’دوستو اگر ہم بچ نہ سکیں تو باتوں، دعاؤں میں یاد رکھنا‘

بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ بند کرنے سے قبل کشمیریوں نے اپنے پیغامات میں کیا کہا؟
شائع August 5, 2019

بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے تقریباً 70 لاکھ کشمیری عوام اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

علاوہ ازیں بھارتی حکام نے مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ سروسز بند کرنے کے ساتھ لینڈ لائن ٹیلی فونز بھی بند کردیے ہیں جس سے لوگوں میں مزید خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے عوام کو اشیائے خورو نوش اور ایندھن ذخیرہ کرنے کی ہدایات، سیاحوں اور یاتریوں کو فوراً واپس لوٹنے کے انتباہ اور اضافی نفری کے ساتھ سیکیورٹی کے دیگر اقدامات نے متنازع علاقے میں سخت خوف کی فضا پیدا کردی۔

دوسری جانب کشمیر کے 2 سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کے ساتھ دیگر کشمیری رہنماؤں کو بھی نظر بند کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔

موجودہ صورتحال کے حوالے سے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد نے ٹوئٹ کرتے ہوئے وادی کی صورتحال سے آگاہ کیا۔

گرفتاری سے قبل ٹوئٹر پر اپنے آخری پیغام میں عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’دیگر رہنماؤں کو بھی نظر بند کرنے کا عمل جاری ہے، حقیقت کے بارے میں معلوم نہیں لیکن اگر ایسا ہے تو پھر ملاقات ہوگی، اللہ ہماری حفاظت کرے‘۔

محبوبہ مفتی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ 'کتنی عجیب بات ہے کہ ہم جیسے منتخب نمائندے، جو امن کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، گھر پر نظر بند کردیے گے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ جموں و کشمیر میں لوگوں کی آواز بند کی جارہی ہے'۔

کرفیو کے بعد کشمیر میں سڑکوں کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے صحافی فہد شاہ نے ویڈیو پوسٹ کی، جس میں سنسان اور ویران سڑکیں حالات کی کشیدگی ظاہر کررہی ہیں۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والی خاتون وکیل شہریار خانم کا کہنا تھا کہ ’ہم نہیں جانتے کل ہمارے لیے کیسا ہوگا، دل بہت بوجھل ہے، دوستوں اگر ہم بچ نہ سکیں تو اچھی باتوں اور دعاؤں میں ہمیں یاد رکھنا‘۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والی تبینہ انجم نے وادی کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اب بھی والدین، رشتہ داروں اور دوست احباب سے رابطہ نہیں کر پا رہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مشکل وقت ہے ہم نے اس سے بھی برا وقت دیکھا ہے لیکن 3 دہائیوں کی شورش میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ لینڈ لائن ٹیلی فونز بھی بند کردیے گئے ہوں‘۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون زارا بخشی نے کہا کہ ’میرے والدین دوستوں اور خاندان والوں کو آخری لمحات کی فون کالز کررہے ہیں یہ جانے بغیر کہ رات گزرنے کے بعد ان کی قسمت میں کیا لکھا ہے انہوں نے کشمیر سے باہر رہائش پذیر میرے بھائی کو پیسے بھیجے، ان کے اطمینان نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے‘۔

اس کے ساتھ سری نگر کے میئر جنید عظیم مٹو نے کشیدہ صورتحال کے بارے میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کل کیا ہوگا لیکن کشمیر اور کشمیری طویل عرصے سے ناقابلِ برداشت صورتحال برداشت کررہے ہیں اور بار بار کررہے ہیں‘۔

علاوہ ازیں کشمیر کی سیاسی جماعت پیپلز کانفرنس سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ساجد لون نے بتایا کہ انہیں ایک مرتبہ پھر قید کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ دہلی پھر 1990 میں سری نگر میں قید کیا گیا اور وہ حراستی مراکز بہت خطرناک تھے، ہمارے کارکنان کو پولیس کے ذریعے تلاش کیا جارہا ہے امید ہے وہ پرسکون رہیں گے۔

اس کے ساتھ جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے سابق رکنِ اسمبلی فردوس تک نے اپنے جذبات کا اظہار شعر کی صورت میں کیا کہ جب سازِ سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو میں سجتے تھے، وہ ریت ابھی تک باقی ہے یہ رسم ابھی تک باقی ہے۔ کس زعم میں تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہ تھا، یہ خاک وطن ہے جان اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے