کوٹ ڈیجی کے قلعے، جہاں ہزاروں برس کے زمانے سانس لیتے ہیں! (پہلا حصہ)

ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہم نے گزرے زمانوں کے حالات سے کچھ نہیں سیکھا تو اس سیکھنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ایک بڑھئی کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر ہم اس کا فن سیکھ لیں اور ہوسکتا ہے اس سے بھی اچھے بڑھئی بن جائیں۔ مگر گزرے زمانوں سے سیکھنے کا عمل اس سے کچھ مختلف ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی مختلف اور مشکل ہے۔

گزرے زمانوں سے سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے جتھوں کا جو اجتماعی ذہن ہوتا ہے اس میں علم کی لُو جلتی ہو۔ حیات کے فلسفے کی بھول بھلیوں پر تھوڑا بہت چلنا آتا ہو۔

لیکن یہ جب ہوگا تب اس اجتماعی ذہن پر تجزیے کرنے کا چاند اپنی ٹھنڈی، میٹھی اور صاف سفید روشنی لے کر اُگ پڑتا ہے۔ تب اس کی روشنی میں گزرے زمانوں کے واقعات کے سکوں کے ڈھیر سے ہم کھرے اور کھوٹے سکّے الگ کرنے کی صلاحیت پاچکے ہوتے ہیں اور ایک مثبت اور انسان دوست معاشرہ ہمارے لیے منتظر ہوتا ہے۔ مگر اپنے ہاں ابھی شاید وہ بڑھئی والے سیکھنے کی کہانی چل رہی ہے۔ تجزیے کا چاند ابھی شاید اُگا نہیں اس لیے کھرے اور کھوٹے کی پہچان میں بڑی مشکل درپیش ہے۔

ہم جب صبح 7 بجے ریلوے کے گرم ڈبے سے باہر نکلے تو رانی پور کی ٹھنڈی ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا۔ کراچی کی گلیوں اور راستوں سے سردی نے چاہے منہ موڑ لیا تھا مگر شمالی سندھ میں اگر زیادہ نہیں مگر اتنی ٹھنڈ ضرور تھی جس میں جیکیٹ کی گرمی اچھی لگتی ہے۔

چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر چہل پہل تھی اور اس چہل پہل میں ہم باہر آئے۔ رانی پور سے دریائے سندھ کا ایک بہاؤ ’روہڑی کنال‘ کے نام سے گزرتا ہے جو سکھر بیراج سے نکلتا ہے اور جنوب میں دُور تک چلا جاتا ہے۔ ظاہر ہے پانی کا بہاؤ ہے حیات ہی بانٹتا ہوگا۔

ہم جب رانی پور کے چھوٹے سے شہر سے نکلے اور مشرق کی طرف اپنا سفر کیا تو راستے کے دونوں اطراف گندم کی فصل تھی اور ہوا کی لہر جو تھوڑی آتی تو خوشے ہوا میں جھولنے لگتے۔ گندم پکنے لگی تھی اور خوشے سونے کے رنگ جیسے ہونے لگے تھے۔ زرخیز زمین پر اتنی بڑی اراضی پر گندم کی فصل میں نے زندگی میں پہلی دار دیکھی۔ جہاں نظر جاتی وہاں گندم نظر آتی اور آپ اگر خیرپور میرس کے آس پاس ہیں تو ہر منظرنامے میں کھجور کے درختوں کے جھنڈ بالکل ایسے لازمی ہوجاتے ہیں جیسے خوراک میں نمک ضروری ہوتا ہے۔ ساتھ میں آموں کے درختوں کی ہریالی بھی تھی۔ وسیع گھیرا رکھنے والے آموں کے پیڑوں پر ابھی بُور نہیں لگا تھا اس لیے مجھے طوطے بھی اُڑتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ مگر مارچ میں ان تیز ہرے پتوں والے درختوں پر جب بُور لگتا ہوگا تب طوطوں کی میٹھی تانیں یہاں کے لوگ ضرور سنتے ہوں گے۔

ہم دریائے سندھ کے ایک قدیم بہاؤ سے گزرے جس کو ’ڈھورو‘ کہتے ہیں۔ اب اس میں دریا کا پانی نہیں آتا اور بارشوں وغیرہ کا پانی جمع ہوتا ہے۔ جب دریا اپنے پرانے راستوں کو چھوڑ دیتا ہے تو دریا کی تو خیر ہے پر ان یتیم راستوں کے حال یقیناً اچھے نہیں ہوتے بالکل ویسے ہی جیسے اب ڈھورو کے حال اچھے نہیں ہیں۔

پھر آگے میرواہ کینال کا بہتا گاتا گنگناتا بہاؤ آیا، جو یقیناً تالپوروں کے زمانے میں کھودا گیا ہوگا۔ اس کے بعد نیشنل ہائی وے کے مشرق اور مغرب میں وہ قلعے آئے جہاں اگر ایک حوالے سے دیکھا جائے تو کمال اور زوال کی پُراسرار کہانیاں ان قلعوں کی دیواروں کے پوروں میں آنکھیں موندے لیٹی ہیں۔ اگر آپ کے پاس ان سے بات کرنے کی رمز ہے تو وہ یقیناً آپ سے باتیں کریں گی اور اپنے گزرے زمانوں کی کئی باتیں اور راز آپ کی جھولی میں ایسے ڈال دیں گی جس طرح کوئی دان ویر، مانگنے والے کی جھولی تمناؤں کی تکمیل سے بھر دیتا ہے۔

نیشنل ہائی وے کی تیز سیاہ لکیر پر چھوٹی بڑی گاڑیاں زناٹے کے ساتھ آپ کے قریب سے مسلسل گزرتی رہتی ہیں۔ اس مصروف شاہراہ کے مغرب میں راستے کے ساتھ ایک اینٹوں اور سیمنٹ کی چار دیواری ہے۔ آپ جیسے ہی چار دیواری کے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ کو مشرقی دیوار کے قریب ایک بیمار سا پھیکے رنگ کا کیکر کا درخت نظر آتا ہے اور اس درخت کے ساتھ مغرب میں ایک پہاڑی ہے جہاں وادی سندھ کی قدیم ترین بستی اور اس بستی کا قلعہ موجود ہے جو موئن جو دڑو اور ہڑپہ سے بھی صدیوں قدیم ہے۔

نیشنل ہائی وے کے مغرب میں آپ کو اینٹوں کی بنی ایک دیوار نظر آئے گی
نیشنل ہائی وے کے مغرب میں آپ کو اینٹوں کی بنی ایک دیوار نظر آئے گی

آپ کو مشرقی دیوار کے ساتھ کیکر کا ایک درخت نظر آئے گا
آپ کو مشرقی دیوار کے ساتھ کیکر کا ایک درخت نظر آئے گا

’کوٹ ڈیجی‘ کا یہ وہ مقام ہے جہاں سے وادی سندھ کی تہذیب نے جڑیں پکڑیں۔ محقق ’مانک پتھاوالا‘ کے مطابق ’اس ٹیلے میں دفن تہذیب کی نشاندہی 1935ء میں بمبئی یونیورسٹی کے اسکالر مادھو سروپ نے کی جس کا تجزیہ تھا کہ یہ تہذیب تاریخ سے پہلے والے زمانے کی ہے‘۔

تقریباً 20 برس کے بعد 1955ء اور 1957ء میں اس سائٹ کی پاکستان آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ نے کھدائی کروائی۔ اس کھدائی کی رپورٹ میں ڈاکٹر افضل احمد خان نے انکشاف کیا کہ ’کوٹ ڈیجی کی تہذیب موئن جو دڑو والی تہذیب سے 700 برس قدیم ہے، اور ان آثاروں کی لمبائی مشرق سے مغرب کی طرف 600 فُٹ اور چوڑائی یعنی شمال سے جنوب کی طرف 400 فُٹ جب کے اونچائی 40 فُٹ ہے‘۔

آرکیالوجی رپورٹ کے مطابق ’اس مدفون شہر کے دو حصے ہیں جن میں سے ایک حصہ قلعے کے اندر ہے جس میں حکمران طبقات رہتے ہوں گے اور دوسرا حصہ قلعے کے باہر ہے جس میں دستکار لوگ رہتے ہوں گے جو ان دنوں غلاموں کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ لوگ اجتماعی طور پر ایک سماجی طبقے کمی کمین کا درجہ رکھتے تھے اور حکمران طبقہ اجتماعی طور پر ان پر مالکانہ حقوق رکھتا تھا۔

’یہاں کھدائی کرنے سے کُل 16 سطحیں ملی ہیں، سب سے اوپر کی 3 سطحیں وادی سندھ کی تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں جبکہ سطح 4 سے 16 تک، قبل از سندھ تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ اس قدیم دور میں ایک قلعہ بھی ملا ہے جس میں طویل عرصے تک ایک منظم اور عمدگی سے ترتیب دیا ہوا ایک شہر آباد رہا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وادی سندھ کے وجود میں آنے سے صدیوں پہلے یہاں دولت مند اور ترقی یافتہ لوگ رہتے تھے۔ ان کے مکانات منظم تھے، جن کی بنیادیں پتھر کی اور دیواریں کچی اینٹوں کی تھیں۔ برتن چاک پر بنتے تھے، ان کے حجری اوزار ترقی یافتہ تھے جن میں نیزوں کی انیاں، بَرچھے، چھوٹے استرے اور کُھرچنے وغیرہ شامل تھے۔ یہاں سے چکنی مٹی پر بنی ہوئی ایک بیل کی مورتی بھی ملی ہے۔

’یہ لوگ ایک لمبے عرصے تک قلعے میں رہے ہوں گے، اس حوالے سے اندازاً 600 یا 700 سال تو ممکنات کے دائرے میں آتے ہیں۔ شہر کا وہ حصہ جو قلعے سے باہر ہے وہ حصہ بھی 4، 5 مرتبہ آباد ہونے کی نشانیوں کو آشکار کرتا ہے۔ قلعے کی دیوار میں حفاظتی برج بھی ہیں جن کی بنیادیں بھی پتھر کی اور باقی چنائی کے لیے کچی اینٹوں کا استعمال ہوا ہے۔‘

کوٹ ڈیجی ہی وہ مقام ہے جہاں وادی سندھ کی تہذیب نے جڑیں پکڑیں
کوٹ ڈیجی ہی وہ مقام ہے جہاں وادی سندھ کی تہذیب نے جڑیں پکڑیں

یہاں کھدائی کرنے سے کُل 14 سطحیں نکلی ہیں جن میں قبل از سندھ تہذیب کے بھی آثار ملے ہیں
یہاں کھدائی کرنے سے کُل 14 سطحیں نکلی ہیں جن میں قبل از سندھ تہذیب کے بھی آثار ملے ہیں

کھدائی میں تیسری سطح سے نیچے اور چوتھی سطح کے اوپر، یعنی وادی سندھ کی تہذیب کے آنے اور اس سے پہلے کے زمانے کے درمیان شدید آتش زنی کے آثار ہیں۔ ڈاکٹر ایف اے خان کے مطابق ’نئے آنے والوں نے قدیم شہر کو جلا کر تہس نہس کردیا۔ اس کے ثبوت میں اہم نکتہ یہ ہے کہ پہلے باریک دیوار کے نفیس برتن بنائے جاتے تھے جبکہ نئے لوگ موٹی دیوار کے برتن بناتے تھے۔ جبکہ قدیم ظروف ہمیشہ باریک، نفیس اور ہلکے رہے ہیں صرف قدیم دور کے اختتام پر ایسا ہوتا ہے کہ ظروف سازی میں تبدیلی آتی ہے‘۔

وادی سندھ کی تہذیب کو وجود دینے کے لیے جو حالات اس وادی میں تھے یا کئی اور مقامات سے کھدائی کے دوران تجزیاتی رپورٹوں اور کاربن ٹیسٹوں سے اخذ کیے گئے ہیں ان میں ایک اور بھی زاویہ ہے جس سے کچھ اور حقائق کا پتا چلتا ہے۔

یحییٰ امجد لکھتے ہیں کہ ’کوٹ ڈیجی ثقافت زوال آمادہ نیم اشتراکی سماج اور ابھرتے ہوئے غلام دارانہ سماج کے دور کی غلام دار ثقافت تھی، اس میں اکثر غلاموں کی بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں جو مالکان کے شہروں کو تباہ و برباد کرتے رہتے تھے۔ آخر چوتھی سطح کے زمانے میں پرانے غلام مالکان کو شکست فاش ہوتی ہے اور دیہاتوں سے آکر حملہ آور ہونے والے زرعی غلام ان کے شہروں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس طرح ایک نیا سیاسی اقتدار قائم کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں قدیم وادی سندھ کے طول و عرض میں ایک نہایت طاقتور غلام ریاست وجود میں آتی ہے جسے وادی سندھ کی تہذیب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ریاست ایک انقلاب کے ذریعے وجود میں آتی ہے جس میں چھوٹی کسان سلطنتیں ایک وسیع سلطنت میں ضم ہوجاتی ہیں۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو کے شہر اندازاً 600 یا 700 سال زندہ رہے۔ اگر یہ یکے بعد دیگرے تھے تو وادی سندھ کی یہ ریاست تقریباً 1400 سال زندہ رہی۔‘

وادی سندھ کی تہذیب سے ملنے والے ظروف
وادی سندھ کی تہذیب سے ملنے والے ظروف

کوٹ دیجی سے ملنے والے ظروف
کوٹ دیجی سے ملنے والے ظروف

کوٹ ڈیجی سے نئے اور پرانے دور کے برتن ملے ہیں
کوٹ ڈیجی سے نئے اور پرانے دور کے برتن ملے ہیں

یہاں سے چکنی مٹی پر بنی ہوئی ایک بیل کی مورتی بھی ملی ہے
یہاں سے چکنی مٹی پر بنی ہوئی ایک بیل کی مورتی بھی ملی ہے

ڈاکٹر رفیق مغل صاحب کوٹ ڈیجی ثقافت کے متعلق ایک گہری بات کرتے ہیں کہ ’کوٹ ڈیجی کی ثقافت کا زمانہ 3155 قبل مسیح (نیچے سے تیسری سطح یعنی سطح نمبر 14) سے لے کر 2590 قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ یہ قلعے کے اندرونی شہر کا زمانہ ہے۔ قلعے کے باہر جو شہر ہے اس کی سب سے قدیم آبادی 2885 قبل مسیح سے لے کر 2805 قبل مسیح تک رہی ہے۔ کوٹ ڈیجی ثقافت پوری عظیم تر وادی سندھ، شمالی اور مرکزی بلوچستان کی وادیوں پر محیط تھی۔ عظیم تر وادی سندھ کا مطلب ہے کہ شمالی بلوچستان میں افغانستان کی سرحد سے لے کر ساحل مکران تک اور ایرانی سرحد سے لے کر گجرات، راجستھان اور وادی گومل تک اور پاکستان کی مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ بھارت کی چند میل چوڑی پٹی بھی اس میں شامل تھی۔ اس تمام علاقے پر بعد میں وادی سندھ کی تہذیب پھلی پھولی‘۔

ڈاکٹر محمد حسین پنوھر صاحب بھی کوٹ ڈیجی کی قدامت کو 5370 قبل مسیح تک مانتے ہیں کہ ان کے سامنے ریڈیو کاربن کی جو رپورٹس ہیں وہ اس حقیقت کو ماننے میں شاندار مدد کرتی ہیں کہ کوٹ ڈیجی ثقافت کا ارتقائی زمانہ 3155 قبل مسیح کا ہے۔

کوٹ ڈیجی کی ثقافت کا زمانہ تقریباً 3155 قبل مسیح کا ہے
کوٹ ڈیجی کی ثقافت کا زمانہ تقریباً 3155 قبل مسیح کا ہے

قدیم کوٹ ڈیجی کا ممکنہ علاقہ
قدیم کوٹ ڈیجی کا ممکنہ علاقہ

کوٹ ڈی جی کے آثار کی ایک پرانی تصویر
کوٹ ڈی جی کے آثار کی ایک پرانی تصویر

آپ جب ان آثاروں کو دیکھتے ہیں اور آپ کے ساتھ اگر اس قدیم قلعے کے ماضی کے متعلق آرکیالوجی پر کام کرنے والوں کی سائنسی بنیادوں پر کی گئی تحقیق موجود ہو تو آپ کی کیفیت اور آپ کی دیکھنے والی آنکھ کچھ الگ کیفیت میں ان ہزاروں برس کی قدامت رکھنے والے آثاروں کو دیکھنے لگتی ہے۔ اگر میں ایک لکیر کھینچوں جس کی شروعات 3155 قبل مسیح سے ہوکر آج تک یعنی 2022 تک آجائے۔ تو یہ پورے 5177 برسوں پر پھیلی ایک ایسی پگڈنڈی بن جائے گی جس پر سے چل کر ہم یہاں پہنچے ہیں۔

مجھے نہیں پتہ کہ ان زمانوں میں یہاں کے اطراف میں کیا لینڈاسکیپ ہوتا ہوگا مگر یہ یقیناً زرخیز وادی ہوتی ہوگی، کیونکہ اس کے مغرب میں دریائے سندھ کا بہاؤ اور مشرق میں سرسوتی (ہاکڑہ) کا بہاؤ اپنے وسیع پاٹوں میں بہتے تھے۔ قدرتی رنگارنگی اور قدرتی وسائل کی کمی تو یقیناً نہیں ہوتی ہوگی۔ اس لیے اتنی شاندار ثقافت یہاں پنپ پائی۔

یہ قدیم بستی جو ان دنوں کچھ 100 فوٹ کے دائرے میں سمٹ کر چار دیواری کے اندر رہ گئی ہے وہ گزرے زمانوں میں کتنی اراضی میں پھیلی ہوئی ہوگی؟ یہ سوال آپ کے ذہن میں بالکل اسی وقت آتا ہے جب آپ اس مختصر سی سائٹ کو دیکھنے کے بعد اس کیکر کے بیمار سے درخت کے نیچے آکر کھڑے ہوتے ہیں۔

میں نے وہاں کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے محترم میر الطاف حسین تالپور سے پوچھا تو انہوں نے بڑا تفصیلی جواب دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’یقیناً اتنی مختصر سی چار دیواری میں یہ آثار نہیں ہوں گے۔ یہ البتہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ قدیم قلعے کے کھنڈرات میں جو بستی تھی وہ قلعے کے شمال، جنوب اور زیادہ مغرب کے طرف پھیلی ہوئی ہوگی۔ ہم نے یا ہمارے بڑوں نے جو اس بستی کے آثار دیکھے بلکہ بہت سارے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ، میرواہ کے بہاؤ کے مغرب میں بھی قدیم ڈیجی بستی کے آثار ملتے تھے۔ اب مشرق میں چونکہ پہاڑی سلسلہ ہے تو وہاں بستی ممکنات کے دائرے سے باہر ہے۔

’یہ تو کچھ عرصہ پہلے شاید آرکیالوجی والوں نے چار دیواری دی ہے تب یہ تاریخ کی اہم جگہ کا کچھ بچ گیا ہے۔ آپ قدیم قلعے سے اگر اندازہ کریں تو اس قدیم بستی کے آثار کم سے کم 100 ایکڑ میں تو ضرور پھیلے ہوئے تھے۔ اب ان آثاروں پر آپ خود دیکھ رہے ہیں۔۔۔‘

اور میں نے دیکھا کہ، کھجوروں کے درختوں کی ہریالی پھیلی ہوئی ہے۔ جہاں نظر جاتی کھجوروں کے شاندار درخت نظر آتے اور کیا کمال ہے کہ ایک شاندار تہذیب کی جڑوں کے آثاروں پر یہ ہریالی پھیلی ہوئی ہے۔ آپ کو اس حوالے سے کتنا بھی دکھ ہو، آپ اندر سے کتنے بھی جل رہے ہوں مگر آپ کچھ کر نہیں سکتے۔

آثارِ قدیمہ پر پھیلے کھجور کے باغ
آثارِ قدیمہ پر پھیلے کھجور کے باغ

قدیم قلعے کے عقب میں نظر آنے والا نیا قلعہ
قدیم قلعے کے عقب میں نظر آنے والا نیا قلعہ

جاڑے کے آخری ایام کی بھی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ آپ کو ٹھنڈ بھی لگتی ہے اور گرمی بھی اچھی نہیں لگتی۔ صبح کے سورج نے دوپہر کا روپ لینا شروع کردیا تھا۔ میں نے کوٹ ڈیجی کے قدیم قلعے سے مشرق میں دیکھا جہاں نیشنل ہائی وے سے گاڑیاں گزر رہی تھیں اور راستے کے مشرق میں چھوٹے سے پہاڑی سلسلے پر کوٹ ڈیجی (احمد آباد) کا 237 سال پرانا قلعہ بنا ہوا تھا اور بڑے شان سے کھڑا تھا۔

اگر آپ تھوڑا گہرائی سے سوچیں تو دونوں قلعے آمنے سامنے ہیں۔ اگر ان کے پاس بھی آنکھیں ہوتیں تو وہ کم سے کم ایک دفعہ تو روز اپنے آپ کو ضرور دیکھتے۔ مگر اب بھی یہ تو یقیناً ہوتا ہوگا کہ تیز آندھیوں میں اس قدیم قلعے کی مٹی وہاں اور نئے قلعے کی مٹی یہاں آتی ہوگی۔ مگر تاریخی حوالے سے یہ دونوں ایک دوسرے سے 4940 برس کے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ اُس قدیم قلعے کی مٹی اور پتھروں میں مجبور طبقے کا پسینہ شامل تھا۔ اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

ہم جب احمد آباد قلعہ (اصل میں یہ قلعہ احمد آباد کی چھوٹی سی بستی کی پہاڑیوں پر بنایا گیا تھا، اس لیے اس کا نام ’احمد آباد‘ قلعہ رکھا گیا بلکہ قلعے کے مرکزی دروازے پر بھی اس کو احمد آباد قلعے کے نام سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس کو اب ہم سب ’کوٹ ڈیجی قلعہ‘ کے نام سے ہی جانتے ہیں) دیکھنے کے لیے نیشنل ہائی وے پار کرکے بستی میں داخل ہوئے تو مجھے لگا کہ ہم ایک ایسی بستی میں ہیں جو اپنے گزرے دنوں کو بڑے پیار سے سنبھال کر رکھتی ہے۔

کبھی کبھی، کہیں کچھ بستیوں میں وقت ٹھہر جاتا ہے۔ نہ وہاں کے مکین اسے جانے دیتے ہیں اور نہ ہی وقت جانا چاہتا ہے۔ کوٹ ڈیجی کی گلیاں اور عمارتیں بھی آپ کو بالکل ایسی لگیں گی جیسے تالپوروں کے زمانے میں تھیں۔ یہاں آپ کو دو زمانوں کی تعمیرات ملتی ہیں، ایک تالپور دور کی اور دوسری برٹش راج کی۔ چونکہ مشرق میں دریا کے پرانے بہاؤ کے ساتھ ریت کے ٹیلے شروع ہوجاتے ہیں تو زیادہ آوت جاوت نہ ہونے کے سبب یہاں کی ساخت میں کچھ زیادہ بدلاؤ نہیں آیا ہے۔

اس چھوٹی سی بستی میں داخل ہوتے ہوئے ’میڈم جو بنگلو‘ پر نظر پڑتی ہے جو برٹش زمانے کی یادگار ہے۔ میں نے اپنے مقامی ساتھی جمال خان کلادی سے اس بارے میں پوچھا تو جواب آیا کہ ’یہ خوبصورت عمارت جس کو کچھ وقت پہلے سندھ کلچر اور ہیریٹج والوں نے بحال کیا ہے اس کو میر علی نواز خان تالپور نے اپنے بیٹے میر فیض محمد دوئم کی تعلیم دینے کے لیے ایک فرینچ ٹیچر ’مادام ڈفلو موزیل‘ کی رہائشگاہ کے طور پر تعمیر کروایا تھا۔ اس زمانے میں مادام کو میر صاحب ماہانہ 10 ہزار روپے وظیفے کے طور پر ادا کرتے تھے۔ اس فرینچ عورت کا نام عام لوگوں کو آتا نہیں تھا کہ نام بڑا مشکل تھا، تو اسے وہ میڈم بلاتے تھے اس لیے اس رہائشی عمارت کا نام بھی ’میڈم جو بنگلو‘ پڑ گیا۔

کوٹ ڈیجی کی اس چھوٹی سی بستی میں اس سے بھی شاندار تعمیرات ہیں جن کو دیکھ کر انسان کو حیران ہی ہونا چاہیے اور ساتھ میں ان عمارات کے ساتھ زمانوں کی کہانیاں بھی ہیں جو آپ کو سننے کو مل جاتی ہیں۔ یہاں کے دیگر مقامات اور شاندار تعمیرات ہم بہت جلد مل کر دیکھیں گے مگر پہلے کوٹ ڈیجی کے اس قلعے کو گھومنے کے لیے چلتے ہیں جس کو میر سہراب خان تالپور صاحب نے 1785ء میں تعمیر کروایا تھا۔

بستی کی ان گلیوں میں سے گھومتے ہم قلعہ کے مرکزی دروازے پر پہنچے جہاں 2، 3 گلیاں آکر ملتی ہیں اور مصروف نکڑ بن گیا ہے۔ مرکزی دروازے کے آنگن میں ایک ریڑھی پر بچوں کے کھلونے بیچنے والا رنگ برنگے کھلونے بیچ رہا تھا۔ ایک دو چھولے والے اور سموسے بیچنے والے بھی تھے۔ سامنے چائے اور ٹھنڈے پانی کی بوتلیں بیچنے والوں کی دکانیں تھیں۔ قلعہ دیکھنے کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر زیادہ تھی۔

قدیم قلعے سے نظر آنے والا نئے قلعے کا منظر
قدیم قلعے سے نظر آنے والا نئے قلعے کا منظر

میڈم جو بنگلو— تصویر: جمال خان کلادی
میڈم جو بنگلو— تصویر: جمال خان کلادی

نئے کوٹ ڈیجی (احمد آباد) قلعے سے ساڑھے 5 ہزار برس قدیم کوٹ ڈیجی قلعے طرف دیکھتے ہوئے
نئے کوٹ ڈیجی (احمد آباد) قلعے سے ساڑھے 5 ہزار برس قدیم کوٹ ڈیجی قلعے طرف دیکھتے ہوئے

جب آپ کسی نئی تاریخی جگہ دیکھنے کے لیے جاتے ہیں اور اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے اسے دیکھنے کی ابتدا کی جاتی ہے تو ان پَلوں میں آپ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ آپ کے لاشعور میں پُراسراریت اور تجسس کی آندھیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ آپ اندر داخل ہونے اور پہلا منظر دیکھنے کے لیے بڑے بے چین ہوتے ہیں۔ میں ان لمحوں کو طول دینا چاہتا تھا کہ سفر کے یہ لمحے ہیں جو آپ کے خون میں شامل ہوکر بہتے ہیں اور آپ کو کہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔

پہلے میں نے اپنے سارے ساتھیوں کو قلعے کے مرکزی چھوٹے دروازے سے اندر بھیجا اور اب میری باری تھی۔ میں نے سر جھکایا اور قلعے کے اندر قدم رکھا۔ باہر دھوپ تھی اور جیسے دروازے سے اندر داخل ہوا تو ٹھنڈک تھی جس نے میرا استقبال کیا۔ اس ٹھنڈک کے ساتھ فضا میں ایک انجانی سی خوشبو رچی بسی تھی جو اکثر آپ کو قدیم مقامات پر محسوس ہوتی ہے۔ اس انجانی سی خوشبو میں رچی سامنے اس قلعے کے بُرج اور دیواریں تھیں جو دو صدیوں سے یہاں کھڑی ہیں کہ جن کے پوروں میں گزرے زمانوں کی کئی کہانیاں آنکھیں موندے پڑی ہیں۔


حوالہ جات:

  • ’تاریخ پاکستان‘ (قدیم دور)، یحیی امجد، 1989ء، سنگ میل پبلیکیشنز لاہور
  • ’پاکستان کی قومیتیں‘، یوری گنکووسکی، 2008ء۔،مکتبہ دانیال، کراچی
  • ’پیرائتی سندھ کتھا‘، ایم ایچ پنوھر، عمر سومرو اکیڈمی، کراچی
  • Corpus of Indus Seals and Inscriptions. Edit: Asko Parpola, 1991
  • Excavations at Kot Diji. Dr. F. A. Khan. Pakistan Archaeology, 1965
  • Current Research on Indus Archaeology. Edit by: Akinori Uesugi, 2018

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔