irfan.husain@gmail.com
[email protected]

میں کورونا وائرس کا تذکرہ سن سن کر اس قدر بیزار ہوچکا ہوں کہ اب دل کرتا ہے کہ موسمِ سرما میں ریچھ کو آنے والی طویل نیند مجھے بھی نصیب ہوجائے اور میں اس وقت تک نیند سے نہ جاگوں جب تک یہ نامعقول وائرس دفع نہیں ہوجاتا۔

چاہے کوئی اخبار پڑھ لیں، کوئی نیوز چینل دیکھ لیں، ہر جگہ بس اسی وبا سے متعلق خبریں پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہر گفتگو کا آغاز اسی موضوع سے ہوتا ہے اور انجام بھی اسی پر ہوتا ہے، اور میرا واٹس ایپ اور ای میل ان باکس تو اس وائرس سے متعلق ہدایات اور خبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ جائیں تو جائیں کہاں؟

میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مہلک بیماری ہے خاص طور پر میری عمر کے افراد کے لیے، لیکن میں یہ بھی سوچتا ہوں پوری زندگی اس وائرس کی پَل پَل خبر رکھنے سے بہتر ہے کہ اس انفیکشن کا خطرہ اٹھا لیا جائے۔ یقیناً یہ ایک ایسی تباہی ہے جس نے عالمی معیشت کو داؤ پر لگا دیا ہے، لیکن ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جہاں آپ کو وائرس کے علاوہ دیگر چیزوں پر سوچنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

صورتحال کچھ ایسی ہوچکی ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ سے زیادہ اس سے متعلق اور اس کے ممکنہ علاج کے بارے میں سازشی نظریات پھیلتے جا رہے ہیں۔ ایک دن ہمیں کہا جاتا ہے کہ چہرے پر ماسک لگانا فضول ہے لیکن اگلے ہی دن نیویارک ٹائمز یہ اطلاع دیتا ہے کہ ماسک کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہی ہیں۔

ہمیں مسلسل اپنے ہاتھ کم از کم 20 سیکنڈوں تک دھونے کے لیے کہا جاتا ہے لیکن کوئی بھی یہ نہیں بتاتا کہ دنیا میں اربوں کی تعداد میں موجود غریبوں تک صابن اور صاف پانی کی سہولت کس طرح پہنچائی جائے گی؟ پھر کچھ ایسے ناگوار مناظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں جن میں لوگ سینیٹائزر اور ٹشو رول کے حصول کی خاطر جگھڑ رہے ہیں۔

سپر مارکیٹوں کے شیلف خالی ہوچکے ہیں۔ اس مارا ماری سے متعلق میری پسندیدہ خبر ان 2 امریکی بھائیوں پر مبنی ہے جنہوں نے 17 ہزار 700 ہینڈ سینیٹائزر کی بوتلوں کا پہاڑ کھڑا کردیا لیکن انہیں کوئی گاہک نہیں مل رہا ہے۔ اچھا سبق ملا ان 2 نوجوان لالچی بدبختوں کو۔

کورونا وائرس کو نظر انداز کرنا اور اس کے چلے جانے کی خواہش کرنا میرے لیے بڑا ہی آسان ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے بھی فوائد ہیں۔ مگر قلیل تنخواہوں والی ملازمتوں اور چھوٹے بڑے کاروبار پر منحصر نوجوانوں کو روزانہ اپنے اپنے کام کی جگہوں پر جانا ہوتا ہے۔ جب لوگ روزگار سے محروم ہوجاتے ہیں تو ان کی قوتِ خرید محدود ہوجاتی ہے یوں معاشی نظام میں طلب محدود یا پھر بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ ان ناخوشگوار نتائج کا خطرہ ہمارے سروں پر اب منڈلانے لگا ہے۔

میں کچھ ہی وقت میں سری لنکا سے انگلینڈ کی پرواز پکڑوں گا اور میڈیا کے مطابق 70 برس سے زائد عمر کے افراد کو 4 ماہ خود ساختہ تنہائی میں گزارنے پڑسکتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ کسی خواب کے پورا ہونے سے کم نہیں کیونکہ بہت سی کتابیں ایک مدت سے میری توجہ کا انتظار کر رہی ہیں، خاص طور پر میں ولیم ڈالرمپل کی کتاب 'دی انارکی' ضرور پڑھنا چاہوں گا جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ میں نے ابھی تک اسے پڑھنا شروع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ بھاری بھرکم مجلد کتاب بستر میں تو مجھ سے نہیں پڑھی جاسکتی ہے۔

اس کے بعد صلاح الدین ایوبی کی سوانح اور ہزاروں سال پہلے صلیبی حملہ آوروں کو شکست دینے میں ان کے کردار پر مبنی کتاب بھی پڑھنا چاہتا ہوں، اور سب سے زیادہ آزمائش میں ڈالنے والی 'زوربا دی گریک' کے مصنف اور دی اوڈیسی کا سیکؤل لکھنے والے نکوس کزنتزاکس کی ضخیم کتاب بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ میں نے یہ کتاب بارکلے گزشتہ برس 2 ڈالر میں اس وقت خریدی تھی جب میں اپنے بیٹے کے ہاں آیا ہوا تھا، سو اس کتاب کو بھی کھنگالنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

چونکہ سارے ریسٹورینٹ بند پڑے ہیں اس لیے میرے خیال میں مجھے پہلے سے زیادہ کھانا بنانا ہوگا لیکن میرے لیے یہ بالکل بھی مشکل بات نہیں۔ میرے پاس کھانے کی ترکیبوں والی بہت سی کتب موجود ہیں جن سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے البتہ تازہ اجزائے ترکیبی آن لائن منگوانا ہوں گے۔ اس کے علاوہ جسمانی وضح قطع کو برقرار رکھنے کے لیے وزرش کی چند مشینیں بھی ہیں۔

یہ ارادے تو سارے نیک ہیں لیکن پتا نہیں کتنوں کو عملی جامہ پہنایا جاسکے گا۔ اب تو نیٹ فلکس بھی ہماری زندگی میں داخل ہوگیا ہے جو ہر وقت کسی نہ کسی فلم پر کلک کرنے اور آرام سے بیٹھ کر دیکھنے کی دعوت دے رہا ہوتا ہے۔ اب تک میں اسٹوڈیو گھبلی کی جادوئی اینائم فلموں کو ایک کے بعد ایک بنا رکے دیکھ چکا ہوں۔ ان فلموں کی کمال اینیمیشن اور اصلی کہانیانیوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ میں پرنسز مونونوک اور اسپریٹڈ اوے کو تو ضرور تجویز کرنا چاہوں گا۔ ایک ٹی وی سیریز جو میں نے بیٹے کی تجویز پر دیکھی وہ اوٹومان تھی۔ یہ سلطنتِ عثمانیہ کے عروج کی ایک بڑی ہی تحقیق شدہ کہانی پر مبنی سیریز ہے۔

کورونا وائرس بہت سی سماجی تقاریب کی منسوخی کی وجہ بھی بنا ہے۔ جن تقاریب کا براہِ راست مجھ سے تعلق ہے ان کی منسوخی پر اگرچہ ناخوش ہوں لیکن پوری طرح سے مایوس نہیں ہوں۔ انگلینڈ میں قیام کے دوران مجھے ان تقاریب میں شرکت کے لیے اکثر زور دیا جاتا ہے لیکن سچ کہوں تو مجھے گھر پر ہی زیادہ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔ مجھ پر اینٹی سوشل (غیر سماجی کردار) کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور یقیناً میری اہلیہ کا یہ الزام ٹھیک بھی ہے۔ مگر کپڑے زیب تن کرنا اور اجنبیوں سے شائستہ گفتگو کرنے کا دباؤ مجھے بالکل بھی پسند نہیں۔

ایک طرف وائرس سے بچنے کے لیے جہاں دنیا جدوجہد کر رہی ہے وہیں دوسری طرف ہم پاکستان میں اپنا لائحہ عمل طے کرچکے ہیں: ایک طرف سینیٹ چیئرمین نے خدا سے مدد مانگی ہے تو دوسری طرف وزیرِاعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ان کے صوبے میں مساجد کھلی رہیں گی تاکہ ایمان والے زیادہ قریب سے الہٰی مداخلت کی دعا مانگ سکیں۔

ایران میں جب حکام نے مشد اور قم میں واقع مقدس مقامات میں زائرین کے داخلے پر بندش لگائی تو عقیدت مند جبراً ان مقامات کی حدود میں داخل ہوگئے اور رسومات کی ادائیگی کے لیے اصرار کیا۔ دیگر مسلمان ملکوں میں حکام نے زیادہ سمجھداری اور عبادت گزاروں نے زیادہ نظم و ضبظ کا مظاہرہ کیا۔ ظاہر ہے بھئی پاکستانی اور ایرانی خود کو اردنیوں اور سعودیوں سے بہتر مسلمان جو سمجھتے ہیں۔


یہ مضمون 21 مارچ 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

waheed Mar 23, 2020 06:22am
Ap 4 mah tu kia 4 saal bhi quarantine main reh saktay hain kion k ap ghar bethy hy kaam kar sakty hain. Kabi dosaron ka bhi soch lia karain.