اس سال کرکٹ شائقین محدود اوورز کے عالمی مقابلوں کی بہار دیکھنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ایک طرف آسٹریلیا کے میدانوں میں مردوں اور خواتین کی ٹیمیں ٹی20 کے عالمی خطاب کے لیے ایک دوسرے کے مدِمقابل ہوں گی تو دوسری طرف نوجوان مرد کھلاڑی جنوبی افریقہ میں اگلے 3 ہفتے تک جاری رہنے والے 50 اوورز کے مقابلوں میں انڈر 19 کا عالمی اعزاز پانے کی خاطر ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

رینبو نیشن پکارا جانے والا جنوبی افریقہ 22 سالوں بعد ایک بار پھر انڈر 19 ورلڈ کپ کے مقابلوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ انڈر 19 مقابلوں کا یہ 13واں ایڈیشن ہے جبکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی چھتری تلے منعقد ہونے والا 12واں ایڈیشن ہے۔ آئی سی سی ہر 2 برس بعد ان مقابلوں کا انعقاد کرواتا ہے۔

قومی ٹیم اور انڈر 19 ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد انڈر 19 ٹیم کے کھلاڑیوں سے بات کررہے ہیں—تصویر بشکریہ پی سی بی
قومی ٹیم اور انڈر 19 ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد انڈر 19 ٹیم کے کھلاڑیوں سے بات کررہے ہیں—تصویر بشکریہ پی سی بی

پہلی مرتبہ یہ عالمی مقابلے 1988ء میں اس وقت کھیلے گئے جب آسٹریلیا نے اپنے قومی دن کی 200ویں سالگرہ کے موقعے پر Bicentennial Youth World Cup کا انعقاد کیا، جس میں اس وقت کی 7 ٹیسٹ ٹیموں کے ساتھ ساتھ آئی سی سی ایسوسی ایٹس نے بھی حصہ لیا تھا۔ اس کے بعد سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے کیریئر کا عروج حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ مگر سارے لیجنڈ کھلاڑیوں نے اس درجے کی کرکٹ نہیں کھیلی اس لیے ہم سب کو اس فہرست میں شامل نہیں کرسکتے۔

آپ شاید اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دیں لیکن پاکستان کے وقار یونس اور بھارت کے سچن ٹنڈولکر کے ناموں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دونوں وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے انڈر 19 ورلڈ کپ کھیلے بغیر نومبر 1989ء میں کراچی کے میدان پر اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کیا۔

ایک طرف وقار یونس محض 18 سال کی عمر میں ایسے فاسٹ باؤلر کے طور پر سامنے آئے جن کا سامنا کرنے سے دنیا کے کئی بلے باز ڈرتے تھے۔ دوسری طرف ٹنڈولکر بھی صرف 16 برس کی عمر میں غیر معمولی صلاحیتوں سے مالامال بلے باز کی حیثیت میں دنیائے کرکٹ میں ابھرے اور آگے چل کر ٹیسٹ اور ایک روزہ فارمیٹس میں عمدہ صلاحیتوں کے ساتھ خود کو دنیا کی کارگر رنز مشین ثابت کیا۔

پھر چونکہ پہلے انڈر 19 ورلڈ کپ کے بعد دوسرے ورلڈ کپ کے درمیان 10 سالہ طویل وقفہ آگیا تھا اس وجہ سے دنیا کے دیگر کئی نامور کھلاڑیوں کو بھی اس عالمی فورم پر کھیلنے کا موقع میسر نہیں آیا۔

کھلاڑیوں کی اس کھیپ میں جیکس کیلس، رکی پونٹنگ، یونس خان، متھیا مرلی دھرن، راہول ڈریوڈ، شین واٹسن، محمد یوسف، جونٹی رہوڈز، گلین مک گیراتھ، انیل کومبلے، معین خان، شعیب اختر، کمار سنگاکارا، شان پولک، مہیلا جے وردنے، اسٹیفن فلیمنگ، شِو نارائن چندرپال، جیمز اینڈرسن اور چمندا واس کے نام نمایاں ہیں۔

حیرت انگیز طور پر انگلینڈ اور پاکستان اب تک انڈر 19 ورلڈ کپ کی میزبانی سے محروم رہے ہیں، جبکہ ویسٹ انڈیز 2022ء میں پہلی مرتبہ انڈر 19 عالمی مقابلوں کی میزبانی کرے گا۔ اس سے پہلے کن ٹیموں نے کب کب اس عالمی میلے کی میزبانی کی، آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔

  • آسٹریلیا (1988ء اور 2012ء)،
  • جنوبی افریقہ (1998ء اور 2020ء)،
  • سری لنکا (2000ء اور 2006ء)،
  • نیوزی لینڈ (2002ء، 2010ء اور 2018ء)،
  • بنگلہ دیش (2004ء اور 2016ء)،
  • حتٰی کہ ملائشیا بھی (2008ء) اور متحدہ عرب امارات (2014ء) میں ان مقابلوں کی میزبانی کرچکے ہیں۔

سینئر عالمی کپ کے برعکس نوجوانوں کے ان مقابلوں میں شرکا کی زیادہ تعداد اور رنگا رنگی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ ان مقابلوں میں ان ملکوں کو بھی اپنی نمائندگی کا موقع ملتا ہے جہاں کرکٹ کا مناسب سیٹ اپ تو موجود نہیں ہوتا ہے لیکن وہاں کے نوجوان کھلاڑی عالمی تنظیم کے علاقائی کوالیفائنگ مراحل آسانی سے عبور کرکے مقابلوں میں حصہ لینے کے اہل ہوجاتے ہیں۔

مثلاً ماضی میں ڈینمارک (1998)، یوگانڈا (2004 اور 2006)، فجی (2016) اور ملائشیا (2008) کی ٹیمیں ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرچکی ہیں۔ اس بار ان مقابلوں میں پہلی بار عالمی سطح پر جاپان اور نائجیریا کی ٹیمیں کرکٹ کے میدانوں میں اتریں گی۔ یہ دونوں ممالک کرکٹ سے زیادہ دیگر کھیلوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان ملکوں کی نمائندگی کی شمولیت سے انڈر 19 ورلڈ کپ مقابلوں میں حصہ لینے والی ٹیموں کی تعداد 31 ہوگئی ہے۔

انڈر 19 ورلڈ کپ کے مقابلے بھی سیکیورٹی خدشات سے جڑے مسائل سے مستثنٰی نہیں رہے ہیں، کیونکہ 2016ء میں آسٹریلیا نے اپنے کھلاڑیوں کی حفاظت سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اب تک آسٹریلیا اور بھارت 3، 3 فتوحات کے ساتھ سب سے زیادہ مرتبہ انڈر 19 کا عالمی خطاب جیتنے والے ممالک ہیں، جبکہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے پہلے خالد لطیف اور پھر سرفراز احمد کی قیادت میں لگاتار 2 مرتبہ عالمی اعزاز اپنے نام کیا ہے۔

سرفراز احمد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ واحد ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنی قیادت میں ملک کو 2 عالمی خطابات جتوائے، انہی کی زیرِ قیادت پاکستانی ٹیم نے 2006ء میں انڈر 19 ورلڈ کپ جیتا اور پھر 2017ء میں آئی سی سی چیمپئنز شپ ٹرافی میں فتح حاصل کی۔

انڈر 19 ورلڈ کپ سے کچھ انوکھے پہلو بھی جڑے ہوئے ہیں کیونکہ ان مقابلوں میں کچھ ایسے کھلاڑیوں نے بھی حصہ لیا جو پیدا تو کسی اور ملک میں ہوئے، مگر آگے جاکر انہوں نے کرکٹ کسی اور ملک کے لیے کھیلی۔ ان کھلاڑیوں میں نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والے انگلینڈ کے اسٹار پیس مین انڈریو کیڈک اور جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے گرانٹ ایلیٹ، کریگ کیسویٹر اور جوناتھن ٹراٹ کے نام نمایاں ہیں۔

حال ہی میں ریٹائرمنٹ لینے والے پاکستانی نژاد جنوبی افریقی اسپنر عمران طاہر نے ابتدائی طور پر پاکستان کے لیے انڈر 19 ٹیم میں نمائندگی کرنے اور پاکستانی ڈومیسٹک ٹورنامنٹس میں کھیلنے کے بعد جب یہ محسوس کیا کہ انہیں اپنے آبائی ملک میں ٹاپ لیول تک رسائی کا موقع نہیں ملے گا تو انہوں نے اس ملک کی نمائندگی کا فیصلہ جہاں انہوں نے سکونت اختیار کی تھی۔

انڈر 19 ورلڈ کپ میں جیت کے حوالے سے عام طور پر پیش گوئی کرنا عقل والی بات نہیں سمجھی جاتی کیونکہ مدِمقابل آنے والی ٹیموں کو ناقابلِ اعتبار معلوماتی ذرائع کے ساتھ ریٹنگ دی جاتی ہے۔ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے تقریباً تمام ہی ٹیمیں ’فیورٹ‘ قرار دی جاتی ہیں۔

تاہم کچھ عرصے سے بھارت انڈر 19 کرکٹ میں پاور ہاؤس کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے، جس کا اندازہ گزشتہ 6 ٹورنامنٹس کے دوران ان کی 3 فتوحات سے لگایا جاسکتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان عالمی خطاب حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے لیکن ٹین ایج پیس کے لیے شہرت رکھنے والے نسیم شاہ کو بظاہر ہر معیار پر اترنے کے باوجود ’جبری طور پر‘ ٹیم سے غیر حاضر رکھنے کی وجہ سے جیت کے امکانات کو تھوڑی ٹھیس پہنچی ہے۔ نسیم شاہ کو سینئر ٹیم کے کوچ مصباح الحق اور باؤلنگ کوچ وقار یونس کی سفارش پر ٹیم سے نکالا گیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار نوجوانوں کی نرسری پاکستان کرکٹ کو کن سپر اسٹارز کا تحفہ دیتی ہے۔

ماضی میں انضمام الحق، مشتاق احمد، شعیب ملک، بازد خان، محمد عامر، عبدالرزاق، دانش کنیریا، عمران فرحت، اظہر علی، بابر اعظم، سلمان بٹ، امام الحق اور شاداب خان جیسے کھلاڑی اسی نرسری سے سینئر ٹیم کا حصہ بنے تھے۔

اگر دیگر ٹیموں کے کھلاڑیوں کا ذکر کریں تو برائن لارا، مائیکل اتھرٹن، ناصر حسین، سنتھ جے سوریا، گریم اسمتھ، کرس گیل، مارلن سیمؤلز، ڈیرن سیمی، سینئر ورلڈ کپ فاتحین کپتان ایؤن مورگن اور مائیکل کلارک، لستھ مالنگا، کرس کرینز، ہاشم آملہ، اسٹیو اسمتھ، مچل جانسن، شین واٹسن، ہربھجن سنگھ، وریندر سہواگ، یووراج سنگھ، السٹر کوک، برینڈن میکلم، گریم سوان، راس ٹیلر، ویرات کوہلی، جو روٹ، کین ولیمسن اور ٹرینٹ بولٹ جیسے نام شامل ہیں۔

اس بار انڈر 19 ورلڈ کپ کے ٹورنامنٹ میں ایک دوسرے کے مدِمقابل ٹیموں کو مندرجہ ذیل باصلاحیت کھلاڑیوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے:

  • قومی ٹیم کے کپتان روحیل نذیر
  • بھارتی ٹیم کے کپتان پریم گارگ
  • حیدر علی (پاکستان)
  • قاسم اکرم (پاکستان)، جو دنیا کا بہترین بلے بزا بننے کا عزم رکھتے ہیں۔
  • ابراہیم زردان (افغانستان)
  • اکبر علی (بنگلہ دیش)
  • توحید ہردے (بنگلہ دیش)
  • جیک فریسر مک گرک (آسٹریلیا)
  • میکنزی ہاروے (آسٹریلیا)
  • لیام اسکاٹ (آسٹریلیا)
  • بین چارلس ورتھ (انگلینڈ)
  • حمید اللہ قادری (انگلینڈ)
  • گیرالڈ کوئٹزی (جنوبی افریقہ)

یہ مضمون ڈان اخبار کے میگزین ایؤس میں 12 جنوری 2020ء کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں