کورونا وائرس کتنا خطرناک ہے؟

دنیا بھر میں ابھی آسٹریلیا کی خوفناک آگ کا شور ہی نہیں تھما تھا کہ چین سے کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کی خبریں آنے لگیں۔

فی الوقت اس وائرس سے چین کے صوبے ہوبی کے شہری علاقے ووہان میں 26 سے زائد اموات ہوچکی ہیں جہاں جنوری کے آغاز میں اس وائرس سے متاثرہ پہلا کیس سامنے آیا تھا۔

واضح رہے کہ ووہان کی آبادی 11 اعشاریہ 8 ملین سے زائد اور ہوبی صوبے کا شمار آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے صوبے میں ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے تیزی سے ساتھ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چین کی حکومت کو سفر سے متعلق پابندیاں لگانا پڑیں اور چین کے 10 شہروں میں مقیم تقریباً 20 ملین افراد ان سفری پابندیوں کی زد میں آتے ہیں۔ سفر پر فوری طور پر پابندی اس لیے لگائی گئی کہ محض 2 روز میں چین کے شمال مشرقی اور جنوبی صوبوں میں کورونا سے متاثرہ نئے کیسز سامنے آنے کے علاوہ ان صوبوں میں اس سے 2 اموات بھی ہوئیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے شبے میں چینی شخص ملتان کے نشتر ہسپتال منتقل

ہیلونگ جینگ نامی چین کا شمال مشرقی یہ صوبہ ووہان سے تقریباً 2 ہزار کلومیٹر دور روس کی سرحد کے قریب واقع ہے جس سے اندازہ ہوا کے سفر کے باعث یہ وائرس تیزی سے دور دراز علاقوں میں پھیل رہا ہے اور زیادہ اموات کا خدشہ ہے۔ لہذا فی الوقت چین کے 10 شہروں میں ٹرانسپورٹ بالکل بند ہے یہاں تک کے ایئر پورٹ تک حفاظتی تدابیر کے پیشِ نظر بند کر دیئے گئے ہیں۔

جمعرات تک اس وائرس سے متاثرہ 830 کیسز سامنے آچکے تھے۔ چین میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے نمائندے کے مطابق اتنی زیادہ آبادی والے شہروں میں کسی وبا کو کنٹرول کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اگرچہ چین کی حکومت اس کی روک تھام کے لیے پورا زور لگا رہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ وائرس پہلے ہی بے قابو ہوچکا تھا۔

کورونا وائرس کیا ہے؟

کورونا وائرس ایک عام وائرس ہے جو عموماً میملز(وہ جاندار جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں) پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے۔ عموماً گائے، خنزیر اور پرندوں میں نظام انہضام کو متاثر کر کے ڈائیریا یا سانس لینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

جبکہ انسانوں میں اس سے صرف نظام تنفس ہی متاثر ہوتا ہے۔ سانس لینے میں تکلیف اور گلے میں شدید سوزش یا خارش کی شکایت ہوتی ہے مگر اس وائرس کی زیادہ تر اقسام مہلک نہیں ہوتیں اور ایشیائی و یورپی ممالک میں تقریباً ہر شہری زندگی میں ایک دفعہ اس وائرس کا شکار ضرور ہوتا ہے۔

فوٹو: شٹراسٹاک
فوٹو: شٹراسٹاک

لفظ کورونا دراصل مصری زبان سے لیا گیا ہے جس کے معنی سر کا تاج یا ہالہ ہیں۔ اس وائرس کا مشاہدہ صرف الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے ہی کیا جاسکتا ہے جس میں وائرس کی شکل سولر کورونا (سورج کے گرد لاکھوں میل پر مشتمل علاقہ جہاں پلازمہ ہر جانب پھیلا ہوا ہے) کی طرح ہے اس باعث اس وائرس کو کورونا کا نام دیا گیا۔

کورونا وائرس کی زیادہ تر اقسام زیادہ مہلک نہیں ہوتیں اگرچہ اس کے علاج کے لیے کوئی مخصوص ویکسین یا ڈرگ دستیاب نہیں ہے مگر اس سے اموات کی شرح اب تک بہت کم تھی اور مناسب حفاظتی تدابیر کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جان لیوا وائرس کے خوف سے چینی فلموں کی آن لائن ریلیز

مگر سال 2020 کے اوائل میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین میں اس وائرس کی ایک نئی مہلک قسم دریافت کی جسے نوول کورونا وائرس یا این کوو کا نام دیا گیا۔

دو ہفتوں میں اس مرض کا شکار ہونے والے مریضوں کی تعداد 300 ہوچکی تھی پھر بھی اموات کی تعداد 10 سے کم تھی مگر گزشتہ ہفتے نہ صرف اس پھیلاؤ میں شدت آئی بلکہ اموات بھی زیادہ ہونے لگیں۔ اگرچہ دنیا بھر میں ائیر پورٹس پر اسکریننگ کا مکمل انتظام ہے اس کے باوجود چین سے یہ وائرس امریکا تک بذریعہ سفر منتقل ہوا۔

کورونا وائرس کس طرح پھیلتا ہے؟

عام طور پر یہ وائرس اس سے متاثرہ شخص کے ساتھ ہاتھ ملانے یا اسے چھونے، جسم کے ساتھ مس ہونے سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ علاقے جہاں یہ وبا پھوٹی ہوئی ہو وہاں رہائشی علاقوں میں در و دیوار، فرش یا فرنیچر وغیرہ کو چھونے سے بھی وائرس کی منتقلی کے امکانات ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ چین کو اس وقت دہری پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ ووہان اور ہوبی گنجان ترین آبادی والے علاقے ہیں اور اتنی بڑی تعداد کو کسی اور جگہ منتقل کرنا ممکن نہیں بلکہ اس سے مرض اور پھیل جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

فوٹو: شٹراسٹاک
فوٹو: شٹراسٹاک

یہ وائرس اس سے پہلے امریکا، سعودی عرب، تائیوان، کوریا، جاپان اور تھائی لینڈ میں بھی پھیل چکا ہے مگر وہاں کسی بھی علاقے میں صورتحال اتنی سنگین نہیں ہوئی تھی جتنی چین میں ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین میں یہ وبا ایسے وقت پھوٹی جبکہ چاند کے کیلنڈر کی ابتدا ہو رہی تھی اور چینی عقائد کے مطابق ان کے لیے یہ سال کا ایک اہم ترین وقت ہوتا ہے جب دوسرے شہروں میں رہائش پذیر یا ملازمت کے لیے جانے والے افراد بڑی تعداد میں اپنے آبائی شہروں کی طرف سفر کرتے ہیں۔ لہذا خدشہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں اس کے پھیلاؤ میں مزید شدت آسکتی ہے۔

صورتحال سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے؟

انسان نے ترقی کی اندھا دھند تقلید اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانے کے چکر میں نا صرف سیارۂ زمین بلکہ اپنی زندگیوں کو بھی کچھ ایسے روگ لگا لیے ہیں جو ہر آتے دن کے ساتھ کسی نئے المیے، ڈیزاسٹر یا تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔

انہی میں سے ایک شہری علاقوں کا پھیلاؤ اور تیزی سے بڑھتی بلکہ ہمارے کنٹرول سے باہر ہوتی ان کی آبادی ہے۔ چین ہو یا بھارت یا کوئی اور زیادہ آبادی والا ایشیائی ملک یہاں شہروں کی آباد کاری کے وقت کسی وبا یا قدرتی آفت سے بچاؤ کے لیے شاذو نادر ہی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اسی باعث چین کو اس وقت سنگین صورتحال کا سامنا ہے کہ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے میں پھوٹنے والی وبا اب دوسرے صوبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور کسی کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے کہ شہر میں آمدورفت کو معطل کر دینے یا کچھ دن کے لیے زندگی مفلوج کر دینے سے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے گا؟

فوٹو: شٹراسٹاک
فوٹو: شٹراسٹاک

دنیا بھر سے ماہرین اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور سائنسدانوں کے مطابق ہر ایک متاثرہ شخص سے 1 سے 4 یا زیادہ گنجان آباد علاقوں میں 2 سے 5 افراد میں وائرس پھیلنے کا خدشہ ہے لیکن یہ بھی محض اندازے ہی ہیں جن کے بارے میں حتمی طور پر تب ہی کچھ کہا جاسکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ کون کس وقت اور کس علاقے میں اس وائرس کا شکار ہوا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: چین کے دیگر شہروں میں بھی ٹرانسپورٹ معطل، مندر بند

لیکن یہ امر خوش آئند ہے کہ اب تک سامنے آنے والے کیسز میں صرف 25 فیصد ہی سیریس کیسز تھے۔ ماہرین کے خیال میں وائرس کے پھیلاؤ کو صرف اور صرف شہروں میں آمدورفت یہاں تک کہ روڈ بلاک کر کے ہی روکا جا سکتا ہے۔

اگرچہ یہ بالکل کسی سائنس فکشن فلم کی طرح لگتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں کی آبادی پر مشتمل پورے شہر بلاک کر دئیے جائیں اور لوگ اپنے گھروں میں مقید ہوکر رہ جائیں مگر در حقیقت چین کے علاقوں ووہان اور ہوبی میں کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔

چین کی حکومت پر امید ہے کہ اس طرح وہ وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔