پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت چوتھے برس میں داخل ہونے کو ہے اور پاکستان کو کئی داخلی اور خارجی چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں معاشی مشکلات، ملکی سیاسی عدم استحکام، کورونا وبا کی روک تھام کے لیے ویکسین کی قلت، پڑوسی ملک افغانستان میں خانہ جنگی اور اس کے ممکنہ اثرات شامل ہیں جبکہ ملک کے جیو اکنامک اہداف کا حصول بھی ممکنات میں نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات، خطے سے امریکی انخلا کے بعد پیدا ہونے والا خلا، چین کے ساتھ سی پیک سمیت دوطرفہ تعلقات کے معاملات بھی پیچیدہ ہیں۔

کشمیر کے مسئلے پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ثالثی کی توقع رکھنے والے اب 2 سال سے یومِ استحصال منا کر خود کو تسلی دے رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر یہ معاملہ اب سرد خانے کی نذر ہوچکا ہے۔

جو بائیڈن کی صدارت کے آغاز کے ساتھ ہی واشنگٹن کی ترجیحات بدل چکی ہیں اور مشیر قومی سلامتی کے اپنے الفاظ میں امریکی صدر اب بات کرنے کے بھی روادار نظر نہیں آتے۔

ٹرمپ کے ساتھ پُرجوش اور ذاتی تعلقات کے دعویدار پاکستانی حکام امریکا میں بدلتی سیاسی صورتحال اور اس کی ترجیحات کو بھانپنے میں ناکام رہے اور اب وہ یہ بچگانہ دھمکی دینے پر مجبور ہیں کہ اگر امریکی صدر جو بائیڈن پاکستانی قیادت کو نظر انداز کرتے رہے تو پاکستان کے پاس اور بھی آپشن ہیں۔

کشمیر  کے مسئلے پر ٹرمپ سے ثالثی کی توقع رکھنے والے اب 2 سال سے یومِ استحصال منا کر خود کو تسلی دے رہے ہیں—اے ایف پی
کشمیر کے مسئلے پر ٹرمپ سے ثالثی کی توقع رکھنے والے اب 2 سال سے یومِ استحصال منا کر خود کو تسلی دے رہے ہیں—اے ایف پی

اصل میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور اس ڈر کا اظہار سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف بھی کرتے رہے کہ سوویت جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا ہمیں تنہا چھوڑ کر چلا گیا تھا اور ایک بار پھر ایسا ہونے کا خدشہ ہے۔

افغانستان میں بڑھتی طالبان کی طاقت اور پاکستان کا کردار

افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد پاکستان امریکا کی ترجیحی فہرست میں کہیں بہت نیچے جاچکا ہے اور وہ اب امریکا کے مقاصد میں کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ امریکی فوجی انخلا کو دنیا کی سپر پاور کی ناکامی تصور کیا جا رہا ہے لیکن اصل میں اب پاکستان کی پالیسی دنیا کے نشانے پر ہے، افغان امن عمل کو ادھورا چھوڑ کر واشنگٹن چلتا بنا اور اب دنیا پاکستان سے کہہ رہی ہے کہ افغان طالبان کو مناؤ، پاکستان اب صفائیاں دینے پر مجبور ہے کہ اس کا طالبان پر زور نہیں چلتا اور وزیرِاعظم عمران خان کہتے ہیں کہ طالبان کو فوجی فتح نظر آ رہی ہے اس لیے اب وہ ہماری بات کیوں سنیں گے؟

امریکا نے افغان امن عمل کی ذمہ داری مکمل طور پر افغانستان اور خطے کے ملکوں پر چھوڑ دی ہے اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے چین، بھارت، ایران اور ترکی بھی میدان میں کود چکے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان ابھی تک سمت کا تعین نہیں کر پایا اور خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔

افغان طالبان افغانستان پر مکمل قبضہ کر لیتے ہیں تب بھی پاکستان نقصان میں ہوگا اور اس کا اظہار خود حکومتی عہدیدار کرچکے ہیں کہ کالعدم تحریکِ طالبان بھی افغان طالبان کا حصہ ہے اور پاکستان کو اندرونی طور پر خطرات کا سامنا ہے۔ اگر افغان طالبان کابل پر کنٹرول کی جنگ میں ناکام ہوتے ہیں اور طویل خانہ جنگی افغانوں کا مقدر بنتی ہے تب بھی پاکستان خطے میں اس عدم استحکام کا متحمل نہیں ہے۔

افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد پاکستان امریکا کی ترجیحی فہرست میں کہیں بہت نیچے جاچکا ہے—اے ایف پی
افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد پاکستان امریکا کی ترجیحی فہرست میں کہیں بہت نیچے جاچکا ہے—اے ایف پی

پاکستان نے بار بار یقین دہانی کی کوشش کی ہے کہ افغان مسئلے کا حل خود افغان فریقوں نے کرنا ہے اور پاکستان اسٹریٹیجک گہرائی کی پرانی پالیسی سے دستبردار ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود کابل کی موجودہ انتظامیہ بدگمانی کا شکار ہے اور اپنے مسائل کا ذمہ دار اسلام آباد کو قرار دیتی ہے۔

افغان طالبان کا کابل پر کنٹرول یا مستقل خانہ جنگی کی صورت میں پاکستان کو ایک بار پھر مہاجرین کے سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور اندرونی انتہاپسند گروپوں کے حوصلے بھی بلند ہوں گے، یوں پاکستان اس وقت مشکل حالات سے دوچار ہے اور حکومت کوئی واضح راستہ تلاش کرنے اور روڈمیپ بنانے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور چینی انجینیئروں پر حملے کے واقعات نے پاکستان کی ساکھ کو دھچکا پہنچایا ہے۔

داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ میں 9 چینی انجینئر بھی جاں بحق ہوئے تھے—فوٹو: اے ایف پی
داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ میں 9 چینی انجینئر بھی جاں بحق ہوئے تھے—فوٹو: اے ایف پی

امریکا نے پاکستان سے منہ کیوں موڑا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں، مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں امریکی صدر کی بیزاری کا شکوہ کیا تو اسی انٹرویو میں اخبار نے تبصرے کے طور پر ایک لائن لکھی کہ امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت دراصل یہاں کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہے۔ اخبار کا یہ تبصرہ بائیڈن ڈاکٹرائن کی طرف اشارہ ہے۔ بائیڈن ڈاکٹرائن کو جانے اور سمجھے بغیر امریکا کی پاکستان سے حالیہ بیزاری کو سمجھنا ممکن نہیں۔

بائیڈن ڈاکٹرائن کیا ہے؟

صدر بائیڈن نے جی سیون سربراہی اجلاس، نیٹو اجلاس اور یورپی یونین کے سربراہوں سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ، 'مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک مقابلے میں ہیں، یہ مقابلہ صرف چین سے نہیں بلکہ دنیا بھر میں آمروں اور آمرانہ حکومتوں کے ساتھ ہے'۔ صدر بائیڈن کا یہ جملہ ان کے ڈاکٹرائن کی طرف اشارہ اور اس کا خلاصہ ہے۔ صدر بائیڈن نے مزید کہا تھا کہ چین یا کوئی دوسرا ملک نہیں بلکہ جمہوریتیں تجارت اور ٹیکنالوجی کے بارے میں 21ویں صدی کے قوانین لکھیں گی۔ امریکی صدر نے واشنگٹن کی خارجہ پالیسی اور اتحادوں کی بنیاد جمہوریت بمقابلہ آمریت کو قرار دیا ہے۔

جی سیون سربراہی کانفرنس میں شریک سربرہان—رائٹرز
جی سیون سربراہی کانفرنس میں شریک سربرہان—رائٹرز

صدر بائیڈن نے الیکشن مہم کے دوران ہی خارجہ پالیسی ترجیحات کا اعلان کردیا تھا اور ان کا مقصد عالمی نظام کی تشکیلِ نو ہے جس کے لیے انہوں نے جمہوری دنیا کی قیادت کے عزم کا اعلان کیا تھا۔ امریکا نے دوسری جنگِ عظیم میں فتح اور آہنی دیوار کے خاتمے کے بعد ایک عالمی نظام تشکیل دیا تھا جسے لبرل انٹرنیشنل آرڈر کا نام دیا گیا تھا۔ یہ نظام 1947ء سے 1991ء تک 2 قطبی تھا اور 1991ء سے 2008ء تک یہ نظام یکم قطبی رہا۔ صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں تسلیم کیا تھا کہ امریکا کا بنایا یہ عالمی نظام اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے اور اس کی تعمیرِ نو کی ضرورت ہے۔

بائیڈن کا خیال ہے کہ امریکا کے اندرونی مسائل بہت ہیں لیکن خارجہ پالیسی اب بھی امریکی اثر و رسوخ کی کنجی ہے۔ امریکا کی نئی خارجہ پالیسی بنانے والی اشرافیہ کا خیال ہے کہ دنیا خود کو منظم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس کا واحد حل عالمی نظام کی تعمیرِ نو ہے جس کے بلیو پرنٹ بھی امریکا کے پاس ہیں۔ تعمیرِ نو میں ڈویلپر کا کردار بھی امریکا کا ہے، پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی امریکا ہے اور بلڈنگ منیجر بھی امریکا ہے۔ اس اشرافیہ کا خیال ہے کہ نظام کی تعمیرِ نو نہ کی گئی اور تعمیرِ نو کے تمام مراحل اپنے ہاتھ میں نہ رکھے گئے تو امریکا کی جگہ کوئی اور لے لے گا جس سے امریکی مفادات متاثر ہوں گے اور انتشار پھیلے گا۔

اس نئے نظام کی تشکیل کے لیے جب صدر بائیڈن جمہوریت بمقابلہ آمریت کی بات کرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ خاص مسائل پر قوانین کی تشکیل کے لیے اتحادیوں اور ہم خیال شراکت داروں کو اکٹھا کرنا کامیاب حکمتِ عملی کا آغاز ہے لیکن کثیر قطبی دنیا میں عالمی نظام کی تشکیل کے لیے یہ اصول کافی نہیں۔ جمہوریت بمقابلہ آمریت کی بنیاد پر شراکت داری کی بات کریں گے تو موسمیاتی تبدیلیوں سے لے کر وبائی امراض کی روک تھام تک کئی بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چین، روس اور ان کے اتحادی ملکوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔ اگر چین، روس اور دیگر ملکوں کو آمریتیں قرار دے کر دنیا کو تقسیم کردیں گے تو نیا عالمی نظام نہیں بنے گا بلکہ نئے تنازعات جنم لیں گے۔

جمہوریتیں بھی ایک سوچ کی حامل نہیں ہوتیں کیونکہ ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پچھلی 2 دہائیوں سے گیس پائپ لائنوں پر تنازعات، پابندیاں اور کشیدگی، عراق جنگ، اور روس اور چین کے ساتھ مغرب کے تعلقات پر مغرب خود اختلافِ رائے کا شکار ہے۔ برطانوی مدبر لارڈ پالمرسن نے کہا تھا کہ ’ہمارا کوئی دائمی حلیف نہیں ہے اور ہمارے کوئی دائمی دشمن نہیں ہیں، ہمارے مفادات ابدی اور دائمی ہیں‘۔ صدر بائیڈن اپنے نظریے میں اس روایتی حکمت سے منہ پھیر رہے ہیں۔

جمہوریت کا فروغ امریکی خارجہ پالیسی کے بیانیے کا ایک اہم حصہ رہا ہے، یہ بیانیہ تب سے ہے جب امریکا کے 28ویں صدر ووڈرو ولسن نے اعلان کیا تھا کہ امریکا پہلی جنگِ عظیم میں داخل ہوکر دنیا کو جمہوریت کے لیے محفوظ بنا رہا ہے، لیکن اب امریکا اس قدر غالب قوت نہیں ہے۔ یہ تصور کرنا کہ جمہوریتوں کا اتحاد ازخود ایک نئے عالمی نظام کے خدو خال واضح کردے گا اور اس نظام سے غیر جمہوری اور بڑی طاقتوں کو باہر رکھا جاسکتا ہے، ایک خطرناک تصور ہے جو انسانیت سے جڑے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے میں عالمی تعاون کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور بین الاقوامی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

بائیڈن کا خیال ہے کہ امریکا کے اندرونی مسائل بہت ہیں لیکن خارجہ پالیسی اب بھی امریکی اثر و رسوخ کی کنجی ہے—اے ایف پی
بائیڈن کا خیال ہے کہ امریکا کے اندرونی مسائل بہت ہیں لیکن خارجہ پالیسی اب بھی امریکی اثر و رسوخ کی کنجی ہے—اے ایف پی

نئے عالمی نظام کی تشکیل کے لیے جی سیون کو وسعت دے کر ڈی 10 بنانے کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ڈی ٹین کی تجویز دینے والوں کا خیال ہے کہ اس نئے گروپ کی تشکیل سے عالمی معیشت کو سنبھالا دیا جاسکے گا، زیادہ منصفانہ اور پائیدار تجارتی معاہدوں کے ذریعے دنیا کو جوڑا جاسکے گا اور اس حوالے سے 'فری ورلڈ ٹریڈ ایگریمنٹ' بھی تجویز کیا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مربوط عالمی معاشی اور مالیاتی نظام پہلے سے موجود ہے اور ضروری نہیں کہ یہ نظام صرف جمہوریتوں کے حق میں ہو، اگر امریکی ڈالر گلوبل ریزرو کرنسی کی حیثیت رکھتا ہے تو ابھرتا ہوا کمیونسٹ چین موجودہ حالات میں عالمی معیشت کے انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔

مجوزہ ڈی 10 ممالک کے ساتھ چین کی تجارتی شراکت داری ہے، روس یورپی یونین کے بہت سے رکن ممالک کا تجارتی پارٹنر ہے اور 600 ارب ڈالر سے زیادہ کرنسی ریزرو رکھتا ہے۔ چین کے پاس 1.1 کھرب امریکی ڈالر کے ریزرو ہیں اور صرف 2019ء میں امریکی کمپنیوں نے چین میں 116 ارب ڈالر کی براہِ راست سرمایہ کاری کی۔ چین کے بارے میں دنیا کو کئی تحفظات ہیں جن میں سپلائی چین، ٹیکنالوجی کنٹرول، چینی ٹیکنالوجی پر انحصار سے گریز جیسے معاملات شامل ہیں لیکن یہ چھوٹے مسائل ہیں اور بین الاقوامی باہمی انحصار کو نئے سرے سے ترتیب دیا جانا ممکن ہے اس کے لیے نئے عالمی نظام کی ضرورت نہیں۔

کمیونٹی آف ڈیموکریسیز

جمہوریتوں کے اتحاد کا تصور بھی نیا نہیں، 2000ء میں کلنٹن انتظامیہ نے 'کمیونٹی آف ڈیموکریسیز' کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی تھی جو بش دور میں بھی برقرار رہی، اس تنظیم کا مقصد اقوامِ متحدہ سمیت کثیر فریقی فورمز پر جمہوری ممالک کے مشترکہ سفارتی اقدامات بتایا گیا تھا۔ آج 20 سال بعد بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ کوئی ایسی تنظیم بھی وجود رکھتی تھی۔

جمہوریتوں کے اتحاد کا یہ تصور ایک بار پھر پیش کیا جا رہا ہے لیکن اب حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت کو مقبولیت پسندی اور آمرانہ قوم پرستی کے چیلنج کا سامنا ہے اور جمہوریت پسپا ہورہی ہے۔

جمہوریتوں کے اتحاد کا تصور پیش کرنے والے سمجھتے ہیں کہ اس طرح دنیا کو ایک اور سرد جنگ سے بچایا جاسکتا ہے لیکن دنیا کو جمہوری اور آمر گروپوں میں تقسیم کرکے کس طرح سرد جنگ یا تنازعات سے بچا جاسکتا ہے۔ چین کو صرف اس لیے ایک طرف کردینا کہ اس کا سیاسی نظام آپ سے میل نہیں کھاتا اور آپ کی نظر میں چین کا نظام آمریت ہے، ایسا کرنے سے چین مغرب کے تسلط والے نظام کے مقابلے کے لیے زیادہ سرگرم ہونے پر مجبور ہوجائے گا، فی الوقت چین مغرب کے ان کئی قوانین اور روایات پر عمل کر رہا ہے جنہیں وہ اپنی ترقی کے لیے اور مفاد میں ضروری سمجھتا ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں خارجہ پالیسی سے متعلق ہونے والی اہم غلطیاں

امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ اور برطانوی وزیرِاعظم ونسٹن چرچل نے دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد اٹلانٹک چارٹر پر دستخط کیے تھے۔ اس چارٹر کے ذریعے جمہوریت کو نازی ازم کا جواب قرار دیا گیا اور ایک عالمی نظام تشکیل دیا گیا جسے لبرل، قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کا نام دیا گیا تھا۔

نیو اٹلانٹک چارٹر

80 سال بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن کے ساتھ جون میں ہونے والی ملاقات میں 'نیو اٹلانٹک چارٹر' پر دستخط کیے اور جمہوریت کو امریکی خارجہ پالیسی کا مرکز بتایا۔ اس چارٹر پر دستخط کرکے امریکا نے نئے اسٹریٹیجک مقابلے کی بنیاد رکھی ہے جسے جمہوریت بمقابلہ آمریت کہا جا رہا ہے اور یہی نیا ورلڈ آرڈر ہے۔

چین اور روس امریکا کے مدمقابل اس ورلڈ آرڈر یا وژن کے متبادل منصوبے پر کام کر رہے ہیں کہ دنیا کیسے چلائی جائے گی، امریکی اپنے مقابل قوتوں کے نظام کو آمریت اور جبر کا نام دیتے ہیں۔ جمہوریت کا اتحاد بنانے والے اس مشکل میں ہیں کہ ان کے اپنے ملکوں میں جمہوریت دفاعی پوزیشن میں ہے، چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے اور جنہیں وہ آمر اور جابر کہتے ہیں ان کا دنیا میں اثر اور طاقت بڑھ رہی ہے۔

نیا اٹلانٹک چارٹر پہلے چارٹر کے نکات کو سموئے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ نئے نکات شامل کیے گئے ہیں جن میں ٹیکنالوجی، سائبر خطرات، ماحولیاتی تبدیلی جیسے معاملات شامل ہیں۔ نئے ورلڈ آرڈر پر کام کرنے والے امریکا کو یاد رکھنا چاہیے کہ اب اس کی طاقت بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ امریکا نے جب پہلا ورلڈ آرڈر بنایا تو اس نے اقوامِ متحدہ، ڈبلیو ٹی او، عالمی بینک، نیٹو اتحاد جیسے ادارے اور تنظیمیں بناکر دنیا کو مرضی کے مطابق چلایا، اب ان اداروں سے خود امریکا مطمئن نہیں اور سابق امریکی صدر ڈونلنڈ ٹرمپ تو اقوامِ متحدہ کے فنڈز تک روکنے پر آگئے تھے اور کثیر فریقی فورمز سے پیچھے ہٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔

اب تک نیو اٹلانٹک چارٹر پر صرف امریکا اور برطانیہ نے ہی دستخط کیے ہیں جبکہ جن جمہوریتوں کو وہ اتحاد مانتے ہیں انہیں اس چارٹر کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ نیو اٹلانٹک چارٹر اگر نئے ورلڈ آرڈر کی بنیاد ہے تو اسے وسیع البنیاد گروپ کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔

مزید پڑھیے: پاکستان کی خارجہ پالیسی کیسی ہو؟

نیو ورلڈ آرڈر

نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل کے لیے پہلے کی طرح نئے ادارے بنانے کی ضرورت پڑے گی، ڈی 10 گروپ ان نئے اداروں میں پہلا مجوزہ ادارہ ہے، ڈی 10 کی توجہ کا مرکز چین اور روس ہوں گے۔ دوسرا بڑا ادارہ ٹیکنالوجی کے لیے اتحاد ہوگا جس میں روس اور چین کے ساتھ ٹیکنالوجی کا مقابلہ ہوگا اور ہواوے پر پابندیوں سمیت امریکا کے حالیہ اقدامات اسی جانب ابتدائی قدم ہیں۔ ٹیکنالوجی اتحاد کے علاوہ نیا تجارتی معاہدہ اور تنظیم بنے گی جس کے لیے گلوبل فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی تجویز سامنے آچکی ہے۔ جمہوریتوں کا اتحاد بنانے کے لیے صدر بائیڈن جمہوری ملکوں کی سربراہ کانفرنس بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

امریکا کی نئی ترجیحات اور عزائم کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے معماروں اور نگہبانوں کو ایک راہ کا تعین کرنا پڑے گا۔ جمہوریتوں اور آمریتوں کے مقابلے میں پاکستان کو کسی ایک گروپ کا انتخاب کرنا ہے یا غیر جانبداری اپنا کر پوری دنیا کے ساتھ مل کر ترقی کی راہ اپنانی ہے جس کا فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے لیکن خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے ذمہ داروں کی طرف سے یکسوئی بھی نظر نہیں آتی۔ ایک طرف وہ چین کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دینے کے خواہشمند ہیں اور دوسری طرف وہ جمہوری سربراہ کانفرنس کے دعوت نامے کا بھی بے چینی کے ساتھ انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صدر بائیڈن سے شکوے شکایات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

دنیا ایک بار پھر 2 کیمپوں کی جانب گامزن؟

ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ امریکا بہادر ایک بار پھر دنیا کو 2 کیمپوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہوتے ہیں۔ امریکا کو بھی شاید یہی انتظار ہے کہ ہم اس پر پوزیشن واضح کریں، اس کے بعد ہی رابطے رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ طے پائے گا۔

دنیا میں چین کا بڑھتا کردار

اب چین کی بات ہوجائے، چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو سمندروں سے گہرا، شہد سے میٹھا اور ہمالیہ سے بلند بتایا جاتا ہے لیکن اس دور میں اس شہد میں تلخی سی گھلی محسوس ہوتی ہے۔ اس تلخی کو چینی انجینیئروں پر حملے کے واقعے کے بعد شدت سے محسوس کیا گیا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی تعلقات میں پہلے سی گرم جوشی نہ ہونے کے اندازے لگائے جا رہے تھے، اور گرمجوشی نہ ہونے کے اندازے سی پیک منصوبوں پر سست روی کی وجہ سے لگائے جاتے تھے لیکن انجینیئروں پر حملے کے بعد کھلا کہ کچھ بداعتمادی اس میں در آئی ہے۔

مزید پڑھیے: افغانستان سے امریکی انخلا اور خانہ جنگی کا ممکنہ خطرہ

اس کا اظہار چین کے سرکاری میڈیا میں بھی نظر آیا۔ گلوبل ٹائمز چین کا ایک مؤثر جریدہ ہے جسے کسی حد تک بیرونی دنیا کے لیے بیجینگ کا ترجمان بھی تصور کیا جاتا ہے۔ چینی انجینیئروں کے قتل پر گلوبل ٹائمز نے اداریہ لکھا جس میں کہا گیا کہ ’اگر پاکستان کی طاقت ناکافی ہے تو چین کے میزائل اور اسپیشل فورسز پاکستان کی رضامندی سے براہِ راست آپریشن کرکے چین کے مفادات کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرسکتی ہیں۔ چند مشکل ممالک میں ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ چین کے عوام کو اشتعال نہ دلایا جائے، خاص طور پر قتل نہ کیا جائے، جو کوئی بھی چینیوں پر قاتلانہ ہاتھ رکھے گا وہ اپنی تباہی لائے گا۔ کوئی ہزاروں میل دُور ہی کیوں نہ ہو اگر ہمارے خلاف دہشتگردی کا ارتکاب کرے گا تو اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘۔

گلوبل ٹائمز کا اداریہ تعلقات میں گُھلی تلخی کا عکاس ہے، براہِ راست کارروائی کے لیے رضامندی کا لفظ محض ایک تکلف ہے، اس اداریے کی زبان بتاتی ہے کہ چین میں سوچ اور رویہ تبدیل ہوا ہے۔ چین نے سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کو الگ سیکیورٹی فورس بنانے کے لیے مالی مدد دی تھی اور چین کی پالیسی یہی رہی ہے کہ چین کے مفادات کے تحفظ کے لیے مقامی سیکیورٹی کی مدد اور ٹریننگ کی جائے اور براہِ راست مداخلت سے گریز کیا جائے لیکن اب یہ سوچ بدلی نظر آتی ہے۔

چین کے شہریوں پر حملے پاکستان کے علاوہ دیگر ملکوں جیسے مالی اور جنوبی سوڈان وغیرہ میں بھی ہوئے ہیں اور ایسے حملوں کو مستقل روکنے کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔ چین کی طرف سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فوج بھجوانا مغربی دنیا میں اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ایسے ردِعمل کے پیشِ نظر چین کی طرف سے ضبط کی بھی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

مزید پڑھیے: بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ اور پاک سعودیہ تعلقات

سی پیک کا مستقبل اور چین کا افغانستان میں کردار

سی پیک منصوبوں کے علاوہ چین ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کے مستقبل میں بھی اہم دخیل بن کر سامنے آیا ہے۔ طالبان سے چین کے رابطے عرصہ دراز سے ہیں لیکن پچھلے ماہ چین نے پہلی بار سب کے سامنے طالبان کے وفد کو تیانجن میں خوش آمدید کہا اور طالبان کے دوحہ دفتر کے انچارج سے چین کے وزیرِ خارجہ نے نہ صرف خود ملاقات کی بلکہ طالبان کو افغانستان کی اہم عسکری اور سیاسی قوت بھی تسلیم کیا۔ افغانستان کا محل وقوع اسے خطے میں اہم ترین بناتا ہے۔ افغانستان یوریشیا کا دروازہ ہے، افغانستان کے شمال میں وسط ایشیا اور روس ہیں، مشرق میں چین ہے، جنوب میں برِصغیر پاکستان اور بھارت جبکہ مغرب میں ایران اور مشرق وسطیٰ موجود ہیں۔

امریکا کی چین اور روس سے چپقلش کی صورت میں افغانستان مزید اہم ہوجاتا ہے اور اس ملاقات سے چین نے واضح کردیا کہ وہ اپنے پڑوس میں کسی بھی طرح کے عدم استحکام اور بے چینی کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ طالبان چین کی کبھی بھی ترجیح نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ اپنی سرحد پر کسی اسلامی گروپ کو طاقتور ہوتا دیکھنا پسند نہیں کرے گا، اسے خود سنکیانگ میں مسلم گروپوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ چین بھی طالبان کا پسندیدہ ترین آپشن نہیں کیونکہ وہ کمیونسٹ مخالف نظریات پر ایک تحریک بنے تھے لیکن اب دونوں اس مخاصمت کو دہرانا نہیں چاہتے اور حالات سے نمٹنے کا کوئی راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

طالبان نے 20 سال تک ایک عالمی طاقت کی موجودگی کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھا بلکہ اب وہ افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہیں اور افغانستان میں ایک جیتی جاگتی حقیقت بن کر سامنے آئے ہیں، اس لیے چین بھی اب انہیں طاقت سے دبانے کے بجائے ناپسندیدگی اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ان کے ساتھ مشترکہ مفادات پر کام کرنے پر مجبور ہے۔

طالبان  نے 20 سال تک ایک عالمی طاقت کی موجودگی کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھا —اے ایف پی فائل
طالبان نے 20 سال تک ایک عالمی طاقت کی موجودگی کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھا —اے ایف پی فائل

اب چین یہ چاہتا ہے کہ وہ امریکی انخلا سے پیدا ہونے والے خلا کو نہ صرف پُر کرے بلکہ خطے میں امن، استحکام اور رابطوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کرے اور اس کے لیے وہ افغانستان میں قائدانہ کردار ادا کرنے پر تیار نظر آتا ہے، اسی صورت میں وہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر مطلوبہ اہداف حاصل کرسکتا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اس کا سب سے بڑا اتحادی پاکستان ہے اور وہ پاکستان کی مدد لے کر افغانستان کی تعمیرِ نو کا کام کرسکتا ہے۔ چین کو نظر آ رہا ہے کہ طالبان کا افغانستان پر کنٹرول اب روکنا ممکن نہیں اسی لیے وہ طالبان سے اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت بھی لے رہا ہے۔

پاکستان کے لیے مواقع

اس کے ساتھ چین کابل انتظامیہ کو بھی ابھی تک نظر انداز نہیں کر رہا اور تمام ممکنات کو سامنے رکھتے ہوئے فریقین سے رابطے رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان چین کی مدد کے بدلے اپنے مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنا سکتا ہے، اگر مغربی طاقتیں طالبان کو اقتدار پر قبضے سے روک لیتی ہیں اور سلامتی کونسل کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے کوئی نیا پلان آتا ہے تو پاکستان چین کی مدد سے کابل انتظامیہ، جو ان دنوں پاکستان دشمنی کے جذبات رکھتی ہے، کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کام کرسکتا ہے۔ ابھی تک یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمران افغان طالبان کو اقتدار میں آتا دیکھ رہے ہیں اور اسی امکان کو سامنے رکھ کر کابل انتظامیہ کے ساتھ معاملات میں بہتری لانے کی کوشش نہیں کر رہے لیکن یہ پالیسی سودمند ہوگی، اس بات کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔ پاکستان طالبان کو اقتدار میں آتا شاید اس لیے بھی دیکھ رہا ہے کہ طالبان نہ صرف عسکری پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ اشرف غنی کے استعفیٰ تک مذاکرات کو آگے بڑھانے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔

اگر منظرنامے میں بھارت کو بھی شامل کرلیا جائے تو طالبان کے ساتھ رسم و راہ بڑھا کر چین نے افغانستان میں بھارت کے ساتھ بھی سینگ پھنسا لیے ہیں۔ بھارت کابل انتظامیہ کا حامی ہے اور طالبان کا سخت مخالف ہے۔ وزیرِاعظم مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی 'ہمسائے سب سے پہلے' کی پالیسی دی تھی جس کا مقصد خطے میں بھارتی اثر و رسوخ قائم کرنا تھا اور پاکستان کو خطے میں تنہا کرنا تھا اور افغانستان اس پالیسی کی سب سے اہم کڑی ہے۔ بھارت افغانستان میں طالبان کی حکومت یا کنٹرول کو مفادات کے خلاف تصور کرتا ہے، چین کے ساتھ افغان مسئلے پر مل کر کام کرنے سے پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ علاقائی کشمکش بھی افغانستان کے مستقبل پر اثر انداز ہوگی، افغان مسئلے پر بھارت امریکا کی طرف دیکھ رہا ہے جو 20 سالہ جنگ سے جان چھڑا کر بھاگ نکلا ہے۔

چین کو روکنے کے لیے امریکا نے ایک غیر رسمی اتحاد بنا رکھا ہے جو مستقبل میں باضابطہ اتحاد کی شکل اختیار کرسکتا ہے اور یہ اتحاد کواڈ کے نام سے ہے، آسٹریلیا اس اتحاد کا اہم رکن ہے جس نے چین کے ساتھ سینگ پھنسا لیے ہیں۔ آسٹریلیا جنوبی بحیرہ چین، تائیوان، ہانگ کانگ کے علاوہ کورونا وائرس کے حوالے سے بھی کھل کر چین مخالف بیانیہ اپنائے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے معاشی تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ امریکا ابھی آسٹریلیا کو سامنے لاکر چین کو اُکسا رہا ہے اور اس کا ضبط آزما رہا ہے۔ اس اتحاد کا اہم رکن بھارت بھی ہے جس کا چین کے ساتھ سرحدی تنازع موجود ہے جبکہ جاپان جنوبی بحیرہ چین میں امریکی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔

چین کو روکنے کے لیے امریکا نے ایک غیر رسمی اتحاد بنا رکھا ہے جو مستقبل میں باضابطہ اتحاد کی شکل اختیار کرسکتا ہے اور یہ اتحاد کواڈ کے نام سے ہے—اے ایف پی
چین کو روکنے کے لیے امریکا نے ایک غیر رسمی اتحاد بنا رکھا ہے جو مستقبل میں باضابطہ اتحاد کی شکل اختیار کرسکتا ہے اور یہ اتحاد کواڈ کے نام سے ہے—اے ایف پی

پاکستان اور سعودی عرب کا تعلق

پاکستان کے اہم اتحادیوں میں سعودی عرب بھی ایسی ریاست ہے جو بائیڈن کے جمہوریت بمقابلہ آمریت کے نظریے کے تحت امریکی ترجیحی فہرست سے نکل سکتی ہے اور چین کی صف میں آسکتی ہے۔ سعودی عرب کو بھی تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے معاشی سرگرمیاں بڑھانے کی ضرورت ہے اور وہ عالمی معیشت کے پاور ہاؤس کی جانب دیکھ رہا ہے۔

اگر امریکا نئے ڈاکٹرائن کے تحت سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کو اتحاد سے نکال دیتا ہے تو صورتحال دلچسپ ہوگی۔ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات تاریخی ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان تعلقات میں بھی یمن جنگ، مسئلہ کشمیر کی وجہ سے اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ سعودی عرب بھارت کی بڑی مارکیٹ کو نظر انداز کرکے پاکستان کے پلڑے میں پورا وزن ڈالنے سے گریزاں ہے جبکہ پاکستان اپنی علاقائی مجبوریوں کی وجہ سے سعودی توقعات پر پورا نہیں اتر پایا۔

نئے منظرنامے میں سیکیورٹی کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور اور محرک بنائے رکھنا اب کافی نہیں ہوگا اور پاکستان کو خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کرنا پڑے گی۔ دنیا اب یک قطبی نہیں رہی، امریکی ترجیحات بدل چکی ہیں، پاکستان کو خطے میں نئے رابطے اور مواقع تلاش کرنا ہوں گے۔ وسط ایشیائی ریاستوں، روس اور چین کے ساتھ روابط کو مضبوط بنانا ہوگا۔ بھارت بھی اب غیر جانبداری چھوڑ کر امریکی جمہوری اتحاد کی کشتی میں سوار ہونے کو ہے۔ امریکی جمہوری اتحاد میں پاکستان کی جگہ بنتی نظر نہیں آتی، ویسے بھی خطے میں شروع ہونے والی اس نئی کشمکش میں پاکستان اپنے سب سے بڑے ہمسائے چین کے مخالف اتحاد میں شامل ہوکر مفادات کا تحفظ یقینی نہیں بناسکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Wurger Aug 09, 2021 02:22pm
پاکستان کو کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنا ہو گا اور اسی پر کاربند رہنا رہنا ہو گا بصورت دیگر اس کے لئے مشکلات آئیں گی۔ بہت خوب لکھا ۔طالبان کو اب کوئی نہیں روک سکتا ۔امریکہ 20 سال اندر رہ کر نہیں روک سکا اب اسکے بی باون تیارے بمباری کر کے غریب عوام کو ہی ماریں کے جیسا 8 اگست کو کیا۔