راقم نے کم و بیش 30 برس اردو اخبارات میں گزارے ہیں اور صرف کاتبوں کے تجربات پر تو ایک الگ مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ اخبارات کے دفتر میں کاتبوں کا بول بالا نہیں بلکہ ان کی حکمرانی تھی۔

ایک روایت ہے کہ اخباری دفتر میں کاتبوں کے لیے پینے کے پانی کا گھڑا (مٹکا) ٹوٹ گیا تھا، جسے 2، 3 دن ہوچکے تھے۔ انتظامیہ کو اطلاع دی جاچکی تھی مگر کوئی توجہ نہیں دی گئی تو اچانک ایک رات 8 بجے کے بعد کاتبوں نے اپنے اپنے قلم دان سمیٹ لیے اور منتظم اعلیٰ کو بلا کر اسی وقت گھڑے منگوانے کی وارننگ دی کہ جب تک گھڑے نہیں آئیں گے کاتب قلم نہیں چلائیں گے۔ ذمے دار نے بڑی منت سماجت کی کہ اب رات میں کہیں گھڑے نہیں مل سکتے۔ کل صبح اوّل وقت میں گھڑے منگوالیے جائیں گے مگر کاتبوں نے ایک نہ سنی۔ چار و ناچار آدمی دوڑائے گئے، کسی گھڑے والے کے گھر کا پتا چلایا گیا اور رات ہی میں اس کی دکان کھلوا کر، ڈیڑھ گھنٹے میں گھڑے دفتر میں پہنچائے گئے۔

اس واقعے کویہاں درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کل کسی بھی اردو اخبار یا اشاعتی ادارے میں کاتب کی کتنی اہمیت یا ضرورت تھی اور کاتبوں کو اس اہمیت کا کتنا احساس تھا اور وہ اپنی بات منوانے پر کیسے قادر تھے، ورنہ تو اگلی صبح اخبار کا بازار میں آنا ممکن ہی نہیں تھا۔

کاتبوں کے تعلق سے ایسے ایک نہیں کئی واقعات ہیں۔ مختصراً عرض ہے کہ اردو کی کوئی بھی اشاعت چاہے وہ اخبار کی شکل میں ہو، رسالے یا کتاب کی صورت میں، کاتب کے بغیر اس کا وجود ناممکن تھا۔ اس صورتحال میں کسی رسالے یا کسی کتاب کا عجلت میں چھپنا بھی ایک کارِ محال تھا۔

اس زمانے میں اردو کا ٹائپ بھی بنایا گیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے پرچے اس میں چھپے بھی مگر اردو والوں میں اسے مقبولیت نہیں ملی۔ کتابت کے حوالے سے مولانا آزاد کے تاثرات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ بزرگوں سے روایت ہے کہ مولانا آزاد کہتے تھے کہ جب تک اردو کتابت، مشینی طور اختیار نہیں کرے گی تب تک اردو اور اس کی طباعت ترقی نہیں کرسکتی اور یہ بات صحیح بھی ثابت ہوئی۔

اردو روزناموں کے عملے میں سب سے بڑی نفری کاتبوں ہی کی ہوتی تھی۔ مجال تھی کہ کوئی ان سے اختلاف کرے۔ اچھے اچھے ایڈیٹر، شاعر و ادیب بھی ان سے دھونس کھاتے تھے۔

یہاں اس کا اعتراف نہ کرنا خلافِ حق ہوگا کہ کتابت کے شعبے میں ایسے ایسے فنکار بھی تھے کہ جو اپنا جواب آپ تھے۔ کوئی اردو پریس ایسا نہیں تھا جہاں کاتب نہ ہوں۔ ان میں سب ’فنکار‘ تھے؟ ایسا بھی نہیں تھا مگر اس طرح لوگوں کی روزی روٹی چلتی تھی اور اردو کی طباعتی دنیا انہی کاتبوں کی رہین منت رہی۔

ہاتھ سے کی جانے والی کتابت کا نمونہ
ہاتھ سے کی جانے والی کتابت کا نمونہ

روزنامہ انقلاب (ممبئی) میں جب ہم (1985ء میں) پہنچے تو وہاں کوئی 20، 25 کاتب رہے ہوں گے۔ ان میں جو حضرات ممتاز تھے ان میں سے علیم اللہ خان اور عرفان علوی اپنے فنّی کردار کے سبب ذہن میں اب بھی قلمدان لیے بیٹھے ہیں۔

علیم اللہ خان کے بارے میں روایت ہے کہ انقلاب کا موجودہ سَرنامہ (ماسٹ ہیڈ) انہی کے قلم کی یادگار ہے۔ علوی بھی کتابت کے تمام فنی رموز کا عرفان رکھتے تھے۔ موقع بہ موقع ان سے بھی شہ سرخی لکھوائی جاتی تھی۔

لکھنؤ سے عرفان قاسمی بھی اسی زمانے میں وارد ہوئے تھے۔ یہ اپنے معاصرین میں یوں ممتاز تھے کہ انہیں آرٹسٹک انداز سے لکھنے کا خاصا شعور تھا۔ ان سے میگزین کے صفحات کی سرخیاں لکھوائی جاتی تھیں۔ حافظ محمد ایوب (اعظمی) تھے تو کاتب مگر ان کا علم بھی اچھا خاصا تھا، طبعاً وہ شفیق و خلیق واقع ہوئے تھے، انہوں نے کئی نوجوانوں کو کاتب بھی بنایا۔

ممبئی میں جو کاتب اور خطاط اپنے فنی امتیاز کے سبب مشہور تھے اور جو کسی اخبار سے وابستہ بھی نہیں تھے، ان میں فیض مجددی کا نام اوّل اوّل لیا جانا چاہیے۔ وہ لاہوری خط کے تعلق سے خواص میں دُور تک عزت و احترام کے حامل تھے۔ قاسم گڈکری کے تعلق سے مشہور تھا کہ وہ عربی خط میں اپنی مثال آپ تھے۔

نورالدین آزاد نے غالب صدی کے موقع پر پاکٹ سائز دیوان غالبؔ لکھا تھا مگر ممبئی ہی سے ایک دیوانِ غالب مصوّر بھی شائع ہوا تھا جس کی کتابت فیض مجددی کے قلم کا شاہکار تھی تو اس کا رنگین آرٹ ورک رام کمار کا تھا اور ہاں نورالدین آزاد (مرحوم) اپنے الفی قرآن کے پروجیکٹ کے سبب بھی مشہور ہیں۔ اس قرآنی نسخے کی ہر سطر الف سے شروع ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ الفی قرآن کی کتابت مشہور خطاط یوسف صاحب کی ہے۔ یہ وہی یوسف صاحب ہیں جن کے حسنِ رقم نے حج ہاؤس (ممبئی) کی بیرونی اور اندرونی دیواروں پر قرآنی خطاطی نے ان کے نام اور کام کو یادگار بنا دیا ہے۔ کتابت ہی کے شعبے میں شہاب آرٹسٹ بھی خاصی شہرت کے حامل تھے۔ افسوس ان کے بارے میں ہمیں خاطر خواہ معلومات نہیں۔

اس وقت ہمارے ذہن میں 2 کاتب یاد آرہے ہیں، جو صرف اپنی ایک خاص شہرت ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ انہیں امتیاز بھی حاصل تھا۔ ان میں سے ایک عبدالقادر، حجرہ محلے (نزد جے جے اسپتال) میں رہتے تھے اور پوسٹر لکھنے میں ماہر سمجھے جاتے تھے۔

30×20 سائز کے پوسٹر کی اس وقت ان کی اجرت 35 تا 40 روپے تھی۔ عبد القادر اچھے کاتب تھے یا نہیں مگر ان کے لکھے ہوئے پوسٹر کو لوگ دُور سے پہچان لیتے تھے، یقیناً یہ امر بھی کوئی معمولی نہیں تھا۔

عبد القادر کے برعکس شہر میں دوسرے کاتب بلکہ صاحبِ طرز ظفر آرٹسٹ تھے اور وہ اسی نام سے مشہور تھے۔ ہم جس زمانے کا ذکر کر رہے ہیں اس وقت فوٹو آفسیٹ پریس رائج ہوچکا تھا مگر شہر کے اکثر پریس میں لیتھو گرافی بھی عام تھی۔ لیتھو کے مقابلے میں آفسیٹ کی چھپائی مہنگی تھی، لہٰذا عوام اکثر چیزیں لیتھو پریس ہی میں چھپواتے تھے۔

لیتھو کے طریقہ کار سے ہماری نئی نسل آج ناواقف ہوگی۔ لیتھو پریس میں چھپنے کے لیے ایک خاص قسم کا آمیزہ لگا ہوا (پیلا) کاغذ استعمال ہوتا تھا، جس کی روشنائی بھی مخصوص ہوتی تھی جو کانپور کے محلے پٹکاپور سے آتی تھی۔ پیلے کاغذ جسے کاتب حضرات مِسطر کہتے تھے اس پر کتابت ہونے کے بعد اسے پتھر کی سِل پر الٹا رکھ کر کتابت شدہ مواد بڑی مشقت سے (سل پر) منتقل کیا جاتا تھا، یعنی ساری عبارت پتھر پر الٹی ہوجاتی تھی۔

لیتھو کے طریقے میں کاغذ کے مواد کو پتھر کی سل پر متقل کیا جاتا تھا—تصویر: وکی پیڈیا
لیتھو کے طریقے میں کاغذ کے مواد کو پتھر کی سل پر متقل کیا جاتا تھا—تصویر: وکی پیڈیا

یہ جن ظفر آرٹسٹ کا ذکر کیا گیا ہے، اس زمانے میں، جب عبدالقادر پوسٹر کے لکھنے کی اجرت 35 تا 40 روپے لیتے تھے، تو موصوف 4، 5 گنا زائد اجرت لیتے تھے۔ ان کی فنکاری کو یوں سمجھیے کہ وہ پیلے کاغذ یعنی مِسطر پر نہیں بلکہ براہِ راست پتھر پر (یعنی اُلٹا) لکھتے تھے اور اس عمل میں ان کی پوری فنکاری جلوہ بن جاتی تھی۔

عبد القادر صبح تا رات گئے تقریباً 2 پوسٹر کی کارگزاری کرلیتے تھے اور ظفر آرٹسٹ کے بارے میں مشہور تھا کہ انہیں ایک پوسٹر لکھنے میں 2 دن سے بھی زائد لگ جاتا تھا اور کبھی اس سے بھی زیادہ مگر وہ پوسٹر آرٹ کا ایک نمونہ ہوتا تھا۔ ظفر محمد (آرٹسٹ) بھوپال سے تعلق رکھتے تھے۔ اس زمانے کے خوش ذوق اور فن شناس صاحبِ حیثیت لوگ انہی سے کتابت کا کام لیتے تھے اور عوام میں وہ ’فائیو اسٹار‘ کاتب سمجھے جاتے تھے۔ مشہور فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کے برادر ظفر آرٹسٹ سے ایک بار ہم نے پوچھا:

’ظفر صاحب! آپ دورِ حاضر کے ممتاز ترین خطاط و آرٹسٹ ہیں۔ کیا آپ کے فن کا کوئی وارث بھی ہے؟‘

جواباً انہوں نے ہماری جانب گُھور کر دیکھا اور پھر پورے بھوپالی ٹھسّے کے ساتھ بولنا شروع کیا کہ ’میاں! میں نے ڈیڑھ سال تک اپنے استاد کی خدمت کی ہے، ان کی جوتیاں سیدھی کیں، ان کے قلم اور قلمدان صاف کیے، ان کی چائے سے لے کر سگریٹ بیڑی تک لاکر دی، تب کہیں استاد نے قلم ہاتھ میں دیتے ہوئے پہلا حرف لکھوایا تھا اور اس حرف کی ہفتوں مشق کروائی تھی، کیا تم لوگوں میں اتنے تحمل اور صبر کے ساتھ سعادت مندی کا جذبہ ہے؟‘

کچھ توقف کے بعد خود ہی جواب دیا کہ ’ظاہر ہے آپ کی خموشی ’نہیں‘ کی غمّاز ہے۔ اسی نہیں میں آپ کے سوال کا جواب بھی پوشیدہ ہے‘۔

ظفر آرٹسٹ کب بھوپال لوٹ گئے، نہیں پتہ، ایک مدت بعد دفترِ انقلاب میں بھوپال سے رہبر جون پوری کا شعری مجموعہ موصول ہوا، جس کے سرورق پر ظفر آرٹسٹ اپنے لکھے ہوئے حروف میں جلوہ گر تھے۔ پھر ان کا کوئی فن پارہ ہماری نگاہ سے نہیں گزرا، ایک آدھ برس بعد برادرم منظر بھوپالی سے موصوف کی سناؤنی ملی۔

ہم نے ممبئی کے حوالے سے کچھ تفصیل سے یہاں ظفر آرٹسٹ کا ذکر کیا ہے مگر اس زمانے میں ہر بڑے شہر میں ایک سے ایک صاحبِ فن کاتب موجود تھا۔ دہلی کے ممتاز خطاط خلیق ٹونکی کو تو صدارتی ایوارڈ بھی تفویض کیا گیا تھا۔

یہ سچ ہے کہ ان کاتبوں میں اکثر حضرات اپنے فن کا صرف احساس ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ اس ضمن میں اغماز کے بھی حامل تھے اور لوگوں کو ان کے فن کے سبب ان کے ناز و غمزے بھی قبول تھے۔

ان کے صاحبِ فن ہونے کا ایک نمونہ یہ بھی بیان ہوجائے کہ کسی کتاب یا پوسٹر میں ن۔ل۔ع۔غ جیسے حروف اگر ایک سے زائد بار لکھے ہوں تو ان کی ہئیت میں مثلاً ’ن‘ کے یا ’ل‘ کے دائرے یا اونچائی کو کسی بھی ’ن‘ یا ’ل‘ کو ٹریس کرکے ملا لیں بال برابر بھی فرق نہیں ملتا تھا۔ یہ بات سُنی سنائی نہیں بلکہ آزمودہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ وہ ان کا زمانہ تھا اور وہ اپنے فن میں کامل تھے۔ آج زمانہ یہ ہے کہ اگر کوئی ’خوش خط‘ ہے تو وہ بھی اپنے آپ کو ’خطّاط‘ سے کم نہیں سمجھتا۔

ہم اپنے اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ طباعتی کام کی زیادتی، وقت کے تقاضوں اور اخباری کام میں عجلت اور یکسانیت نیز دوسری زبانوں کے ٹائپ وغیرہ کے پیش نظر اردو (نستعلیق) کے ٹائپ یا اس کے متبادل کی عرصہ دراز سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ دکن کے حکمراں اردو دوستی کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے بھی اس ضمن میں ماہرین کو کام سے لگایا مگر نستعلیق کا ٹائپ نہیں بننا تھا، نہ بن سکا۔

وہ جو کہا جاتا ہے کہ قدرت کی طرف سے ایک وقت متعین ہوتاہے، بشرطیکہ آدمی کوشش میں لگا رہے کہ کوئی کوشش رائیگاں نہیں جاتی۔ اس کی واضح مثال ہمارے عہد میں کمپیوٹر کے ذریعے کتابت کے حوالے سے احمد مرزا جمیل کی ہے۔

1980ء کے آس پاس کا زمانہ تھا جب یہ مژدہ سنا گیا کہ جلد ہی اردو زبان کتابت کی زنجیر سے آزاد ہوجائے گی۔ اردو کے کاتبوں وغیرہ نے جب یہ خبر سنی تو ہونہہ کے ساتھ کہا کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ نستعلیق کتابت، مشین کے ذریعے ہو؟ اس کا بھی حشر وہی ہوگا جو اردو کے نسخ ٹائپ کا ہوا‘۔

احمد مرزا جمیل۔ تصویر: وکی پیڈیا
احمد مرزا جمیل۔ تصویر: وکی پیڈیا

اس ناممکن کو ممکن بنانے والے احمد مرزا جمیل تھے۔ ان کے تعلق سے ہم نے اب تک جو کچھ پڑھا ہے اس کا اِجمال یوں ہے۔ 21 فروری 1921ء کو محلے چتلی قبر (دہلی) میں پیدا ہونے والے احمد مرزا جمیل کے والد نور احمد اپنے وقت کے صاحبِ طرز طغریٰ نویس ہی نہیں تھے بلکہ نقاشی، مصوری اور خوش نویسی ان کا ذوق وشوق تھی۔ احمد مرزا جمیل کو یہ سب ورثے میں ملی تھیں۔ ان کا خاندان تلاشِ معاش میں دہلی سے ممبئی آگیا اور پھر ممبئی کے مشہور جے جے اسکول آف آرٹس میں احمد مرزا جمیل نے تعلیم حاصل کی گویا انہیں اس اسکول آف آرٹس میں اپنی وراثت کو باقاعدہ ایک فن کی طرح سیکھنے کا موقع ملا۔ اس طرح احمد مرزا جمیل کے فنی شعور نے جِلا پائی۔ طالب علمی کے زمانے میں مصوری کے مقابلوں میں انہوں نے صرف حصہ ہی نہیں لیا بلکہ فتح بھی ان کا نصیب بنی۔ وہ 1945ء تک ممبئی میں رہے اور فلموں میں ڈیزائنر کے طورپر کام کرتے رہے، پھر کلکتہ میں بھی اسی شعبے میں کام کیا۔ قدرت کے پروگرام عجب ہوتے ہیں، وہ پیدا کہیں کرتی ہے، تربیت کسی اور مقام پر کرتی ہے اور اصل کام جو کسی کے وہم وگمان میں نہیں ہوتا وہ کہیں اور لیتی ہے۔ 1950ء میں حالات نے احمد مرزا جمیل کو پاکستان ہجرت پر مجبور کیا۔

کراچی کی ایک اشتہار ساز کمپنی میں آرٹ ڈائریکٹر کے طورپر انہیں ملازمت ملی۔ انہی دنوں احمد مرزا جمیل نے بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کا وہ پورٹریٹ بنایا، جو گزشتہ 6 دہائیوں سے تواتر کے ساتھ پاکستان بھر میں چھپ رہا ہے۔ واضح رہے کہ اس اسکیچ کو ناقدانِ فن نے شاہکار قرار دیا ہے۔

بعد میں کراچی ہی میں انہوں نے اپنا ذاتی اشاعتی ادارہ ایلیٹ پبلشرز کے نام سے قائم کیا، جس نے اشاعتی میدان میں بڑا نام کمایا۔ دیکھا جائے تو یہ ساری کارکردگی ان کے اس کارنامے کی تمہید تھی، جس کے لیے قدرت نے انہیں منتخب ومرتب کیا تھا۔

روایت ہے کہ 1960ء کے آس پاس کا زمانہ تھا، احمد مرزا جمیل اپنے ندیمِ دیرینہ سید مطلوب الحسن زیدی، جو طباعتی شعبے کے ایک ماہر شخص کے طور پر کراچی میں معروف تھے، ان سے خطِ نستعلیق کے میکانیکی مسئلے پر اکثر بحث و مباحثہ کرتے اور چند ناکام تجربے بھی کیے، بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ حروف کے ٹکڑوں کے بجائے، لخت لخت الفاظ بنائے جائیں یعنی لفظوں کو یونٹ کی شکل دے دی جائے۔

مثلاً ’پر‘ لکھنا ہے تو ’پ‘ اور’ر‘ کو جدا نہ کیا جائے بلکہ ’پر‘ ہی کا یونٹ بنا دیا جائے جو، ہر ضرورت پر کام آئے۔ مثال کے طور پر ’فر‘ کے یونٹ میں ’مسا‘ جوڑ دیا جائے تو ’مسافر‘ ہوجائے گا اور اگر اس کے آخر میں ’ئل‘ لگا دیا جائے تو وہ ’مسائل‘ پڑھا جائے گا۔ یہ فارمولہ تو طے پاگیا مگر اس کے عملی تجربے کی راہ آسان نہیں تھی۔

اسے خدا کی حکمت کہیے کہ سنگاپور کی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی ایک نمائش میں احمد مرزا جمیل پہنچے اور ایک اسٹال پر انہوں نے چینی زبان کو کمپوز ہوتے دیکھا تو قدرت نے ان کے ذہن میں امید کی ایک مشعل روشن کی کہ جب چینیوں نے اپنی زبان کے 80 ہزار کیریکٹر قابو میں کرلیے ہیں تو ہم اپنی زبان میں یہ عمل کیوں نہیں کرسکتے؟

ایک مشہور برطانوی ادارے مونوٹائپ کارپوریشن والوں سے بصورتِ ناکامی، تمام نقصان کی بھرپائی اپنے ذمے لیتے ہوئے معاہدہ کیا اور کام شروع ہوا۔ اسی زمانے میں پاکستان کے ایک بڑے اردو اخبار روزنامہ جنگ کا لاہور ایڈیشن جاری ہونے والا تھا، اس کے مالکان کو جب اطلاع ملی کہ خطِ نستعلیق کمپیوٹر میں منتقل ہونے والا ہے تو انہوں نے احمد مرزا جمیل سے رابطہ کرکے اپنے اخبار کے لاہور ایڈیشن کے منصوبے کو مؤخر کرتے ہوئے اس کام میں ان کی طرف بہرطور دستِ تعاون بڑھایا۔

کمپیوٹر سے خط نستعلیق میں ہونے والی کتابت کا نمونہ
کمپیوٹر سے خط نستعلیق میں ہونے والی کتابت کا نمونہ

خطِ نستعلیق کے اوّل اوّل نمونے میں 6 ماہ کا وقت صرف ہوا۔ بعد میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ان کی مدد کی گئی اور جب ایک پریس کانفرنس میں باقاعدہ ’خطِ نستعلیق‘ کی برقی کتابت کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح چہار طرف پھیل گئی، مگر اس کے ساتھ ساتھ احمد مرزا جمیل کی مشکلات میں اضافہ بھی ہوا۔

ان کے رفقائے کار کا خیال تھا کہ 20، 25 کاتبوں کو یکجا کرکے ان سے لفظوں کے یونٹ (ترسیمے) لکھوالیے جائیں گے، لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ یہ کاتب حضرات الگ الگ اساتذہ کے تربیت یافتہ ہوں گے، لہٰذا سب کے ’خط‘ میں کچھ نہ کچھ فرق ہونا یقینی ہے جس سے تحریر میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوگی اور کسی ایک کاتب سے معینہ وقت میں تمام یونٹ لکھوانا بھی ناممکن عمل تھا۔

بہرحال احمد مرزا جمیل نے اس کام کا بیڑا خود اٹھایا اور صرف 6 ماہ میں 10×10 انچ کے 16 ہزار یونٹ (ترسیمے) تیار کرلیے، جس سے کم و بیش ڈھائی لاکھ الفاظ وجود پاسکتے تھے۔ شکرِ ربی کہ اس طرح اردو میں کمپیوٹر سے کتابت (کمپوزنگ) کا ایک انقلابی عمل شروع ہوا۔

مشینی عمل کی اکثر ایجادات مغرب کی دین ہیں مگر احمد مرزا جمیل نے یہ ثابت کردیا کہ اگر استقلال کے ساتھ مسلسل کوششیں کی جائیں تو اس دور میں بھی ایجاد کا سہرا مشرق کے سر بندھ سکتا ہے بلکہ ان کی مساعی احسن نے اس عمل ہی کو نہیں ان کے نام کو بھی تاریخ میں درج کردیا۔

یہاں یہ بات بھی اندراج چاہتی ہے کہ کامیابی کے نشے میں احمد مرزا جمیل اپنے بابا نور احمد کو نہیں بھولے اور اپنی ایجاد کو ان سے منسوب کرکے اسے ’نوری نستعلیق‘ کا نام دے دیا۔

روزنامہ جنگ کے لاہور ایڈیشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اردو کا اوّلین اخبار ہے جو سب سے پہلے کمپیوٹر کے ذریعے نستعلیق فونٹ میں جاری ہوا، اسی طرح جالندھر (ہندوستان) کا روزنامہ ’ہند سماچار‘ بھی ہندوستان کا پہلا اردو اخبار ہے جس نے دستی کتابت کو چھوڑ کر کمپیوٹر کے ذریعے ’نوری نستعلیق‘ میں اپنی اشاعت کو حسین و جمیل بنایا۔ اب تو گھروں میں بھی نستعلیق کا یہ نور عام ہوگیا ہے۔ احمد مرزا جمیل کی اس ایجاد پر پاکستان بھر میں تحسین کی گئی۔ پاکستان کے ایک ممتاز شاعر حکیم انجمؔ فوقی بدایونی نے برقی کتابت کے موجد کی اس کامیابی پر اس شعر کے ذریعے تحسین کی تھی

ہم جو چاہیں خود ہی لکھ دیں

سادہ کاغذ ہیں تقدیریں

اگر یہ کہا جائے تو ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ مرزا احمد جمیل کی اس ایجاد نے اردو زبان کو ڈولی اور کہاروں کے کاندھوں سے اتار کر جمبو جیٹ میں بٹھا دیا۔ کل اگر سو، سوا سو صفحات کی کوئی کتاب بہ عجلت چھپوانی ہوتی تھی تو حضرتِ کاتب کے ٹھِیے کے چکر پر چکر لگانے پڑتے تھے۔ ان کے ناز اور نخرے اٹھانے کے ساتھ لوگوں نے ان کے گھر کا سودا سلف بھی بازار سے لاکر دیا ہے اور کتابت کی منہ مانگی اجرت بھی۔

مگر اسی کے ساتھ ساتھ ہم اردو والوں کی احسان فراموشی بھی تاریخ میں درج ہوگئی کہ جب 17فروری 2014ء کو احمد مرزا جمیل کا انتقال ہوا تو پاکستان کے اردو اخبارات سمیت تمام ذرائع ابلاغ نے ان کی رحلت کی خبر کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ جب کسی طور ان کی سناؤنی ممبئی پہنچی تو یہاں احمد مرزا جمیل کی اس ایجاد کو فروغ دینے والے سید منظر زیدی نے بذریعہ فون مرحوم کے اہلِ خانہ سے کراچی میں تصدیق کی تو دوسرے دن ممبئی کے اردو اخبارات کے ذریعے یہ خبر عام ہوئی۔

14 اگست 1982ء کو پاکستانی حکومت کی طرف سے احمد مرزا جمیل کو ملک کا ایک مؤقر ایوارڈ بنام ’تمغۂ امتیاز‘ تفویض کیا گیا مگر مرحوم کا سب سے بڑا اعزاز تو اردو کا ’نوری نستعلیق‘ فونٹ ہے کہ یہ جب جب اور جہاں جہاں کمپوز ہوگا وہاں وہاں احمد مرزا جمیل اردو کے تئیں اپنی مثالی جستجو نیز اپنے استقلال کی یاد دلاتے رہیں گے اور نو بہ نو منزلوں کی آرزو و جستجو کرنے والوں کے دلوں میں حوصلے کی شمع روشن کرتے رہیں گے۔

یقیناً ایسے لوگ مرتے نہیں، اپنی مساعی کے نتیجے میں زندہ و جاوید ہوجاتے ہیں۔ احمد مرزا جمیل کا کارنامہ تو اس کا تقاضا کرتا ہے کہ انہیں دورِِ جدید کے ’محسنِ اردو‘ کے لقب سے یاد کیا جائے اور سچ بھی یہی ہے کہ وہ بجا طور پر اس کا حق رکھتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں