!کمبخت کہاں مر گئی
سچ کہوں تو مجھے جب یہ خبر ملی کہ کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن پر ایک اور خودکش حملے کے لیے آنے والا ایک حملہ آور حملے سے پہلے ہی علاقے کی حفاظت کے لیے پہرے پر موجود ہ ہزارہ جوانوں کی گولی کا نشانہ بن گیا تو مجھے خوشی ہوئی لیکن خوشی کے اس احساس کو فکر میں ڈھلتے زیادہ دیر نہیں لگی۔
میں ایک لمحے خوش تھا تو دوسرے ہی پل ان گنت سوال کسی پھٹتے ہوئے بم سے نکلتے ہوئے بال بیرنگز کی طرح میرے ذہن سے ٹکرا ٹکرا کر اس میں دھنس رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ ابھی میں اپنے سر پر ہاتھ پھیروں گا تو میری کھوپڑی دھماکے کی جگہ کے سامنے کسی بند دکان کے شٹر کی طرح کہیں کہیں سے پچکی ہوئی ہوگی اور شاید اس میں ایک دو چھوٹے چھوٹے سوراخ بھی ہوں۔
پہلا بال بیرنگ جو میرے ذہن میں گھسا یہ تھا کہ جس لڑکے نے یہ گولی چلائی ہوگی اس کا ہاتھ کتنی بار کانپا ہوگا تو دوسرا یہ کہ اگر اس مرنے والے کے بدن پر خودکش جیکٹ نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔
ایک کیل سی یہ بھی چبھی کہ یہ حملہ آور جسے ان لڑکوں نے بغیر کسی میٹل ڈیٹیکٹر کے پہچان لیا، راستے میں آنے والی ایف سی کی چیک پوسٹیں کیسے پار کر آیا؟ لیکن بم کا وہ ٹکڑا جس نے سب کچھ تہس نہس کر دیا بہت عجیب تھا۔ یہ عجیب سوال ان تصویروں کو دیکھ کے پیدا ہوا جن میں اس حملہ آور کو گولی کا نشانہ بننے کے بعد زمین پر پڑا دکھایا گیا تھا۔
تصویر کا کیپشن بتا رہا تھا کہ حملے کے لیے آنے والا لڑکا اکیلا تھا لیکن مجھے تصویروں میں دو لاشیں نظر آرہی تھیں۔ میں نے ان تصویروں کو آنکھیں مل مل کے کئی بار دیکھا وہاں دو ہی لاشیں تھیں۔
دوسری لاش جو حملہ آور کے ساتھ ہی پڑی تھی مجھے بہت صاف نظر آ رہی تھی۔ پھر کیپشن کیوں غلط تھا۔ پہلے میں نے سوچا کہ کسی اور کو تصویر دکھا کر پوچھوں کہ واقعی یہاں حملہ آور کے علاوہ دوسری لاش بھی ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ میں لاشیں گنتے گنتے گنتی بھول گیا ہوں یا مرنے والوں کی تصویریں دیکھتے دیکھتے میری نظر دھندلا گئی ہو۔ لیکن پھر دل نے کہا کہ یوں سامنے دھری لاش کا پوچھوگے تو لوگ مذاق اڑائیں گے۔
یہ دوسری لاش کچھ عجیب سی تھی، حملہ آور کی تازہ لاش کے برعکس کافی پرانی۔ اسے تھوڑا غور سے دیکھا تو مجھے لگا کے بہت خستہ حال اور بوسیدہ ہونے کے باوجود یہ لاش کافی جانی پہچانی ہے۔
یہ لاش یہاں کہاں سے آ گئی۔ میں نے پہلے بھی اسے اسی حال میں ایسی کئی تصویروں میں دیکھ رکھا ہے۔ کبھی کسی دھماکے کی جکہ سے سب لاشیں اٹھائے جانے کے بعد کھینچی جانے والی تصویروں میں یہ وہیں پڑی نظر آتی ہے اور کبھی حملے کے بعد ہسپتال لائی جانے والی لاشوں کی تصویر میں یہ ان لاشوں کے بیچ دبی ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن یہ ہوتی ہمیشہ اسی حال میں ہے۔ اتنی ہی کٹی پھٹی ایسی ہی بوسیدہ اور خستہ حال۔
تصویروں میں ایف سی والے حملہ آور کی لاش کے گرد جمع تھے لیکن اس لاش کی طرف کسی کی توجہ تھی نہ اسےکوئی دیکھ رہا تھا۔ خدا جانے کیوں۔
میں حیران تھا کہ حملہ آور کی لاش تو چلو نئی ہے لیکن یہ ساتھ پڑی لاش تو ہمیشہ کی طرح اتنی ہی بوسیدہ اور گلی سڑی لگ رہی ہے لیکن ان لاشوں کو اٹھانے والوں میں سے کسی نے نہ تو ناک پہ رومال رکھا تھا اور نہ کسی کے چہرے پہ ناگواری کے کوئی آثار تھے۔
میں نے قبروں سے پوسٹمارٹم کے لیے لاشیں نکالنے والے پولیس والوں کی کئی تصویریں اور ویڈیو دیکھی ہیں وہ تباہ حال لاش سے آنکھیں چرا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس لاش کے پاس موجود لوگوں کے چہروں پر ایسا کچھ نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انہیں اس لاش کے وجود کا احساس ہی نہیں ہے۔ لیکن اتنی پرانی لاش سے اٹھتا تعفن کوئی کیسے نظر اندازکر سکتا ہے؟
وہ لاش برہنہ تھی، سر سے پاؤں تک ننگی۔ خدا جانے اسے کسی نے کوئی کپڑا اڑھانے کی کوشش کیوں نہیں کی زندہ انسانوں کی بات اور ہے لیکن لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت تو نہ ہمارا مذہب دیتا ہے نہ معاشرہ۔
ہوسکتا ہے فوٹو گرافر نے تصویر لینے کو وہ چادر ہٹا دی ہو۔ مجھے یہ سوچ کر اس فوٹو گرافر پر بہت غصہ آیا اور میرا دل چاہا کہ اگر وہ مجھے مل جائے تو میں وہ تصویر اس کی ناک کے نیچے ٹھونس کر اسے کہوں کہ اسے دیکھے۔
میں ننگی لاشوں کی تصویریں کھینچنے اور اخباروں اور ٹی وی پر ان کو دکھانے کے سخت خلاف ہوں اور ایسی لاشیں تو ہرگز نہیں دکھائی جانی چاہئیں جو خوابوں میں زہر گھول دیں۔ لیکن پتا نہیں کیوں اس وقت مجھے لگا کہ اس لاش کا اس تصویر میں ہونا بہت ضروری ہے۔
ہو سکتا ہے دھماکوں وغیرہ کی عام تصویریں جن میں یہ لاش ہوتی ہے اس کے بغیر اتنی عجیب نہ لگیں لیکن اگر اس تصویر میں یہ لاش نہ ہوتی تو شاید مجھے کچھ مایوسی ہوتی۔
میری ذہنی حالت بھی کچھ عجیب ہے اب مجھے لگ رہا ہے کہ میں آپ کو ایک بے کار سی لاش کا ایک فضول سا قصہ سنا کر بور کر رہا ہوں۔ آپ یقیناً اکتا گئے ہوں گے۔
ہم عام طور پر لاشوں سے نہیں اکتاتے لیکن ایک لاش کے بارے میں جو کسی کو پتا نہیں ان تصویروں میں نظر آئی بھی ہوگی یا نہیں، کوئی کب تک پڑھ یا سن سکتا ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ میں اس قصے کو یہیں چھوڑ دوں اور ریاست کے اداروں سے کہوں کہ اتنی گھناؤنی اور ایسی لاوارث لاشوں کی تصویریں نہیں آنی چاہئیں۔
لیکن جب سے میں نے یہ سوچا ہے تب سے ریاست کو ڈھونڈ رہا ہوں، مل ہی نہیں رہی۔ آپ کو ملے تو اسے میرا پیغام دے دیجے گا۔ خدا جانے کہاں مر گئی...
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں













لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں