رنی کوٹ: ایشیا کے سب سے بڑے جنگی قلعے کی کتھا! (آخری حصہ)

اس سیریز کے بقیہ حصے یہاں پڑھیے


اب ہم مختصراً ذکر کرتے ہیں برہمن آباد کا اور بہمن ارد شیر دراز دست (Artaxerxes) کا جس کا زمانہ 425-465 قبل مسیح کا ہے)۔ اس نے تخت و تاج کے لیے اپنے بھائی کو قتل کروایا اور بھائی کے خون سے ہاتھ رنگ کر تخت پر بیٹھا۔ ان دراز دستیوں کی وجہ سے اس کا نام ’دراز دست‘ پڑگیا۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں کہ ’ایرانی حاکم بہمن ارد شیر کا سندھ پر سیاسی اثر تھا اور اس نے اس جگہ پر ایک شہر آباد کیا جس کو اس کے نام سے بہمن آباد پکارا گیا‘۔

ڈاکٹر غلام محمد لاکھو تحریر کرتے ہیں کہ ’آخرکار شہزادے بہمن (جو بعد میں بہمن ارد شیر اور دراز دست نام سے مشہور ہوا اور کیانی سلطنت کا پانچواں بادشاہ بنا) کو سندھ بھیجا گیا کہ وہ یہاں مستقل قبضے کا انتظام کرے۔ اس نے کچھ سرحدیں متعین کیں اور ایرانی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک شہر اور قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس کو ’بہمنیہ‘ یا ’بہمن آباد‘ کے نام سے پکارا گیا اور اس نے اپنے مذہب کی تشہیر کے لیے ایک آتش کدہ بھی بنوایا تھا‘۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے بمبئی آرمی میں ملازم ایچ جی ریورٹی نے دریائے سندھ پر تحقیقی رپورٹ مہران آف سندھ تحریر کی تھی جو لندن سے شایع ہوئی۔ ان کے مطابق ’بہمن جو ایران کا بادشاہ تھا، اس کا نام اردشیر دراز دست تھا۔ یونانی ان کو آرٹازر زیکس لانگی منس (Artaxerxes dongimnanus) تحریر کرتے ہیں۔ وہ اپنے دادا گشتاسپ کے بعد (464 قبل مسیح میں) تخت پر بیٹھا‘۔

مجمل التواریخ کے مطابق ’کفند، سکندر مقدونی کے زمانے میں ہند کا بادشاہ تھا'۔

قدیم یونانی تاریخ دان مئسی ڈوئین بتاتے ہیں کہ 'کفند نے اپنے بھائی سھد کے لیے ایک برہمن کو (بہمن آباد) بھیجا، جس نے جاکر کہا کہ وہ ایرانیوں کو اس شہر سے نکال دے جو بہمن نے فتح کیا تھا‘۔

برہمن آباد کا نام خود فارسی یا ایرانی ہونے کی تصدیق کرتا ہے، ’آباد‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔

زین الاخبار کے مصنف گردیزی تحریر کرتے ہیں کہ ’اردشیر نے سندھ میں جس شہر کی بنیاد رکھی وہ اس کے نام سے پکارا جانے لگا، یہ نام صدیوں تک قائم رہا، مگر پھر جب ساسانیوں کا زور ٹوٹا اور سندھ پر برہمن خاندان کی حکومت آئی تو یہ نام بہمن سے تبدیل ہوکر برہمن ہوگیا'۔

مجمل التواریخ میں اردشیر کا ایک خاکہ
مجمل التواریخ میں اردشیر کا ایک خاکہ

آئینہ اکبری کے مصنف ابوالفضل کی تحریر کے مطابق ’برہمن آباد کے قلعہ میں 1400 برج تھے اور ہر ایک برج ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر بنا ہوا تھا، جس سے لگتا ہے کہ یہ قلعہ ایک وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا تھا۔ کلہوڑا دور میں جب یہ قلعہ اپنے آخری ایام کو پہنچا تھا تب بھی ان کے برجوں کا پھیلاؤ بہت تھا اور برج کی اوپری سطح 40 فٹ تھی۔ یہ اپنے زمانے کا ایک طاقتور قلعہ تھا۔ کیونکہ محمد بن قاسم نے پورے 6 ماہ اس قلعہ کا گھیراؤ کیا تب جاکر کہیں یہ فتح ہوا'۔

ڈاکٹر غلام محمد لاکھو اس حوالہ سے تحریر کرتے ہیں کہ ’یہ شہر اپنے دنوں میں ایک خوبصورت اور دیکھنے جیسا شہر تھا، کیونکہ راجا یہاں رہتا تھا اس لیے بھی یہ مشہور تھا۔ ابن خلدون اس کو ہندوستان کے مضبوط قلعوں میں سے ایک کا درجہ دیتا ہے۔ مولائی شیدائی نے البیرونی اور رشید الدین کے حوالوں سے اس شہر کو ملتان سے بھی بڑا شہر قرار دیا ہے۔ اس قلعہ میں 40 ہزار فوج رہتی تھی۔ اس عظیم الشان قلعے کے 4 دروازے تھے جن کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا، جیسے بھارند، ساتیہ، بنورہ اور سالہا'۔

برہمن آباد کے آثار کی کھدائی
برہمن آباد کے آثار کی کھدائی

برہمن آباد کی کھدائی کے وقت کی تصویر
برہمن آباد کی کھدائی کے وقت کی تصویر

راجا داہر مقامی لوگوں کی بغاوت کی وجہ سے محمد بن قاسم سے جنگ لڑتے ہوئے راوڑ کے مقام پر مارا گیا۔ اس واقعے کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ درست تاریخ 711ء ہے اور کچھ کے خیال میں 712ء۔

بہرحال اس جنگ سے تقریباً 72 برس قبل ایک چینی سیاح ھیونتسیانگ (Xuanzang or Hsuan-Tsang) یہاں آیا تھا۔

وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’سندھ میں اس وقت 10، 10 ہزار شمنی (پروہت) تھے مگر اب وہ سُست پڑگئے ہیں'۔

اس کو ایسے سمجھ لیں کہ بدھ مت کے جو پیشوا ہوتے ہیں ان کو ’شمنی’ کہا جاتا ہے۔ چھٹی صدی میں جب ہیون سیانگ، گجرات اور کَچھ سے ہوتا ہوا وہ سندھ آیا تو ظاہر ہے اس وقت سندھ میں بڑا مذہب بدھ مت تھا، مگر چونکہ ان شمنیوں میں ایک تو عقیدت مندوں سے پیسے لینے کی لت پڑ گئی اور دوسرا سبب ہندو مت کا بڑھتا ہوا اثر بھی تھا تو ہیون سیانگ نے اس کیفیت کو دیکھ کر یہ تحریر کیا ہے کہ یہاں کے بدھ پروہت اب سُست پڑ گئے ہیں۔

وہ آگے بیان کرتے ہیں کہ 'سندھ کے بڑے شہر پٹالا تک پہنچنے کے لیے کَچھ کے شہر کوٹیسر سے 700 لی (119 میل) پیدل چل کر آیا۔ یہاں (پٹالا) سے 300 لی (51 میل) چل کر وہ برہمن آباد پہنچا'۔ ھیونتسیانگ کے کہنے کے مطابق وہ ’یہاں رشی تتھا گاتھا کی راکھ کا دیدار کرنے کے لیے آیا تھا، جس کی راکھ کی ڈبیا کھولنے سے نور کی شعا نکلتی تھیں اور زیارت کرنے والے سجدے میں گرجاتے تھے‘۔

500 قبل مسیح میں یونان کے قدیمی شہر میلٹس کے رہنے والے ہیکاٹس نے جغرافیہ پر کتاب پرلیجیسس اسی برس تحریر کی۔ اس نے یہ معلومات اسکائیلیکس سے حاصل کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اوپیائی نام کا ایک قبیلہ دریائے سندھ کے بائیں کنارے رہتا تھا، ان کے پاس ایک مضبوط قلعہ تھا، جہاں دارا اوّل نے اپنے لشکر کو ٹھہرایا تھا، ہوسکتا ہے کہ یہ برہمن آباد ہو‘۔

آج سے 1120 برس پہلے ابو عبداللہ الحسین بن منصور الحلاج بھی اس مشہور شہر کی گلیوں سے گزرے تھے۔ منصور الحلاج کی موت میں سندھ کے اس سفر کا بھی الزام تھا۔ منصور الحلاج کا یہاں آنا اور وقت گزارنا اس شہر کے مشہور و مقبول ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ آنے والے دنوں میں منصور کے سندھ کے سفر سے متعلق ضرور تفصیل سے بات کریں گے۔

المسعودی، السطخری اور دوسرے سیاحوں کے علاوہ آخر میں آنے والا بشاری مقدسی تھا جو تقریباً 988ء میں منصورہ (برہمن آباد) آیا تھا۔ اس کے مطابق ’منصورہ سندھ کا مرکزی شہر ہے اور حکومت کا کاروبار یہاں سے چلایا جاتا ہے۔ یہاں کی عمارتیں اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں مگر شہر کی جامع مسجد پتھر، چونے اور اینٹوں سے بنائی گئی ہے۔ اس مسجد کا نمونہ عمان (مسقط) طرز کا ہے۔ اس شہر کے قلعہ کے 4 مرکزی دروازے ہیں جن کے نام باب البحر، باب سندان، باب ملتان اور باب توران ہیں۔ جامع مسجد شہر کے مرکز میں ہے، سارے راستے یہاں آکر ملتے ہیں، یہاں کی رسمیں عراق جیسی ہیں، کافروں کا ملک میں زور ہے‘۔

ابواسحٰق السطخری کہتے ہیں کہ ’منصورہ کا سندھی میں نام برہمن آباد ہے‘۔

ہینری کزنس کی تحقیق کے مطابق ’منصورہ کا شہر برہمن آباد کے کھنڈرات پر بنایا گیا‘۔

برہمن آباد کے آثار
برہمن آباد کے آثار

رنی کوٹ کا ایک برج— تصویر: لکھاری
رنی کوٹ کا ایک برج— تصویر: لکھاری

اب ہم برہمن آباد سے رنی یا رونی کے کوٹ آتے ہیں اور مغرب کی طرف قدیم راستہ لے کر 140 میل جنوب میں ہم بنبھور، دیبل یا باربریکان (Barbarikon) چلتے ہیں۔ یہ بھی برہمن آباد کی طرح قدیم زمانے کی کوکھ میں بسنے والی انتہائی قدیم بندرگاہ اور بستی تھی۔ یہاں بھی ناموں اور مقامات کی تحقیقی جنگ اپنے عروج پر ہے، مگر فی الوقت ہمارے پاس جو اہم تحقیق ہے وہ ڈاکٹر فضل احمد خان کی ہے کیونکہ بنبھور کی پہلی کھدائی 1929ء میں نونی گوپال مجمدار، 1951ء میں مسٹر الکاک اور 1958ء میں ڈاکٹر افضل احمد کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ یہ کھدائی انتہائی اہم ثابت ہوئی کہ اس سے کئی اہم اور قدیم رازوں کا پردہ چاک ہوا۔

ڈاکٹر ایف اے خان لکھتے ہیں کہ ’دیبل کی بنیاد کب رکھی گئی اس سے متعلق یقین سے اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ اس قدیم مقام کی کھدائی جتنی ہوئی ہے اس سے نیچے ہم نہیں جاسکتے کیونکہ نیچے پانی کی تہہ موجود تھی۔ مگر ایک بات یقینی ہے کہ دیبل ڈیلٹا کی قدیم بندرگاہ ہے۔ جیسے بنبھور کی کھدائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سکندرِ اعظم کے وقت میں آباد تھا۔ ستھین اور پارتھین اس سے دوسری صدی قبل مسیح میں واقف تھے، یہ ابتدائی عیسوی برسوں میں ساسانیوں کے قبضے میں رہا'۔

ہندوستان کی تاریخ پر تحقیقی کام اور ہسٹری آف انڈیا کے نام سے کتاب لکھنے والے جان ایچ ایلیٹ کے مطابق '499ء میں یہاں رائے گھرانو کی حکومت تھی جس نے یہاں شیو مندر بنوایا اور ساتویں اور آٹھویں صدی میں چینی سیاحوں نے بھی اس بندرگاہ کو دیکھا‘۔

330 قبل مسیح میں دارا سوم نے سکندر سے لڑنے کے لیے اور اپنی حکومت کی مدد کے لیے سندھ سے سپاہی اور ہاتھی اکٹھے کیے تھے۔ اسی برس سکندر نے اسے شکست دی تھی اور پرسیپولس کو آگ لگادی تھی۔ یہ سراسر ویسے ہی سیاسی حالات تھے ہم جو دارا اوّل کے زمانے میں دیکھ کر آئے ہیں کہ اس نے 519 قبل مسیح میں سندھ، پنجاب اور کَچھ کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا تھا۔ اس زمانے میں اس کے امیرالبحر اسکائیلکس نے دارا کے حکم سے بحری جہاز بنوائے اور مکران سے ساحل عرب تک ایک نیا راستہ دریافت کیا تھا۔

ہمیں محمد حسن پنوھر صاحب کی اس حوالہ سے کی گئی تحقیق سے بھی کچھ نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'بنبھور کی قدیم بندرگاہ کی تاریخ ہمیں 324 قبل مسیح سے ملنا شروع ہوتی ہے۔ دارا اعظم نے سندھ فتح کرنے کے بعد امیرالبحر اسکائیلکس کو پشاور سے دریائے سندھ کا معائنہ کرنے کے لیے بھیجا۔ اسکائیلکس دریائے سندھ سے ہوتا ہوا ڈیلٹا پہنچا اور وہاں سے بحیرہ احمر کے راستے سے 518 قبل مسیح میں مصر پہنچا۔

سندھ کے بیوپاری تعلقات میسوپوٹیما سے قدیم زمانے سے رہے ہیں، وہاں کے بادشاہوں خاص طور پر سارگن اوّل (وفات 2279 قبل مسیح) اور نرمسین (حکومت 2254 سے 2218 قبل مسیح) نے سندھ کی طرف اپنے تجارتی جہاز روانہ کیے تھے۔ سکندرِ اعظم کو شاید اسکائلیکس کے اس بحری سفر کی خبر نہیں تھی اس لیے اس نے یہ فیصلہ کیا کہ، سندھ کو مصر سے بحری راستے کے ذریعے ملا کر تجارت کی جائے۔ اس لیے اس نے اپنے امیرالبحر نیئرکس کو سندھ کی اندرونی بندرگاہ پٹالا سے براستہ خلیج فارس، میسوپوٹیما روانہ کیا۔ سکندر کی موت کی وجہ سے بحیرہ احمر کے راستے سندھ اور مصر کے مابین تجارت کا خواب تعبیر کی صورت نہ لے سکا۔

سکندر کی وفات (323 قبل مسیح) کے بعد اس کی سلطنت ٹوٹ کر بکھر گئی۔ مصر کا علاقہ اس کے سوتیلے بھائی ٹالمی کو ملا جس کے خاندان نے وہاں 300 سال تک حکومت کی۔ اس خاندان نے بیوپار کو بڑھاوا دیا اور مصر سے بحیرہ احمر پر کئی بند تعمیر کروائے۔ بیوپاری جہاز سمندر کا کنارہ لے کر بحیرہ احمر سے عدن پہنچتے تھے اور وہاں سے سمندر کا کنارہ لے کر بحرین آتے۔ بحرین سے خلیج فارس کو عبور کرکے ایران اور مکران کا کنارہ لے کر بنبھور پہنچتے تھے۔ اس کو یونانیوں نے باربریکان کہا ہے بلکہ جنوبی سندھ کو بھی وہ اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ یوں مصر سے سندھ سے بیوپار کی ابتدا ہوئی۔

جنوبی ہندوستان اور سری لنکا کی بندرگاہوں سے سامان باربریکان پہنچتا، دوسری طرف شمالی ہندوستان کا سارا سامان آسام، بنگال، نیپال اور بھوٹان سمیت گنگا اور جمنا کے راستے دہلی کے شمال میں ہریانا صوبے تک پہنچایا جاتا تھا جہاں سے اونٹوں کے راستے 50 میل دُور ستلج تک لایا جاتا تھا اور ستلج کے راستے پنجند پار کرکے باربریکان (بنبھور) پہنچتا تھا۔ (پنجند سے مراد پنجاب سے سندھ میں داخل ہونے والی 5 ندیاں ہیں اور پنجند ایک مقام کا نام بھی ہے جہاں پانچ ندیاں آکر ملتی ہیں)۔

اسی طرح بنبھور میں سارا سال تجارتی سرگرمیاں جاری رہتیں۔ اس کے علاوہ چین سے سامان کھوٹان (کھوٹان کی قدیم بادشاہی ایک قدیم ایرانی ساکا بدھ بادشاہی تھی جو شاہراہِ ریشم پر تھی، یہ تریم طاس (موجودہ سنکیانگ، چین) میں صحرائے تکلمکان کے جنوبی کنارے کے ساتھ چلتی تھی)۔ شہر کے وسیلے شاہراہِ ریشم سے سوات یا پشاور اور کابل کے راستے دریائے سندھ تک پہنچایا جاتا جہاں سے وہ بنبھور روانہ کردیا جاتا تھا۔ عیسوی صدی کی ابتدا میں باربریکان دنیا کا مشہور تجارتی بندر تھا۔

گزرے زمانوں کی اب تک جو تاریخی تصویر، تحریر کے روپ میں آپ کے سامنے پیش کی ہے اس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اس تاریخی علاقے کا ذکر کررہے ہیں جس کا ماضی میں بڑے شہروں، بندرگاہوں، بیوپاری قافلوں اور ان کی گزرگاہ کی وجہ سے بڑا نام رہا اور یہ بات بھی کہ یہ قدیم راستہ 8 ہزار برس تک رواں دواں رہا۔

پہلی صدی عیسوی کے تجارتی راستے اور اہم بندرگاہیں
پہلی صدی عیسوی کے تجارتی راستے اور اہم بندرگاہیں

پنوھر صاحب کی تحقیق کے مطابق ’رومی سلطنت کے عروج اور مصر کے آخری سیلیوکسی اور ٹالمی حکومتوں کے زوال کے ساتھ رومی حکومت وسیع ہوگئی اور اس کی سرحدیں بحیرہ قزوین (Caspian Sea) اور بحیرہ احمر تک پہنچیں۔ اس لیے پرانے زمانوں میں رومی سلطنت ایک ایسی طاقتور سلطنت بن گئی جس کا مقابلہ 19ویں صدی کی انگریز سلطنت سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

’رومیوں کو مشرق سے عیش و عشرت کی ہر چیز چاہیے تھی، اس لیے باربریکان سے چینی، تبتی کھالیں اور پوستین، ململ، عطر، عنبر، مُشک، موتی، فیروزہ، لوہا، چینی رنگی ہوئی کھالیں، گرم کپڑا، شیر، چیتے، باگھ، تبتی شکاری کتے اور ایک سینگ والا گینڈہ۔ تبت، گلگت اور شمال مغرب سے ہرنوں کی مُشک، چینی، جو دوا کے طور پر استعمال ہوتی تھی، قیمتی سلیمانی پتھر، پٹالا دریائی بندر کے اطراف میں ملنے والی خوشبودار بوٹی، چہرے پر لگانے کے لیے ایک پیلی پیسٹ (Lycium)، سیپیں، لوبان، یاقوت اور مرجان۔ ہندوستانی جانور جیسے ہاتھی، طوطے، سنگ بدھیا (Conchylia)، ادرک کی گھاس سے نکلنے والا سرکہ، عاج، سانپ اور گوہیں۔ ریشمی دھاگا، مصالحے، خوشبودار تیل، سرخ اور کالی مرچیں۔ اس کے علاوہ پنجاب سے مہندی، گوند، ریوند چینی، چینی، نیر (Indigo)، سُوتی کپڑا اور شیشم۔ افغانستان سے دیودار لکڑی، خشک میوہ، چاول اور باجرہ یہاں سے بھیجے جاتے تھے۔

’واپسی میں بابریکان آتا تھا (بابریکان یا باربیرکان بنبھور کی قدیم بندرگاہ کے نام ہیں کیونکہ اس کو مختلف ادوار میں مختلف لہجوں سے پکارا گیا ہے)۔ ان میں یونانی یا یورپی عورتیں، رنگ برنگے خاص کر سرخ مرجان، مصر کا تصویروں والا کپڑا، شراب، لوبان، چاندی کے برتن، سلاجیت، جواہرات، دھندلہ شیشہ اور سکوں کی صورت میں، سونے کی چھوٹی اینٹیں، پیتل، جست (Zinc)، سنکھیا (Arsenic)، سندر (Red lead)، چاندی اور سونے کے سکے فروخت کرتی تھیں۔ اس سارے تجارتی سامان کا بڑا حصہ رنی کوٹ کےمغربی طرف کے راستے سے آتا جاتا تھا اس لیے یہ قلعہ یقیناً اس راستے کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہوگا۔‘

اب ہم یہاں پہنچ کر سوچتے ہیں کہ کیا اس راستے کے تحفظ کے لیے وقت کے حاکم نے کبھی نہیں سوچا ہوگا جس راستے سے مشرق اور مغرب کے ملکوں کا کروڑوں اربوں کا سامان گزرتا تھا؟ ضرور سوچا اور کیرتھر پہاڑیوں کے سلسلہ اور پانی کے بہاؤ کی وجہ سے قدرت نے ان کو دعوت دی کہ یہ راستے کے تحفظ اور دوسرے حملوں سے بچنے کے لیے یہ ایک شاندار جگہ ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں قدیم زمانے میں کوئی مذہبی آستان ہو کیونکہ اس رنی کوٹ کی پہاڑیوں سے اگر شمال کی طرف آپ سیدھا دیکھیں تو 30 میل کے فاصلے پر لکی پہاڑیوں میں جہاں گندرفی چشمے ہیں وہ ایک قدیمی شیو مندر کا مذہبی آستان ہے۔ تو یہاں بھی کچھ ایسا ہوسکتا تھا یا یہ بھی ممکن ہے کہ جب اس راستے سے آوت جاوت شروع ہوئی ہو تو وہاں مقامی حاکموں کی قائم کردہ کوئی چوکی ہو اور پھر دھیرے دھیرے اس میں اضافہ ہوتا گیا اور آخر اس کی اہمیت اتنی محسوس ہونے لگی کہ وہاں فوج کی ٹھیک ٹھاک نفری رکھنے کے ساتھ ایک کوٹ تعمیر کرنے کا سوچا گیا ہو۔ یوں یہ ایک جنگی قلعہ بن کر تیار ہوا۔

حفاظت کے حوالے سے یہ انتہائی اہم جگہ ہے۔ ایک تو یہاں سے دُور دُور تک نظر رکھی جاسکتی ہے، دُور سے آنے والے لشکر کو دیکھا جاسکتا ہے اور قلعے کی چوکیاں اتنی اوپر ہیں کہ وہاں تک پہنچنا انتہائی مشکل ہے۔ قلعے میں پانی کی موجودگی وہاں کے رہنے والوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہوگی اور حملہ کرنے والوں کے لیے یہ انتہائی مشکل ترین قلعہ ہوتا ہوگا۔

اب ایک سوال جس کا جواب ہمیں ضرور چاہیے کہ یہ حفاظتی یا جنگی کوٹ کب اور کس زمانے میں تعمیر ہوا؟ اس سوال کا جواب اگر ہم تاریخ کے صفحات میں ڈھونڈیں تو کوئی کسی سے متفق نظر نہیں آتا۔ پنوھر صاحب لکھتے ہیں کہ ’یہ قلعہ یا تو انڈو باختری یونانیوں نے 945 سے 90 قبل مسیح میں بنایا ہوگا یا پھر 74 قبل مسیح سے عیسوی سن کی ابتدا تک ستھیوں نے بنایا ہوگا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب باربریکان پر تجارت اپنے عروج پر تھی، اس قلعے سے ضرور اس راستے کی حفاظت کی جاتی ہوگی جو نہ صرف حملے کرنے کے لیے کارگر تھا بلکہ ایک شاندار تجارتی راستہ بھی تھا‘۔

علی احمد بروہی صاحب رنی کوٹ کا اصلی نام نیرون کوٹ بتاتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ’سندھی میں نیرون نام کا کوئی لفظ نہیں ہے اور نہ اس کے کوئی معنی بنتے ہیں، بنیادی طور پر یہ ’نے‘ یعنی بارشوں کے پانی کے بہاؤ اور ’رون‘ اس پانی کے بہاؤ کو کہا جاتا ہے جو پانی کی زیادتی کی وجہ سے اپنی طاقت سے زمین کو یا پشتے کو چیر کر اپنا راستہ بنالے۔ تو اگر ان لفظوں کو جوڑا جائے تو ’نیرون‘ بنے گا اور محمد بن قاسم جس نیرون کوٹ آیا تھا وہ یہی کوٹ ہے جو اب وقت کے ساتھ بگڑ کر رنی کوٹ بن گیا ہے۔ مگر آپ غور سے دیکھیں تو اس میں ’رون‘ کا وجود اب بھی موجود ہے۔ محمد بن قاسم نے بغداد کی طرف جو تحریر روانہ کی اس کے مطابق وہ لکھتا ہے کہ ہم نے ایک ایسے قلعے کے قریب اپنا کیمپ قائم کیا ہے جو سکندر یونانی کی تعمیر کی گئی دیوار سے بھی کئی گنا زیادہ مضبوط ہے (ہم کچھ دیر میں آپ کو اس سکندر یونانی کی دیوار پر لے چلیں گے جس کا ذکر محمد بن قاسم نے اپنے خط میں کیا ہے)‘۔

بروہی صاحب مشہور انگریز سیلانی چارلس میسن (Charles Meson) کی کتاب Narrative of Travels کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ ’پرانے نقشوں میں اس کو موئن کوٹ لکھا گیا ہے خاص کر انگریزوں کے ابتدائی زمانے میں چارلس میسن نے اپنے قافلے سمیت سندھ کا سفر کیا اور رنی کوٹ میں ایک رات گزاری اور وہ اس کو ہندو کوٹ کہتے ہیں‘۔

آپ یہاں ابتدائی برٹش دور کا نقشہ بھی ضرور دیکھ سکتے ہیں جو مغلیہ دور کے اہم مقامات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ لاطینی زبان میں بنا ہوا ہے اور برہمن آباد قلعے کے بالکل سامنے مغرب کی جانب ایک قلعے کی نشاندہی کرتا ہے جو یقیناً نیرون کوٹ ہے۔ اب کم سے کم ہم اس دھند سے تو شاید نکل آئے ہیں کہ یہ کوٹ 200 یا 250 سال پہلے بالکل بھی نہیں بنا، البتہ میر صاحبان نے اس کی انتہائی شاندار مرمت ضرور کروائی اور ضرور اچھے موسموں میں وہ اس بہشت نظیر وادیوں میں سیر و تفریح کے لیے جاتے ہوں گے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے مغلیہ دور کے بنائے ہوئے نقشے میں برہمن آباد اور رنی کوٹ
ایسٹ انڈیا کمپنی کے مغلیہ دور کے بنائے ہوئے نقشے میں برہمن آباد اور رنی کوٹ

اب ہم اپنے سفر کے اختتام تک آ پہنچے ہیں، اور میں بالکل آخر میں آپ کو سکندرِ اعظم کی دیوار کی وہ کہانی سنانے والا ہوں، جس کا میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ جن دنوں یہ رنی کوٹ سیمینار ہو رہے تھے، تب تک وہ یقیناً سکندرِ اعظم کی دیوار تھی، اب وہ دیوار تو ضرور ہے مگر بے چارے سکندر مقدونی کے کھاتے میں سے یہ اعزاز وقت نے 2005ء میں واپس لے لیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کیسے۔

اگر رنی کوٹ سے پرانا راستہ لیں تو یہ چھپے راز والی جگہ 2 ہزار 860 کلومیٹر مغرب شمال میں ’گرگان‘ (اس کو پرانے نام اُستر آباد سے بھی تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے)، جو کہ ایران کا انتہائی شمالی شہر ہے وہاں ایک 195 کلومیٹر کی تحفظی دیوار موجود ہے، کیونکہ یہ زیادہ تر پکی ہوئی سُرخ اینٹوں سے بنائی گئی تو اب وہ فضا سے ایک سرخ لکیر کی طرح نظر آتی ہے اس لیے اب اس کو سرخ سانپ یا Red Snake کے نام سے جانا جاتا ہے اور ساتھ میں اس کو گرگان کی تحفظی دیوار کے نام سے بھی اکثر لوگ جانتے ہیں۔

جس طرح ہم اس بحث میں سرگرم ہیں کہ رنی کوٹ کب بنا؟ تو وہاں گرگان میں بھی 2005ء سے پہلے اس طرح کے زبردست بحث و مباحثے ہوتے تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس طویل حیرت انگیز دیوار کو سکندر مقدونی نے بنایا تھا اور اس دیوار کے بننے کے 7 برس بعد اس کا انتقال ہوگیا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ یہ دوسری صدی عیسوی میں بنی تھی۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ یہ دیوار چھٹی صدی کے آخر میں عظیم فارسی بادشاہ خسرو اوّل کے دور میں 531ء سے 579ء میں بنی تھی۔

گرگان کی دفاعی دیوار—تصویر: کرنٹ ورلڈ آرکیالوجی میگزین
گرگان کی دفاعی دیوار—تصویر: کرنٹ ورلڈ آرکیالوجی میگزین

دفاعی دیوار کا نقشہ
دفاعی دیوار کا نقشہ

مگر ان میں سے درست کون تھا؟ اس کے لیے ضروری تھا کے کاربن ڈیٹنگ کی جائے۔ اس لیے 2005ء میں، دیوارِ چین کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تحفظی دیوار پر سائنسی بنیادوں پر کام شروع ہوا اور اس دیوار کی کھدائی شروع کی گئی، ساتھ میں کاربن ڈیٹنگ بھی جاری رکھی گئی اور پھر ایک تفصیلی رپورٹ جاری ہوئی۔

اس تفصیلی رپورٹ کا لب لباب کچھ اس طرح بنتا ہے کہ ’گرگان کی دفاعی دیوار جو بحیرہ قزوین (کیسپین) کے جنوب مشرقی کونے کے ساحل سے شروع ہوتی ہے اور قدیم گرگان (یا عربی میں جورجان) کے شمال میں چکر لگاتی پشکمار پہاڑوں میں غائب ہوجاتی ہے۔ یہ دیوار ساسانی دور کے دفاعی نظام کا اہم حصہ تھی۔ اس کو بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ شمالی میدانوں سے آتے ہوئے سفید ہنوں اور دوسرے خانہ بدوش لوگوں کو روکا جاسکے کیونکہ کرگان کا علاقہ، جس کو ماضی میں Hyrcania کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، وہ ایک زرخیز وادی تھی۔ ساسانی دور میں اس علاقے اور جنوب کی طرف پھیلی ساسانی سلطنت کو تحفظ دینے کے لیے اس دیوار کو بنایا گیا۔ ابھی تک اس دیوار کے ساتھ 40 کے قریب قلعے دریافت ہوئے ہیں جو مربع صورت میں بنے ہوئے ہیں۔ یہ دیوار ساسانی زمانے کے بنائے گئے دفاعی قلعوں میں سے سب سے اہم ہے‘۔

میں نے یہاں اس دیوار کی کچھ تصاویر شامل کی ہیں جو میں نے اس تحقیقی رپورٹ سے لی ہیں۔ اگر آپ دھیان سے دیکھیں تو رنی کوٹ کی تحفظی دیواروں اور کوٹوں کی تعمیر اور گرگان کی اس تحفظی دیوار اور مربع قلعوں میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا، ہاں البتہ ایک فرق بنیادی ہے کہ وہ وہاں کے زمینی حالات کی وجہ سے پکی اینٹوں سے بنائی گئی ہے جبکہ یہ یہاں کی زمینی حالت کے مطابق میسر شدہ پتھر سے بنائی گئی ہیں۔ یہاں پہنچ کر ہمیں خواجہ عبدالرشید کا نظریہ حقیقت کے قریب نظر آتا ہے کہ یہ کوٹ ساسانی زمانے کی تعمیر ہے۔

گرگان کی دفاعی دیوار کے قریب موجود قلعے کے آثار
گرگان کی دفاعی دیوار کے قریب موجود قلعے کے آثار

ہم نے کوشش کی کہ موجودہ دنوں تک کی گئی پرانی اور نئی تحقیق ایک سہل طریقے سے آپ تک پہنچائی جائے۔ مگر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اس کوٹ اور اس کے آثاروں کو سائنسی بنیادوں پر کھدائی اور کاربن ڈیٹنگ کی ضرورت ہے اس کے بعد ہی یقین سے کچھ کہا جاسکتا ہے۔ البتہ اب تک جو شواہد ملے ہیں اس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ساسانی دور کا قلعہ ہے جو بیوپاری راستے کے تحفظ اور اچانک کسی حملے کی صورت میں تحفظ دینے والا ایک شاندار قلعہ تھا۔

ابھی سورج ڈھلنے میں کچھ وقت ہے، ماحول پر ٹھنڈ کی ہلکی دھند ہے اور ہمیں ٹھنڈک کے ان پلوں میں واپس جانا ہوگا۔ واپسی پر ہمیں کچھ موٹر سائیکلوں اور ڈاٹسنوں نے عبور کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہاں اچھی خاصی پہاڑی آبادی ہے اور رنی کوٹ کی وجہ سے بہت سارے لوگ اور شاید باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا یہاں سے گزر ہوتا ہے۔

تو یہ کیسی شرمندگی ہے جس کو ہم اپنی جھولی میں رکھ کر پال رہے ہیں کیا اتنی آبادی میں لوگ بیمار نہیں ہوتے ہوں گے۔ ایسی صورت میں اس راستے پر جس گاڑی میں مریض سفر کر رہا ہوگا تو وہ کس حالت میں اسپتال پہنچے گا؟ یا نہیں پہنچے گا۔ 20 مریضوں میں سے میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ 2 یا 3 ہی اسپتال پہنچتے ہوں گے۔ وہاں جہاں گیسٹ ہاؤس بنا ہوا ہے وہ کتنا ہی شاندار ہو مگر آنے جانے والے راستے سے متعلق سوچ کر لوگ یقیناً اس طرف کا پروگرام نہیں بناتے ہوں گے۔

رنی کوٹ کا شاندار ریسٹ ہاؤس—تصویر: لکھاری
رنی کوٹ کا شاندار ریسٹ ہاؤس—تصویر: لکھاری

کئی برسوں سے رکا ہوا راستے کا کام اور نامکمل پل—تصویر: لکھاری
کئی برسوں سے رکا ہوا راستے کا کام اور نامکمل پل—تصویر: لکھاری

اگر دیکھا جائے تو 30 کلومیٹر روڈ بنانا کوئی اربوں کا خرچہ نہیں ہے خاص کر جب پہلے ہی روڈ بنا ہوا ہو۔ حکومتِ سندھ چند کروڑ تو یہاں کے لوگوں اور اس تاریخی مقام کے لیے خرچ کر ہی سکتی ہے۔ شاندار اور مہنگے گیسٹ ہاؤس اور ریسٹورنٹس کے آنگن میں کھڑے ہوکر جب میں نے وادی کو دیکھا تو راستے کا سوچ کر مجھے ایسے لگا جیسے آپ کسی آدمی کو مہنگے شیمپو اور صابن سے نہلا کر اسے نئے کپڑے پہنائیں اور اس کے پیروں میں پہننے کے لیے جوتی نہ ہو اور آپ کہیں جوتی کی خیر ہے، اب ننگے پاؤں چلنا گناہ تو نہیں ہے نا!


حوالہ جات:

  • ’ایران بعہد ساسانیان‘۔ آرتھر کرسٹن سین۔ 1941ء، انجمن ترقی اُردو، دہلی
  • ’ مھران: رنی کوٹ نمبر‘۔ 2006ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
  • ’بنبھور ائیں دیبل‘ ۔ 2012ء۔ ثقافت کھاتو، حکومت سندھ، کراچی
  • ’کوٹ ائیں قلعا‘ جلد اول۔ اشتیاق انصاری۔ 2015ء۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی
  • ’سندھ ائیں کچھ‘۔ محمد حسین پنوھر۔2016ء۔ عمر سومرو اکیڈمی، کراچی
  • ’دیوان منصور حلاج‘۔ مظفر اقبال۔1996ء۔ مکتبہ دانیال، کراچی
  • ’تاریخ ایران‘ جلد اول۔ پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی۔ مجلس ترقی ادب، لاہور
  • Journal of the British Institute of Persian Studies.The enigma of the Red Snake… 2007
  • Current World Archaeology. Feb-March 2008.

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔