Dawnnews Television Logo

’دی کشمیر فائلز‘: بولی وڈ فلم نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھادی

فلم ساز وویک رنجن اگنی ہوتری کی نفرت اور مسلم مخالف فلم ’دی کشمیر فائلز‘ کو کچھ دن قبل ریلیز کیا گیا تھا۔
شائع 15 مارچ 2022 08:37pm

فلم ساز وویک رنجن اگنی ہوتری کی نفرت اور مسلم مخالف فلم ’دی کشمیر فائلز‘ نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھادی اور سینماؤں میں بھی مسلم مخالف نعرے گونجنے لگے۔

’دی کشمیر فائلز‘ کو چند دن قبل ہی ریلیز کیا گیا تھا، جس کی کہانی اور ہدایات وویک رنجن نے دی ہیں جب کہ وہ فلم کے شریک پروڈیوسر بھی ہیں۔

وویک رنجن کی اہلیہ اداکارہ پلوی جوشی نے بھی فلم میں اہم کردار ادا کیا ہے جنہیں ایک طرح سے پاکستانی مہرے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

فلم میں انوپم کھیر اور متھن چکروتی جیسے سینیئر اداکاروں نے کشمیری پنڈتوں کے کردار ادا کیے ہیں۔

فلم کی کہانی 1990 میں مقبوضہ کشمیر میں کی گئی نسل کشی پر مبنی ہے لیکن حیران کن طور پر فلم میں مسلمانوں کے بجائے پنڈتوں کی نسل کشی کو دکھایا گیا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

’دی کشمیر فائلز‘ میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیر ہندوؤں کی سرزمین تھی، جہاں مسلمانوں نے دہشت گردی کرکے پنڈتوں کی نسل کشی کرکے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔

فلم کی ریلیز کے بعد وزیر اعظم نریند مودی سمیت حکومتی وزرا اور حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور عام ہندو بھی اس کی تعریفیں کرتے دکھائی دیتے ہیں اور مسلمانوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے۔

فلم کی سینما میں نمائش کے وقت بھارتی انتہاپسندوں کی جانب سے مسلمان مخالف نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں، جن میں مسلمانوں کو غدار قرار دے کر انہیں ملک چھوڑنے کا بھی کہا جا رہا ہے۔

وہیں مسلمان اداکاروں اور خصوصی طور پر عامر، سلمان اور شاہ رخ خان سے ’دی کشمیر فائلز‘ دیکھنے اور اسے حقیقت ماننے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

حیران کن طور پر زیادہ تر ہندو فلم کو پروپیگنڈا کے بجائے حقیقت مان کر اسے حرف آخر تسلیم کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر مسلمان مخالف مواد کی بھرمار ہے۔

تاہم وہاں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ’دی کشمیر فائلز‘ کو تاریخی جھوٹ اور پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے لوگوں اور حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ اب تو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارتی حکومت کے ماتحت کیا جا چکا ہے اور وہاں پر لاکھوں بھارتی فوجی موجود ہیں تو پھر ابھی تک بیرون ملک فرار ہوجانے والے کشمیری پنڈت واپس کیوں نہیں آ رہے؟

وزیر اعظم نریندر مودی نے ’دی کشمیر فائلز‘ کو حقیقت پر مبنی فلم قرار دیتے ہوئے جب اس کی تعریف کی تو لوگوں نے سوال اٹھایا کہ فلم ’پرزانیا‘ کو کیوں جھوٹا کہا گیا تھا جو کہ سال 2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں پارسی خاندان کے ساتھ کی جانے والے درندگی پر بنی تھی؟

سال 2002 میں نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور وہاں پر اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی تھی۔

سوشل میڈٰیا پر کچھ لوگوں نے حکمران جماعت کے رہنماؤں سے یہ سوال بھی کیا کہ انہوں نے اپنی پروپیگنڈا فلم ’دی کشمیر فائلز‘ کو تو کئی ریاستوں میں ٹیکس فری قرار دے دیا مگر انہوں نے سماجی مسائل پر بنی ’آرٹیکل 15‘ جیسی فلموں پر ٹیکس معاف نہیں کیا تھا۔