ملک کے سیاسی منظرنامے میں ایک بار پھر اپوزیشن متحد ہونے جارہی ہے، اس سے پہلے گزشتہ سال اگست کے پہلے ہفتے میں اپوزیشن کی جماعتوں نے ’الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشن‘ تشکیل دیا تھا، جس نے الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر کے سامنے ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

تاہم اس میں اپوزیشن کے 2 بڑے رہنما شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری شریک نہیں ہوئے تھے۔ اس اتحاد کے قیام کا مقصد قومی اسمبلی کے 38 حلقوں کے نتائج کی تحقیقات تھا، لیکن چند مظاہروں کے بعد نہ جانے وہ الائنس کہاں گم ہوگیا اور 38 حلقوں کی تحقیقات کا مطالبہ وقت کے ساتھ ساتھ مدہم ہوتا چلا گیا۔

حال ہی میں ایک بار پھر اپوزیشن ایک چھت تلے اکھٹا ہوئی، بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے 19 مئی کو اسلام آباد میں ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا، جو اصل میں ایک سیاسی بیٹھک تھی، جس میں اپوزیشن کی 11 جماعتوں نے شرکت کی۔

ان جماعتوں میں میزبان پیپلزپارٹی کے علاوہ مسلم لیگ (ن)، جمعیت علماء اسلام (ف)، جماعتِ اسلامی، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، پی ٹی ایم اور جمعیت علماء پاکستان شامل تھیں۔ 11 جماعتی اپوزیشن اتحاد کے اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی ایک اے پی سی بلائی جائے گی، جس کی میزبانی مولانا فضل الرحمٰن کریں گے۔

کیا اپوزیشن کی یہ جماعتیں اے پی سی میں حکومت کے خلاف کسی سنجیدہ تحریک پر اتفاق کرلیں گی؟ اور اگر کوئی فیصلہ کر بھی لیتی ہیں تو کیا وہ تحریک حکومت کو جنجھوڑ کر کمزور کرسکتی ہے؟

ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں بلاول بھٹو کی میزبانی میں دورانِ اجلاس ہونے والی باتوں پر کان دھرنا ہوگا۔ اجلاس میں مختلف سیاسی قائدین کی پیش کردہ رائے کے بارے میں جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان سے واضح اندازہ ہوتا ہے کہ جون میں بلائی جانے والی اے پی سی بھی کسی فیصلہ کن تحریک کا اعلان کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔

اجلاس کی کہانی بیان کرنے والے بتاتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں، ان کی اس خواہش کے پیچھے اپنی ذات کو بچانے کا مقصد صاف طور پر نظر آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن تو پہلے دن سے اس کوشش میں ہیں کہ اسلام آباد میں ایک ایسا دھرنا دیا جائے جو اس حکومت کو ختم کردے، اور نئے انتخابات کے نتیجے میں وہ ایک بار پھر کامیاب ہوکر قومی اسمبلی پہنچ جائیں۔ تحریکِ انصاف نے انہیں ان کے انتخابی حلقوں میں پہلی بار للکارا ہے اور شکست بھی دے دی ہے، اس لیے وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ عمران خان وزارتِ اعظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوں۔

اسی طرح آصف زرداری سمجھتے ہیں کہ نیب میں جس طرح وہ پیشیاں بھگت رہے ہیں، اس کے پیچھے بھی حکومت کی کارستانی موجود ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اگر حکومت ختم ہوجائے اور نئے انتخابات ہوں تو ممکن ہے کہ ان کے لیے صورتحال کسی حد تک بہتر ہوجائے گی، کیونکہ جیل کی کٹھن اور بے رنگ زندگی کو مزید سہنے کے لیے اب ان کی صحت اجازت نہیں دیتی۔

جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کا خیال کچھ اور ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کے بجائے اِن ہاؤس تبدیلی ہو، کیونکہ عمران خان کی موجودگی میں ملک کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید خراب ہورہے ہیں، وہ جتنا عرصہ اپنے عہدے پر موجود رہیں گے، مسائل مزید بڑھیں گے اور آنے والی حکومت بھی انہیں حل نہیں کرسکے گی۔

بلاول بھٹو زرداری کو ان کی پارٹی کے سینئر رہنما بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ پہلی بار قومی اسمبلی میں منتخب ہوکر آئے ہیں، اس لیے 5 سال پارلیمانی نظام کی گہرائیوں کو سمجھیں اور پرکھیں، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی مشاہدہ کریں کہ 2023ء کے انتخابات کے لیے دیگر جماعتوں کے کون کون سے اچھے لوگ اپنی طرف لائے جاسکتے ہیں، یوں بلاول 5 سال مکمل کرنے کے بعد وزیراعظم بننے کی خواہش لے کر میدان میں اتریں۔

مریم نواز بھی آنے والے انتخابات میں اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہیں لیکن عدالتی فیصلے کے باعث فی الحال انہیں سازگار حالات کا ہی انتظار ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ بھی اِن ہاؤس تبدیلی کے حق میں ہیں، مسلم لیگ (ن) پہلے ہی یہ اعلان کرچکی ہے کہ ان کی پارٹی چاہتی ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔

اے این پی، نیشنل پارٹی، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی جیسی چھوٹی جماعتیں تو فوری انتخابات کی حامی ہیں اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی طرح ان کا ماننا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

قومی وطن پارٹی کی قیادت بھی اسی قسم کی رائے رکھتی ہے، بی این پی مینگل اس وقت اپوزیشن میں تو ہے لیکن وہ چاہتی ہے کہ اگر حکومت ان کے ساتھ کیے گئے 6 نکاتی ایجنڈے میں سے چند پر ہی عمل کردے تو ان کے پاس حکومت کے ساتھ چلنے کا اخلاقی جواز ہوگا۔ تاہم حکومت ابھی تک ان کے مطالبات پورے کرتے نظر نہیں آرہی، یہی سبب ہے کہ بی این پی اب حکومت کو ووٹ دینے کے باوجود اپوزیشن کی ہی کیمپ میں نظر آتی ہے۔

جون کے دوسرے ہفتے میں حکومت نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے، پی ٹی آئی حکومت اس وقت جس مالی بحران کا شکار ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے بجٹ میں عوام کو اتنا ریلیف نہیں دیا جائے گا جتنے ٹیکس لگائے جائیں گے، اپوزیشن اس بجٹ کو بنیاد بنا کر عوام میں حکومت کے خلاف پیدا ہونے والے غصے کو اپنے لیے کیش کرانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن بجٹ کے ایک ہفتے کے بعد اے پی سی بلانے پر غور کر رہی ہے، جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ اب کون سی راہ لی جائے؟

بلاول بھٹو کی میزبانی میں اپوزیشن قائدین حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے ماڈل کے کسی نتیجے پر پہنچنے سے بھی قاصر رہے، اس اجلاس میں 2 واضح تجاویز تھیں، قبل از وقت انتخابات یا ان ہاؤس تبدیلی۔ قبل از وقت انتخابات کی خواہش کے پیچھے ذات کا بچاؤ جبکہ اِن ہاؤس تبدیلی کے پیچھے ایک سیاسی سوچ تھی۔

حال ہی میں چیئرمین نیب ویڈیو اسکینڈل کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال میں کافی تبدیلی کے امکانات ہیں، اس معاملے پر بھی اپوزیشن سیاست کرنا چاہتی ہے تاکہ اسے کوئی ریلیف ملے، کیونکہ اپوزیشن کی 2 بڑی جماعتیں اس وقت صرف نیب کی ہی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔ جبکہ حکومت کے اندر بھی کچھ اہم وزراء میں نیب مقدمات کے حوالے سے ممکنہ کارروائی کے خدشے کے باعث تشویش پائی جاتی ہے۔

چیئرمین نیب کا حالیہ اسکینڈل ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کے لیے تپتی دھوپ میں اچانک ہونے والی بارش ثابت ہوا ہے، اس لیے جون میں ہونے والی اے پی سی کے فیصلے چیئرمین نیب کے اپنے عہدے سے متعلق فیصلوں سے جڑے ہیں۔ چیئرمین نیب اپنے عہدے کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں، اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن دیکھا جائے تو حکومت سمیت تمام بڑی جماعتوں نے سوشل میڈیا پر چیئرمین نیب کے خلاف تسمخرانہ مہم میں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق خوب حصہ ڈالا ہے۔ اگر چیئرمین نیب اپنے عہدے سے الگ ہوجاتے ہیں تو اپوزیشن کی جون میں ہونے والی اے پی سی نشستاً گفتاً برخواستاً سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی!

تبصرے (2) بند ہیں

قمر الزماں May 26, 2019 04:36pm
رزاق کھٹی صاحب، آپ نے اپنی تحریر میں اچھی سیاسی منظر کشی ہے۔ بس ایک تصحیح کی ضرورت کہ بی این پی مینگل اپوزیشن کی جماعت نہیں ہے۔
تنویر احمد May 27, 2019 04:48am
موجودہ سیاسی حالات اور حزب اختلاف کی حکمت عملی پر بہترین تجزیہ