عظیم بنگالی فنکار زین العابدین کی کتھا

عظیم بنگالی فنکار زین العابدین کی کتھا

حسنین جمال

کتنے آدمی مرے؟

30 لاکھ۔

چرچل کا رسپانس کیا تھا؟

’میں ہندوستانیوں سے نفرت کرتا ہوں۔ وہ ایک وحشی قوم ہے اور ان کا مذہب بھی جنگلی ہے۔ بنگال میں پڑنے والا قحط ان کی اپنی غلطی تھی، وہ خرگوشوں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔‘

دوسری عالمی جنگ پورے زور پر تھی۔ انگریز فوج کو خوراک کم پڑ رہی تھی۔ جہاں جہاں فوجیں موجود تھیں وہاں وہاں سپلائی لائن جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن طریقے سے خوراک اکٹھی کرکے بھجوائی جا رہی تھی۔ ایک امکان یہ بھی تھا کہ جاپانی برما والی سائیڈ سے حملہ کرکے بنگال میں داخل ہوں اور وہاں سے ہندوستان پر چڑھائی کردیں۔

1943ء کی اس صورت حال میں چرچل سرکار کو بہتر یہ لگا کہ بنگال کا سارا غلہ باہر اپنی فوجوں کو بھیج دیا جائے۔ اس طرح کم از کم لڑنے والوں کی خوراک کا مسئلہ حل ہوتا تھا، پھر دوسری طرف سے جاپانی اگر حملہ کرتے تو وہ ادھر برما میں بھوکے مرتے، خرگوشوں کی طرح بچے پیدا کرتے بنگالیوں کو کھانا کیا تھا، یہ چرچل کا دردِ سر بہرحال کبھی نہیں رہا۔ بنگال میں 6 قحط اس سے پہلے 2 صدیوں میں آئے تھے لیکن ایسے پتھر دل حکمران کا سامنا پہلی بار تھا۔ بنگلہ تاریخ دان مدھوشری مکھرجی کے مطابق اس وقت کی برطانوی حکومت (چرچل اینڈ کو) نے کینیڈا اور امریکا سے خوراک بطور امداد وصول کرنے پر بھی انکار کردیا تھا۔

ایسے میں ایک کتاب آتی ہے، ڈارکننگ ڈیز (Darkening Days - Being a narrative of famine stricken Bengal)، جو افسانوں پر مشتمل ہے۔ وہ افسانے جو لوگوں کی اصل زندگی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ لکھنے والی ایلا سین ہیں جو مشہور خاتون مصنف ہیں۔ اس کتاب میں کچھ ڈرائنگز بھی ہیں۔ جیسے کٹا ہوا مارکر یا موٹی پینسل ہے، کسی نے کچھ لائنیں لگائی ہیں اور خاکہ سا بنا کر سارے قحط کا درد 11 سے 12 تصویروں میں سمیٹ دیا ہے۔

وہ کتاب انگریزی میں لکھے ہونے اور ہر ایک خاکہ شدید پاور فل ہونے کی وجہ سے گورے صاحب کے دماغ پر ایسی چڑھتی ہے کہ اس پر فوراً پابندی لگادی گئی۔ لیکن اس کے باوجود اگلے 3 برسوں میں اس کے مزید 4 سے 5 ایڈیشن چھپتے ہیں اور خاکے بنانے والے مصور زین العابدین کی شہرت دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ زین العابدین کے بنائے خاکے ایسے مشہور ہوتے ہیں کہ بعد میں پھر جب بھی دنیا میں کہیں کسی قحط کا ذکر چھڑتا ہے تو اس کی مکمل تصویر کشی ہر اس بندے کے دماغ میں فوراً تازہ ہوجاتی ہے جس نے زندگی میں صرف ایک دفعہ بھی وہ خاکے غور سے دیکھے ہوں۔

زین العابدین—تصویر بشکریہ wikiart.org
زین العابدین—تصویر بشکریہ wikiart.org

بنگالیوں میں پڑھائی لکھائی شروع سے ہی زیادہ تھی۔ ہندو بچہ بزنس مین ہوا کرتا، مسلمان جسمانی محنت والے کام کو ترجیح دیتے۔ بنگالی اسی لیے بابو کہلاتے کہ ان میں شرح خواندگی اس وقت بھی سب سے بڑھ کر ہوا کرتی۔ اب ایک قوم پڑھے گی تو ذہین بھی ہوگی، ذہانت ہوگی تو سیاسی بیداری بھی ہوگی، سیاسی طور پر بیدار ہوں گے تو آرٹ میں بھی اس کا اثر نظر آئے گا، آرٹ میں سیاسی بیداری دکھے گی تو اس پر پابندی بھی لگے گی، جس پر پابندی لگے گی تو اُسے مشہور تو بہرحال ہونا ہی ہے۔ تو یہ ورلڈ فیم زین العابدین کے عروج کی ابتدا تھی۔

مائیمن سنگھ (بنگلہ دیش کا ایک علاقہ) میں پیدا ہونے والا ’جین الآبدین‘ اپنے گھر کے پاس سے گزرنے والے دریا کنارے بیٹھا ہوا تصویریں بناتا رہتا تھا۔ انگریزی اخبار بمبئی کرانیکل نے مصوری کا مقابلہ کروایا تو اس نے بھی اپنی تصویریں بھجوا دیں۔ اسے پہلا انعام ملا تو اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے اس کی بہت سی دوسری تصویریں بھی کلکتہ اور بمبئی کے مقابلوں میں بھیجنی شروع کردیں۔

1933ء میں اسکول والوں کے ہی کیے گئے بندوبست پر زین العابدین کلکتہ آرٹ اسکول میں داخلہ حاصل کرتا ہے۔ اس زمانے میں بنگال آرٹ پر ٹیگور والے فلسفے کا غلبہ تھا۔ ٹیگور کی تعلیمات میں سادگی اور اپنے اصل سے جڑے رہنا بنیادی اصول تھا تو زین بھی اپنے اصل سے جڑا رہا اور بنگال کے مختلف مناظر واٹر کلر اور نسبتاً چھوٹی تصویروں میں پینٹ کرتا رہا۔ 1938ء میں زین العابدین وہی اسکول بطور استاد مصور جوائن کرتا ہے۔ پھر اسی برس اسے آل انڈیا نمائش میں گورنرز گولڈ میڈل برائے مصوری ملتا ہے اور یوں برِصغیر میں زین العابدین کو پہچان ملنے کی شروعات ہوجاتی ہے۔

’ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ وائلن بجانا سیکھوں۔ کسی کہانی میں پڑھا تھا کہ ایک فنکار سامنے دیوار پر لٹکی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگ دیکھ دیکھ کر وائلن بجایا کرتا تھا۔ یہ ترکیب مجھے بہت پسند آئی۔ ایک پرانا وائلن لیا اور کئی دن تک خوب مشق ہوتی رہی۔ پھر کسی نے صلاح دی کہ ستار وائلن سے بہتر ہے اور اپنے دیس کا ساز بھی ہے۔ میں نے سوچا کہ چلو ستار ہی سہی۔ ستار کے تار سے انگلی کٹ گئی۔ اب میں نے ایک اور ساز اٹھا لیا۔ جب وہ ہوچکا تو ایک دوست نے سمجھایا کہ زین العابدین، کن باتوں میں پڑے ہو، تمہارا کام مصوری ہے بس وہی کرو۔ میں نے سوچا ٹھیک ہی کہتا ہے، مصوری میں ہی میری نجات ہے۔ رنگوں اور تصویر کی لکیروں میں جو کچھ میں کہوں گا وہ اور کسی بھی طرح نہیں کہہ سکتا۔‘ یہ واقعہ بیان کیا زین العابدین نے الطاف گوہر سے جو ایک بیوروکریٹ اور دانا آدمی تھے، پڑھا فقیر نے اسے ایک رسالے میں اور آپ لوگوں کے حضور پیش کر دیا۔

کوئی بھی فنکار جب اپنے کام کا آغاز کرتا ہے تو وہ ریئلسٹ ہوتا ہے۔ ریئلسٹ سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ نظر آئے گا وہ دکھا دے گا، وہی بتا دے گا۔ مصوری میں رئیلزم کا مطلب یوں سمجھیے کہ جو سامنے منظر ہے ویسا ہی پینٹ کردیا جائے۔ تو زین العابدین بھی شروع میں بالکل رومانٹک سے رئیلسٹ تھے۔ خاکوں والی سیریز میں انہیں امپریشنزم یعنی تاثراتی پینٹنگ کی طرف جاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب وہ بائیں بازو سے وابستہ ہوچکے تھے۔ ویسے وہ بھی کمال ہی کام تھا ان کا، چند لکیروں میں ایسا درد گوندھا کہ دنیا بھر کی جھولیاں پھیلا لو تو بھی سمیٹنے میں نہ آئے۔ بعدازاں انہوں نے ایبسٹریکٹ بھی بنائے۔ اگر تاریخوں کے حساب سے دیکھا جائے تو آگے جا کر ان کا کوئی بھی کام کسی مخصوص عرصے کے لیے نہیں تھا۔ سادی تصویریں، اسکیچز اور ایبسٹریکٹ، تینوں فارمز میں وہ ساری عمر پینٹنگ کرتے رہے۔ ان کی زبان ہی پینٹنگ تھی۔

جب پاکستان اور ہندوستان بنا تو وہ بنگالی ہونے کی وجہ سے مشرقی پاکستان چلے آئے۔ ڈھاکہ میں قیام پذیر ہوئے۔ اس وقت ادھر آرٹ اسکول جیسی کسی چیز کا دُور دُور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ ایک 2 سال میں بہت کوششوں کے بعد زین العابدین اپنے چند اور دوستوں کی مدد سے وہاں آرٹ انسٹیٹیوٹ شروع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

زین العابدین کی ایک پینٹنگ—alaluddin Ahmed, Art in Pakistan (Third Edition 1964)
زین العابدین کی ایک پینٹنگ—alaluddin Ahmed, Art in Pakistan (Third Edition 1964)

1951ء میں وہ 2 سالہ کورس کے لیے سلیڈ اسکول آف آرٹس لندن چلے گئے۔ سلیڈ میں پڑھنا اس زمانے میں اعلیٰ ترین مصوری کا اکیڈیمک معیار سمجھا جاتا تھا۔ لندن سے یاد آیا، ایک اور مزے کا واقعہ ہے، پڑھ لیجیے۔

بچپن سے انہیں اسپین جانے کا بہت شوق تھا۔ الحمرا اور مسجد قرطبہ سے تو ولیم ڈیلرمپل بھی متاثر ہیں، زین تو پھر مسلمان تھے۔ یہ جب پڑھنے کے لیے انگلینڈ پہنچے تو انہوں نے اسپین جانے کے لیے بھی ساری معلومات جمع کرنا شروع کردیں۔ نقشے پر بیٹھ کر ہر ایک آرٹ گیلری، ہر میوزیم، ہر سڑک کے حافظ ہوگئے۔ اسپین جانے کا انتظام جب پورا ہوگیا تو ایک پریشانی انہیں بڑی شدید تھی، ادھر یا تو لوگ فرانسیسی جانتے تھے یا ہسپانوی زبان، انگریزی یا اردو کا تو کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ خیر نکل پڑے۔

دوسری عالمی جنگ کے آخری دن تھے۔ ٹرینیں کھچا کھچ بھری ہوتی تھیں، یہ بھی چڑھ گئے۔ زبان نہ جاننے کی پہلی سلامی ٹکٹ چیکر نے دی، غلط ڈبے میں تھے تو سفر تھوڑا پریشانی میں کٹا۔ اب ادھر اسپین پہنچ گئے۔ نقشے پر تو لگتا ہے کہ پوری دنیا اپنے ہاتھ میں ہے لیکن پیدل سڑک پر منزل مارنا الگ کام ہے۔ سفر ہے کہ ختم نہیں ہوتا، راستہ ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا، بورڈ پڑھے نہیں جا رہے، ایک ہونق معاملہ ہے۔ ٹریفک پولیس والے سے پوچھنے کی کوشش کی۔ وہ بھی انگریزی نہیں جانتا تھا۔ فرانسیسی زین العابدین کی ایویں سی تھی۔ اس نے ہاتھ ہلا ہلا کے راستہ سمجھانا چاہا لیکن نتیجہ صفر بٹا صفر۔ (یار ویسے اب گوگل میپس کے اس دور میں ہمیں اندازہ ہی کیا ہوسکتا ہے کہ اس زمانے میں کیا لاوارث کیفیت ہوتی ہوگی؟ اب تو ہر ملک ملک ما است والی بات ہے)۔

تب مسافر کو اندازہ ہوا کہ اصل مسئلہ کھانے کا تھا۔ نہ انہیں ڈشوں کے نام آتے تھے نہ ہسپانوی لوگ ان کے دل کی مراد جان سکتے تھے۔ ہوٹل میں بیٹھے ہیں، سامنے والے کی میز پر مچھلی ہے، وہ مزے سے کھا رہا ہے، بنگلہ بچے کا دل مچل رہا ہے، کھانی ہے مگر کیسے منگوائے؟ ویٹر آیا اور سر پر کھڑا ہوگیا، یہ انگلیوں اور ہاتھ کے اشاروں کی مدد سے سمجھا رہے ہیں، ہوا میں مچھلی تیرا رہے ہیں اسے خاک سمجھ نہیں آ رہا۔ تنگ آ کر سامنے والی میز کی جانب اشارہ کیا اور بولے، موسیو، وہی، وہی! موسیو ویٹر اب بھی نہیں سمجھا تھا۔ آخر اس نے ان بے چارے سے کہا کہ اٹھو اور میرے ساتھ چلو۔ وہ انہیں لے کر پیچھے کچن میں آ گیا۔ ایک ایک چیز دکھانی شروع کردی، آخر مچھلی نظر آئی، یہ خوشی سے چیخ اٹھے اور اس کی طرف اشارہ کیا، وہ لوگ سب کچن والے بھی ہنسنے لگے۔

زین العابدین گیلری
زین العابدین گیلری

اس واقعے کے بعد انہیں ایک آئیڈیا آیا اور رات کو کھانے کے وقت اسکیچ پیڈ اور پینسل لے جا کر میز پر بیٹھ گئے۔ پہلے گائے کی تصویر بنائی، پھر اس کی پچھلی ٹانگ کو تیر کے ساتھ دیگچی ابلنے کی ایک تصویر سے ملایا، پھر ایک 2 تصویریں اور بنائیں اور ویٹر کو دکھا دیں۔ اس کے بعد انڈہ، مرغی، سب کچھ وطن سے دُور مسافر کو ملتا چلا گیا اور پھر انہوں نے جانا کہ لکیروں کی زبان ہی ان کی اصل زبان ہے۔ اسپین میں انہوں نے پکاسو کا بھی ٹھیک ٹھاک کام دیکھا۔

تب ہوا کچھ یوں کہ جب وہ اسپین سے لندن اور وہاں سے واپس وطن آئے تو ان کی تصویروں میں ایک واضح تبدیلی محسوس کی جاسکتی تھی۔ وہ تبدیلی جو ماڈرن بنگال اسکول آف آرٹ کی بنیاد تھی۔ اب ان کی تصویروں میں اس وقت کے فیشن کے مطابق کیوبز، جیومیٹریکل شکلیں اور کبھی کبھار تجریدیت بھی نظر آنے لگی۔ یہ سب مشرقیت اور اپنے ماحول کے خمیر میں گندھے ہونے کی وجہ سے ایک الگ مقام بنانے میں کامیاب رہا اور ’ماڈرن آرٹ آف بنگال‘ کی شروعات کہلایا۔

ادھر ایک بات دھیان میں رکھنی ہے کہ یہ ماڈرن آرٹ را ایبسٹریکٹ یا سمجھ نہ آنے والا آرٹ نہیں تھا، اکثر اس میں قدرتی آفات اور ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کرتے لوگ یا مسلسل جدوجہد کے دیگر عناصر نظر آتے تھے۔ آہستہ آہستہ زین العابدین کی تصویریں ایک قومی سطح کی چیز بن گئیں، لوگ ان سے جڑے رہنا چاہتے تھے، وہ اب انہیں شلپا چاریا (فن کا امام/ مہا کلاکار، بنگلہ دیش میں آج بھی وہ شلپا چاریا ہی کے نام سے جانے جاتے ہیں) کا لقب دیتے تھے۔ لیکن شلپا چاریا کے ساتھ سب اچھا نہیں چل رہا تھا۔

شلپا چاریا ایک تو شروع سے کمیونسٹ ونگ کے تھے اور پھر اپنے آرٹ میں بھی مزاحمت کا رنگ لیے تھے تو 47ء کے بعد ان کی ایڈجسٹمنٹ تھوڑی مشکل ہی رہی۔ اب اگر نیوٹرل ہوکر دیکھیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یار بنگالیوں کا اپنا ایک اسٹرونگ کلچر تھا، ایسا کلچر جس کی جڑیں ہزاروں سال پرانی تھیں، ان کے اپنے رسوم و رواج تھے، پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے وہ سیاسی طور پر بھی زیادہ بیدار تھے تو انہیں کس طرح مجبور کیا جاسکتا تھا کہ نہیں بھئی تم جو آرٹ کی روایت کلکتے سے لائے ہو اسے چھوڑ دو اور کچھ نیا کام کرو؟

آپ کو پاکستانی منظرنامے پر شاکر علی اور چغتائی چھائے نظر آئیں گے لیکن زین العابدین پر بہت کم چیزیں پڑھنے کو ملیں گی، کیوں؟ کیا سارا آرٹ صرف لاہور یا کراچی میں ترقیاں کررہا تھا؟ مشرقی پاکستان کے آرٹ کا ذکر کس کو کرنا تھا؟ وہ آرٹ جس میں چینی، جاپانی اور تبتی فنکاروں کی نزاکت دکھائی دیتی تھی، جس میں کنول تھے، جس میں سورج تھا، جس میں مور تھے، جس میں ہاتھی تھے، جس میں دھان کے کھیت تھے اور جس میں لمبے خوبصورت بالوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی پُرکشش سانولیاں تھیں!

تو زین العابدین بنگلہ دیش میں شلپا چاریا اس لیے بھی کہلائے کہ وہ حکومت مخالف احتجاج میں 24 گھنٹے کے سوار تھے۔ برش اور پینٹس کے علاوہ بھی جہاں ضرورت پڑی عام آدمی کی طرح چھپ کر نہیں بیٹھے، سامنے آئے، سڑک پر مظاہروں میں گئے، ہر ممکن طریقے سے مزاحمت کرتے رہے۔

1969ء میں جب مشرقی پاکستان ایک طرح سیاسی بیداری کی انتہاؤں پر تھا اور ہنگامے اپنے زوروں پر تھے تب زین العابدین نے 65 فٹ لمبی ایک پینٹنگ بنائی۔ وہ جیسے پرانے زمانے میں قاصد بادشاہوں کے خط لپیٹ کے لاتے تھے، وہ گول سے رول کیے ہوئے خط، تو یہ جو پینٹنگ تھی یہ بھی ویسے ہی تھی۔ 65 فٹ لمبی یہ اسکرول پینٹنگ واٹر کلر، موم اور چینی انک واش طریقے سے بنائی گئی تھی (چائنیز انک واش صدیوں سے اس طرح کی پینٹنگز کے لیے استعمال ہونے والا طریقہ ہے، شاید لاہور میوزیم میں اب بھی ایسے اسکرولز موجود ہوں)۔ اس پینٹنگ کا نام انہوں نے ’نبانا‘ رکھا۔

1970ء وہ سال تھا جب بنگال ایک مرتبہ پھر شدید ترین قدرتی آفت کی زد میں تھا۔ اس طوفان میں کلکتے تک لاکھوں لوگوں کی موت ہوئی (کیا ہمارے یہاں کتابوں میں اس طوفان یا آفت کا کوئی ذکر ملتا ہے؟) زین العابدین نے اس طوفان میں زندگی سے ہاتھ دھونے والوں کی یاد میں 30 فٹ لمبی ایک اور تصویر بنائی۔ اسے انہوں نے ’مان پورہ‘ کا نام دیا۔ یہ بھی وہی اسکرول پینٹنگ تھی۔

بنیادی طور پر بنگالی آرٹ میں آس پاس کے حالات سے آگاہی شروع سے زیادہ تھی۔ جن دنوں چغتائی، صادقین اور شاکر علی سکون سے پینٹ کر رہے تھے ان دنوں آخر بنگالی آرام سے بیٹھے چاند تارے کیوں نہیں بناتے تھے؟ بعدازاں صادقین پر تشدد ہوا، کولن ڈیوڈ کی تصویریں باقاعدہ جلائی گئیں، اقبال حسین کی پوری نمائشیں اٹھوا دی گئیں لیکن تب بھی کسی جگہ کوئی خاص احتجاج نظر نہیں آتا۔ شاید ہمارے خطے میں قدرتی (اور زمینی) آفتوں کا زور وہ نہ رہا ہو جو شروع سے بنگال میں تھا۔

خیر، قصہ مختصر، قحط کی تصویروں، قدرتی آفات کے مصور بیان، عوامی احتجاج کی نمائندگی، مشرقی پاکستان میں بنگالی آرٹ کی ترویج، بنگلہ دیش کے ثقافتی ورثے کی حفاظت (اور باقاعدہ جمع کرنے کی مہم)، وہ سارے کام تھے جن کے نتیجے میں ان کی سالگرہ آج بھی اُدھر بنگلہ دیش میں سرکاری طور پر منائی جاتی ہے۔ وہاں شلپا چاریا آرٹ گیلری ہے، زین العابدین میوزیم ہے، اور تو اور مریخ کی سطح پر موجود 116 کلومیٹر طویل ایک زمینی ٹکڑا بھی انہی کے نام پر ’عابدین‘ کہلاتا ہے۔

زین العابدین کی آخری آرام گاہ
زین العابدین کی آخری آرام گاہ

جنرل ایوب خان نے 1959ء میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس دیا۔ پشاور یونیورسٹی کا فائن آرٹس والا ڈیپارٹمنٹ بھی انہوں نے ہی جاکر قائم کیا تھا۔ وفات کے بعد بنگلہ دیشی سرکار نے انہیں انڈیپینڈنس ڈے ایوارڈ سے نوازا۔ 1976ء میں کینسر سے وفات پانے والے زین العابدین ساری زندگی 3 قومیتوں میں بٹے رہے۔ پیدا ہوئے تو مقبوضہ ہندوستان کے رہائشی تھے، جوان ہوئے تو پاکستانی کہلائے اور مرنے سے 5 یا 6 سال پہلے 1971ء میں بنگلہ دیشی ہوگئے۔

آرٹ کی مجبوری یہ ہے کہ اسے بہرحال نقشوں کے ماتحت نہیں کیا جاسکتا۔ زین العابدین کی تصویریں آج اگر کہیں دیکھی جائیں گی تو ان میں سب سے پہلے دیکھنے والے کو اپنے جیسے انسان ملیں گے، پھر ان کا درد ملے گا، پھر وہ دیکھے گا کہ آج بھی وہی آفتیں ہیں، وہی جبر مسلسل ہے، وہی زندہ رہنے کی جدوجہد ہے، وہی غم ہیں، وہی رنج ہیں، بہت بعد میں کہیں جا کر اسے علم ہوگا کہ اوہ ہو، یہ تو ایک بنگالی مصور کی تصویر ہے اور پھر اس آگہی کے بعد زین العابدین کی تصویروں کا اثر کم ہونے کے بجائے شاید مزید بڑھ جائے گا!


حسنین جمال ادب، مصوری، رقص، باغبانی، فوٹوگرافی، موسیقی اور انٹیکس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک قومی اخبار کے مستقل کالم نویس ہیں۔ رسائل کے لیے لکھتے ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں پچھلے چار پانچ سال سے موجود ہیں۔ فیس بک پر آپ انہیں یہاں فالو کرسکتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔