کے خلاف دھرنا دینا تھا، تاہم ہالینڈ کی جانب سے مقابلہ منسوخ ہونے کے بعد خادم حسین رضوی کی قیادت میں ہونے والے مارچ کو اسلام آباد میں ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔

31 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کے حکم کے بعد تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج شروع کیا جس سے معمولات زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے۔ 3 روز بعد تحریک لبیک نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے 5 نکات پر مشتمل معاہدے کے بعد احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ معاہدے کے تحت حکومت نے آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کے لیے قانونی کارروائی اور فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل پر معترض نہ ہونے کی حامی بھری تھی۔

صحافی برادری بھی سراپا احتجاج

— فوٹو: ڈان
— فوٹو: ڈان

اپریل میں میڈیا ہاؤسز میں تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں، برطرفیوں اور ’جرنلسٹس پروٹیکشن بل‘ میں حکومتی تاخیر کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی اپیل پر ملک بھر کی صحافی تنظیموں نے بھرپور احتجاج کیا۔

مئی میں ’عالمی یوم آزادی صحافت‘ پر اسلام آباد میں صحافیوں کی جانب سے نکالی گئی ریلی پر پولیس نے تشدد کیا تھا، جس میں متعدد صحافی زخمی ہوئے۔ ملک بھر میں صحافی برادری نے پولیس کی جانب سے طاقت کے بےجا استعمال پر احتجاج ریکارڈ کرایا، جبکہ سپریم کورٹ نے پولیس تشدد کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا۔

جولائی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کال پر صحافیوں، سیاستدانوں، وکلا اور سول سوسائٹی کے ارکان کی بڑی تعداد نے ملک بھر میں لگائے گئے احتجاجی کیمپس میں شرکت کر کے ڈان اخبار اور ڈان نیوز سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں روزنامہ ڈان کی ترسیل میں رکاوٹوں کا سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے اور ہاکرز کو اخبار شہریوں تک نہ پہنچانے کی براہِ راست ہدایات دی جارہی ہیں، ہاکرز کو ڈان اخبار کی تقسیم کے دوران مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں اور جسمانی تشدد سے خوفزدہ کر کے ہراساں کیا جارہا ہے۔

اکتوبر میں ذرائع ابلاغ کے ملازمین اور صحافیوں کی 'جوائنٹ ایکشن کمیٹی' نے نوکریوں سے نکالے جانے اور تنخواہوں میں کٹوتی پر چیئرنگ کراس اور پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر مظاہرہ کیا۔ مظاہروں میں بڑی تعداد میں صحافیوں، کیمرا مین، ذرائع ابلاٖ غ کے ملازمین اور سول سوسائٹی کے افراد سمیت وکلا نے بھی شرکت کی اور اداروں کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرے کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ حکومت اشتہارات کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی اور ان پر ادا کیے گئے ٹیکس کی معلومات حاصل کرنے کے لیے میڈیا ہاؤسز کا آڈٹ کروائے۔

نومبر میں کراچی پریس کلب (کے پی سی) میں متعدد سادہ لباس مسلح اہلکار داخل ہوئے اور صحافیوں کو ہراساں کیا۔ اس واقعے کی مختلف طبقات کی جانب سے شدید مذمت کی گئی اور ملک میں صحافیوں نے احتجاج کرتے ہوئے اسے پریس کلب کے تقدس کو پامال کرنے کی سازش قرار دیا۔

کراچی پریس کلب کے واقعے کے دو روز بعد ہی سینئر صحافی نصر اللہ چوہدری کی ایک مقدمے میں گرفتاری نے صحافیوں کے احتجاج کو مزید طاقت بخشی جبکہ کراچی پریس کلب میں صحافی کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی کیمپ بھی لگایا گیا۔

اسی ماہ پاکستانی صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے اسلام آباد پریس کلب کے باہر صحافیوں کو درپیش مشکلات کے خلاف مظاہرہ کیا اور حکومت سے صحافیوں کے مسائل کی فوری داد رسی کا مطالبہ کیا۔

وکلا کا ہائیکورٹ بینچ کے قیام کیلئے احتجاج

فوٹو: شٹراسٹاک
فوٹو: شٹراسٹاک

یوں تو ملک بھر کے وکلا 2018 کے تقریباً ہر ماہ ہی مختلف معاملات پر عدالتوں کا بائیکاٹ اور احتجاج کرتے رہے۔

تاہم نومبر میں پنجاب کے مختلف شہروں میں ہائی کورٹ بینچ کے قیام کے لیے وکلا کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جو ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ احتجاج کے دوران وکلا کی جانب سے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور عدالتوں کے داخلی راستوں کو تالے لگا دیئے گئے جس سے سائلین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

اساتذہ کا کم تنخواہوں، مستقل نہ کیے جانے کےخلاف احتجاج

فائل فوٹو/ڈان
فائل فوٹو/ڈان

جنوری میں وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں کے ڈیلی ویجز اساتذہ و دیگر ملازمین نے 7 ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی اور مستقل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین میں خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد بھی شریک تھی، مظاہرین نے اس وقت کے وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔

اپریل میں خیبر پختونخوا کے شہر کرک میں آل پرنسپل اینڈ ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ کرک پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے سرکاری اسکولوں کے پرنسپلز اور اساتذہ نے پروفیشنل الاؤنس اور ٹائم اسکیل کے نفاذ کے علاوہ منیجمنٹ کیڈر کی فوری اپ گریڈیشن کا مطالبہ بھی کیا۔

جولائی میں آل پاکستان فوجی فاؤنڈیشن اسکولز کے اساتذہ نے تنخواہوں میں کمی کے خلاف روالپنڈی میں فوجی ٹاور ہیڈ آفس کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اساتذہ نے تنخواہوں کے پرانے کنٹریکٹ کی بحالی کامطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ بہترین تعلیمی معیار برقرار رکھنے والے اساتذہ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔

دسمبر میں قبائلی ضلع مہمند میں وزارت تعلیم کے زیر اہتمام ’بیسک ایجوکیشن کمیونٹی اسکولز‘ کے اساتذہ نے گزشتہ 9 ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف اسکول طلبا و طالبات کے ہمراہ غازی بیگ کے مقام پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

ڈاکٹرز بھی مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج

فائل فوٹو/ڈان
فائل فوٹو/ڈان

سال 2018 میں بھی ملک کے مختلف صوبوں بالخصوص پنجاب میں وقتا فوقتاً ڈاکٹروں کا ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔

ستمبر میں رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر سے بدسلوکی کے بعد پنجاب کے مختلف شہروں میں ینگ ڈاکٹرز نے احتجاج کا اعلان کیا جو کئی روز تک جاری رہا اور ڈاکٹرز نے احتجاجاً صوبے کے تمام سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند کردیں۔

دسمبر میں لاہور کے شیخ زید ہسپتال کے ینگ ڈاکٹرز نے احتجاج کیا۔ ینگ ڈاکٹرز نے مستقل چیئرمین کی تقرری، لیڈی ڈاکٹرز سے نرسنگ ہاسٹل خالی کرانے کا فیصلہ واپس لینے اور برطرف احتجاجی ڈاکٹرز کی بحالی کے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا۔

گنے کے کاشتکار بھی اپنے حق کیلئے میدان عمل میں آئے

فائل فوٹو/وائٹ اسٹار
فائل فوٹو/وائٹ اسٹار

جنوری میں ہی خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے پنجاب کے گنے کے صوبے میں داخلے پر پابندی کے بعد پنجاب کے کاشتکاروں نے 9 روز تک کے پی کے کو پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ پر احتجاج کرکے اسے بلاک کیے رکھا۔ تاہم چیف سیکریٹری پنجاب اور پنجاب کے اراکین قومی اسمبلی سے کامیاب مذاکرات کے بعد شاہراہ ٹریفک کے لیے کھول دی گئی۔

فروری میں بدین سمیت سندھ کی مختلف شوگر ملز میں گنے کی کم قیمت پر خریداری اور اس عمل میں غیر قانونی کٹوتی کے خلاف کاشتکاروں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

دسمبر میں کسان اتحاد نے شوگر ملز مالکان کی جانب سے ملیں بند کرنے، کھاد کی قیمتیں بڑھنے اور کم معاوضے کے خلاف لاہور میں کئی روز تک احتجاج کیا اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے کامیاب مذاکرات اور جائز مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کے بعد ختم ہوا۔


لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ S_SameerSaleem ہے۔