شہرت، دولت اور نوبیل انعام ملنے کے باوجود ملالہ اعلیٰ تعلیم کیوں حاصل کر رہی ہیں؟

شہرت، دولت اور نوبیل انعام ملنے کے باوجود ملالہ اعلیٰ تعلیم کیوں حاصل کر رہی ہیں؟

ملالہ یوسف زئی اس وقت آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفے کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں—فوٹو: ٹوئٹر
ملالہ یوسف زئی اس وقت آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفے کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں—فوٹو: ٹوئٹر

معروف امریکی فیشن میگزین ’ٹین ووگ‘ نے کم عمر ترین نوبیل انعام حاصل کرنے والی پاکستانی سماجی رہنما 22 سالہ ملالہ یوسف زئی کو اپنے میگزین کے سال کے آخری میگزین کے سر ورق کی زینت بناتے ہوئے انہیں سال اور دہائی کا بہترین نوجوان قرار دیا ہے۔

’ٹین ووگ‘ نے 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر دنیا بھر کے متحرک، معروف اور سماجی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے نوجوانوں کے خصوصی انٹرویوز کرنے اور انہیں سر ورق کی زینت بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس سلسلے کا آغاز ملالہ یوسف زئی سے کیا گیا۔

ملالہ یوسف زئی کی تصویر کو سر ورق کی زینت بنائے جانے سمیت انہیں’ سال ‘ اور ’دہائی‘ کا اہم ترین اور دنیا کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے والا نوجوان قرار دیا گیا ہے۔

فیشن میگزین نے جہاں ملالہ یوسف زئی کا خصوصی انٹرویو کیا، وہیں میگزین نے پاکستانی کارکن کی خصوصی تصاویر بھی شائع کیں جو دنیا بھر میں وائرل ہوگئیں۔

’ٹین ووگ‘ کے سر ورق کی زینت بننے کے موقع پر ملالہ یوسف زئی نے میگزین سے بات کرتے ہوئے اپنی ماضی کی زندگی اور جدوجہد سمیت خود کو پیش آنے والی پریشانیوں اور ذہنی مسائل پر بھی کھل کر بات کی اور اعتراف کیا کہ خود پر 2012 میں ہونے والے طالبان کے حملے کے بعد وہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی پریشانی کا بھی شکار ہوئیں۔

ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ جہاں حملے کے وقت انہیں جسمانی تکلیف پہنچیں وہیں بعد میں پروپیگنڈا کے تحت انہیں سوشل میڈیا پر بھی نشانہ بنایا گیا جس سے وہ جسمانی کے بعد ذہنی پریشانی اور مسائل کا بھی شکار ہوگئیں، تاہم وہ اس مسئلے سے جلد نکلنے میں کامیاب ہوگئیں۔

دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ لڑکی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر سے کی جانے والی سپورٹ اور لوگوں کی محبت و خلوص سے انہیں ڈپریشن سے نکلنے میں مدد ملی اور وہ جہاں جسمانی طور پر جلد ٹھیک ہوگئیں، وہیں انہیں ذہنی سکون بھی ملا۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

ملالہ یوسف زئی سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے انتہائی کم عمری میں دنیا بھر میں شہرت حاصل کی اور انہیں دولت بھی ملی اور ساتھ ہی وہ دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ لڑکی بھی ہوگئیں تو انہوں نے آرام سے دولت اور شہرت کا فائدہ اٹھانے کے بجائے ’آکسفورڈ یونیورسٹی‘ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو کیوں ترجیح دی؟ جب کہ وہ اپنی شہرت کو استعمال کرتے ہوئے بھی زندگی گزار سکتی تھیں؟

ملالہ یوسف زئی نے میگزین کے جواب میں کہا کہ ان کی زندگی کا مقصد ہی تعلیم رہا ہے، وہ بچپن سے تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں، ان پر حملہ بھی تعلیم کی وجہ سے کیا گیا اور انہیں لگتا ہے کہ شہرت اور دولت سے زیادہ تعلیم اہم ہے اور وہ اپنے مقصد سے ہٹ نہیں سکتیں۔

خصوصی انٹرویو کے دوران ملالہ یوسف زئی نے مغربی دنیا اور خاص طور پر یورپ میں ’اسلاموفوبیا‘ (اسلام سے نفرت) پر بھی بات کی اور کہا کہ ایسے واقعات اس وجہ سے ہو رہے ہیں کہ کیوں کہ یورپ کے کئی شہروں میں مسلمانوں کی آبادی کم ہے اور وہاں پر رہنے والے اکثر لوگوں کو مسلمانوں سے متعلق درست معلومات نہیں اور وہ غلط فہمی کی بنیاد پر ’اسلام‘ اور ’مسلمانوں‘ سے نفرت کرتے ہیں۔

ملالہ یوسف زئی کے مطابق ’اسلاموفوبیا‘ کو روکنے کے لیے لوگوں کو مسلمانوں کے گھر جاکر ان کی طرز زندگی دیکھنے سمیت ان سے بات کرنی پڑے گی اور انہیں یہ جاننا ہوگا کہ ’اسلام‘ اور ’مسلمان‘ کیا ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلموں کے ذریعے بھی مسلمانوں اور اقلیتوں کو منفی طور پر دکھایا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔

ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ’اسلام‘ سمیت دنیا کے دیگر مذاہب انسانوں کو خود مختاری اور یکساں حقوق فراہم کرنے کی بات کرتے ہیں، مذاہب میں صنفی تفریق نہیں ہے، اس لیے مذہبی رہنماؤں کو خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو روکنے کے لیے آگے آنا پڑے گا۔

ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ گزشتہ چند سال سے دنیا بھر میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب دنیا کے ہر بڑے ادارے یا کانفرنس میں نہ صرف نوجوان ہوتے ہیں بلکہ ان میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، ایک دہائی قبل تک ایسا ادارے بھی تھے جن کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں ایک بھی خاتون نہیں ہوتی تھیں۔

نوبیل انعام یافتہ کارکن کے مطابق دنیا میں گزشتہ چند سال سے اب نوجوانوں کو نہ صرف سنا جانے لگا ہے بلکہ نوجوان دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں اور اگلی دہائی نوجوانوں کی دہائی ہوگی۔

لڑکیوں کے حوالے سے کام کرنے والی ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اگر دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کو مواقع دیے جائیں تو وہ دنیا کی معیشت میں 30 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کر سکتی ہیں اور وہ ماحولیاتی بہتری میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔