لکھاری امریکا، ہندوستان اور چین میں پاکستانی سفارتکار رہ چکے ہیں اور عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ کے مشنز کے سربراہ ہیں.
لکھاری امریکا، ہندوستان اور چین میں پاکستانی سفارتکار رہ چکے ہیں اور عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ کے مشنز کے سربراہ ہیں.

کیا ہم بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کوئی نیا سنگِ میل عبور کرنے جارہے ہیں یا پھر پرانی باتوں کو ہی دوبارہ دوہرا رہے ہیں؟ مایوسی کبھی بھی تعمیری نہیں ہوسکتی، تاہم پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کو دیکھا جائے تو تاریخ اور موجودہ صورتحال دونوں ہی شکوک و شبہات کا باعث بن رہے ہیں۔

اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ میں آرمی چیف اور وزیرِاعظم کے بیانات سے 3 ہفتے قبل پاکستانی اور بھارتی ڈی جی ملٹری آپریشنز نے مشترکہ طور پر لائن آف کنڑول پر 2003ء کی جنگ بندی کی بحالی کا اعلان کیا۔ ان اقدامات کے پس منظر میں دونوں ممالک کے ملٹری اور سیکیورٹی اداروں کے رابطے اور تیاریاں موجود تھیں۔ رپورٹس کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک طویل مدتی روڈ میپ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019ء کو جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرنے کے بعد سے اب تک ہونے والی سب سے اہم پیش رفت ہے۔ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو ختم کرنے کے بعد وہاں سخت کرفیو نافذ کردیا تھا اور یہ شملہ معاہدے کی سنگین خلاف ورزی تھی۔

دونوں ممالک کے درمیان موجود لائن آف کنٹرول بھی اسی شملہ معاہدے کے نتیجے میں بنی تھی۔ دیکھا جائے تو بھارت نے پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی بنیاد ہی ختم کردی تھی۔ جواب میں پاکستان نے بھی بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کردیے اور یہ واضح کردیا تھا کہ جب تک بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت بحال نہیں کرتا تب تک کوئی مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

پاکستان نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ کشمیری بھائیوں کو بھارت کی جانب سے ہونے والے ظلم و ستم سے بچانے کے لیے ہر حد تک جائے گا۔ جینوسائڈ واچ نے بھارت کے اس ظلم و جبر کو دیکھتے ہوئے کشمیر کے لیے ممکنہ نسل کشی کا انتباہ جاری کیا تھا۔ پوری دنیا اس واقعے پر پریشان تھی کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور ان کے درمیان کوئی متفقہ نیوکلیئر ڈاکٹرائن نہیں ہے اور نہ ہی کسی خطرے کا تجزیہ کرنے کے لیے کسی قسم کا انتباہی وقت ہے۔

پاکستان کے آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دنیا سے مدد کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ’ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا‘ اور پاکستان کی ایک ’امن پسند قوم‘ اور ’بین الاقوامی برادری کے ایک کارآمد رکن‘ کی تصویر پیش کرنے کا ہے۔ حل طلب تنازعات کی وجہ سے سیکیورٹی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے جس کی قیمت انسانی ترقی سے ادا کرنی پرتی ہے۔ ان تنازعات کو ’مذاکرات کے ذریعے پُرامن ماحول‘ میں حل کرنا چاہیے۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ’ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی جانب سفر کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے‘۔ امید کی جارہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ پاکستان، بھارت، خطے اور دنیا میں موجودہ ’روایتی معاشی مسابقت‘ کو تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ انہوں نے ’جیو اکنامک‘ پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

آرمی چیف نے پاکستان کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سی پیک کے ساتھ جڑا رہے گا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ امریکا پاکستان کو صرف سی پیک کی آنکھ سے نہ دیکھے۔ شاید یہ اشارہ بائیڈن کی جانب سے چین کے ساتھ نئی سرد جنگ شروع کرنے کے فیصلے اور ممکنہ طور پر پاکستان پر پڑنے والے کسی ایک ملک کے انتخاب کے دباؤ کی طرف تھا۔

بڑی طاقتیں شاید کشمیر کے مسئلے پر مدد کرنے کو تیار ہوں لیکن ایسا صرف ایک حد تک ہی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ بھارت پر انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والی تنقید کے باوجود بھی مودی کو 5 اگست کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور نہیں کرسکتے۔

پاکستان کے لیے یہ امر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ممکنہ طور پر بائیڈن انتظامیہ چین کی وجہ سے بھارت کے ساتھ عسکری اور اسٹریٹجک شراکت میں اضافہ کرے گی۔ امریکا بھی بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر کو اب بھارت کا حصہ تصور کرتا ہے۔ ایسے دوست ہوں تو پھر دشمن کی ضرورت کیسے رہ جاتی ہے؟ امریکا پاکستان اور بھارت کے درمیان قیامِ امن میں مدد نہیں کرسکتا۔

تو بھارت آخر پاکستان کے اقدامات کا جواب کیوں دے گا؟ مودی کو بھی اس حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر پر کوئی معاہدہ کرکے آر ایس ایس، بی جے پی، سنگھ پریوار اور ہندو آبادی کے عتاب کا نشانہ بننا چاہتے ہیں۔

2000ء کی دہائی کی ابتدا میں ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر بھی مودی کسی معاہدے کو قبول نہیں کریں گے۔ تو اگر پاک بھارت مذاکرات دوبارہ شروع ہوتے بھی ہیں تو وہ مسئلہ کشمیر پر کوئی تعمیری کام نہیں کرسکیں گے اور جلد یا بدیر ختم ہوجائیں گے، ہاں اگر پاکستان ہتھیار ڈال دے تو حالات مختلف ہوں گے۔

لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی، اسلام آباد اور نئی دہلی میں ہائی کمشنروں کی واپسی، ویزوں کے اجرا میں نرمی، فضائی، زمینی اور ریل کے سفر میں اضافہ، قیدیوں کی رہائی، دوطرفہ ٹرانزٹ تجارت میں اضافہ اور اسلام آباد میں سارک سمٹ کا انعقاد، یہ سب اقدامات قابلِ ستائش ہیں۔ لیکن اگر مودی نے سارک سمٹ میں شرکت کر بھی لی تب بھی یہ پُرامن، نتیجہ خیز، مربوط اور بلا تعطل مذاکرات کی ضمانت نہیں ہوگی۔

اس کام کے لیے ایک دوطرفہ ملاقات ہونی چاہیے جس کے بعد دونوں وزرائے اعظم کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جائے۔ اس بیان میں کچھ مخصوص معاہدوں، وعدوں اور پالیسیوں کا ذکر کیا جائے جو ایک دوسرے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار کریں۔

یہ مسائل دہشتگردی اور مسئلہ کشمیر سے متعلق ہوسکتے ہیں، لیکن یہ کام اسی وقت ممکن ہے کہ جب ان مسائل پر طرفین کچھ لچک دکھانے کا فیصلہ کریں۔ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی حقوق اس کے انسانی حقوق سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ صرف کسی ایک کو بحال کردیں۔ پہلے کی صورتحال پر واپس جائے بغیر مذاکرات کا شروع ہونا بہت مشکل ہے۔

کشمیری تو بھارت کے مظالم سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ آزادی کے حصول کی کوششوں سے بھی مخلص ہیں، تاہم اس بارے میں شکوک موجود ہیں کہ کیا پاکستان میں اتنی قوت ہے کہ وہ صرف سفارتی محاذ سے آگے بڑھ کر بھی کشمیریوں کی مدد کرسکتا ہے اور اس وجہ سے سامنے آنے والی مشکلات سے نبرد آزما ہوسکتا ہے یا نہیں۔

پاکستان کی جانب سے پاک بھارت تعلقات کا نیا عہد شروع کرنے، بھارت کی جانب سے کوئی لچک ظاہر نہ کرنے اور کشمیریوں پر مظالم جاری رکھنے سے یہ شبہات مزید بڑھ گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا مجموعی طور پر عمران خان اور آرمی چیف کی بیانات کو سراہ رہا ہے کیونکہ وہ ان بیانات کو بھارتی اقدامات کی قبولیت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

آپ شکست کو کسی صورت بھی ’جیو اکنامکس‘ کا لبادہ نہیں اڑھا سکتے۔ اسے صرف جغرافیائی سیاست اور اسٹریٹجک نقطہ نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ سی پیک، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی ایک شاخ ہے۔ چین چاہتا تو امریکا کی بالادستی میں رہتے ہوئے اس منصوبے کو ’جیو اکنامک‘ منصوبہ کہہ سکتا تھا لیکن اس نے امریکا کے عالمی تسلط کو قبول نہیں کیا۔

اسی طرح تسلط پسند بھارت کی جانب سے ’جیو اکنامک‘ منصوبے لے کر آگے بڑھنا بھی ہماری مجبوریوں کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ ان اقدامات سے بھارت مسئلہ کشمیر پر کوئی لچک نہیں دکھائے گا، اور اس کو قبول کرنے کے اثرات آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ اس قدم سے چین کے سامنے بھی پاکستان کے تاثر اور چینی مفادات کو ٹھیس پہنچے گی۔


یہ مضمون 26 مارچ 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Polaris Apr 08, 2021 02:21am
No way. The only fair solution to the conflict is "The right of self-determination for Kashmiri people". But how it can happen?????