رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

تقریباً ایک دہائی قبل میں نے ایک مضمون پڑھا تھا جس میں مغربی ممالک کے شہریوں کی جانب سے چین میں لاوارث چھوڑی گئی بچیوں کو گود لینے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

وہ مضمون ایک ایسی ہی خاتون نے لکھا تھا جنہوں نے چین میں ایک بچی کو گود لیا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کیسے اور کس حالت میں ملی تھی۔

یہ موسمِ بہار کی ایک صبح کا ذکر ہے جب پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے ایک شخص کو ایسا لگا جیسے اس نے کسی بچے کے رونے کی آواز سنی ہے۔ اس کے قریب ہی ایک بینچ پر بید کی بنی ٹوکری رکھی تھی۔

وہ شخص بینچ کے قریب گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس میں ایک نومولود بچی تھی۔ اس شخص نے فوراً ٹوکری اٹھائی اور اسے ایک یتیم خانے میں پہنچا دیا۔ یتیم خانے کا عملہ اس بچی کے گندے کپڑے بدلنے کے لیے اسے ٹوکری سے نکالنے لگا تو اس کے کپڑوں میں سے ایک شکر قندی کا ٹکرا نکل کر گرا۔

یہ کہانی سن کر اس بچی کو گود لینے والی خاتون حیرت میں مبتلا ہوگئی کہ آخر بچی کے ساتھ ایک شکر قند کو کیوں رکھا گیا تھا؟

اس وقت یتیم خانے کے عملے نے بتایا کہ شاید اس بچی کی ماں کا تعلق کسی گاؤں یا دیہات سے ہوگا اور وہ شکر قند ہی اس کے لیے ایک قیمتی چیز ہوگی۔ چونکہ وہ اپنی غربت کی وجہ سے اس بچی کی پرورش نہیں کرسکتی تھی اس وجہ سے اس نے اپنی بچی کو اپنے پاس موجود سب سے قیمتی چیز کے ساتھ بھیج دیا۔ عملے نے مزید کہا کہ انہیں لاوارث بچوں کے ساتھ اکثر اس قسم کی اشیا نظر آتی ہیں۔

اگر چینی حکومت کی بات کو تسلیم کرلیا جائے تو مستقبل میں ایسے حالات پیدا نہیں ہوں گے کیونکہ گزشتہ ہفتے عوامی جمہوریہ چین میں انتہائی غربت کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ریاست کی جانب سے جاری کیے گئے مواد کے مطابق تقریباً 10 کروڑ لوگوں کو انتہائی غربت سے نکال لیا گیا ہے یعنی ان کی روزانہ کی آمدن اب ایک ڈالر اور 69 سینٹ سے کم نہیں ہے۔

کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ نے شی جن پنگ کی حکومت کی جانب سے مقررہ وقت سے ایک مہینہ قبل اس کامیابی کو حاصل کرنے پر 3 صفحات پر مبنی ضمیمہ شائع کیا۔ ایک متحرک رہنما نے چین کو ایک نئے عہد میں لے جانے کا وعدہ پورا کردیا۔ اخبار نے لکھا کہ ’ہم صدیوں سے انتہائی غربت کے مسئلے سے نبرد آزما تھے اور اب یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔ دوسری جانب شی جن پنگ چاہتے ہیں کہ ان کی قوم اپنے مرکز پر متحد ہوجائے اور ’چینی قوم کے دوبارہ عروج کے خواب کا ادراک رکھے‘۔

تاہم کچھ سوالات ابھی جواب طلب ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق چین نے اب تک ’انتہائی غربت‘ کی تعریف کرنے کے پیمانے جاری نہیں کیے ہیں۔ ماضی میں بھی چین عالمی بینک کے متعین کردہ معیارات سے مختلف معیارات کا استعمال کرتا رہا ہے۔ اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ چین انتہائی غربت کے خاتمے کو کس طرح برقرار رکھ سکے گا کیونکہ عالمی بینک کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے اس سال دنیا بھر میں مزید 15 کروڑ افراد غربت کا شکار ہوں گے۔

اس بارے میں بھی کچھ سوالات موجود ہیں کہ آخر چین نے ملک میں غریبوں کی تعداد کس طرح کم کی ہے۔ ایک مغربی صحافی کی جانب سے ترتیب دی گئی رپورٹ میں سنکیانگ کی سرحد کے ساتھ واقع گینسو (Gansu) صوبے کے ایک گاؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہاں کے سیکڑوں رہائشیوں کو ان کے گاؤں سے زبردستی نکال کر انہیں ایک دوسری جگہ موجود بلند و بالا عمارتوں میں منتقل کردیا گیا جہاں بجلی اور پانی کی سہولت موجود تھی۔ ان گاؤں والوں کو اب یہ پریشانی لاحق ہے کہ وہ مستقبل میں اس رہائش کے اخراجات کیسے برداشت کریں گے۔

دیگر لوگوں کو رہائش کی ایسی دستاویزات دی گئیں جن میں انہیں سنکیانگ کا شہری دکھایا گیا تھا۔ انہیں کہا گیا کہ وہاں زیادہ وسائل ہیں اور انہیں اب سنکیانگ چلے جانا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ سنکیانگ کا علاقہ مقامی ایغوروں کا ہے جن کی اکثریت کو چینی مسلمانوں کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کے تحت حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو کم غریب کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہزاروں افراد کو حراستی مراکز میں قید کردیا جائے تاکہ ان کے اثاثے باقی رہ جانے لوگوں کے لیے دستیاب ہوجائیں۔

یہ سال چینی رہنماؤں کے لیے بہت اہم ہے، اس سال چین کی کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال مکمل ہو رہے ہیں اور وہ اس سال کو یادگار بنانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس سال چین سپر پاور سمجھے جانے والے ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر کھڑا ہو۔ لیکن یہ خواب ایک طرح کا دھوکہ ہے۔ نوکری کے حصول کے امیدواروں کو یہ کہا جاتا ہے کہ جس نوکری کو حاصل کرنا چاہتے اس کے مطابق تیار ہوں نہ کہ اس نوکری کے مطابق جو پہلے سے کر رہے ہیں۔ چین میں کئی لوگ ایسے ہیں جو غربت کے خاتمے کے اعلان کو بھی اسی طرح دیکھتے ہیں کہ چین سپر پاور بننا چاہتا ہے اسی وجہ سے وہ خود کو سپر پاور کی طرح ظاہر بھی کر رہا ہے۔

خواب خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، یہ ہمیں حقیقت پسند نہیں رہنے دیتے اور حقیقت اس وقت بہت پریشان کن ہے۔ آبادی کے مطالعے یہ بتاتے ہیں کہ چین میں شرح پیدائش میں کمی آرہی ہے۔ یعنی کام کے لیے کم سے کم لوگ دستیاب ہوں گے جس کا براہِ راست اثر ترقی پر ہوگا (لیکن اس کے باوجود یہ اندازہ لگایا ہے کہ چینی معیشت میں 8 فیصد کا اضافہ ہوگا)۔

سب سے پریشان کن بات تو یہ ہے کہ سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں پر ہونے والی ظلم و زیادتی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے امریکا ضرور اپنے حق میں استعمال کرے گا۔ چین ان حقائق کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن پاکستان، جو اب کئی شعبوں میں مکمل طور پر چین پر منحصر ہے، اس کو اس بارے میں اپنی حیثیت واضح کرنی چاہیے۔

چین میں بڑھتی ہوئی اجرت کی وجہ سے پیداواری کمپنیوں نے افریقہ اور میکسیکو جیسے سستے علاقوں کا رخ کرلیا ہے۔ تو کیا چین عالمی سطح پر اپنی حیثیت برقرار رکھ سکے گا؟ کیا شرح نمو میں ہونے والی کمی کی وجہ سے چینی سرمایہ کاروں کا پیسہ ان بڑے منصوبوں میں پھنس جائے گا جنہیں چینی حکومت نے شروع کیا تھا؟ پاکستان کے لیے سوال یہ نہیں ہے کہ آیا چینیوں نے اپنے خواب کو تکمیل تک پہنچایا کہ نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ چینی خواب خود چین کے لیے بھی بہت بڑا اور بہت مہنگا تو نہیں؟


یہ مضمون 3 مارچ 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

علی Mar 06, 2021 02:00am
ورلڈ بینک کی اپنی رپورٹ کے مطابق نوے کی دہائی سے پہلے چین میں غربت نوے فیصد تھی۔ آج خود جا کر دیکھ لیں مکمل خاتمہ نہی تو چند ہی فیصد بچی ہوگی غربت۔ مغرب کو چینی حکومت کی کامیابیوں پر شک اس لیے ہے کہ یہ سب وہ مغرب کی جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی، آزاد مارکیٹ کے بغیر حاصل کر پایے ہیں۔