آسیب کہانیاں - پہلی قسط

مجھے منزل نہیں ’راستہ‘ چاہیے

تحریر و تصاویر: عبیداللہ کیہر

میں ایک سیاح ہوں۔ سیاح اور مسافر میں فرق یہ ہے کہ مسافر کو تو جلد از جلد منزل تک پہنچنے کی فکر ہوتی ہے، لیکن سیاح کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ سیاح کا تو بس ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ مجھے منزل نہیں ’راستہ‘ چائیے۔ اس سے قطع نظر کہ اس راستے میں اسے فطرت کے حسین مناظر ملیں، یا معاشرے کے دردناک پہلو نظر آئیں، محبت کرنے والے مسافر نواز ملیں، یا دھتکار دینے والے بدتہذیب لوگوں سے واسطہ پڑے۔

سیاح کے لیے دنیا کے یہ سارے پہلو قابلِ قبول ہوتے ہیں۔ قدرت کے یہ سارے مظہر نہ صرف اس کے ذوقِ مشاہدہ کی تسکین کرتے ہیں، بلکہ اس کے شعور میں اضافہ کرکے اس کی زندگی میں بڑی مثبت تبدیلیاں لاتے ہیں۔

سیاحت کیا ہے؟ یہ زندگی کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ سیاحت کی ضد ’روٹین لائف‘ ہے، یعنی روزمرہ کی یکساں اور بیزار کن مصروفیات۔ اقبال کہتے ہیں

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا؟

ایک زمانے کی رَو، جس میں نہ دن ہے نہ رات

ایک سیاح جب زمانے کی اس بیزار کن رَو سے دامن چھڑا کر، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر، جیسے ہی گھر سے پہلا قدم باہر نکالتا ہے تو یوں سمجھیں کہ وہ زندگی سے بھی باہر آجاتا ہے۔ سیاح زندگی کا حصہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ زندگی سے باہر آکر معاشرے کا ناظر بن جاتا ہے۔

زندگی کو اگر مصوری کا ایک شاہکار، ایک پینٹنگ سمجھا جائے تو سیاح جب تک گھر سے باہر نہ نکلے، تب تک وہ خود بھی اس پینٹنگ کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ تو جو خود ہی کسی تصویر کا ایک جزو ہو، وہ خود اس تصویر کا مشاہدہ کیسے کرسکتا ہے؟

چنانچہ جب ایک عام آدمی سیاح بن کر خود کو زندگی کے لگے بندھے روٹین سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوتا ہے تو زندگی کی وہ پینٹنگ جو اب تک اس کی نگاہوں سے اوجھل رہی تھی، یکا یک پوری آب و تاب کے ساتھ اس کے سامنے آجاتی ہے۔ اب وہ حیرت سے دانتوں میں انگلی دبائے، زندگی کے روشن و رنگا رنگ مظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے اندھیر پہلوؤں کو بھی دیکھتا جاتا ہے اور سیکھتا جاتا ہے۔ ان مشاہدات سے وہ نہ صرف شعور حاصل کرتا ہے، بلکہ معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔

سیاحت صرف خوبصورت مقامات کی سیر، تفریح، ہلے گلے، موج مستی اور عیاشی کا نام نہیں، بلکہ یہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے گہرے مشاہدے کا ذریعہ ہے۔ خوبصورت قدرتی مناظر، پہاڑ، دریا، جنگل، وادیاں، صحرا، پھول، تتلیاں، پرندے، جانور اور انسان، سیاحت کے دوران ان سب چیزوں کے مشاہدے کا موقع تو ملتا ہی ہے، مگر ان کے ساتھ ساتھ قدرت کا ایک اور مظہر بھی ہے جس کا سامنا کبھی کبھی ہوجاتا ہے۔

قدرت کا ایک عجیب اور پُراسرار مظہر، یعنی جنات، بھوت پریت اور آسیب! جی ہاں۔ ان مظاہر کا سامنا عام روز مرہ کی زندگی میں بھی ہوتا ہے اور سیاحت کے دوران بھی ہوجاتا ہے۔ رئیس فروغ کہتے ہیں

دشمن ہے ایک شخص بہت ایک شخص کا

ہاں عشق ایک نام کو ہے ایک نام سے

سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے

آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے

میں نے پاکستان سمیت کئی ملکوں کی سیاحت کی ہے۔ پاکستان کے تقریباً سارے ہی خطے دیکھ ڈالے ہیں۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر، کشمیر اور گلگت بلتستان، تقریباً ہر علاقے میں اپنے قدموں کے نشان چھوڑے ہیں اور یہ سفر ابھی جاری ہیں۔

ان سیاحتوں میں جہاں مجھے دل کو لبھانے والے مسحور کن مناظر دیکھنے کو ملے اور مسافر نواز مہربان شخصیات سے واسطہ پڑا، وہیں کچھ سمجھ میں نہ آنے والے عجیب و غریب واقعات سے بھی پالا پڑا۔

صرف سفر میں ہی نہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی کچھ ایسی غیر مرئی چیزوں کا مشاہدہ ہوا کہ جن کو اگر بیان کیا جائے تو دوسرے تو مشکل سے یقین کریں، خود کو بھی یقین نہ آئے۔ لیکن یقین آئے یا نہ آئے، یہ واقعات بہرحال مجھ پر، میرے ہمسفر ساتھیوں اور میرے عزیز و اقارب پر گزرے ہیں۔ ایسے ہی کچھ واقعات آپ کو سنانے کا دل چاہ رہا ہے۔

وادئ کاغان کے پر اسرار ہیولے

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، میں اپنے 3 دوستوں کے ساتھ وادئ کاغان میں تھا۔ وادئ کاغان میں کچھ جگہوں پر تو موبائل سگنل ٹھیک کام کرتے ہیں لیکن اکثر جگہوں پر یا تو بالکل نہیں ہوتے یا بہت کمزور ہوتے ہیں۔

اس لیے عام طور پر لوگ یہ کرتے ہیں کہ جس مقام پر سگنل موجود ہوں فون کرنے کے لیے وہاں چلے جاتے ہیں اور ضروری بات کرکے اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتے ہیں۔ وادئ کاغان میں ناران سے 15 سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے بٹہ کنڈی، جہاں ناران کی نسبت رش بہت کم ہوتا ہے۔ ناران کے شور شرابے اور رش سے بچنے کے لیے ہم 4 دوست بٹہ کنڈی کے پرسکون مقام پر ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ بٹہ کنڈی پُرسکون تو ضرور تھا لیکن قباحت وہی تھی کہ یہاں موبائل سگنل نہیں تھے۔ رات کے 8 بج رہے ہوں گے کہ اچانک وقاص کو یاد آیا کہ اسے تو اسلام آباد ایک ضروری کال کرنا تھی، لیکن یہاں تو سگنل ہی نہیں آرہے۔

’موبائل سگنل تو ناران میں ہی ملیں گے‘، میں بولا۔

’پھر تو میں اور فہیم گاڑی لے کر ناران کی طرف جاتے ہیں۔ راستے میں جہاں بھی سگنل آئے وہاں فون کرکے واپس آجائیں گے‘، وقاص بولا اور وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔

کافی دیر بعد وہ واپس آئے تو ہم دونوں گرم بستروں میں دبکے ہوئے تقریباً نیند کی حالت میں تھے، لیکن میں نے نوٹ کیا کہ ان دونوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں اور وہ ہم سے بات کیے بغیر اپنے کمرے میں چلے گئے۔

ہم 4 دوست بٹہ کنڈی کے پرسکون مقام پر ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے
ہم 4 دوست بٹہ کنڈی کے پرسکون مقام پر ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے

ناران سے 15 سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود قصبہ، بٹہ کنڈی
ناران سے 15 سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود قصبہ، بٹہ کنڈی

صبح اٹھے تو میں نے وقاص سے پوچھا ’کل تم لوگ فون کرکے واپس آئے تو مجھے کچھ پریشان سے لگے۔ سب خیریت تھی؟‘

’ہاں ہاں، وقاص ہنسا اور کہا کہ میں نے اپنے گھر فون کیا تھا۔ وہاں تو الحمدللہ سب خیریت ہی تھی، لیکن ہم ناران روڈ پر جس جگہ کھڑے ہوکر فون کر رہے تھے، وہاں خیریت نہیں تھی۔‘

’کیوں؟‘، میں حیران ہوا۔

وقاص نے قصہ بتانا شروع کیا، ’ہم ابھی کاغان سے چند کلومیٹر پیچھے ہی تھے کہ موبائل سگنل آنا شروع ہوگئے۔ میں نے جنگل میں دریائے کنہار کے کنارے پہاڑ کے دامن میں ایک ایسی جگہ گاڑی روک دی جہاں فل سگنل آرہے تھے۔ گاڑی تو میں نے ہینڈ بریک لگا کر روک دی لیکن انجن اسٹارٹ ہی رکھا اور ہیڈ لائٹس بھی روشن رہنے دیں۔ پہاڑی جنگل کی تاریکی میں میری گاڑی کی لائٹیں سیاہ اندھیرے کو چیرتی ہوئی دُور تک جا رہی تھی۔ اس وقت وہاں ہماری گاڑی کے علاوہ دُور دُور تک کوئی اور گاڑی نظر نہیں آرہی تھی۔ میں نے فوراً گھر فون ملایا اور بات کرنے لگا۔ ابھی بات جاری تھی کہ اچانک میں نے دیکھا کہ گاڑی کے بائیں ہاتھ سے ایک آدمی پیدل چلتا ہوا آیا۔ سفید لباس پہنے اور کاندھے پر چادر ڈالے وہ شخص آہستہ آہستہ چلتا ہوا میرے بالکل برابر سے گزرا اور آگے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ میں فون پر بات کرتا رہا اور سرسری طور پر اس شخص کو گزرتے ہوئے نوٹ کرتا رہا۔ لیکن میں اس وقت حیران و پریشان ہوگیا جب میں نے دیکھا کہ وہ سفید پوش ہیڈ لائٹس کی تیز روشنی میں آتے ہی فضا میں تحلیل ہوگیا، غائب ہوگیا‘۔

’کیا مطلب؟‘، میں اچھل پڑا۔

’جی جی‘، وقاص نے اپنی کہی ہوئی بات کی تصدیق کی اور مزید بولا کہ ’میں پہلے تو یہی سمجھا کہ شاید یہ میرا وہم ہے۔ اس لیے سر کو جھٹکا اور فون پر بات جاری رکھی۔ لیکن چند لمحوں بعد ہی ہم دونوں نے دیکھا کہ اسی طرح کا ایک اور سفید پوش شخص گاڑی کے بائیں طرف پیچھے کی جانب سے آیا اور وہ بھی اسی طرح خراماں خراماں چلتا ہوا گاڑی کے برابر سے گزرتا ہوا آگے ہیڈ لائٹس کی روشنی میں آیا اور فضا میں تحلیل ہوگیا، غائب ہوگیا۔ اب تو ہم دونوں بہت گھبرائے۔ موبائل میرے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے رہ گیا۔ میں نے فون پر جلدی جلدی بات ختم کی اور گاڑی تیزی سے واپس موڑ لی۔ جیسے ہی گاڑی موڑی تو اس کی روشنیاں بائیں طرف ایک چٹان کے اوپر پڑیں۔ میں نے دیکھا کہ چٹان کے اوپر بھی ایک اسی طرح کا سفید پوش آدمی ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے اور ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ اب تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں نے سنا ہے کہ کہیں آپ کوئی پُراسرار چیز دیکھیں اور خوف سے آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ یہاں واقعی کوئی گڑبڑ ہے۔ اب ہمارے پاس ایک ہی آپشن تھا، یعنی بھاگنے کا آپشن‘۔

ہم ناران روڈ پر جس جگہ کھڑے ہوکر فون کر رہے تھے، وہاں خیریت نہیں تھی
ہم ناران روڈ پر جس جگہ کھڑے ہوکر فون کر رہے تھے، وہاں خیریت نہیں تھی

وادئ کاغان کا ایک منظر
وادئ کاغان کا ایک منظر

وہ پھیکی ہنسی ہنسا اور کہا کہ ’تو بس میں نے ایکسیلیٹر فل دبایا اور گاڑی تقریباً اڑاتے ہوئے بٹہ کنڈی واپس پہنچا۔ اس وقت تو ہماری یہ ہمت بھی نہیں ہوئی کہ یہ واقعہ آپ لوگوں کو سناتے۔ اب صبح ہوگئی ہے، سورج چمک رہا ہے تو خوف کم ہوا ہے، اور اسی لیے یہ واقعہ سنا رہا ہوں۔

سیکٹر جی 13 کا خونی پُل

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی شہرت یہی ہے کہ یہ سرسبز اور رنگا رنگ نشیب و فراز، خوبصورت پہاڑوں، دلکش راہوں اور دلفریب عمارات سے سجا ایک بڑا ہی پُرکشش اور حسین و جمیل شہر ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس میں کچھ ایسی پُراسرار چیزیں بھی ہیں جو اس کی کشش کو اور بھی بڑھاتی ہیں۔ یہاں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آجاتے ہیں، جن کے بارے میں خیال ہوتا ہے کہ یہ اسلام آباد جیسے بارونق شہر میں پیش نہیں آسکتے، لیکن بہرحال پیش آتے ہیں۔

اسلام آباد میں پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح محلہ جات نہیں پائے جاتے بلکہ یہ شہر سیکٹرز پر مشتمل ہے۔ یہ سیکٹر انگریزی حروف تہجی کے مطابق، یعنی ایلفابیٹکل آرڈر میں مشرق سے مغرب کی طرف بڑھتے ہیں۔

مثلاً F سیکٹر کی لائن ایف 6 سے شروع ہوتی ہے اور ایف 7، ایف 8، ایف 9، ایف 10 اور ایف 11 وغیرہ سے ہوتے ہوئے ایف 17 تک چلی گئی ہے۔ اسی انداز میں G سیکٹرز کی لائن بھی جی 6 سے شروع ہوتی ہے اور جی 16 تک آ پہنچی ہے۔

سیکٹر جی 13
سیکٹر جی 13

دو بائی دو (2x2) مربع کلومیٹر سائز کے یہ سیکٹر 4 حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے نمبر کلاک وائز گھومتے ہیں۔ مثلاً جی 6 کے 4 سب سیکٹرز ہوتے ہیں۔ جی 6 ون (G-6/1)، جی 6 ٹو (G-6/2)، جی 6 تھری (G-6/3) اور جی 6 فور (G-6/4)۔ ہر سیکٹر اسی انداز میں 4 سب سیکٹرز پر مشتمل ہوتا ہے اور ان کے درمیان میں مارکیٹ ایریا ہوتا ہے جسے ’مرکز‘ کہا جاتا ہے۔

سیکٹر جی کی آبادی زیادہ تر متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سیکٹر جی 13 کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے بالکل درمیان سے کراچی سے پشاور جانے والی قدیم مین ریلوے لائن گزرتی ہے۔ اس ریلوے لائن کی وجہ سے ہوا یہ کہ سیکٹر 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ G-13/1 اور G-13/2 ریلوے لائن کے مغربی طرف آگئے اور G-13/3 اور G-13/4 اس کے مشرقی طرف۔ ریلوے لائن کے آر پار ان چاروں حصوں کو آپس میں ملانے کے لیے 3 پُل تعمیر کیے گئے ہیں۔ ایک پُل کشمیر ہائی وے کے ساتھ ہے، دوسرا پُل شمال میں گولڑہ کی سمت میں ہے، جبکہ تیسرا پُل چاروں سب سیکٹر کے مقامِ اتصال پر درمیان میں واقع ہے۔

جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت یہ سیکٹر چونکہ بالکل نیا تھا اور ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا، اس لیے یہاں خاصا ویرانہ ہوتا تھا۔ یہ پُل بھی کچا پکا سا ہوتا تھا اور اس سے گزرنے والی سڑک پر بھی تارکول کی بجائے ریت بچھی ہوتی تھی۔ ریلوے لائن پُل کے نیچے خاصی گہرائی تھی اور اس وقت پُل کے اطراف مکمل ویرانہ اور جنگل سا ہوتا تھا۔ ان دنوں G-13/3 میں میرے کراچی کے ایک دیرینہ دوست عتیق نے اپنا نیا نیا گھر بنایا تھا۔ میں اکثر ان سے ملنے جاتا تھا اور جب بھی جاتا تو اس پُل پر سے گزر ہوتا تھا۔

ایک دن میں اپنے بچوں کو سیکٹر G-14 میں ایک اور عزیز کے ہاں چھوڑ کر G-13 میں عتیق کے گھر گیا۔ سردیوں کا موسم تھا، دن مختصر تھے، اس لیے واپس آتے آتے خاصا اندھیرا ہوگیا تھا۔ میں اپنی گاڑی میں تھا۔ جس وقت وہ پُل قریب آیا اور اس پر میری گاڑی چڑھی تو اس وقت ہیڈ لائٹس روشن تھیں، لہٰذا سامنے سڑک صاف نظر آرہی تھی اور پُل پر بکھری ریت اس روشنی میں زرد نظر آ رہی تھی۔

سیکٹر جی 13 سے گزرنے والا ریلوے ٹریک
سیکٹر جی 13 سے گزرنے والا ریلوے ٹریک

کراچی سے پشاور جانے والی قدیم مین ریلوے لائن
کراچی سے پشاور جانے والی قدیم مین ریلوے لائن

لیکن پھر میں یہ دیکھ کر چونکا کہ گاڑی جیسے جیسے گاڑی پُل پر چڑھتی گئی، ویسے ویسے وہ ریت جو چند لمحے پہلے پیلی نظر آ رہی تھی، وہ سرخ ہوتی چلی گئی۔ میں کچھ گھبرا سا گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ میں سمجھا کہ شاید میری ہیڈ لائٹس کے بلب فیوز ہونے والے ہیں اور فیوز ہونے سے پہلے ان کی روشنی سرخی مائل ہوتی جا رہی ہے اور یہ بس بجھنے ہی والے ہیں۔

اس وقت پُل پر بالکل ویرانہ تھا اور میرے علاوہ دُور دُور تک کوئی اور گاڑی نظر نہیں آرہی تھی۔ میں نے گھبرا کر گاڑی کی رفتار تیز کی تاکہ لائٹس فیوز ہونے سے پہلے پہلے پُل کراس کرجاؤں اور کسی بارونق جگہ پر پہنچ کر لائٹس کو چیک کروں۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیونکہ پُل کے عین اوپر پہنچ کر گاڑی کی ہیڈ لائٹس بند ہوگئیں اور ہر طرف گھپ اندھیرا ہوگیا۔ گاڑی کے اندر بھی اور گاڑی کے باہر بھی۔

اب میں نے گاڑی روک دی لیکن انجن اسٹارٹ رہنے دیا۔ پھر گاڑی سے باہر نکل کر ہیڈ لائٹس کو ہاتھ سے بار بار تھپتھپایا کہ ہوسکتا ہے یہ کسی طرح جل جائیں۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لائٹس بجھی رہیں۔ پھر اندر آکر بھی ہیڈ لائٹس کے بٹن کو بار بار آن آف کرکے دیکھا، لیکن لائٹس بند ہی رہیں۔

ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والا پُل
ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والا پُل

اب مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ہیڈ لائٹس کے بلب فیوز ہوچکے ہیں۔ مجبوراً میں نے گاڑی کی چاروں ایمرجنسی پیلی لائٹیں آن کیں تو وہ انڈیکیٹرز کی طرح جلنے بجھنے لگیں۔ ان جلتی بجھتی لائٹوں کی مدھم روشنی میں، میں آہستہ آہستہ گاڑی چلاتا ہوا سیکٹر G-14 میں اپنے عزیز کے گھر پہنچا۔ وہاں بیٹھنے کی بجائے میں نے اپنے بچوں کو جلدی تیار ہونے کا کہا اور بتایا کہ گاڑی کی ہیڈ لائٹس فیوز ہوچکی ہیں، راستے میں پولیس والے تنگ نہ کریں، اس لیے جلدی گھر چلنا ہے۔ اس لیے بچے بھی جلدی تیار ہوگئے اور میزبان نے بھی رکنے پر اصرار نہ کیا۔

اب جیسے ہی بچے گاڑی میں آکر بیٹھے تو میں نے گاڑی اسٹارٹ کردی اور عادتاً ہیڈ لائٹس کا بٹن آن کردیا۔ لیکن یہ کیا؟ لائٹیں تو فوراً اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہوگئیں، بالکل ایسے جیسے کبھی خراب ہی نہ ہوئی ہوں۔ میں حیران رہ گیا۔ میزبان اور بچے بھی میری طرف عجیب نظروں سے تکنے لگے۔ میں کچھ کھسیانا سا ہوگیا۔ لیکن خیر ہم گھر واپس آ گئے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس بات کو تو اب 2 سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اور وہ ہیڈ لائٹس آج تک دوبارہ کبھی خراب نہیں ہوئیں۔

چند ماہ بعد میرا پھر عتیق کے ہاں G-13 جانے کا اتفاق ہوا، لیکن اس دفعہ میں گاڑی پر نہیں، موٹر سائیکل پر تھا۔ وہاں سے واپسی پر پھر رات ہوگئی۔ میں اپنی بائیک چلاتا ہوا اسی ویران پُل تک آیا۔ جیسے ہی میں نے موٹر سائیکل پُل پر چڑھانا شروع کی تو اچانک نوٹ کیا کہ راستے میں بکھری ریت اچانک پیلے رنگ سے سرخ رنگ میں بدلنا شروع ہوگئی۔ جیسے جیسے موٹر سائیکل پُل کے اوپر کی طرف چڑھتی گئی، ریت بھی سرخ سے سرخ تر ہوتی چلی گئی۔

اب تو میں بڑا گھبرایا اور مجھے فوراً یاد آگیا کہ پچھلی مرتبہ بھی یہاں سے گزرتے ہوئے عین اسی انداز میں ریت نے اپنا رنگ بدل لیا تھا اور پُل کے اوپر لائٹیں بند ہوگئی تھیں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ آج بھی پُل کے اوپر پہنچ کر میری موٹر سائیکل کی لائٹ بند ہوجائے گی۔ یعنی اس پُل پر کوئی ’گڑبڑ‘ ہے۔

خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں نے یکایک ایکسیلیٹر دے کر موٹر سائیکل کی رفتار بڑھا دی تاکہ فوراً پُل کراس کر جاؤں۔ موٹرسائیکل تیزی سے دوڑی اور چند ہی لمحوں میں پُل عبور ہوگیا۔ اگرچہ اس بار ہیڈ لائٹ تو بند نہ ہوئی، البتہ میں ڈر ضرور گیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس پُل پر کوئی مسئلہ ہے، کوئی آسیب ہے کہ جس کی وجہ سے گزرنے والے کو ریت سرخ نظر آنے لگتی ہے۔ اب میں نے یہ یہ طے کرلیا تھا کہ آئندہ کبھی اس پُل سے رات کے وقت نہیں گزروں گا۔

کچھ دن بعد میری ملاقات عتیق سے ہوئی تو میں نے اس پُل کے حوالے سے اپنا واقعہ سنایا اور خیال ظاہر کیا کہ اس جگہ پر ضرور کچھ آسیبی اثرات ہیں، تو وہ ہنسنے لگا اور کہا کہ ’ارے کچھ نہیں بھائی۔ وہم ہے تمہارا۔ ہم تو پتہ نہیں کتنی بار اس پُل پر سے گزرے ہیں، دن میں بھی اور رات میں بھی اور کبھی کبھی تو آدھی آدھی رات کو بھی۔ ہمارے ساتھ تو کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔‘


عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہے۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.