Dawnnews Television Logo

دنیا کا چاہے کوئی ہی کھیل کیوں نہ ہو، اس میں دو ہی فریق یا حریف ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے ہیں اور فتح اور شکست سے قطع نظر میدان میں فتح کے لیے جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔

جب کسی بھی کھیل میں دو فریقوں میں کوئی تنازع یا مسئلہ پیش آتا ہے تو میچ میں موجود ریفری یا طے شدہ قوانین فیصلے کی راہ ہموار کرتے ہیں تاہم کیا ہی کیا جائے کہ اگر بہترین انداز میں چلنے والے میچ کے بیچ میں یکدم ایک تیسرا فریق یا حریف آ دھمکے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر ایسا کوئی تیسرا فریق میدان میں آ جائے تو میچ کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

کھیلوں کی دنیا میں بھی اس سال کچھ ایسا ہی ہوا جہاں تیسرے فریق کی آمد نے سارے نظام کو درہم برہم کردیا اور یہ تیسرا فریق کوئی اور نہیں نوول کورونا وائرس ہے جس کا کسی کے پاس کوئی حل نہ تھا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے باعث اولمپکس 2020 اگلے سال تک ملتوی

اس فریق کو دنیا کا کوئی ریفری، کوئی جج، عدالت یا عالمی باڈی میدان سے باہر نہیں کر سکی اور یہی وجہ تھی کہ یکدم دنیا کے تمام شعبوں کی طرح کھیلوں کے میدان بھی ویران ہو گئے اور شائقین کرکٹ ایک ایک میچ کو ترس گئے اور انہیں کئی ماہ تک پرانے میچز دیکھ کر ہی اپنا دل بہلانا پڑا۔

اس مشکل وقت میں کھلاڑیوں اور منتظمین نے کھیل کے بنیادی اصول پر کاربن رہتے ہوئے ہمت نہ ہاری بلکہ کھلاڑیوں، عوام الناس، عالمی اداروں خصوصاً صحت کے محکموں کی جنگی بنیادوں پر کی گئی مجموعی کاوشوں اور اقدامات کی بدولت اس آفت پر کسی حد تک قابو پاتے ہوئے مہینوں بعد تک سونے رہنے والے کھیلوں کے میدانوں کو پھر سے آباد کیا گیا اور زبردست پنچ سے وائرس کو ناک آؤٹ کردیا۔

دنیا بھر کے متعدد کھیلوں کے مقابلے اس سے بری طرح متاثر ہوئے اور کئی ایک مقابلوں کو تو ایک سال کے لیے مؤخر کردیا گیا۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس عالمی وبا کی وجہ سے تقریباً آدھا سال کسی نہ کسی طرح سے کھیل یا کھلاڑی متاثر رہے، تو آئیے اولمپکس سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے آپ کو بتاتے ہیں کہ ان ہنگامی حالات کے دوران کھیلوں کی دنیا میں کیا ہوتا رہا (پاکستانی قارئین کی دلچسپی کو مدنطر رکھتے ہوئے چند اہم کھیلوں پر ہی گفتگو کی جائے گی)۔

اولمپکس

اولمپکس 2020

رواں سال اولمپکس 2020 کا انعقاد جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ہونا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے رواں سال 33 مقابلوں اور 339 ایونٹس پر مشتمل سال کا سب سے بڑا ایونٹ ایک سال کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اولمپکس کو تاریخ میں مجموعی طور پر 3 مرتبہ منسوخ کیا گیا جس میں سے پہلی مرتبہ جنگ عظیم اول کی وجہ سے 1916 کے عالمی مقابلوں کو منسوخ کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد جنگ عظیم دوم کی وجہ سے 1940 اور 1944 کے مقابلوں کو بھی منسوخ کردیا گیا لیکن بڑے پیمانے پر خونریزی اور دہشت گرد حملوں سمیت متعدد ہنگامی حالات کے باوجود 1896 میں جدید اولمپکس کے آغاز سے اب تک کبھی بھی گیمز کو ملتوی نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اولمپکس کی معطلی کا فیصلہ اور میرا دورہ ٹوکیو

لیکن 2020 میں یہ عالمی وبا اس حد تک شدید اور خطرناک تھی کہ کھلاڑیوں، آفیشلز اور منتظمین کی صحت کو ترجیح دیتے ہوئے انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی اور جاپانی حکام کے پاس ان گیمز کو ملتوی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

اس فیصلے سے قبل جاپانی حکام اور انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کے منتظمین گیمز کے انعقاد کے حوالے سے شش و پنج میں مبتلا تھے لیکن بین الاقوامی سطح پر کھلاڑیوں کی جانب سے عالمی مقابلے منسوخ کرنے کے مطالبے اور کئی ملکوں کی دستبرداری کے بعد اولمپکس گیمز کو ایک سال بعد 2021 میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ستم ظریقی دیکھیے کہ جب اولمپک گیمز کو آخری مرتبہ 1940 میں منسوخ کیا گیا تھا تو اس وقت بھی میزبانی ٹوکیو کو ہی کرنی تھی اور اس مرتبہ بھی التوا کی بجلی جاپانی دارالحکومت پر گری ہے۔

کروڑوں ڈالر کے نقصان کے باوجود اگلے سال جولائی میں اولمپکس کے انعقاد کی تیاریاں اور کوششیں جاری ہیں اور کورونا کی ویکسین کے کامیاب تجربے کے بعد اُمید ہے کہ 2021 میں ہم دوبارہ اولمپکس منعقد ہوتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔

فٹبال

فٹبال 2020

اولمپکس کے بعد اگر انفرادی سطح پر کوئی کھیل وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا تو وہ فٹبال ہے۔

دنیا بھر میں جاری لیگ کے مقابلے وائرس کے پھیلاؤ کے باعث یکے بعد دیگرے منسوخ کر دیے گئے خصوصاً ابتدائی طور پر وائس کے مرکز یورپ میں تمام لیگز اور اسٹیڈیمز کو تالے لگ گئے۔

جرمنی، اٹلی، اسپین، انگلینڈ کے بعد وبا کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے ایشین ممالک اور پھر امریکا میں ایم ایل ایس لیگ کو بھی غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: کورونا کے سبب یورو کپ اور کوپا امریکا ایک سال کیلئے مؤخر

رواں سال اولمپکس کے بعد سب سے بڑے کھیلوں کے مقابلے کی بات کی جائے تو وہ یورو کپ 2020 اور کنفیڈریشن کپ 2020 تھے اور ان دونوں ایونٹس کو بھی اولمپکس کی طرح ایک سال کے لیے مؤخر کردیا گیا۔

بہرحال 8 مئی کو وبا کے اثرات کے بعد جنوبی کوریا میں پہلا فٹبال کا مقابلہ شائقین کے بغیر منعقد ہوا جبکہ اس کے بعد 16 ماہ بعد جرمن بنڈس لیگا کو بھی دوبارہ شروع کردیا گیا۔

کورونا سے اس سال عالمی مقابلے متاثر ہونے کے باوجود یہ سال انگلش پریمیئر لیگ کی ٹیم لیورپول کے لیے یادگار رہا جس نے چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

لیورپول نے ریکارڈساز فتح حاصل کرتے ہوئے چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا— فوٹو: اے پی
لیورپول نے ریکارڈساز فتح حاصل کرتے ہوئے چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا— فوٹو: اے پی

یہ 30 سال میں لیور پول کا پہلا ٹائٹل ہے اور وہ پہلی مرتبہ پریمیئر لیگ کے چیمپیئن بنے ہیں کیونکہ جب سے لیگ کا نام 'انگلش پریمئر لیگ' پڑا ہے، اس وقت سے لیورپول نے کبھی بھی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل نہیں کیا تھا۔

دراصل 1888 میں شروع ہونے والی فٹبال لیگ کے مقابلے ایک صدی سے زائد عرصے تک اسی طرح جاری رہے جس کے بعد انگینڈ کے فٹبال مقابلوں کو دیگر یورپ کے مقابلوں سے الگ کرنے کے لیے 20فروری 1992 کو ایف اے پریمیئر لیگ کی بنیاد ڈالی گئی جو دنیا بھر میں انگلش پریمیئر لیگ کے نام سے مشہور ہے۔

مزید پڑھیں: لیورپول 30 سال بعد پریمیئر لیگ چمپیئن بن گیا

اس ٹائٹل کی خاص بات یہ تھی کہ لیگ کے اختتام اور اپنے 7 میچز قبل ہی جرگن کلوپ کی ٹیم نے ایونٹ جیت کر نیا ریکارڈ قائم کردیا جہاں اس سے قبل پانچ میچ قبل ہی چیمپیئن بننے کا اعزاز مشترکہ طور پر مانچسٹر سٹی اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے پاس تھا۔

چیمپیئنز لیگ کی بات کی جائے تو بارسلونا کی ٹیم تو اپنے خراب کھیل اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر کارکردگی کی وجہ سے کسی گنتی میں ہی نہ تھی لیکن اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے برج الٹ گئے۔

مانچسٹر سٹی، لیورپول، ریال میڈرڈ سمیت چند بڑے نام بدترین ناکامی سے دوچار ہوئے اور جرمن ٹیم بایرن میونخ نے اس سال پیرس سینٹ جرمین (پی ایس جی) کو 0-1 سے مات دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔

پاکستان فٹبال میں پھر کچھ نہ بدل سکا اور گزرتے سالوں کی طرح یہ سال بھی کیلنڈر میں تبدیلی کے سوا اور کچھ ثابت نہ ہو سکا۔

فیفا کی عالمی درجہ بندی میں پاکستانی فٹبال ٹیم کی 200ویں نمبر پر موجودگی دراصل بہت کچھ بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

فیفا نے پاکستان میں فٹبال کے کھیل کو صحیح ڈگر پر لانے کے لیے نارملائزیشن کمیٹی بنائی تھی لیکن کورونا وائرس کی آمد کی وجہ سے ان کے عزائم اور منصوبے بری طرح متاثر ہوئے۔

بایرن میونخ نے چھٹی مرتبہ چیمپیئنز لیگ جیتے کا اعزاز حاصل کیا— فوٹو: اے پی
بایرن میونخ نے چھٹی مرتبہ چیمپیئنز لیگ جیتے کا اعزاز حاصل کیا— فوٹو: اے پی

رواں سال پاکستان فٹبال فیڈریشن کے الیکشن منعقد ہونا تھے لیکن عالمی وبا کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

نارملائزیشن کمیٹی کے کام سے متاثر ہو کر فیفا نے اسے سال 2021 تک کام کرنے کا مینڈیٹ بھی دے دیا جس کے بعد اُمید ہے کہ 2021 میں ہمیں فٹبال کے کھیل میں چند مثبت پیشرفت دیکھنے کو ملے گی۔

پاکستان فٹبال کو اس لحاظ سے ایک بڑا نقصان پہنچا کہ کئی سال بعد پاکستان میں انٹرنیشنل فٹبال کے مقابلوں کی اُمید پیدا ہوئی تھی اور پاکستان کو سال 2020 میں ساؤتھ ایشین فٹبال فیڈریشن چیمپیئن شپ کی میزبانی کرنی تھی لیکن اسے بھی دیگر بین الاقوامی مقابلوں کی طرح وائرس کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا تاہم اُمید ہے کہ آئندہ سال ساف چیمپیئن شپ کے ذریعے کرکٹ کی طرح فٹبال کے بین الاقوامی مقابلے بھی ملک میں منعقد ہوں گے۔

ٹینس

ٹینس 2020

دنیائے ٹینس کے مقابلے بھی وائرس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور لندن سے پیرس اور پھر نیویارک بین الاقوامی سطح پر ٹینس کورٹس تماشائیوں کے منتظر رہے۔

سال کے سب سے بڑے ٹینس کے مقابلے ومبلڈن اوپن کو منسوخ کردیا گیا اور یہ جنگ عظیم دوئم کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ ایونٹ کو منسوخ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: جنگ عظیم دوئم کے بعد پہلی مرتبہ ومبلڈن اوپن منسوخ

تاہم ومبلڈن سے قبل سال کا پہلا گرینڈ سلیم آسٹریلین اوپن منعقد ہوا اور نوواک جوکووچ نے دلچسپ مقابلے کے بعد ڈومینک تھیم کو پانچ سیٹ کے میچ میں شکست دے کر 17واں گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتنے کے ساتھ ساتھ دوباہ عالمی نمبر ایک بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔

خواتین کے مقابلوں میں آسٹریلیا کی سوفیا کینن نے ہوم گراؤنڈ پر ایونٹ کو اپنے لیے یادگار بناتے ہوئے پہلی مرتبہ گرینڈ سلیم جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

فرنچ اوپن کی بات کریں تو کورونا کی وجہ سے اسے بھی مقررہ وقت پر منعقد نہیں کیا جا سکا اور یہی وجہ تھی کہ سال کا آخری گرینڈ سلیم یو ایس اوپن اس سے قبل منعقد ہوا البتہ بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کے مقابلے بحال ہونے کے بعد ستمبر کے آخری ہفتے میں ایونٹ کا آغاز ہوا اور تماشائیوں کے بغیر ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔

یو ایس اوپن سے راجر فیڈرر اور رافیل نڈال دستبردار ہو گئے تھے جس کے بعد نوواک جوکووچ کو ٹائٹل کے لیے مضبوط ترین اُمیدوار قرار دیا جا رہا تھا۔

مزید پڑھیں: خاتون ریفری کو ’غلطی‘ سے گیند مارنے پر جوکووچ یو ایس اوپن سے باہر

تاہم چوتھے راؤنڈ کے میچ میں خاتون ریفری کو غلطی سے گیند مارنے کے جرم میں انہیں ایونٹ سے باہر کردیا گیا۔

ہوا کچھ یوں کہ جوکووچ نے پہلے سیٹ میں 5-6 سے شکست کے بعد غصے میں گیند پھینکی جو لائن جج کے حلق پر جا کر لگی لیکن ویڈیو میں یہ واضح ہو رہا تھا کہ وہ گیند پھینکتے وقت کہیں اور دیکھ رہے تھے۔

گیند لگنے کے بعد آفیشل زمین پر گر گئیں اور جوکووچ فوری طور پر ان سے معذرت کرنے کے لیے گئے لیکن آفیشل کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جس پر وہ کورٹ سے باہر چلی گئیں۔

نئے یو ایس اوپن ڈومینک تھیم کا ٹرافی کے ہمراہ ایک انداز— فوٹو: اے پی
نئے یو ایس اوپن ڈومینک تھیم کا ٹرافی کے ہمراہ ایک انداز— فوٹو: اے پی

بعد ازاں امپائر نے فیصلہ کیا کہ اصولی طور پر کرینو میچ جیت چکے ہیں اور اس کے بعد جوکووچ نے اپنے حریف سے ہاتھ ملایا اور امپائرز سے مصافحہ کیے بغیر ہی کورٹ سے باہر چلے گئے۔

ٹورنامنٹ کے فائنل ڈومینک تھیم نے اعصاب شکن معرکے کے بعد الیگزینڈر زیوریو کو شکست دے کر یو ایس اوپن میں نئی تاریخ رقم کردی اور گرینڈ سلِیم جیتنے والے آسٹریا کے پہلے کھلاڑی بن گئے۔

4 گھنٹے دو منٹ تک چلنے والے اس فائنل میچ میں ایک اور تاریخ بھی رقم ہوئی اور وہ یہ تھی کہ پہلی بار فائنل سیٹ کا فیصلہ ٹائی بریک کے ذریعے ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈومینک تھیم نے یو ایس اوپن جیت کر نئی تاریخ رقم کردی

2014 کے یو ایس اوپن کے بعد دنیائے ٹینس کو پہلی مرتبہ نیا چیمپیئن ملا جبکہ 2016 کے بعد واحد موقع تھا کہ راجر فیڈرر، رافیل نڈال اور نوواک جوکووچ کے علاوہ کوئی کھلاڑی چیمپیئن بنا۔

خواتین کے مقابلوں میں جاپان کی ناؤمی اوساکا نے ایک سیت کے خسارے میں جانے کے باوجود شاندار انداز میں کم بیک کرتے ہوئے وکٹوریا آزرینکا کو مات کر ٹرافی اپنے نام کی۔

فرنچ اوپن میں ہمیشہ کی طرح رافیل نڈال نے کلے کورٹ پر اپنی حکمرانی برقرار رکھی اور عالمی نمبر ایک نوواک جوکووچ کو اسٹریٹ سہٹس میں بدترین مات دیتے ہوئے ٹائٹل جیت لیا۔

یہ ان کے کیریئر کا 20واں گرینڈ سلیم ٹائٹل تھا اور اس طرح انہوں نے راجر فیڈرر کا سب سے زیادہ گرینڈ سلیم جیتنے کا عالمی ریکارڈ بھی برابر کردیا۔

مزید پڑھیں: نڈال نے '20 گرینڈ سلیم' جیتنے کا فیڈرر کا عالمی ریکارڈ برابر کردیا

آسٹریلین اوپن کی طرح فرنچ اوپن میں بھی شائقین ٹینس کو خواتین کے مقابلوں میں ایک نیا چیمپیئن ملا اور پولینڈ کی ایگا سویٹک نے پہلی مرتبہ گرینڈ سلیم جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔

سویٹک نے فائنل میں آسٹریلین اوپن چیمپیئن سوفیا کینن کو اسٹریٹ سیٹس میں کوئی سیٹ ڈراپ کیے بغیر مات دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔

ہاکی

ہاکی 2020

قومی کھیل ہاکی کی قسمت نہ بدل سکی اور سابق کھلاڑیوں کی جانب سے وزیر اعظم سے کیے گئے مطالبات کے باوجود کوئی اقدامات نہ کیے جانے کے باعث یہ کھیل روبہ زوال ہے۔

دنیا کے دیگر کھیلوں کی طرح ہاکی کا کھیل بھی پاکستان میں بری طرح متاثر ہوا اور پہلے ہی بین الاقوامی میچوں کی قلت کا شکار پاکستانی ٹیم غیرملکی دوروں اور میچز سے محروم ہو گئی۔

البتہ سال کے اختتام پر پاکستان ہاکی فیڈریشن نے کورونا وائرس کے ایس او پیز کے ساتھ مقابلوں کا انعقاد یقینی بنا کر کھلاڑیوں کے آنسو کسی حد تک پونچھ دیے۔

فیڈریشن نے پہلے راولپنڈی میں قومی ہاکی چیمپیئن شپ کا انعقاد کرایا جبکہ انڈر 19 قومی چیمپیئن شپ بھی منعقد کی گئی۔

نیشنل ہاکی چیمپیئن شپ کا فائنل راولپنڈی کے مری پیٹرولیم ہاکی گراؤنڈ میں منعقد ہوا جس میں واپڈا نے سابق چیمپیئن نیشنل بینک کو ٹائٹل سے محروم کرتے ہوئے چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

66ویں نیشنل ہاکی چیمپیئن شپ کے فائنل میں مقررہ وقت تک مقابلہ 1-1 گول سے برابر تھا لیکن پینالٹی شوٹ آؤٹ پر فتح نے واپڈا کے قدم چومے۔

کرکٹ

کرکٹ 2020

دنیا بھر کی طرح کرکٹ کے مقابلے بھی بری طرح کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور کئی ٹیموں کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔

کرکٹ کو سب سے بڑا نقصان رواں سال آسٹریلیا میں شیڈول ٹی20 ورلڈ کپ کے التوا کی شکل میں اٹھانا پڑا اور اب یہ ٹورنامنٹ 2022 میں منعقد ہو گا۔

صرف یہی نہیں بلکہ کئی ٹیموں کے دورے منسوخ ہونے کی وجہ سے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ بھی بری طرح متاثر ہوئی اور کئی ملکوں کی جانب سے اس کے شیڈول میں تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

ٹیموں کے لحاظ سے بات کی جائے تو رواں سال تمام ٹیموں کی کارکردگی بھی کورونا کی وجہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔

مارچ کے مہینے میں کورونا کی وجہ سے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان سیریز کی منسوخی کے ساتھ ہی کرکٹ کے تمام تر مقابلے اور سیریز منسوخ کردی گئیں اور میدان ویران ہو گئے۔

تقریباً 4 ماہ کے طویل وقفے کے بعد کرکٹ کے گھر انگلینڈ سے ہی ایک مرتبہ کھیلوں کے میدان آباد کرنے کا فیصلہ ہوا اور ویسٹ انڈین ٹیم نے دورے کی حامی بھر لی۔

دورے کے لیے خصوصی ایس او پیز مرتب کرتے ہوئے بائیو سیکیور ببل کا خاص انتظام کیا گیا تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور کھلاڑیوں سمیت کھیل سے منسلک تمام افراد کی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔

میچز کا انعقاد بند دروازوں کے ساتھ کیا گیا اور شائقین کو اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یورپ میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہونے کے باوجود انگلینڈ نے بہترین انتظامات کے ساتھ وائرس کے خطرے کو مات دیتے ہوئے ایونٹ کا انعقاد یقینی بنایا۔

بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد التوا کا شکار دنیا کی سب سے بڑی لیگ انڈین پریمیئر لیگ کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا لیکن بھارت میں تباہ کن صورتحال کی وجہ سے ایونٹ کا انعقاد متحدہ عرب امارات میں ہوا جس میں ممبئی انڈینز نے چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

اسی طرح کیریبیئن پریمیئر لیگ اور لنکا پریمیئر لیگ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ منعقد ہوئیں تاہم کرکٹ کے کھیل میں اصل کامیابی اس وقت حاصل ہوئی جب بھارت اور آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان سیریز کے ذریعے شائقین کی محدود تعداد کی بھی اسٹیڈیم میں واپسی ہوئی۔

پاکستان کرکٹ کیلئے یادگار سال

پاکستان کرکٹ کے لیے یادگار سال 2020

کورونا وائرس کے مہلک اثرات کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کی ملی جلی اور اتار چڑھاؤ سے بھرپور کارکردگی کے باوجود اس سال کو پاکستان کرکٹ کے لیے کامیاب قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

گزشتہ سال کے آخر میں سری لنکا کی کامیابی سے میزبانی کے ساتھ قومی ٹیم نے سال کا آغاز بنگلہ دیش کی ٹیسٹ اور ٹی20 میچوں میں میزبانی سے کیا اور ان دونوں سیریز میں پاکستان کی فتح سے بڑھ کر میچز کے پرامن انداز میں انعقاد سے اس پر ایک مرتبہ پھر مہر ثبت ہوگئی کہ پاکستان کھیلوں کے لیے انتہائی محفوظ ملک ہے۔

پاکستان نے بنگلہ دیش کو ٹی20 سیریز میں 0-2 سے شکست دی جس کے بعد راولپنڈی میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں بھی اننگز اور 44رنز سے کامیابی حاصل کی جہاں اس میچ کی خاص بات نوجوان نسیم شاہ کی ریکارڈ ساز ہیٹ ٹرک تھی۔

نسیم شاہ ہیٹ ٹرک کرنے والے  دنیا کے کم عمر ترین فاسٹ باؤلر بن گئے تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی
نسیم شاہ ہیٹ ٹرک کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین فاسٹ باؤلر بن گئے تھے— فائل فوٹو: اے ایف پی

بنگلہ دیش کو دو میچوں کی اس سیریز کا اگلا میچ اپریل میں کراچی میں کھیلنا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اسے منسوخ کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کنگز کو لگ گئے وِنگز، کراچی چیمپیئن بن گیا

اس سیریز کے فوراً بعد ملک کے تین شہروں میں پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کا انعقاد کیا گیا اور ایک مرتبہ پھر تمام میچز پُرامن اور بہترین انتظامات کے ساتھ منعقد کیے گئے۔

دلچسپ مقابلوں سے مزین ٹورنامنٹ راؤنڈ میچز کے بعد اختتام کی جانب گامزن تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پلے آف میچز سے قبل ہی لیگ کو غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

لیگ کے نئے چیمپیئن کے لیے شائقین کو تقریباً 8 ماہ کا انتظار کرنا پڑا اور طویل انتظار کے بعد دوبارہ سے ملک میں کرکٹ کی رونقیں بحال ہوئیں اور کراچی کنگز نے پہلی مرتبہ چیمپیئن کا تاج سر پر سجا لیا۔

کراچی کنگز نے لاہور قلندرز کو فائنل میں شکست دے کر چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا— فوٹو: پی ایس ایل
کراچی کنگز نے لاہور قلندرز کو فائنل میں شکست دے کر چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا— فوٹو: پی ایس ایل

کورونا وائرس کی وبا کے بعد پاکستانی ٹیم کا پہلا دورہ انگلینڈ کا تھا اور یہ ویسٹ انڈیز کے بعد دوسری ٹیم تھی جو کوئی بین الاقوامی سیریز کھیلنے جا رہی تھی۔

پاکستان کو مانچسٹر میں انگلینڈ کے خلاف کھیلے گئے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں فتح کا نادر موقع اس وقت ملا جب 277 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 117 رنز پر پانچ انگلش کھلاڑی پویلین لوٹ گئے تھے۔

اس موقع پر کپتان اظہر کا دفاعی انداز قیادت اور جوز بٹلر اور کرس ووکس کی عمدہ بیٹنگ نے پاکستان سے یقینی فتح چھین لی اور تین وکٹ سے کامیابی حاصل کر کے سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کر لی جو فیصلہ کن ثابت ہوئی کیونکہ اگلے دونوں ٹیسٹ میچ ڈرا ہو گئے۔

دونوں ٹیموں کے درمیان ٹی 20 سیریز 1-1 سے ڈرا ہوئی اور یوں پاکستان کا دورہ انگلینڈ اختتام کو پہنچا۔

یہ بھی پڑھیں: زمبابوے کے خلاف شکست سے قومی ٹیم کو کتنا بڑا نقصان ہوگیا؟

تاہم دورہ انگلینڈ کے اختتام پر ایک اہم پیشرفت ہوئی اور مانچسٹر میں دفاعی قیادت کا خمیازہ اظہر علی کو قیادت گنوانے کی صورت میں اٹھانا پڑا۔

اظہر علی کو قیادت سے ہٹانے کے بعد بورڈ نے بابر اعظم کو تینوں فارمیٹ میں کپتان بنانے کا اعلان کردیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ میں پہلی مرتبہ ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر دونوں عہدے حاصل کرنے والے مصباح الحق نے سلیکٹر کا منصب چھوڑنے کا اعلان کردیا اور بعدازاں یہ قرعہ فعال سابق کرکٹر محمد وسیم کے نام نکلا جنہیں سلیکشن کمیٹی کا نیا سربراہ بنانے کا اعلان 18 دسمبر کو کردیا گیا۔

خیر، انگلینڈ سے واپسی پر پاکستان نے زمبابوے کی اپنی سرزمین پر میزبانی کر کے ایک مرتبہ پھر دنیائے کرکٹ کو مثبت پیغام دیا اور ون ڈے اور ٹی20 دونوں سیریز میں کامیابی حاصل کی۔

بابر اعظم کو تینوں فارمیٹ میں پاکستان کی قیادت سونپ دی گئی— فوٹو: اے ایف پی
بابر اعظم کو تینوں فارمیٹ میں پاکستان کی قیادت سونپ دی گئی— فوٹو: اے ایف پی

یہ سیریز شائقین کی توقعات کے برعکس بالکل ہی یکطرفہ ثابت نہ ہوئی اور سیریز کے تیسرے ون ڈے میچ میں زمبابوے نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقابلہ ناصرف ٹائی کیا بلکہ پاکستان کو سپر اوور میں مات دی۔

پاکستان نے ٹی20 سیریز میں 0-3 اور ون ڈے سیریز میں 1-2 سے کامیابی حاصل کی۔

جیسا کہ پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ سال پاکستان کرکٹ کے لیے بہت کامیاب ثابت ہوا تو کئی ٹیموں کے دوروں کے ساتھ ساتھ متعدد ٹیموں نے اگلے سال پاکستان کے دورے کی حامی بھی اسی سال بھری۔

مزید پڑھیں: جنوبی افریقہ کا 14سال بعد دورہ پاکستان کا اعلان

جنوبی افریقہ کی ٹیم نے جنوری 2021 میں پاکستان کے دورے کی تصدیق کی اور اس کے شیڈول کا اعلان بھی کردیا گیا جبکہ انگلینڈ کی ٹیم بھی آئندہ سال ٹی20 ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کا دورہ کر کے ٹی20 سیریز کھیلے گی۔

پاکستانی ٹیم ان دنوں نیوزی لینڈ کے دورے پر موجود ہے اور ہم ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ دعا کرتے ہیں کہ اگلے سال پاکستان میں کھیلوں کے میدان آباد کرنے کے ساتھ ساتھ ہر کھیل میں پاکستانی ٹیم کے لیے فتوحات اور کامرانیوں کا سال ثابت ہو۔