لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

اسلام آباد میں جاری طاقت کا کھیل جمہوری اقدار کے لیے مہلک ثابت ہورہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے حوال سے الٹی گنتی شروع ہونے کے بعد سے صورتحال بہت ہی خراب ہوچکی ہے۔ اراکین کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے دھونس و دھمکی سے لے کر رشوت تک تمام طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔

یہاں اب خوب بولیاں لگ رہی ہیں۔ پرانے دشمن دوست اور اتحادی دشمن بن چکے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ شاید پہلے بھی دیکھ چکے ہوں لیکن حالات ماضی کی نسبت کہیں زیادہ خراب ہیں۔ اقتدار کے اس کھیل میں اصولوں کی کسی کو بھی فکر نہیں ہے۔ دونوں جانب سے جاری شدید بیان بازی نے سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔

سونے پر سہاگا یہ کہ وزیرِاعظم بھی اپنے مخالفین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ حکومت نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز پارلیمنٹ کے باہر ایک بڑے عوامی جلسے کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ وزرا نے تو اپنی جماعت کے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ منحرف ارکان کو ایوان میں داخل نہ ہونے دیں۔ دوسری جانب اپوزیشن اتحاد نے بھی اپنے حامیوں کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی ہے۔ یہ معاملہ بہت خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: ووٹنگ سے قبل تحریک عدم اعتماد کو کن مراحل سے گزرنا ہوگا؟

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں ابھی تقریباً 2 ہفتے باقی ہیں اور اپوزیشن کیمپ کا بڑھتا ہوا اعتماد دیکھنے کے بعد بھی ووٹنگ کے نتائج کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ان نتائج کا بہت زیادہ انحصار پاکستان مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی حمایت پر بھی ہے۔ اگرچہ یہ دونوں جماعتیں ابھی حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں لیکن یہ بھی اب شرائط عائد کررہی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گجرات کے چوہدری طاقت کے اس کھیل میں اہم کھلاڑی بن گئے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی اپنے مطالبات رکھ رہی ہے۔ تاہم اہم سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اتحاد ان کے مطالبات کو تسلیم کرے گا؟ مسلم لیگ (ق) نے تو پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ مانگی ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) اپنے سیاسی گڑھ میں یہ انتہائی اہم کرسی اپنے سیاسی مخالف کو دینے پر تیار ہے یا نہیں۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے لیے ایم کیو ایم کے مطالبات تسلیم کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوں گے۔ ایم کیو ایم نے کراچی کی شہری حکومت کو بااختیار بنانے اور سرکاری نوکریوں میں شہری سندھ کے کوٹے میں اضافے کے مطالبات رکھے ہیں۔ اس کے لیے سندھ اسمبلی کی جانب سے نئی قانون سازی کی ضرورت ہوگی۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ دونوں جماعتیں رواں ہفتے مشترکہ طور پر اپنے فیصلے کا اعلان کردیں جس کے بعد تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ بہت حد تک واضح ہوجائے گا۔

مزید پڑھیے: فلور کراسنگ کا قانون کیا ہے اور رکن کی نااہلی کب اور کیسے ہوگی؟

وزیرِاعظم عمران خان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں اندرونی بغاوت ہے جس کی وجہ ان کے دو پرانے ساتھی ہیں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کی سربراہی میں 2 مضبوط گروہ پہلے ہی اپوزیشن سے بات چیت کررہے ہیں۔ انہوں نے اب تک اپنے فیصلے کا اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان کا جھکاؤ اپوزیشن کی جانب ہے۔ پھر پی ٹی آئی کے کچھ ایسے ممبران قومی اسمبلی بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے کرلیے ہیں۔

وزیرِاعظم کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے، لیکن ان کے لیے کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ تبدیل ہوتی صورتحال نے انہیں نیچے آنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملنے کی تصاویر بتاتی ہیں کہ حکومت دباؤ محسوس کررہی ہے۔ وزیرِاعظم کی طرف سے اس طرح کا برتاؤ چند ماہ قبل ناقابلِ تصور تھا۔ جماعت کے منحرف افراد کو راضی کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ اس کام کے لیے اب بہت دیر ہوچکی ہے۔

اس وقت سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ایک طرف ہٹ گئی ہے اور یہ واضح ہے کہ وزیرِاعظم کو اب اپنی جنگ خود لڑنی ہے۔ عسکری قیادت کے سیاست سے باہر رہنے کے فیصلے نے حالات کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ ماضی میں سیکیورٹی ایجنسیوں کی حمایت نے پی ٹی آئی حکومت کو بہت سے سیاسی چیلنجوں پر قابو پانے میں مدد کی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی غیرجانبداری نے اپوزیشن کو حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے راغب کیا ہے اور وزیرِاعظم کی پریشانیوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ شاید ابھی سول ملٹری تعلقات مکمل طور پر منقطع نہ ہوئے ہوں لیکن یہ اس ہائبرڈ نظام کا اختتام ضرور ہوگا۔ یہ تبدیلی حکمران اتحاد میں پڑنے والی دراڑوں اور پنجاب میں پی ٹی آئی میں موجود انتشار سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ معاملات کو سنبھالنے کے لیے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر وزیرِاعظم کے حد سے زیادہ انحصار نے حالات پر ان کا سیاسی کنٹرول کمزور کردیا ہے۔

مزید پڑھیے: تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے عمران خان کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

بیساکھیوں سے محروم ہونے کے بعد اب وزیرِاعظم دباؤ محسوس کررہے ہیں۔ اس وقت اتحاد برقرار رکھنے اور حکومت چلانے کی ان کی سیاسی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ اس بات میں بھی کوئی حیرانی نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری کو اپوزیشن کے ساتھ معاہدے کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

ایک حالیہ عوامی جلسے میں اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف کے حوالے سے وزیرِاعظم کا بیان ان کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں دُوریوں کا تصور حکومتی اتحاد میں دراڑ کا سبب بن رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیرِاعظم اس مشکل سے نکل پاتے ہیں یا نہیں۔

معاملہ صرف تحریک عدم اعتماد کا نہیں ہے بلکہ بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت اور سیاسی قوت کے اظہار کے لیے منعقد ہونے والے جلسوں کا پُرتشدد رنگ اختیار کرنے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ وزیرِاعظم کی جانب سے حالیہ جلسوں میں جارحانہ رویہ اختیار کرنا اور اپوزیشن رہنماؤں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ ان کی جانب سے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے قوم پرستی کا سہارا لینے سے سیاسی حالات مزید خراب ہوچکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے پیچھے کوئی غیر ملکی سازش ہے۔ اس پورے بیانیے سے ملک میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اس سے ملک میں جمہوری سیاسی عمل کے مضبوط ہونے کی امید کم ہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن حکومت کا تختہ تو الٹ سکتی ہے، لیکن اس سے ملک میں سیاسی غیر یقینی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن گروپ بھی مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے واضح نہیں ہیں۔

سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے حکومت کو بے دخل تو کیا جاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن ملک کو درپیش سنجیدہ سیاسی، معاشی اور خارجہ پالیسی چیلنجز سے نمٹ سکتی ہے؟ حل طلب سیاسی مسائل کی وجہ سے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم ہونے کے بجائے مزید مستحکم ہوجائے گا۔ اس وقت ملک کو بحرانوں کے تسلسل سے نکالنے کے لیے ایک نئے سیاسی اور معاشی چارٹر کی ضرورت ہے۔


یہ مضمون 16 مارچ 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں