بھارتی عدالت کا حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 15 مارچ 2022
حجاب پر پابندی کے عائد کرنے کے بعد بھارت کی مختلف ریاستوں میں احتجاج بھی کیا گیا تھا— فوٹو: رائٹرز
حجاب پر پابندی کے عائد کرنے کے بعد بھارت کی مختلف ریاستوں میں احتجاج بھی کیا گیا تھا— فوٹو: رائٹرز

بھارتی ریاست کرناٹک کی ایک عدالت نے کلاس میں طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ’اسلام میں حجاب لازمی نہیں ہے‘۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کے اثرات ملک کی باقی ریاستوں پر مرتب ہوسکتے ہیں جہاں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی اقلیت موجود ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رتو راج اوستھی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کا کہنا تھا کہ ’یونیفارم کا دستور بنیادی حقوق پر ایک معقول پابندی ہے‘۔

عدالت نے 10 فروری کو مسلمان طالبات کو ہدایت دی تھی کہ جب تک عدالت حجاب پر پابندی کو ختم کرنے کی درخواستوں پر فیصلہ نہیں سنا دیتی اس وقت تک کوئی بھی مذہبی لباس نہ پہنیں۔

مزیدپڑھیں: حجاب پر پابندی کیخلاف مظاہروں میں شدت، ریاست کرناٹکا میں تمام اسکول بند

مذکورہ تنازع کا آغاز جنوری میں ہوا جب کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں واقع سرکاری اسکول میں طالبات کو حجاب پہن کر کلاس روم میں داخل ہونے سے منع کیا گیا تھا۔

جس کے بعد مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انہیں تعلیم اور مذہب کے بنیادی حق سے محروم کیا جارہا ہے۔

مسلمانوں کے احتجاج کے بعد ہندو طلبہ نے بھی احتجاج کیے، اس دوران مظاہرین نے زعفرانی رنگ کی چادر پہنی ہوئی تھی، یہ رنگ ہندو مذہب اور ہندو قوم پرستی کی عکاسی کرتا ہے۔

ریاست کے مزید اسکولوں میں بھی اسی طرح کی پابندی لگائی گئی تھی اور ریاست کی اعلیٰ عدالت نے فیصلہ آنے تک طالبات کو حجاب یا کسی بھی مذہبی لباس پہننے سے منع کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حجاب پر پابندی کے خلاف بھارت کی مزید ریاستوں میں احتجاج

عدالت کا فیصلہ آنے سے قبل حکومت نے ’امن و امان کو برقرار رکھنے‘ کے لیے ریاستی دارالحکومت بنگلور میں ایک ہفتے کے لیے بڑے اجتماعات پر پابندی لگا دی تھی جبکہ اڈوپی میں بھی آج اسکول اور کالجز بند ہیں۔

مسلمان خواتین شائستگی کو برقرار رکھنے یا مذہبی علامت کے طور پر حجاب پہنتی ہیں، جسے اکثر صرف لباس ہی نہیں بلکہ ان کے عقیدے کی طرف سے لازمی چیز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

قبل ازیں 2004 میں فرانس سمیت دیگرممالک میں بھی اسکولوں میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

تاہم بھارت میں تاریخی طور پر کبھی عوامی سطح پر حجاب کو ممنوع قرار دیا گیا اور نہ ہی محدود کیا گیا، یہاں خواتین کا سر پر اسکارف پہننا ملک بھر میں عام ہے، بھارت کے قومی چارٹر میں مذہبی آزادی کو سیکولر ریاست کے ساتھ سنگ بنیاد کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کلاس روم میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج میں شدت

بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 14 کروڑ ہے جو اس کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد حصہ ہیں۔

انسانی حقوق کے رضا کاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ پابندی سے اسلامو فوبیا بڑھ سکتا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی کےدور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ ہوا ہے، یہ جماعت ریاست کرناٹک میں بھی بر سرِ اقتدار ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں