یکم فروری 2021ء کو میانمار کی مسلح افواج نے خاتون رہنما اور حکمراں جماعت کی سربراہ آنگ سانگ سوچی کے اقتدار کا سنگھاسن الٹ کر انہیں گرفتار کرلیا، اور ان کی گرفتاری کی اہم وجہ 2020ء میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی اور نتائج پر متاثر ہونے کے الزامات بتائے جارہے ہیں۔

آنگ سانگ سوچی 19 جون 1945ء کو رنگون کے نواح میں واقع ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ سوچی نے ابتدائی تعلیم میتھو ڈسٹ انگلش ہائی اسکول میں حاصل کی اور بعد ازاں 1964ء میں جامعہ دہلی اور اس کے بعد 1968ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اپنا گریجویشن فلسفے، سیاسیات اور اکنامکس کے مضامین کے ساتھ مکمل کیا۔ جس کے بعد انہوں نے نیویارک میں رہائش اختیار کی۔

سوچی نے اقوامِ متحدہ میں بھی خدمات انجام دیں جہاں وہ 3 سال تک بجٹ امور سے متعلق فرائض انجام دیتی تھی۔ 1972ء میں وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئی۔

سوچی 1988ء میں وطن واپس آئیں اور اسی سال انہوں نے اپنا سیاسی کیریئر میانمار کی ایک نسبتاً نئی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی جنرل سیکرٹری کے طور پر شروع کیا۔ سوچی کی جماعت این ایل ڈی کو ان ریٹائرڈ فوجی افسران کی حمایت حاصل تھی جو میانمار کی فوجی حکومت کے سخت مخالف تھے۔

ان دنوں برما پر جنرل نے ون (Ne) کی حکومت تھی جو برسرِ اقتدار فوجی حکومت کا سربراہ تھا۔ سوچی کے نظریات پر مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کے علاوہ بدھ مت کے نظریات کے گہرے اثرات تھے۔ انہوں نے ملک میں جمہوریت کے فروغ اور طویل فوجی اقتدار کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں انہیں کامیابی بھی ملی۔

اسی فکر کے تحت 1990ء کے انتخابات میں این ایل ڈی کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی اور وہ 81 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئی۔ لیکن ان نتائج کو میانمار کی فوجی حکومت نے مسترد کرتے ہوئے این ایل ڈی کو اقتدار منتقل کرنے اور حکومت بنانے سے روک دیا۔ بین الاقوامی سطح پر احتجاج اور آواز بلند کرنے کے نتیجے میں فوجی حکومت نے سوچی کو نظر بند کردیا اور وہ 2010ء تک مسلسل 21 سال تک قید میں رہیں اور انہیں 13 نومبر 2010ء کو رہا کیا گیا۔

سوچی کو دورانِ حراست 1991ء میں امن، جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کی پاسداری کے اعتراف میں امن کا نوبل پرائز بھی ملا۔ تقریباً 13 لاکھ امریکی ڈالر کی اس رقم کو سوچی نے میانمار کے عوام کی تعلیم اور صحت کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا۔

اسی سال سوچی کو آزادی کے سخاروف ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ یوں سوچی اپنی طویل قید اور بین الاقوامی پزیرائی کے باعث میانمار میں عوامی سطح پر مقبول ہوتی چلی گئیں اور پھر تمام تر اختلافات کے باوجود ملک کے اعلی ترین عہدے پر فائز ہوئیں۔

سوچی کا شمار تیسری دنیا کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہیں حالات کے جبر، قید و بند کی صعوبتوں اور مصائب کے خلاف جدوجہد کی علامت تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔

سوچی کو اپنی جانبدارانہ پالیسیوں کے باعث انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مذہبی منافرت کے حوالے سے ایک قابلِ نفرت اور متنازعہ شخصیت کے طور پر بھی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہر چند کہ بوجوہ اس حوالے سے بظاہر کوئی باز گشت سنائی نہیں دے رہی لیکن درحقیقت سوچی کو بڑے پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام اور انہیں جلاوطن کرنے جیسے اقدامات میں ملوث انتہا پسند بدھ طبقے کی پشت پناہی میں بھی ملوث سمجھا جاتا ہے۔

اس حوالے سے ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کی پشت پناہی کی بنا پر بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی کئی تنظیموں اور مختلف ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔

مسلمانوں کے قتلِ عام کے علاوہ انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں پر بھی سوچی کو عالمی سطح پر شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا جن میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات بھی شامل ہیں۔ اسی ضمن میں 2019ء میں سوچی نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے سامنے صحافیوں کے قتل کے الزامات کے خلاف میانمار کی مسلح افواج کی وکالت کرتے ہوئے اس الزام کی تردید کی کہ وہ کسی بھی قتلِ عام میں ملوث ہیں۔

آنگ سان سوچی عدالت انصاف کے سامنے اپنے دلائل پیش کررہی ہیں—تصویر: اے پی
آنگ سان سوچی عدالت انصاف کے سامنے اپنے دلائل پیش کررہی ہیں—تصویر: اے پی

سوچی کی تمام تر سیاسی کامیابیوں کے باوجود بدھ مت سے تعلق رکھنے والے مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے ظلم و تشدد، قتلِ عام اور جبری جلاوطنی جیسے امور پر سوچی کی خاموشی اور چشم پوشی کو ایک انتہا درجے کی مجرمانہ غفلت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

70 فیصد سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو جس جبر کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک تاریخی المیہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے 11 مختلف علاقوں سے ایک لاکھ 40 ہزار افراد لاپتہ ہوئے۔ 12 ہزار سے زائد مسلمانوں کو جلاوطن ہونا پڑا۔ 1300 مکانات اور 32 مساجد کو مسمار کردیا گیا جبکہ اس موضوع پر سوچی کی جانب سے کوئی اشک شوئی نہیں کی گئی۔

سوچی کی جانب سے جانبدارانہ رویے اور بدھسٹ انتہا پسندوں کو تحفظ دینے کا طرزِ عمل عالمی سطح پر محسوس کیا گیا اور سوچی کو 2018ء میں اس وقت خفت اٹھانا پڑی جب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سوچی کو 2009ء میں دیا جانے والا انسانی حقوق کی پاسداری کا ایوارڈ واپس لے لیا۔ اس واپسی کی وجہ صحافیوں کے قتل پر سوچی انتظامیہ کی چشم پوشی اور سوچی کا ڈھٹائی پر مبنی رویہ بتایا جاتا ہے۔

ہوسکتا ہے آنے والے وقتوں میں میانمار کے عوام سوچی کے حوالے سے اپنی مثبت یا منفی رائے کا اظہار کریں لیکن فی الوقت مغرب کی منظورِ نظر سوچی ایک بار پھر سیاسی گرداب میں ہے۔ ماضی میں فوج کے ساتھ معرکہ آرائی اور عوامی سطح پر اپنی ساکھ کے بل بوتے پر انتخابی معرکہ آرائیوں میں بارہا سرخرو ہونے والی سوچی کے لیے فی الوقت بڑا چیلنج اس پر لگے بے ضابطگیوں کے وہ الزامات ہیں جس نے ان کی ساکھ کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ سوچی اپنی ساکھ کی بحالی کے لیے اب کون سی حکمتِ عملی اختیار کریں گی۔ ساتھ ساتھ یہ سوال بھی ابھی باقی ہے کہ کیا سوچی اس بار بھی ایسی صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں، کیونکہ اس مرتبہ ان پر لگائے جانے والے الزامات اور بین الاقوامی سطح پر آنے والا ردِعمل بظاہر سوچی کے حق میں نظر نہیں آرہا۔

تبصرے (0) بند ہیں