جیسے ہی کیمرے کا رخ ہماری طرف کیا جاتا ہے تو ہم فوراً پیٹ اندر کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور چہرہ بنا لیتے ہیں تاکہ چہرے پر موجود کھڈے، جھریاں یا دانے پر کیمرا غور ہی نہ کرے۔

لوگوں کے درمیان خود کو اچھا دکھانے کی کوشش کرنے میں کچھ غلط نہیں لیکن چند افراد جسمانی ساکھ کے مسائل کو انتہائی سنجیدہ لے لیتے ہیں اور وہ اس خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اگر ان کی شخصیت مکمل طور پر 'پرفیکٹ' نظر نہیں آئی تو معاشرہ انہیں کہیں نظر انداز نہ کردے۔

سماجی محافل میں کسی شخص کو اس کے جسمانی خدوخال کے بارے میں تحقیرانہ انداز میں جملے کسنا ایک عام سی بات ہے، اور لوگ کبھی کبھار تو سوچتے ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔

  • ’تم اپنا وزن کیوں نہیں بڑھا لیتے؟‘،
  • ’اگر تمہارا تھوڑا وزن کم ہوتا تو یہ جوڑا تم پر ضرور ججتا‘،
  • ’تمہارے بال بہت پتلے ہیں اس لیے یہ ہیئر اسٹائل تم مت بناؤ‘،
  • 'یہ کلر تمہاری سیاہ رنگت پر اچھا نہیں لگ رہا'،

ہم سب اس قسم کے تبصرے سن چکے ہیں اور اگر آپ کے اوپر بھی اس قسم کا زہر اگلا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ باڈی شیمنگ Body Shaming (جسمانی ساخت کا مذاق اڑانا یا اس پر نکتہ چینی کرنا) کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ایشلے گراہم، جمیلہ جمیل اور ایشلے ٹیسڈیل جیسی تمام شوبز شخصیات اس زہریلے عمل پر بات کرچکی ہیں جس کا تجربہ آپ کو تب ہوتا ہے جب آپ کا جسم لوگوں کی نظروں اور جائزوں کی زد میں رہتا ہے۔

باڈی شیمنگ دراصل کسی شخص کو یہ پیغام دینے کا نام ہے کہ اسے اپنی موجودہ جسمانی ساخت کے ساتھ مطمئن نہیں ہونا چاہیے اور اس کی پرواہ کرنی چاہیے۔

ہم میں سے کئی لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر ناشائستہ اور غیر مؤدبانہ انداز میں مسلسل دیگر لوگوں کی جسمانی ساخت پر نکتہ چینی کر رہے ہیں اور ان کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔

نوجوان فلم اور ٹی وی اداکارہ حریم فاروق کو ناظرین کی جانب سے باڈی شیمنگ نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کی اداکارانہ صلاحیتوں سے زیادہ ان کے بڑھے ہوئے وزن کی فکر کی جانے لگی تھی۔

ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بعدازاں اپنا وزن گھٹایا، تنقید کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں نے خود سے پیار کرنے، صحت بخش غذا کھانے اور ورزش پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینا شروع کردی تھی۔ اس دوران انہوں نے اپنا چند پاؤنڈ وزن کم کیا۔ جہاں تک انہیں باڈی شیمنگ کا شکار بنانے والوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چند لوگ دوسروں کو صرف اس لیے بُرا محسوس کروانا چاہتے ہیں تاکہ وہ خود اپنے بارے میں اچھا محسوس کرسکیں۔

ہونہار اداکارہ اور ماڈل آمنہ شیخ نے انسٹاگرام کا سہارا لیا اور اپنے ساتھ ہونے والی باڈی شیمنگ کے تجربے کو وہاں شیئر کیا۔

ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ، ’جب میں اسکول میں پڑھتی تھی تب وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ ’آمنہ تمہاری پیشانی ہے یا ہاکی کا میدان۔‘ اور مجھے یہ بات مزاحیہ لگتی تھی! جب بھی کبھی معروف ڈیزائنرز، ڈائریکٹرز، فوٹوگرافرز، میک اپ آرٹسٹ یا ساتھی اداکار میری پیشانی کی تعریف کرتے ہیں تو میں اکثر انہیں یہ بات بتاتی ہوں۔‘

آج بھی چند لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی پیشانی کو چھپاتی ہیں کیونکہ ’یہ بہت ہی بڑی ہے اس لیے چہرہ عجیب سا نظر آتا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ لوگ انہیں بال کَس کر باندھنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کی پیشانی مزید بڑی دکھنے لگتی ہے اور یہ ان کے لیے مناسب نہیں ہے۔

فریحہ رشید نامی ماہرِ نفسیات ہیں جو میو ہسپتال، بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی اور آٹزم کیئر سینٹر میں کام کرچکی ہیں۔ ان کے مطابق، ’باڈی شیمنگ ایک ظالمانہ عمل ہے کیونکہ یہ کسی خوبصورت انسان کو ذہنی طور پر تباہ کرسکتا ہے۔ عام طور پر باڈی شیمنگ کا تعلق جسمانی خد و خال، جلد کے رنگ، جسمانی ساخت، کیل مہاسوں، پیدائشی نشانوں، جھریوں، بڑھتی عمر، گھنگرالے بالوں وغیرہ سے ہوتا ہے۔ اور اکثر و بیشتر مختلف اشتہارات کے ذریعے اسے فروغ دیا جاتا ہے، جن میں یہ پیغام دیا جا رہا ہوتا ہے کہ بہترین شوہر کی تلاش یا ملازمت کے حصول کے لیے آپ کا جسمانی طور پر بہترین دکھنا ضروری ہے۔‘

سوشل میڈیا کے ابھار اور تصاویر میں جسمانی خد و خال جیسے چہرے کو پتلا بنانے، اپنے من پسند جلد کے رنگ حاصل کرنے اور جلد کو صاف ستھرا دکھانے کے لیے فلٹرز کی دستیابی کے باعث نوجوان نسل میں دوسروں کی جسمانی ساخت پر اپنا فیصلہ سنانے کی روش کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے۔

عمومی طور پر سنگدلی کے ساتھ جملے کسنے والے گھریلو افراد، دوست یا پڑوسی ہوتے ہیں، جنہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ ان کے الفاظ آپ پر کس قدر گہرے اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔

جب ایک شخص مسلسل باڈی شیمنگ کی زد میں رہتا ہے یا پھر کسی شخص کے چہرے کے نقوش مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تب اس شخص کے ذہن میں منفی اثرات شدت اختیار کرجاتے ہیں، جس کے باعث باڈی شیمنگ کا شکار بننے والوں میں اپنی ہر چیز سے نفرت کرنے کا رجحان پیدا ہوسکتا ہے، خواہ پھر وہ چہرے کے نقوش ہوں یا پھر ان کی شخصیت۔

زینب نامی اسکول ٹیچر متعدد برسوں تک باڈی شیمنگ کی تکلیف کا سامنا کرتی رہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’شادی کے بعد مجھے مسلسل یہ بات سننے کو ملتی تھی کہ میں پُرکشش نہیں ہوں، میرا سینا سپاٹ ہے اور میں کافی پتلی ہوں۔ میں یہ سن کر ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتی تھی اور تناؤ کے باعث میرا وزن مزید گھٹتا چلا گیا۔ اس سے بھی بدتر بات تو یہ تھی کہ میرے شوہر بھی میرا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ان کے جملوں کو سہنا میرے لیے بہت ہی مشکل ہوتا تھا کیونکہ آپ کے جیون ساتھی میں آپ کو جوڑنے کی بھی صلاحیت ہوتی ہے اور توڑنے کی بھی۔ میں اپنا اعتماد اس قدر کھو بیٹھی تھی کہ جب میرے دوست اور میرے والدین میری تعریف کرتے تو بھی مجھے ان پر یقین نہ آتا۔‘

جب زینب نے اسکول میں پڑھانا شروع کیا تو اسی دوران ان کا ایک کاونسلر کے ساتھ کچھ وقت گزرا۔ زینب بتاتی ہیں کہ 'ساتھی اساتذہ اور ان کے طالب علموں نے ان کے اعتماد کو اٹھانے میں بہت زیادہ مدد کی'۔

چند برسوں بعد زینب کو اندازا ہوا کہ وہ کسی سے بھی کسی طور پر بھی پیچھے نہیں ہے۔ انہوں نے یہ ماننا شروع کیا کہ ہر انسان کا اپنا جسم ہے اس پر کیا اچھا لگتا ہے اور کیا نہیں یہ فیصلہ کرنے والا کوئی اور شخص کون ہوتا ہے۔ ’میں نے محسوس کیا کہ مجھے مضبوط بننے کی ضرورت ہے جبکہ دیگر افراد اور خاص طور پر میرے شوہر کیا سوچتے ہیں اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ چاہے کتنے ہی اچھے یا کتنے ہی بُرے ہوں لوگ آپ پر اپنا فیصلہ سنانے سے باز نہیں آئیں گے۔‘

لوگوں کیسے نظر آتے ہیں یا کیا پہنتے ہیں اس پر بعض اوقات نادانستہ طور پر فیصلے سنائے جاتے ہیں لیکن اس عمل کو دانستہ طور پر کسی شخص کو رسوا یا اس کا حوصلہ پست کرنے کے مقصد سے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کا مذاق اڑاتا ہے تو آپ کے لیے اسے فقط مذاق تصور کرنا خاصا مشکل ہوسکتا ہے، بلکہ یہ آپ کی روح کو مجروح اور آپ کو نہایت غیر صحت بخش ذہنی حالات سے دوچار کردیتا ہے، جس کے باعث آپ کے اندر ایسے شدید غیر صحت بخش جذبات پیدا ہوتے ہیں جو غصے، ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی اثرات کی وجہ بنتے ہیں۔

بحالی مرکز سے وابستہ ماہرِ نفسیات بشریٰ عسکری کہتی ہیں کہ ’باڈی شیمنگ کے باعث لوگوں کے دماغ پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کے باعث وہ خود پر بھروسے کی کمی، اعتماد کے فقدان، سماجی پریشانی اور یہاں تک کہ حقیقی زندگی میں کام کرنے کی صلاحیت سے محرومی کا شکار بن سکتے ہیں۔‘

مثلاً اگر کسی بچے کو اسکول یا کالج میں باڈی شیمنگ کا شکار بنایا جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات اس بچے کی تعلیمی کارکردگی پر پڑسکتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو اس کے کام کرنے کی جگہ پر باڈی شیمنگ کا شکار بنایا جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات اس شخص کے کام کی کارکردگی پر مرتب ہوسکتے ہیں۔

بھائی بہنوں کے درمیان یہ عمل جلن اور دشمنی کو تقویت بخشتا ہے۔ ازدواجی زندگی میں ایسا ہو تو شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات داؤ پر لگ سکتے ہیں۔ بشریٰ عسکری کہتی ہیں کہ ’علاوہ ازیں، باڈی شیمنگ کی زد میں آنے والا انسان لوگوں سے روابط ترک کردیتا ہے، سماجی طور پر خود کو تنہائی کا شکار بنا دیتا/دیتی ہے، یوں اسے اپنی کارکردگی دکھانے میں دشواری پیش آتی ہے، اعتماد کی کمی کا شکار بن جاتے ہیں، بعض اوقات ان کے رویوں میں جارحانہ پن یا غصہ اتر آتا ہے اور اس پر قابو پانے کی صلاحیتوں میں کمی آتی جاتی ہے۔‘

بشریٰ عسکری کہتی ہیں کہ ’خود اعتمادی سب سے اہم چیز ہے۔‘

متعدد برس خود پر بھروسے کی کمی کا شکار رہنے کے بعد زینب اب خود اعتمادی سے بھرپور نظر آتی ہیں۔ ’اگرچہ اب بھی میرا وزن کم ہے اور میں کمزور بھی ہوں لیکن میں اپنے اندر جذباتی اور جسمانی طور پر بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میں صرف صحت اور فٹنس کی غرض سے اپنا وزن بڑھانا چاہتی ہوں، نہ کہ پُرکشش دکھنے کے لیے، کیونکہ میرا ماننا ہے کہ میں اس وقت ہی بہت اچھی لگ رہی ہوتی ہوں جب میں خوش ہوتی ہوں۔‘ ان کا جسم بھلے ہی خوبصورتی کے روایتی اصولوں پر پورا نہ اترتا ہو لیکن ان کی ذہنی حالت کافی بہتر ہے۔ ان کی زندگی میں آنے والے فرق کے پیچھے یہی ذہنی بہتری ہے۔

بشریٰ عسکری کہتی ہیں کہ ’اپنی شکل صورت اور جسمانی ساخت کو قبول کرنا سب سے اہم ہے۔ خود کو صحت بخش سرگرمیوں میں مصروف کیجیے، مثلاً آپ کسی نیک مقصد کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ کو اپنے بارے میں ایک مثبت رائے پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’باڈی شیمنگ اکثر اوقات وہی لوگ کرتے ہیں جو خود گہرے تنازعات میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ صحت مند ذہن کا مالک شخص کبھی بھی کسی کا مذاق نہیں اڑائے گا۔ چنانچہ یہ عمل کرنے والے دراصل بیمار ذہنیت کے حامل لوگ ہیں۔ چونکہ باڈی شیمنگ دراصل بُلنگ (Bullying) کی ہی ایک قسم ہے اس لیے اس کا شکار بننے والے افراد کو اپنا وجود خول میں محدود کرنے یا پھر دوسرے لوگوں سے چھپانے سے روکنا ہوگا۔‘

فریحہ رشید کا ماننا ہے کہ اس مسئلے پر کونسلنگ کرنا اتنا سادہ عمل نہیں جتنا کہ لوگ سوچتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم باڈی شیمنگ کا شکار بننے والے افراد کی سیمیناروں اور ٹریننگ نشستوں‘ کے ذریعے کونسلنگ کرسکتے ہیں لیکن یہ ایک کٹھن کام ہے کیونکہ یہ معاشرے میں گہرائی سے پیوستہ مسئلہ ہے۔

فریحہ رشید کے مطابق ’ہم اس قسم کے مسائل کا الزام معاشرے پر ڈال دیتے ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشرہ ہم جیسے انسانوں سے ہی تو بنتا ہے۔‘

کئی خواتین کے گروپس اور فیشن ڈیزائنرز پلس سائز کی مصنوعات تیار کر رہی ہیں اور کئی ماڈلنگ ایجنسیاں مختلف نقش و نین اور جسمانی ساخت رکھنے والی خواتین کو ملازمتیں دے رہی ہیں۔ وہ عام خواتین کو پُراعتماد رہنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور انہیں یہ یقین دلاتی ہیں کہ وہ کسی سے بھی کسی طور پر بھی کم نہیں ہیں۔

فریحہ رشید کا کہنا ہے کہ ’آپ جیسے بھی ہیں خود کو قبول کیجیے، رحم دلی اور ہم گدازی کا راستہ چُنیے۔ ہر ایک میں صرف اور صرف خوبصورتی تلاش کیجیے۔ ہمیں دیگر لوگوں کے چہرے کے نقوش اور جسمانی ساخت کا مذاق اڑانے سے خود کو روکنا ہوگا کیونکہ ہم میں سے ہر ایک اپنے وجود میں ایسے کئی بڑے بڑے نقائص رکھے ہوئے ہے جنہیں زیادہ توجہ مطلوب ہے۔‘


یہ مضمون 11 اگست 2019ء کو ڈان کے سنڈے میگزین ای او ایس میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں