پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کو پہلوانوں کا شہر بھی پکارا جاتا ہے۔ اس شہر کے اکھاڑوں نے ملک کو متعدد پہلوان دیے جنہوں نے بے تحاشا شہرت اور نام کمایا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ہمارا پہلوانی (ریسلنگ) کا انداز پرانا ہوتا گیا اور ہم اس کھیل میں بہت پیچھے رہ گئے۔

پاکستان کے کھیلوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان نے اولمپکس میں کُل 3 کھیلوں میں تمغے جیتے ہیں، یعنی ہاکی، باکسنگ اور ریسلنگ۔ ہاکی میں پاکستان نے 3 طلائی، 3 چاندی اور 2 کانسی کے تمغے اپنے نام کیے، جبکہ باکسنگ اور ریسلنگ میں کانسی کے تمغے پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔

گزرتے وقت کے ساتھ ہمارا پہلوانی (ریسلنگ) کا انداز پرانا ہوتا گیا اور ہم اس کھیل میں بہت پیچھے رہ گئے—تصویر بشکریہ تنویز شہزاد
گزرتے وقت کے ساتھ ہمارا پہلوانی (ریسلنگ) کا انداز پرانا ہوتا گیا اور ہم اس کھیل میں بہت پیچھے رہ گئے—تصویر بشکریہ تنویز شہزاد

پاکستان کے لیے یہ کارنامہ 1960ء کے روم اولمپکس میں ریسلر محمد بشیر نے کانسی کا تمغہ جیت کر انجام دیا تھا اور یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں روم اولمپکس وہ واحد اولمپکس ہیں جس میں پاکستان نے ایک سے زیادہ تمغے حاصل کیے تھے۔

پھر ہمارے کھیلوں میں ایسا زوال آیا کہ اب پاکستان کے لیے اولمپکس میں ایک تمغہ بھی حاصل کرنا خواب سا بن گیا ہے۔ پاکستان نے اولمپکس کھیلوں میں اپنا آخری تمغہ 28 سال قبل اسپین میں منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں جیتا تھا۔

2020ء میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں اب صرف 8 مہینے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف قوم بالخصوص شائقین ہاکی ٹیم سے کسی معجزے کی امید لگائے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف یہ خدشات بڑھتے جارہے ہیں کہ پاکستان ہاکی ٹیم اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہے۔

میری رائے میں اگر پاکستان کسی سے اولمپکس میں تمغہ جیتنے کی امید لگا سکتا ہے تو وہ ریسلر انعام بٹ ہیں۔ انعام بٹ نے ریسلنگ کے بین الاقوامی اکھاڑے میں پاکستان کا نام پہلی مرتبہ اس وقت روشن کیا جب بھارت کے شہر دہلی میں 2010ء کے کامن ویلتھ گیمز میں بھارت کے پہلوان انوج کمار کو شکست دے کر انہوں نے سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا۔

دہلی میں 2010ء کے کامن ویلتھ گیمز میں بھارت کے پہلوان انوج کمار کو شکست دے کر انہوں نے سونے کا تمغہ حاصل کیا

اس مقابلے کی خاص بات یہ تھی کہ یہ پہلا موقع تھا جب انعام بٹ کسی بین الاقوامی مقابلے میں اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے۔ 2010ء کے کامن ویلتھ گیمز سے شروع ہونے والا انعام بٹ کا سفر عروج کی طرف گامزن ہے۔ وہ متعدد بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کے لیے تمغے جیت چکے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جارجیا کے ریسلر Dato Marsagishvili کو شکست دے کر دوحہ بیچ گیمز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

Dato Marsagishvili کے خلاف انعام کی جیت اس لیے بھی خوش کن ہے کیونکہ اس ریسلر نے انعام کو برازیل میں عالمی بیچ گیمز کے کوالیفائنگ راؤنڈ کے فائنل میں ریفری کی غلطی کی وجہ سے شکست دی تھی۔ انعام نے ریفری کی غلطی پر شکایت درج کروائی، اور اگرچہ مقابلے کا نتیجہ تو تبدیل نہیں ہوا لیکن ریفری کا لائسنس ضرور منسوخ ہوگیا۔ Dato Marsagishvili نے 2012ء میں لندن اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا اور ان کو عالمی بیچ گیمز میں 2 مرتبہ شکست دے کر انعام نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اولمپکس میں پاکستان کا نام روشن کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔

انعام نے آسڑیلیا میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز 2018ء میں 86 کلوگرام ریسلنگ کیٹیگری مقابلوں میں تمام حریفوں کو چت کرتے ہوئے فائنل میں نائیجیریا کے میلون بیبو کو شکست دے کر گولڈ میڈل اپنے نام کیا— اے پی
انعام نے آسڑیلیا میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز 2018ء میں 86 کلوگرام ریسلنگ کیٹیگری مقابلوں میں تمام حریفوں کو چت کرتے ہوئے فائنل میں نائیجیریا کے میلون بیبو کو شکست دے کر گولڈ میڈل اپنے نام کیا— اے پی

انعام بٹ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے۔ ان سے ہونے والی ایک گفتکو کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ اپنی کامیابیوں پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ خوب سے خوب تر کی ان کی جستجو جاری ہے۔ ان کی مسلسل محنت اور اپنے کھیل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ان کی خواہش اور کوشش ان کی کامیابیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔

انعام بٹ کے مطابق پاکستان کی ریسلنگ بین الاقوامی ریسلنگ سے 30 سال پیچھے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ ریسلنگ کے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرکے پاکستان واپس آئے تو ان کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا کتنا ضروری ہے۔

کھیلوں کے جدید معیارات جاننے اور سمجھنے کی طلب نے انعام بٹ کو اسپورٹس سائنسز کے شعبے میں داخلہ لینے کی ترغیب دی جہاں سے انہوں نے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ انعام بٹ کے مطابق اس ڈگری کے حصول نے ان کا انداز ہی بدل دیا۔ انہوں نے اپنی خوراک میں تبدیلی کی، اپنی تربیت کے انداز میں تبدیلی لائے اور خود کو بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق ڈھالا۔ انعام بٹ کی اس کوشش اور حکمت عملی سے ان کو بین الاقوامی سطح پر مسلسل کامیابیاں حاصل ہوتی چلی گئیں۔

انعام بٹ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر انسان میں کامیابی کی جستجو ہو اور وہ اپنے اہداف کے حصول کے لیے درست سمت کا تعین کرلے تو کامیابی ضرور اس کے قدم چومتی ہے۔

انعام بٹ نے پاکستان میں پہلوانی کے کھیل پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 8 سے 10 ہزار پہلوان اس کھیل سے منسلک ہیں۔ پاکستان نے ریسلنگ کے کھیل میں قلیل وسائل لگانے کے باوجود 60 سے زائد میڈل حاصل کیے ہیں۔

پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کے چیئرمین چوہدری افتخار اس کھیل سے منسلک کھلاڑیوں کے لیے حکومت سے مالی تعاون حاصل کرنے میں بہت کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کھیل سے ہماری عدم دلچسپی کا اظہار اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ریسلنگ کو ایسی گرانٹ نہیں ملی جس سے کھلاڑیوں کی فٹنس، ان کی بہبود اور کھیلوں سے متعلق ان کی تیاری کو مزید بہتر کیا جاسکے.

انعام بٹ نے نئی دہلی میں منعقدہ سیف گیمز 2016ء میں بھارتی پہلوان گوپال یادیو کو فائنل میں چت کرکے طلائی تمغہ اپنے نام کیا

ریسلنگ کے کھیل سے حکومتی عدم توجہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ انعام بٹ رواں سال 2 اہم بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت نہیں کرسکے۔ اپریل میں چین میں ہونے والی ایشین چیمپئن شپ اور پھر ستمبر میں قازقستان میں ہونے والی عالمی ریسلنگ چیمپئن شپ میں وہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے شرکت نہیں کرسکے۔

قازقستان میں ہونے والی عالمی ریسلنگ چیمپئن شپ اس لیے بھی اہم تھی کہ اس چیمپئن شپ سے ہر کیٹیگری کے 6 کھلاڑیوں نے اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنا تھا اور اگر انعام اس چیمپئن شپ میں شرکٹ کرتے تو وہ باآسانی ٹوکیو میں ہونے والے اولمپک کھیلوں کے لیے کوالیفائی کرکے اب ان کھیلوں میں شرکت کی تیاری کر رہے ہوتے۔

اس بُری خبر کے بعد اچھی خبر یہ ہے کہ انعام بٹ کے لیے اولپکس تک رسائی کا ایک موقع اور ہے۔ ان کو فروری میں ہونے والے کوالیفائنگ مقابلے میں شرکت کرنی ہے اور یہ مقابلہ جیت کر وہ اولمپکس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ انعام بٹ اب تک اپنی مدد آپ کے تحت متعدد مقابلوں میں شرکت کرکے پاکستان کا نام روشن کرچکے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی عمدہ کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں تمغہ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا ہے، لیکن انہیں اس وقت ان اعزازات سے بڑھ کر فنڈز کی ضرورت ہے تاکہ وہ ملک کا نام مزید روشن کرسکیں۔

لہٰذا یہی وقت ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت انعام کی بھرپور پشت پناہی کریں اور ان کو وہ تمام سہولیات بشمول مالی معاونت فراہم کریں جس کی بدولت وہ تربیت کی غرض سے بیرون ملک سفر کرسکیں اور پوری دلجمعی کے ساتھ اولپکس کھیلوں کے کوالیفائنگ مرحلے کے لیے تیاری کرسکیں۔

انعام بٹ کی ریسلنگ کے کھیل کے ساتھ انسیت قابلِ رشک ہے۔ ایک طرف ہمارے ہاکی اور کرکٹ کے کھلاڑی ہیں جو تمام سہولیات کے باوجود کارکردگی نہیں دکھا پاتے دوسری طرف انعام بٹ جیسے کھلاڑی ہیں جو بہت کم سہولتوں میں پوری جانفشانی سے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔

پاکستان کا ایک المیہ رہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ کرکٹ اور ہاکی پر ہی توجہ مرکوز رکھی اور انفرادی حیثیت میں کھیلے جانے والے کھیلوں میں موجود کھلاڑیوں کی فلاح و بہبو د اور تربیت پر توجہ نہیں دی۔ خیر اب تو ہاکی بھی اس فہرست سے نکل چکا ہے اور کرکٹ ہی وہ واحد کھیل رہ گیا ہے جس پر ساری توجہ مرکوز ہے۔

یہاں قصور صرف حکومت کا نہیں ہیں، ہم عوام بھی برابر کے مجرم ہیں۔ 1988ء کے سیول اولمپکس میں پاکستان کے لیے کانسی کا تمغہ جیتنے والے لیاری کے رہائشی حسین شاہ کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے اور اپنے لوگوں سے دلبرداشتہ ہوکر حسین شاہ نے جاپان میں سکونت اختیار کرلی جہاں وہ جاپانی نوجوانوں کو باکسنگ کی تربیت دیتے ہیں۔ اس قسم کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ لاتعداد واقعات ایسے مل جائیں گے جب دیگر کھیلوں میں جیتنے والوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہوگا۔

پاکستان ہر گزرتے دن کے ساتھ کھیلوں میں پیچھے ہو رہا ہے جس کی وجہ ٹیلنٹ کی کمی نہیں بلکہ ملکی کھیلوں کی فیڈریشن پر براجمان وہ سربراہان ہیں جنہوں نے سرکاری خرچ پر غیر ملکی دورے تو کیے لیکن کھیلوں کی بہبود کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ایسی ہی ایک شخصیت ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عارف حسن ہیں جو 2004ء سے پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ اس دوران مختلف حکومتیں آئیں لیکن کسی نے بھی عارف حسن سے باز پرس نہیں کی۔

ناجانے کب سے یہ گندا کھیل کھیلا جارہا ہے کہ ایسوی ایشن کے عہدیداران اپنے من پسند ایسے ایک یا 2 کھلاڑیوں کو وائلڈ کارڈ انٹری دلوا دیتے ہیں جن کے بارے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکیں گے، لیکن چونکہ وہ ’گڈ بکس‘ میں ہوتے ہیں اس لیے انہیں خوش کرنے کے لیے اس غریب قوم کے لاکھوں روپے جانتے بوجھتے ضائع کردیے جاتے ہیں۔

پاکستان ہاکی جو ہمارے لیے کبھی فخر کی علامت ہوا کرتی تھی، اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ اس بار اولمپک میں کوالیفائی کرنے کی امیدیں بہت معدوم ہیں اور اگر خدانخواستہ انعام بٹ بھی اس میگا ایونٹ میں شرکت کے لیے کوالیفائی نہ کرسکے تو پھر پاکستان کا اولمپک کے کھیلوں میں حصہ لینے کا فائدہ ہی کیا ہے؟

وزیرِاعظم عمران خان تو خود ایک اسپورٹس مین ہیں، اور کھیلوں کی اہمیت کو بہت خوب جانتے ہیں، مگر بدقسمتی سے اب تک ان کے دور میں کھیلوں کے شعبے کی بہتری کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوسکے ہیں۔

میں وزیرِاعظم اور صدرِ پاکستان سے بھرپور اپیل کرتا ہوں کہ فوری طور پر انعام بٹ کے لیے ایک خطیر رقم جاری کی جائے تاکہ یہ ریسلر اولمپک کے کوالیفائر میں شرکت کے لیے اپنی تیاری کرسکے۔

اسی طرح وہ اس بات کا خاص نوٹس لیں کہ کھیلوں کی ایسوسی ایشن میں کون لوگ کیا کررہے ہیں؟ کیا وہ پروفیشنل ہیں بھی یا نہیں؟ ان کی کارکردگی کیا ہے؟ ان تمام نااہل لوگوں کو فارغ کرنے کی اشد ضرورت ہے جو کھیلوں کے لیے فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بن رہے ہیں، کیونکہ ان غلطیوں کی وجہ سے ملک میں کھیلوں کو فروغ ملنا تو دُور کی بات بلکہ جن کھیلوں میں ہم اچھے تھے اب وہاں بھی پیچھے سے پیچھے جاتے جارہے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Raja kamran Oct 24, 2019 12:11pm
Very well written and very informative highlight very pertinent issue