گزشتہ ماہ انگلش کرکٹ کچھ وقت کے لیے نسل پرستی کے بحران میں گِھر گئی تھی۔ عظیم رفیق نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے یارکشائر میں اپنے اور دیگر ایشیائی کھلاڑیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر جو بیان دیا وہ چونکا دینے والا تھا۔ یہ معاملہ انگلش کرکٹ کے لیے اس وقت تک سنگین ترین بحران رہا جب تک آسٹریلیا نے انگلینڈ کو شکست نہیں دی۔

اس افسوسناک معاملے پر میرے فوری طور پر 3 ردِعمل تھے۔

پہلا ردعمل تو عظیم رفیق کے لیے تھا۔ مجھے برسوں تک نسل پرستانہ رویے کو برداشت کرنے پر ان سے ہمدردی تھی اور پھر اس کے خلاف اتنی طاقت سے بات کرنے پر میرے لیے وہ قابلِ تعریف بھی تھے۔

دوسرا ردِعمل تائیدی تعصب کی ایک شکل تھی۔ کیا کسی کو بھی اس بارے میں حیرانی ہوئی کہ دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے ناموں میں سے چند یعنی مائیکل وان اور ڈیوڈ لائیڈ کے نام بھی سامنے آئیں گے؟ بعض اوقات مائیکروفون اور ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر کیا جانے والا مذاق کسی ایسے شخص کی شخصیت کا پتا دیتا ہے جس کے لیے مزید جارحانہ رویے شاید عام بات ہو۔

تیسرا ردِعمل اس مضمون کا موضوع بھی ہے اور وہ یہ تھا کہ کیا انگلش کرکٹ میں ایشیائی مخالف تعصب میں کوئی ایسی چیز ہے جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ ہوسکے؟

عظیم رفیق کے بیان سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وہاں ایسے ایشیائی نوجوان کھلاڑی موجود ہیں جو نسلی تعصب کی وجہ سے کھیل کے بڑے مواقع ملنے سے قبل ہی اس نظام سے باہر نکال دیے گئے۔

پاکستانی ہونے کے ناطے مجھے تو اس صورتحال میں ایک موقع نظر آتا ہے۔ آخر انڈر 15 اور انڈر 17 کھیلنے والے کھلاڑی بین الاقوامی کرکٹ سے کیوں دُور رہیں؟ کیوں نہ ہم انہیں اپنا لیں؟

کہتے ہیں کہ کسی کا کباڑ کسی دوسرے کے لیے خزانہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر انگریز نسل پرستی انگلینڈ کا کریئر ختم کرکے پاکستانی کریئر بناسکتی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں شکایت کرنے والے؟

اس کی عملی تفصیلات پر کام کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی پاکستانی قانون کے مطابق اگر برطانیہ میں پیدا ہونے والے کسی شخص کے والدین میں سے کوئی ایک بھی پاکستانی شہری ہو تو اسے پاکستان کی شہریت دی جاسکتی ہے۔ یوں کئی ممکنہ امیدواروں کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

لیکن کیوں نہ ہم ایک اور قدم آگے بڑھیں اور خصوصی اقدامات اٹھاتے ہوئے ان افراد کو بھی 18 سے 24 ماہ کی کاغذی کارروائی کے بعد شہریت فراہم کردیں جن کے دادا، دادی یا نانا، نانی میں سے کوئی دو پاکستان میں پیدا ہوئے ہوں؟

قانون پیچیدگیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر کھلاڑیوں کی بھرتی کی بات کریں تو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو کلبوں اور کاؤنٹی کرکٹ میں کھلاڑیوں کی تلاش کرنا ہوگی خاص طور سے ان شہروں میں جہاں ایشیائی افراد زیادہ ہیں۔

مشرقی لندن کے شہروں میں جاکر پمفلٹس تقسیم کریں جس طرح جنگ کے دنوں میں ایئر فورس کی جانب سے پروپیگنڈا کے لیے پمفلٹ گرائے جاتے تھے۔ جن آبادیوں کو ہدف بنانا مقصود ہو وہاں سوشل میڈیا کو اشتہارات سے بھر دیں۔ بار بار صرف یہی پیغام بھیجیں کہ ’اگر آپ کی عمر 12 سے 17 سال کے درمیان ہے، آپ اچھی کرکٹ کھیلتے ہیں اور ’پاکی‘ کہلائے جانے سے تنگ آچکے ہیں تو ہمارے پاس آپ کے لیے ایک بہت ہی اچھی خبر ہے‘۔

وہاں ایسے کئی پاکستانی موجود ہیں جو ’ایجنٹ‘، ’صحافی‘، ’رابطہ کار‘ اور ’مقامی گائیڈ‘ کے طور پر پروفیشنل کرکٹ کھیلنے والوں سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں (یہ گروپ دراصل کافی مشکوک ہے اور 2010ء کے فکسنگ اسکینڈل میں اس کے تعلق پر اب تک تحقیقات نہیں ہوئیں)۔ یہ لوگ رسمی اور غیر رسمی ثالث کے طور پر پی سی بی کے کام آسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت اچھا کام نہیں ہوگا لیکن کس نے کہا کہ ٹیلنٹ ہتھیانا اچھا کام ہے؟

عظیم رفیق
عظیم رفیق

بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ریاض مہریز پیرس کے مضافات میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے کے باوجود الجیریا کے لیے ناصرف کھیل سکتا ہے بلکہ اس کی کپتانی بھی کرسکتا ہے تو کوئی اگلا معین علی اور عادل رشید پاکستان کے لیے کیوں نہیں کھیل سکتا؟

ان دونوں کھلاڑیوں کے خاندان کا تعلق میرپور سے ہے۔ موجودہ کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو ہم عماد وسیم اور شان مسعود کی صورت میں کامیابی دیکھ چکے ہیں (میں یہاں ’کامیابی‘ کو بہت آزادانہ طور پر استعمال کررہا ہوں)۔ تاہم ہمیں ان چند کھلاڑیوں پر انحصار کرنے کے بجائے ایک باقاعدہ پالیسی ترتیب دینی ہوگی۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس دلیل کا مقصد برطانوی معاشرے کو اچھا یا بُرا کہنا نہیں ہے۔ اقلیتوں کے حوالے سے جو صورتحال پاکستان کی ہے وہ صورتحال شاید بہت ہی کم ممالک میں ہوگی۔ مجموعی طور پر بات کی جائے تو برطانیہ میں اقلیتوں کی زندگی اتنی مشکل نہیں ہے جتنی پاکستان میں ہے۔ یہاں تو بغیر کسی بات کے اقلیتوں کے پورے محلے جلا دیے جاتے ہیں اور صرف محلے ہی نہیں بلکہ انسانوں کو بھی جلادیا جاتا ہے۔

اس خیال کی بنیاد دراصل ایک چیز ہے جس سے انگلش کرکٹ بورڈ (ای سی بی) بطور بِگ/ پِگ 3 کے رکن کے بہت اچھی طرح آگاہ ہے اور وہ ہے اپنے منافع میں اضافہ کرنا۔ آبادیاتی، ثقافتی، لسانی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر پاکستان انگلش کرکٹ میں موجود نسل پرستی کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ مفادات کی دنیا ہے جہاں پاکستان کو زیادہ حیثیت نہیں دی جاتی اور ہمیں سال میں زیادہ سے زیادہ 2 ٹیسٹ سیریز کھیلنے کو ملتی ہیں تو پھر ہم اپنے مفادات کے حصول سے کیوں پیچھے ہٹیں؟

اور پھر کم از کم 3 وجوہات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح انگلینڈ اپنا بویا ہی کاٹے گا۔

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ خود انگلینڈ نے خاص طور سے جنوبی افریقہ اور باقی برطانیہ سے کئی نوجوان کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں شامل کیا اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ اگر اسے جوابی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ نفسیاتی طور پر تسلی بخش ہوگا۔

دوسری وجہ یہ کہ انگلش کرکٹ میں نسلی تعصب ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ اگر اس حوالے سے اندرونی طور پر احتساب نہ ہوا، اور ایسا ہی لگ رہا ہے تب تو انہیں کسی نہ کسی طرح اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ اگرچہ نیوزی لینڈ نے پاکستان کے ساتھ نہ کھیلنے کا کوئی ٹوٹا پھوٹا جواز پیش کردیا تھا لیکن انگلینڈ کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کی جانب سے انکار کرنا ایک بالکل الگ معاملہ تھا۔ سچ کہوں تو ہمیں حساب برابر کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز ہم ان کے کھلاڑی ہتھیا کر کرسکتے ہیں۔

ہر چیز کا کوئی نہ کوئی منفی پہلو ہوتا ہے۔ اس خیال کا منفی پہلو ایک خودمختار ملک کے طور پر ہماری سلامتی کو درپیش خطرات سے ہے۔ خاص طور پر اب جبکہ انگریزوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ ہم ان کے کھلاڑیوں کو چُننے والے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ ایم آئی 6 (MI6) ہماری حکومت میں اعلیٰ سطح پر کوئی جاسوس پلانٹ کردے۔ وہ کسی کھلاڑی کو اپنے لیے تیار کریں اور ہم 15 سال کی عمر میں اسے پاکستان لے آئیں، ممکن ہے کہ 30 سال بعد ہم اسے اقتدار کے لیے منتخب بھی کرلیں اور جب وہ ہمارے جوہری راز انسٹاگرام پر شیئر کردے تو ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔

تاہم اس خیال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ کیا انگلینڈ اتنے اچھے کھلاڑی تیار کرسکتا ہے کہ جنہیں وزیرِاعظم کے طور منتخب کیا جاسکے۔ اگر موجودہ ایشز سیریز کو دیکھا جائے تو اس بات کی نفی ہوتی ہے۔ یہ کھلاڑی شاید زیادہ سے زیادہ مقامی لائبریری کے کونسل ممبر ہی بن سکیں۔

دوسرا خطرہ ٹیم کے اتحاد کو ہوگا۔ کیا پاکستان میں پیدا ہونے والے کھلاڑی ان درآمد شدہ کھلاڑیوں سے ناراض ہوں گے؟ کیا ان کھلاڑیوں کو اس وجہ سے ڈھیل دی جائے گی کہ پی سی بی نے ان میں سرمایہ کاری کی ہوگی یا ان پر اس وجہ سے سختی کی جائے گی کیونکہ لوگ ان کے ناکام ہونے کے لیے بے چین ہوں گے؟

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے وسیم خان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ نیویارک ٹائمز جیسے سخت اخبار نے بھی ان کے لیے یہ سرخی لگائی کہ 'وہ پاکستانی کرکٹ سے محبت کرتے ہیں لیکن پاکستانی کرکٹ ان سے محبت نہیں کرتی'۔ وسیم خان تو انتہائی کامیاب منتظم تھے اور ان کے ساتھ ایسا ہوگیا، اب ذرا تصور تو کیجیے کہ ہم ایک ایسے ’غیر ملکی‘ کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے جو واقعی ناکام ہوجائے۔

آخری بات یہ کہ اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں برٹش پاکستانی برادری کو پہلے سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رکھیے کہ برطانیہ ٹیبٹ (Tebbit) ٹیسٹ کی جائے پیدائش ہے۔ اگر ایشیائی بچوں کو منقسم وفاداریوں پر پہلے ہی تنگ کیا جارہا ہے تو پھر پاکستان کے لیے کھیلنے سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ یقیناً اس قسم کے حالات میں عظیم رفیق جیسوں کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔

یعنی اس منصوبہ کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ادا کرنی ہوگی، رمیز راجہ غیر روایتی سوچ والے شخص ہیں وہ کم از کم اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ اس خیال کو مکمل طور پر رد کرنے سے قبل اس پر کچھ لوگوں سے رائے ضرور لے لیں۔


یہ مضمون 09 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں