چند روز قبل پاکستان کی طرف سے کیے گئے چند یادگار اسپیلز کا ذکر کیا تھا۔ گیند بازوں کی صلاحیتوں کو یاد کرنے کے بعد آئیے اب پاکستانی بلے بازوں کے زورِ بازو کے بارے میں بتاتے ہیں۔ جی ہاں اس تحریر میں پاکستان کی طرف سے کھیلی گئی چند اہم اور نتیجے کے حوالے سے یادگار اننگز کا ذکر کریں گے۔

جب حنیف محمد نے تنِ تنہا پاکستان کی لاج رکھی

یہ 1958ء کی بات ہے جب قومی ٹیم اپنے پہلے دورہ ویسٹ انڈیز پر گئی تھی۔ یہ اندازہ تو بہرحال ٹیم کو تھا کہ یہ دورہ آسان نہیں ہوگا اور جب ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 2 دن تک بیٹنگ کی اور 592 کا ایک بڑا اسکور بنایا، تو یہ اندازہ بالکل ٹھیک ثابت ہوگیا۔

لیکن صورتحال اس وقت مزید خراب اور پریشان کن ہوگئی جب 172 اوورز تک فیلڈ میں رہنے والے پاکستانی کھلاڑی صرف 42 اوورز میں 106 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ یاد رہے کہ 6 روزہ ٹیسٹ میچ کا ابھی تیسرا دن آدھا بھی نہیں گزرا تھا۔ ویسٹ انڈیز کو حاصل 486 رنز کی برتری یہ بتا رہی تھی کہ پاکستان کے لیے اس میچ میں اب کچھ نہیں رہا، بلکہ واضح طور پر اننگ سے شکست نظر آرہی تھی۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ جو ٹیم پہلی اننگ میں آدھا دن بھی بیٹنگ نہیں کرسکی بھلا وہ دوسری اننگ میں 3 دن تک کیسے بیٹنگ کرسکے گی؟

حنیف محمد جو اس میچ سے قبل 2 سنچریاں بناچکے تھے اور بہترین انفرادی اسکور 142 رنز تھا، جب وہ وکٹ کیپر امتیاز احمد کے ساتھ اوپننگ کے لیے آئے تو بہت سے لوگوں کو امید ہوگی کہ یہ میچ اسی روز ختم ہوجائے گا۔ تاہم حنیف محمد نے سوچ لیا تھا کہ وکٹ نہیں گنوانی۔

ویسٹ انڈیز کے باؤلرز نے اپنی پوری کوشش کرلی کہ جلد از جلد وکٹ لی جائے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر تیز باؤنسرز بھی کروائے گئے مگر پاکستان کی اوپننگ جوڑی نے زبردست ہمت دکھائی اور پہلی وکٹ کے لیے 152 رنز جوڑے۔ تیسرے دن کے اختتام سے کچھ وقت پہلے امتیاز 91 رنز بنا کر وکٹ دے بیٹھے اور اب 61 رنز کے ساتھ وکٹ پر موجود حنیف محمد کا ساتھ دینے علیم الدین آئے تھے۔

لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ تیسرے دن مزید اور کوئی وکٹ نہیں گری۔ چوتھے دن پاکستان نے اسکور میں 177 رنز کا اضافہ کیا اور جب ٹیم کا اسکور 264 رنز تک پہنچا تو 37 رنز بنانے کے بعد علیم آؤٹ ہوگئے۔ لیکن حنیف محمد پورے 100 رنز کے اضافے کے ساتھ اب 161 رنز پر وکٹ پر موجود تھے۔

ان کے بعد آنے والے سعید احمد نے بھی حنیف محمد کا بھرپور ساتھ دیا۔ 5ویں دن جب 65 رنز بنانے کے بعد سعید آؤٹ ہوئے تو حنیف محمد 270 پر کھیل رہے تھے مگر پاکستان کی برتری ابھی صرف 52 رنز کی تھی۔

آخری دن تیزی سے گرنے والی وکٹیں میچ ویسٹ انڈیز کے حق میں کرسکتی تھیں اسی لیے حنیف محمد کا کریز پر موجود رہنا ابھی ضروری تھا۔ کپتان کا پیغام تھا کہ چائے کے وقفے تک ناٹ آؤٹ رہنا ہے اور حنیف محمد نے ایسا ہی کیا۔ چائے کے وقفے پر حنیف ناٹ آؤٹ تھے اور پاکستان ٹیم میچ بچا چکی تھی۔

اب لین ہٹن کا 364 رنز کا برسوں پرانا ریکارڈ حنیف محمد کے سامنے تھا لیکن جب ان کا اسکور 337 پر پہنچا تو وہ بدقسمتی سے ڈینس ایٹکنسن کا شکار ہوگئے اور یوں حنیف محمد لین ہٹن کا ریکارڈ تو نہ توڑ سکے لیکن 16 گھنٹے 10 منٹ کی اس اننگ نے میچ ضرور بچالیا۔

ہاں لیکن یاد رہے کہ لین ہٹن کا ریکارڈ اسی سیریز میں اس وقت ٹوٹا تھا جب تیسرے ٹیسٹ میں گیری سوبرز نے 365 کی شاندار اننگ کھیلی تھی۔

حنیف محمد
حنیف محمد

حنیف محمد کی اس یادگار اننگ میں صرف 24 چوکے شامل تھے۔ اس ٹیسٹ کی گیندوں کا ریکارڈ تو نہیں مل سکا لیکن پاکستان نے اس اننگ میں 319 اوورز کھیلے جو ایک ہزار 914 گیندیں بنتی ہیں۔ توقع یہی ہے کہ حنیف محمد نے ایک ہزار سے زائد گیندیں ہی کھیلی ہوں گی۔ 16 گھنٹے 10 منٹ تک کریز پر قیام ایک ریکارڈ تھا جو اب تک قائم ہے۔ حنیف محمد نے اس اننگ کے دوران امتیاز احمد، علیم الدین، سعید احمد اور اپنے بھائی وزیر محمد کے ساتھ سنچری شراکت داریاں بنائیں اور ایک میچ جس میں پاکستان کی شکست یقینی تھی، اُسے تنِ تنہا ہی ڈرا کردیا۔

جاوید میانداد اور اعجاز احمد کی شراکت داری کا شکریہ

1987-88ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا جہاں پہلے ایک روزہ سیریز کھیلی گئی۔ اس سیریز میں کلین سوئپ شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن حیران کن طور پر قومی ٹیم نے پہلے ٹیسٹ میں اس کا بھرپور بدلہ لیا اور 9 وکٹوں سے زبردست کامیابی حاصل کی۔

دوسرے ٹیسٹ میں کپتان عمران خان نے ٹاس جیت کر پہلے ویسٹ انڈیز کو کھیلنے کی دعوت دی اور پھر خود ہی 4 وکٹیں حاصل کرکے اس فیصلے کو درست ثابت کیا۔ اس اننگ میں عبدالقادر نے بھی 4 وکٹیں حاصل کیں اور یوں ویسٹ انڈیز کی ٹیم صرف 174 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔

جواب میں سلیم ملک اور سلیم یوسف کے علاوہ کوئی بھی پاکستانی بلے باز کریز پر رُکنے کو تیار نہیں ہوا اور یوں قومی ٹیم صرف 20 رنز کی برتری حاصل کرسکی۔

جواب میں ویسٹ انڈیز کی ابتدائی 4 وکٹیں ایک بار پھر جلدی گر گئیں اور بظاہر قومی ٹیم کی جیت نظر آنے لگی، لیکن میزبان ٹیم کے کپتان ویوین رچرڈز اور جیفری ڈوجون اس سوچ کے سامنے ڈٹ گئے اور دونوں نے زبردست سنچریاں بنائیں۔ ان کی اس کارکردگی کی بدولت قومی ٹیم کو میچ جیتنے کے لیے 372 رنز کا ہدف ملا۔ اس اننگ میں بھی پاکستان کی جانب سے عمران خان اور عبدالقادر ہی کامیاب رہے جنہوں نے بالترتیب 5 اور 4 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔

ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم کی 2 وکٹیں 62 رنز پر گر گئیں۔ اب وکٹ پر موجود رمیز راجہ کا ساتھ دینے جاوید میانداد وکٹ پر آئے تھے۔

جاوید میانداد اس وقت بھرپور فارم میں تھے اور پہلے ٹیسٹ میں سنچری بھی بنا چکے تھے۔ جاوید میانداد کی یہ عادت تھی کہ وہ مخالفین کے اعصاب پر سواری کیا کرتے تھے۔ اس اننگ میں بھی ویسٹ انڈین فاسٹ باؤلرز کو اپنے سینے اور سر کی طرف باؤلنگ کا کہتے رہے۔ میلکم مارشل، کرٹلی ایمبروز، ونسٹن بینجمن اور کارٹنی والش پر مبنی باؤلنگ اٹیک کو ایسی دعوت جاوید میانداد کے علاوہ اور کون دے سکتا ہے۔ یاد رہے 1988ء میں ایک اوور میں باؤنسرز کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ حتیٰ کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کسی بلے باز کے سر یا جسم پر گیند لگتی تو زیادہ تر تماشائی فاسٹ باؤلرز کو اسے مزید زخمی کرنے پر اُکساتے تھے اور خون، خون چلاتے تھے۔

جاوید میانداد فائل فوٹو
جاوید میانداد فائل فوٹو

اعجاز احمد فائل فوٹو
اعجاز احمد فائل فوٹو

جلد ہی رمیز راجہ بھی چلتے بنے اور جاوید میانداد کا ساتھ دینے سلیم ملک آئے۔ دونوں نے اس موقعے پر سر جھکا کر بلے بازی کرنے کو ترجیح دی۔ دونوں کھلاڑی 30 سے زائد اوورز تک کریز پر رہے اور اس دوران 86 رنز کا اضافہ ہوا جس میں ایک بڑی تعداد ایکسٹراز کی تھی۔

سلیم ملک کی وکٹ گرنے پر عمران خان آئے جو کافی دیر کریز پر رُکنے کے باوجود صرف ایک ہی رن بنا سکے۔ اعجاز احمد کے ساتھ جاوید میانداد کی شراکت داری نے میچ بچانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ 40 سے زائد اوورز پر محیط اس شراکت داری میں 113 رنز بنے اور دونوں بلے باز اس دوران پچھلی شراکت داری والی منصوبہ بندی پر عمل پیرا رہے۔

تمام فاسٹ باؤلرز کو یہ شراکت داری توڑنے میں ناکام ہوتا دیکھ کر ویون رچرڈز خود گیند بازی کے لیے آئے اور اہم ترین موقع پر اعجاز احمد کی وکٹ بھی حاصل کرلی۔

اعجاز احمد کے آؤٹ ہونے کے بعد جاوید میانداد بھی زیادہ دیر کریز پر نہ ٹھہر سکے اور اپنی سنچری کی تکمیل کے بعد ایمبروز کی گیند پر رچرڈز کو کیچ دے بیٹھے۔ جاوید میانداد نے 265 گیندوں پر صرف 8 چوکوں کی مدد سے 102 رنز بنائے۔ جاوید میانداد کی وکٹ گرنے کے بعد بھی تقریباً 20 اوورز کا کھیل باقی تھا جسے سلیم یوسف نے کچھ وسیم اکرم اور پھر اعجاز فقیہ کے ساتھ مل کر گزارا۔

جاوید میانداد، سلیم ملک اور اعجاز احمد کے برعکس سلیم یوسف کچھ تیزی سے کھیلتے نظر آئے۔ اننگ کے آخری اوور میں کھیل نے ایک بار پھر سے موڑ لیا۔ کھیل کا آخری اوور رچرڈز نے خود کروانے کا سوچا اور پہلی ہی گیند پر سلیم یوسف کی وکٹ حاصل کرلی لیکن آخری نمبر پر آنے والے عبدالقادر نے اگلی 5 گیندیں روک کر میچ کو ڈرا کروا دیا اور یوں پاکستان آخری ٹیسٹ میں 0-1 کی برتری کے ساتھ گیا، جہاں کچھ پاکستانی ٹیم اور بہت حد تک امپائروں کے غلط فیصلوں نے ویسٹ انڈیز کو سیریز برابر کرنے کا موقع فراہم کردیا۔

وسیم اکرم کے قیمتی 45 رنز کسی بڑی سنچری سے کم نہیں تھے

پاکستانی ٹیم 1992ء میں انگلینڈ پہنچی تو ابھی ورلڈ کپ فائنل کی یادیں تازہ تھیں۔ انگلینڈ ٹیم سیریز اس لیے بھی جیتنا چاہتی تھی تاکہ ورلڈکپ کا بدلہ لیا جاسکے۔ سیریز کا پہلا ٹیسٹ بارش کی وجہ سے ڈرا ہوگیا تھا۔

دوسرے ٹیسٹ میں انگلینڈ نے ٹاس جیتا لیکن 123 رنز پر مشتمل ایک بہترین اوپننگ پارٹنرشپ کے بعد انگلینڈ کے بلے بازوں کے پاس وقار یونس کی ریورس سوئنگ کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اوپنرز کے علاوہ کوئی اور بلے باز نصف سنچری نہ بنا سکا اور پوری ٹیم صرف 255 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ وقار یونس نے 5 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔

پاکستان کی طرف سے عامر سہیل، آصف مجتبیٰ اور سلیم ملک نے نصف سنچریاں تو بنائیں لیکن کوئی بھی بڑا اسکور نہیں بنا سکا اور یوں ایک بڑی لیڈ حاصل کرنے کا موقع ضائع ہوگیا۔

38 رنز کے خسارے کے ساتھ انگلینڈ نے دوسری اننگ کا آغاز بھی نہایت عمدہ انداز سے کیا۔ 108 رنز پر انگلینڈ کی صرف 2 وکٹیں گری تھیں اور پاکستانی بلے بازوں کو ایک لمبا ہدف اپنے سامنے نظر آ رہا تھا۔ لیکن تیسری وکٹ گرتے ہی ایک بار پھر انگلینڈ کی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور 175 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔

اس بار تباہی کے بڑے ذمہ دار وسیم اکرم تھے جنہوں نے 4 کھلاڑیوں کا شکار کیا جبکہ مشتاق احمد نے 3 وکٹیں حاصل کیں۔

اب 138 رنز کا ہدف ایک آسان پاکستانی فتح کا منظر پیش کر رہا تھا لیکن پاکستانی بلے باز شاید کسی جلدی میں تھے۔ ایک طرف عامر سہیل اسکور میں اضافہ کر رہے تھے تو دوسری طرف وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ رمیز راجہ، آصف مجتبیٰ اور جاوید میانداد بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے جبکہ سلیم ملک اور انضمام بھی اسکور میں خاص اضافہ نہیں کرسکے۔

جب وسیم اکرم بلے بازی کے لیے آئے تو اس وقت تک 62 رنز پر 5 وکٹیں گرچکی تھیں اور جلد ہی عامر سہیل بھی پویلین لوٹ گئے۔ وسیم اکرم نے معین خان کے ساتھ 13 اور مشتاق احمد کے ساتھ 14 رنز کا اضافہ کیا۔ اب مزید 43 رنز درکار تھے اور وسیم اکرم کا ساتھ دینے کے لیے صرف وقار یونس اور عاقب جاوید ہی باقی رہ گئے تھے۔

ویسے تو وسیم اکرم جارحانہ بلے بازی کے لیے مشہور ہیں لیکن اس اننگ میں وہ اپنے قدرتی کھیل سے کوسوں دُور نظر آئے اور صرف سنگل ڈبل سے اسکور بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ بتدریج رنز میں اضافہ ہونے کی وجہ سے انگلینڈ کے باؤلرز اور فیلڈرز ہر طرح سے دباؤ میں نظر آرہے تھے۔

وقار یونس نے اس اننگ میں وسیم اکرم کا بھرپور ساتھ دیا۔ وسیم اکرم تو اس طرح کی صورتحال کا سامنا پہلے بھی کرچکے تھے لیکن وقار کا یہ پہلا تجربہ تھا، لیکن وہ اس امتحان میں کامیاب رہے۔ وسیم اکرم اور وقار یونس نے اس دورے میں وکٹیں تو خوب لیں لیکن سیریز میں کامیابی کے لیے ان دونوں کی اس پارٹنرشپ کا بھی اہم ترین کردار تھا۔ وسیم اکرم نے اگرچہ صرف 45 رنز ہی بنائے لیکن 138 کے ہدف کے تعاقب میں یہ کسی بڑی سنچری سے کم نہیں تھے۔

جب انضمام نے بنگلہ دیشیوں کو دم بخود کیا

ورلڈکپ 2003ء میں قومی ٹیم کی کارکردگی اس قدر مایوس کن تھی کہ اس ٹورنامنٹ میں زمبابوے کے خلاف کھیلا گیا میچ وسیم اکرم، وقار یونس اور سعید انور کا آخری بین الاقوامی میچ ثابت ہوا۔ ساتھ ہی کچھ اور کھلاڑیوں کی بھی ٹیم سے عارضی رخصتی ہوگئی جن میں شاہد آفریدی اور انضمام الحق سرِفہرست تھے۔

شاہد آفریدی کو تو واپس آنے مٰں سال لگ گیا لیکن اسی سال بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کرکٹ بورڈ کو انضمام کی یاد آگئی۔ پہلے 2 میچوں میں انضمام الحق ورلڈکپ کی طرح کچھ خاص کارکردگی نہ دکھا سکے مگر پاکستان نے یہ دونوں میچ اچھے مارجن سے جیت لیے تھے۔ تیسرے میچ کے لیے 3 نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا گیا تھا جن میں سے ایک سلمان بٹ تھے۔ دوسرے فاسٹ باؤلر یاسر علی اور تیسرے مڈل آرڈر بلے باز فرحان عادل تھے جو اس میچ کے بعد کبھی پاکستان کے لیے نہیں کھیل سکے۔

بنگلہ دیش نے ٹاس جیت کر حبیب البشر کی عمدہ نصف سنچری کی بدولت 281 رنز بنائے۔ شبیر احمد نے 3 جبکہ عمر گل نے 4 وکٹیں حاصل کیں۔ جواب میں خالد محمود اور محمد رفیق نے کسی بھی پاکستانی بلے باز کو کریز پر ٹکنے نہیں دیا اور پوری پاکستانی ٹیم 175 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ دوسری اننگ میں پاکستانی باؤلرز نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور بنگلہ دیش کو صرف 154 رنز پر ڈھیر کردیا۔ اس اننگ میں شبیر احمد اور عمر گل نے 4، 4 وکٹیں حاصل کیں۔

اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے یاسر علی نے پہلی اننگ کی طرح دوسری اننگ میں بھی ایک ہی وکٹ لی لیکن بعد ازاں ری پلے سے ثابت ہوا کہ راشد لطیف نے الوک کپالی کا وہ کیچ زمین سے اٹھایا تھا۔ اس واقعے کی وجہ سے راشد لطیف پر 5 ایک روزہ میچوں کی پابندی لگائی گئی۔ لیکن وہ اس میچ کے بعد پاکستان کی طرف سے کبھی ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیل سکے جبکہ ون ڈے میں بھی مزید صرف ایک ہی سیریز کھیلنے کا موقع ملا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند سال بعد راشد نے بنگلہ دیش میں اپنی موجودگی کے دوران اعتراف کرلیا تھا کہ انہیں گیند زمین پر گرنے کا پتا اسی وقت چل چکا تھا۔

بہرحال پاکستان کو 261 رنز کا ہدف ملا تو سلمان بٹ نے پاکستان کو ایک برق رفتار آغاز فراہم کیا لیکن جیسے ہی 34 گیندوں پر 7 چوکوں کی مدد سے 37 رنز بناکر سلمان بٹ آؤٹ ہوئے تو وکٹیں تسلسل سے گرنے لگیں۔ جب پاکستان نے 2 وکٹوں کے نقصان پر 62 رنز بنالیے تھے تب کریز پر انضمام الحق کی آمد ہوئی جو ورلڈکپ کے 6 میچوں میں محض 19 رنز اور اس سیریز میں 88 رنز ہی بنا سکے تھے۔

اب وہ ایک اینڈ پر کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے جبکہ دوسری جانب بلے بازوں کے آؤٹ ہونے کا سلسلہ جاری تھا۔ کپتان راشد لطیف آؤٹ ہوئے تو پاکستان کو مزید 129 رنز درکار تھے اور انضمام کو صرف ٹیل اینڈرز کا ساتھ دستیاب تھا۔ ثقلین مشتاق نے اگلے 14 اوورز تک انضمام کا ساتھ دیا اور اب ہدف 97 رنز رہ گیا تھا لیکن باقی رہ جانے والے تینوں کھلاڑی بیٹنگ کی صلاحیتوں سے بالکل ہی عاری تھے۔

شبیر احمد نے انضمام کے ساتھ قیمتی 41 رنز کا اضافہ کیا، اور اس دوران شبیر کا کیچ بھی چھوٹا۔ بنگلہ دیشی فیلڈر جیت کو پاس دیکھ کر کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے تھے اور ہر گیند پر اپیل کر رہے تھے۔ زیادہ اپیلیں کرنے پر بنگلہ دیش کو وارننگ بھی ملی اور شاید ایک آدھ فیصلہ بھی ان کے خلاف چلا گیا۔

دنیائے کرکٹ کے بہترین لیگ اسپنر شین وارن کا اپیل کرنے کا ایک فلسفہ تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اپیل تبھی کرو جب آپ کو یقین ہو کہ بلے باز آؤٹ ہے، اس طرح امپائر پر آپ کا یقین قائم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار ففٹی ففٹی فیصلے بھی آپ کے حق میں چلے جاتے ہیں۔ اس دن بنگلہ دیش کی زیادہ اپیلوں نے شاید امپائروں کو اپیل پر غور نہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔

جب شبیر آؤٹ ہوئے تو اس وقت پاکستان کو مزید 56 رن درکار تھے۔ بنگلہ دیش جلد ہی عمر گل کی وکٹ بھی حاصل کرسکتا تھا لیکن اسپنر محمد رفیق گیند پہنچنے سے پہلے ہی وکٹ پر ٹانگ مار بیٹھے اور یوں عمر گل رن آؤٹ ہونے سے بال بال بچ گئے۔ اسی اوور میں ایک موقع پر گیند پھینکے جانے سے پہلے ہی عمر گل نان اسٹرائیکنگ اینڈ پر کریز سے نکل گئے مگر رفیق نے صرف وارننگ دے کر چھوڑ دیا۔ محمد رفیق نے میچ جیتنے سے زیادہ اسپورٹس مین اسپرٹ کو اہمیت دی۔ انضمام اور عمر گل کی یہ پارٹنرشپ 20 اوورز سے زائد چلی لیکن رنز میں اضافہ صرف انضمام کی ذمہ داری تھی۔

عمر گل رن آؤٹ ہوئے تو پاکستان کو مزید 4 رنز درکار تھے لیکن پریشانی کی بات یہ تھی ایک ہی وکٹ رہ گئی تھی اور وہ بھی پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے یاسر علی کی جو بیٹنگ پر موجود تھے اور اوور کی 5 گیندیں ابھی باقی تھیں۔

یاسر علی کے مطابق جب وہ بیٹنگ کے لیے آئے تو مسلسل ان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں لیکن کسی نہ کسی طرح وہ بال کو روکتے رہے اور چوتھی گیند پر سنگل لینے میں کامیاب رہے۔ اب انضمام کے پاس 2 آپشن تھے، یا سنگل لے کر اسٹرائیک اپنے پاس رکھیں یا باؤنڈری لگا کر میچ ختم کردیں۔ اور بس خالد محمود کی ایک شاٹ گیند نے انضمام کا یہ مسئلہ حل کردیا، اور انہوں نے اتنا زوردار شاٹ کھیلا کہ کوئی بھی فیلڈر اس کو نہ روک سکا اور یوں پاکستان نے یہ کانٹے دار مقابلہ جیت لیا۔

انضمام الحق نے کریز پر آمد کے بعد بننے والے 200 میں سے 138 رنز 20 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے بنائے۔ انضمام کی اس اننگ نے نہ صرف ٹیسٹ کرکٹ میں ایک نئی ٹیم کے ہاتھوں پاکستان کو شکست سے بچا لیا بلکہ انضمام کا کیریئر جو اختتام کے قریب تھا اسے بھی طول مل گیا۔ انضمام جو ایک وقت پر ریٹائرمنٹ کا سوچ رہے تھے، اپنی اس اننگ اور راشد لطیف کی ایک غلطی کی وجہ سے ٹیم کے نئے کپتان بن گئے اور پھر یہ سلسلہ اگلے 4 سال تک چلتا رہا۔

جب کامران اکمل نے بھارت کے خلاف باکمال بلے بازی کی

بھارت نے موہالی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں فاسٹ باؤلرز کے لیے کسی حد تک مددگار وکٹ پر ٹاس جیت کر پاکستان کو بلے بازی کی دعوت دی تو 2 وکٹیں جلدی گرنے کے باوجود عاصم کمال کی ایک عمدہ اننگ کی بدولت قومی ٹیم نے پہلی اننگ میں 312 رنز بنالیے۔

اس اننگ میں عاصم کمال نے 91 رنز بنائے جبکہ بھارت کی جانب سے لکشمی بالاجی نے 5 وکٹیں حاصل کیں۔

جواب میں بھارت کو وریندر سہواگ نے بہترین آغاز فراہم کیا اور بھارتی ٹیم نے صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر پاکستان پر برتری حاصل کرلی تھی۔ جب سہواگ 173 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر آؤٹ ہوئے تو پاکستانی گیندبازوں کی جان میں جان آئی اور انہوں نے وقفے وقفے سے وکٹیں حاصل کرنا شروع کردیں۔ دانش کنیریا نے اس اننگ میں 6 وکٹیں حاصل کیں لیکن سہواگ کی بہترین اننگ نے بھارتی ٹیم کو 204 رنز کی اہم برتری دلا دی۔

دوسری اننگ میں پاکستان کا آغاز تباہ کن تھا، صرف 10 رنز پر 3 وکٹیں گرچکی تھیں۔ اس مشکل وقت میں اگرچہ انضمام الحق، محمد یوسف اور عاصم کمال نے اچھی اننگز کھیلیں لیکن چوتھے دن کے اختتام تک تینوں پویلین لوٹ چکے تھے۔

اب پاکستان کو صرف 53 رنز کی برتری حاصل تھی جبکہ اس کے 6 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔ اس مشکل ترین وقت میں کامران اکمل اور عبدالرزاق کو 5ویں دن کا زیادہ تر وقت خود ہی کریز پر گزارنا تھا۔ کامران اکمل اس اننگ سے پہلے تک صرف ایک ہی نصف سنچری بنا سکے تھے اور ٹیسٹ میں ان کی صرف 16 کی اوسط تھی۔ 5ویں دن کا آغاز دونوں کھلاڑیوں نے مختلف انداز سے کیا۔ جہاں کامران اکمل کسی بھی ڈھیلی گیند کو بخشنے کو تیار نہیں تھے وہیں عبدالرزاق صرف وقت گزارنا چاہتے تھے۔

بھارتی گیندباز کامران اکمل کو آف اسٹمپ سے باہر گیندیں پھینکتے رہے اور وہ ان گیندوں کو کٹ اور ڈرائیو کے ذریعے باؤنڈری کے پار پہنچاتے رہے۔ جہاں کامران اکمل نے صرف 62 گیندوں پر اپنی نصف سنچری مکمل کی وہیں عبدالرزاق نے یہ اعزاز 204 گیندوں پر حاصل کیا۔ سارو گنگولی نے اس دوران وریندر سہواگ اور سچن ٹنڈولکر کی گیند بازی کو بھی آزمایا لیکن دونوں بلے بازوں کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کامران اکمل نصف سنچری کے بعد کچھ سست ہوگئے تھے، اسی لیے ان کی سنچری 140 گیندوں پر مکمل ہوئی۔

کامران اکمل کی سنچری کے بعد یکے بعد دیگرے کامران اور عبدالرزاق آؤٹ ہوگئے لیکن اس وقت تک میچ محفوظ ہوچکا تھا۔ پاکستان کی برتری 232 ہوچکی تھی اور اب ٹیسٹ میچ میں اتنا وقت باقی نہیں رہ گیا تھا کہ بھارت اس ہدف کو حاصل کر پاتا۔ بھارت کو 25 اوورز میں 293 رنز کا ہدف ملا تھا لیکن جب میچ 8 اوور قبل ختم ہوا تو بھارت نے ایک وکٹ کے نقصان پر 85 رنز بنالیے تھے۔

کامران اکمل نے اپنی اس اننگ کے دوران 16 چوکے لگائے اور 70 کے اسٹرائیک ریٹ سے بلے بازی کی جبکہ عبدالرزاق نے اس کے بالکل برعکس صرف 4 چوکے اور ایک چھکا لگایا اور 27 کے اسٹرائیک ریٹ سے بلے بازی کی۔ دونوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جتنا اہم اس میچ کی برابری میں عبدالرزاق کا دفاعی کھیل رہا اتنا ہی اہم کامران اکمل کا اسٹروک پلے تھا۔

یوں تو پاکستانی بلے بازوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں اس کے علاوہ بھی بے شمار اہم اور بہترین اننگز کھیلیں لیکن ان 5 اننگز کی اہمیت شاید باقی سب سے کہیں بڑھ کر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں