Dawnnews Television Logo

کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی‘شرم ناک دن’، بھارتی اپوزیشن کی بی جے پی پر تنقید

بی جے پی نے کشمیری عوام کے جذبات سے کھیلا ہے اور یہ جمہوریت کا قتل ہے، اپوزیشن
شائع 05 اگست 2019 07:45pm

بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے تیار کردہ بل میں دستخط کرکے آئین کے آرٹیکل 370 کے حوالے سے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے عزائم کی تکمیل کردی۔

بی جے پی کے اس فیصلے کے خلاف بھارتی اپوزیشن کی جانب سے ایوان اور ایوان سے باہر بھی سخت ردعمل سامنے آیا اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر ‘شرم ناک دن’ قرار دے دیا۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوان میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کا بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر نے اس آرٹیکل کے خاتمے کے بل پر دستخط کردیے ہیں۔

‘بی جے پی نے جمہوریت کا قتل کردیا’

غلام نبی آزاد ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر ہیں—فوٹو:انڈیا ٹو ڈے
غلام نبی آزاد ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر ہیں—فوٹو:انڈیا ٹو ڈے

کانگریس کے سینئر رہنما اور راجیا سبھا (بھارتی ایوان بالا) میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد نے ایوان میں اپنے خطاب میں کہا کہ ‘ہم (کانگریس) بھارت کے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر گزریں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آج بی جے پی نے آئین کا قتل کردیا ہے اور اس نے جمہوریت کا قتل کردیا ہے’۔

غلام نبی آزاد نے صحافیوں سے گفتگو میں بی جے پی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ لوگ تھوڑی دیر سے اقتدار میں آئے ہیں، وہ نہیں جانتے اور حکمت عملی کے پہلووں کو ترجیح نہیں دی، سرحدی ریاستوں کے ساتھ اور یہاں کے عوام کے ساتھ کھیلنا ملک کے ساتھ غداری ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے تصور میں نہیں تھا کہ این ڈی اے کی حکومت اس حد تک جاسکتی ہے کہ مقبوضہ ریاست جموں اور کشمیر کی موجودہ حیثیت کو ختم کردے’۔

اپوزیشن جماعت ماروملارچی دراویدا منیترا کازگم کے سربراہ اور رکن راجیا سبھا ویکو کا کہنا تھا کہ ‘حکومت نے کشمیر کے عوام کے جذبات سے کھیلا ہے’ اور اس کو ‘جمہوریت کے قتل’ سے تعبیر کیا۔

بی جے پی کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ‘آپ کشمیری عوام کے جذبات سے کھیل چکے ہیں، جب اضافی فوجی اہلکاروں کو وہاں تعینات کردیا گیا تھا تو میں پریشان تھا، کشمیر کوسوو، ایسٹ تیمر یا جنوبی سوڈان نہیں بننا چاہیے’۔

مزید پڑھیں:بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

ویکو نے کہا کہ ‘میں اس بل کی مخالفت کررہا ہوں، یہ شرم ناک دن ہے، شرم ناک شرم ناک، یہ جمہوریت کا قتل ہے’۔

نیشنل دیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے اتحادی جنتا دل کے رہنما اور راجیا سبھا کے رکن کے سی تیاگی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے آرٹیکل 370 کی تبدیلی کی حمایت نہیں کی تھی۔

‘بی جے پی کی بغاوت’

بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما پولیٹبرو کویتا کرشنن نے بی جے پی کے فیصلے کو ‘بغاوت’ قرار دیا اور ایک ٹویٹ میں نئی دہلی میں احتجاج کی کال دے دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مودی حکومت کی ایما پر صدارت حکم نامہ آئین کے خلاف بغاوت ہے، کالے دھن کو سفید کرنا کوئی حل نہیں ہے، یہ بغاوت کشمیر کا حل نہیں’۔

کمیونسٹ پارٹی کی رہنما نے کہا کہ ‘رات کے اندھیرے کی دستک کشمیر پہنچی اور جلد ہی پورے بھارت میں پہنچے گی اور مشترکہ احتجاج ہوگا’۔

‘دانش مندانہ فیصلہ نہیں’

نیشنل کانگریس پارٹی کے رہنما شرد پوار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ‘کشمیری قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں بھارت کو وادی کی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا جس کے بعد آٹیکل 370 کے خاتمے کا فیصلہ لینا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے حکومت نے ایسا نہیں کیا’۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق بھارت کے سابق اٹارنی جنرل سولی سوراب جی نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو صدارتی حکم سے منسوخ کرنا ‘کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں ’ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’دوستوں اگر ہم بچ نہ سکیں تو باتوں، دعاؤں میں یاد رکھنا‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘میرا نہیں خیال کہ یہاں کوئی چیز انقلابی ہے، یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور یہ کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں’۔

‘کشمیر ہمیشہ کرفیو کے زیر نہیں رہ سکتا’

ہندوستان ٹائمز کے نیشنل ایڈیٹر چیتن چوہان کا کہنا تھا کہ ‘بھارت آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے اپنے الفاظ سے مکر چکا ہے، تاریخ ہمیں دغاباز کے طور پر دیکھے گی جو سردار پٹیل سمیت اپنے الفاظ کا پاس نہیں کرسکتے تھے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سوچ بھی نہیں سکتے کہ آگے کیا ہوگا، کشمیری میں شہری ہمیشہ کرفیو کے زیر نہیں رہ سکتے’۔

بھارت کے مشہور تاریخ دان راماچندرا گوہا کا کہنا تھا کہ صدر کووند کا حکم نامہ سابق صدر فخرالدین علی احمد کے حکم نامے کی طرح ہے جس میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی اور یہ ایمرجنسی 1975 میں وزیراعظم اندرا گاندھی سے مختصر ملاقات کے بعد عائد کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی دن کے حوالے سے ان کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کشمیری صحافی غلام جیلانی کا کہنا تھا کہ ‘جب ہم کشمیری شہریوں سے سنتے ہیں کہ ان کے قسمت کے فیصلے پر دستخط کرنے کے لیے ہمیں قید کیا گیا تھا اور وہ ثابت ہوگیا’۔