اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ٹیک آف کرنے کے ساتھ ہی پرندوں کا غول جہاز کے انجنوں سے ٹکرایا اور دونوں انجن اڑا کر رکھ دیے۔ بھیانک آواز، ایندھن کی بُو اور جہاز کی بتیاں جلنے بجھنے کی وجہ سے تمام مسافر بشمول عملے، سکتے میں آگئے اور کچھ لمحوں بعد جہاز کے اندر کپتان کی آواز گونجی،

’زبردست جھٹکے کے لیے تیار ہوجائیں، ہم ہڈسن میں اترنے والے ہیں‘۔

اس کے بعد کپتان نے 150 مسافروں سے بھرا ہوا جہاز دریائے ہڈسن، نیویارک میں اتار دیا۔ کوسٹ گارڈز، پولیس اور فائر بریگیڈ کا عملہ بروقت مدد کو پہنچ گیا اور سب کی جان بچ گئی۔ یہ 15 جنوری 2009ء کا واقعہ ہے۔

لاگارڈیا، نیویارک کے ہوائی اڈے سے پرواز یو ایس 1549 نے اڑان بھری اور 3 ہزار فٹ کی اونچائی پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے ہنسوں کے غول نے آلیا۔ بلاشبہ اس میں ہنسوں کے جوڑے بھی ہوں گے جنہوں نے ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسمیں کھائی ہوں گی۔ ان کی قسمیں تو پوری ہوگئیں لیکن فرنگیوں کا تراہ نکال کر۔

پرندوں کا جہاز سے ٹکرانا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ یہ تو اس پرواز کی خوش قسمتی تھی کہ اس پر چیسلی سالن برجر جیسا مشاق پائلٹ موجود تھا اور قریب ہی دریا بھی تھا۔ Airbus-320 جہاز اوسطاً 275 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹیک آف کرتا ہے۔ اس رفتار پر اگر کوئی چڑیا بھی جہاز سے ٹکرا جائے تو گولی کی طرح جہاز کی باڈی توڑ تاڑ کر نکل جاتی ہے۔ اس لیے ہوائی اڈوں پر پرندوں کو بھگانے کے لیے خاص انتظام کیا جاتا ہے۔

یہ جہاز جب دریا میں اترا تو درجہ حرارت منفی 7 ڈگری تھا اور پانی کا درجہ حرارت 5 ڈگری سینٹی گریڈ۔ پانی پر جہاز اترنے کی صورت میں عملہ یہ دیکھتا ہے کہ جہاز کا جھکاؤ جس طرف زیادہ ہے ادھر کا دروازہ نہ کھولا جائے تاکہ پانی اندر نہ آئے۔ وہی ربڑ کی سلائیڈ جو زمین پر ہنگامی حالات میں اترنے کی صورت میں جہاز سے نکلنے کے کام آتی ہے، وہی ربڑ کی سلائیڈ پانی پر اترنے کے لیے کشتی بن کر مسافروں کی جان بچانے کے کام بھی آتی ہے۔

جہاز کے دروازے میں یہ ربڑ کی سلائیڈ موجود ہوتی ہے جو ہنگامی حالت برپا ہونے پر جہاز کا دروازہ کھولتے ہی خودکار نظام کے تحت ہوا سے پھول کر خدمت کے لیے حاضر ہوجاتی ہے۔ یہ ہر دروازے کے ساتھ موجود ہوتی ہے اور مسافروں کی ایک مخصوص تعداد اس میں سما سکتی ہے یہاں تک کہ اگر کوئی دروازہ نہ کھلے تو کچھ مزید مسافر اس میں بیٹھ سکیں اور باقی اس کے اطراف میں لگے امدادی دستے پکڑ کر پانی میں ساتھ ساتھ تیر سکیں جب تک مدد میسر آجائے۔

خوش قسمتی سے جہاز پانی پر مستحکم رہا تو مدد آنے تک بہت سے مسافروں کو جہاز کے پروں پر کھڑا ہونے کا موقع مل گیا۔ ترقی یافتہ ملک تھا تو مدد بھی بروقت پہنچ گئی اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ کپتان کا جہاز کو دریا میں اتارنے کا بروقت فیصلہ اور عملے کی مستعدی کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری خوش قسمتی نے مل کر ایک بڑا حادثہ ہونے سے بچا لیا۔

خوش قسمتی سے جہاز پانی پر مستحکم رہا تو مدد آنے تک بہت سے مسافروں کو جہاز کے پروں پر کھڑا ہونے کا موقع مل گیا—فوٹو: اے پی
خوش قسمتی سے جہاز پانی پر مستحکم رہا تو مدد آنے تک بہت سے مسافروں کو جہاز کے پروں پر کھڑا ہونے کا موقع مل گیا—فوٹو: اے پی

ڈچنگ (Ditching) یا واٹر سروائیول ٹریننگ (ہنگامی حالت میں پانی پر اترنے اور اس میں زندہ رہنے کی تربیت) فضائی میزبانوں کی ابتدائی تربیت کا ایک حصہ ہے۔ عملے کو ڈچنگ کے بنیادی طریقہ کار سے متعارف کرانا بہت ضروری ہے تاکہ وہ ہنگامی حالات میں زندہ بچ جانے والے اور دوسروں کو زندہ بچا لینے والے کا کردار ادا کرسکیں۔ مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانا کسی بھی فضائی میزبان کا بنیادی کام ہے، دعوت طعام اس کے بعد آتی ہے۔

تربیتی کورس کے دوران ڈچنگ کا مضمون پڑھتے ہوئے کچھ عرصہ ہوگیا تو ایک دن عملی طور پر لائف جیکٹ پہن کر پانی میں چھلانگ لگانے اور ربڑ کی کشتی کی سیر کرنے کا حکم صادر ہوگیا۔ تیراکی تو دسویں کا امتحان دینے کے بعد چھٹیوں میں ہی سیکھ لی تھی چنانچہ یہ فکر نہیں تھی کہ پانی میں ڈوب کے مرجاؤں گا، ہاں شرم سے ڈوبنے کے بہت مقامات آئے تو ان کا تذکرہ پھر سہی۔

لائف جیکٹ پہن کر تو پانی میں چھلانگ لگانا اور بھی آسان ہے۔ ڈوبنے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی بہت سے لوگ خوف کی وجہ سے ہاتھ پاؤں مارنے لگ جاتے ہیں۔ خود بھی ڈوبتے ہیں اور صنم کا بیڑا بھی غرق کر جاتے ہیں۔

جہاز کے انجن کام کرنا بند کردیں تو یہ کسی پتنگ کی طرح 'گلائیڈ' کرتا رہتا ہے تاوقت یہ کہ زمین یا پانی پر اتار لیا جائے۔ جہاز میں جو بھی مسئلہ ہوگا، نیچے آنا ہی پڑے گا، اوپر فضا میں کوئی سین نہیں بن سکتا۔ جیسے ہی جہاز پانی پر اترتا ہے تو خودکار نظام کے تحت جہاز میں نصب ٹرانس میٹر فوجی اور شہری امداد کی فریکوئنسی پر سگنل بھیجنا شروع کردیتے ہیں اور جلد مدد پہنچ جاتی ہے۔

پانی پر اترنے کے بعد مسافروں کو ربڑ کی کشتی میں کیسے بٹھانا ہے اور کس طرح اسے جہاز سے الگ کرنا ہے یہ ہر فضائی میزبان جانتا ہے۔ سب مسافروں کو نکالنے کے بعد عملہ جہاز سے ابتدائی طبّی امداد کے سامان کے ساتھ کچھ کمبل اور پانی کی بوتلیں بھی نکال کر لے آتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر کام آئے۔ اسی کشتی کے ایک سرے پر 'سروائیول کٹ' بھی ہوتی ہے۔ اس میں دھوپ اور بارش سے بچنے کے لیے کپڑا اور اس کو لگانے کا سامان، پنکچر ہونے کے صورت میں ضروری اوزار کے ساتھ ساتھ دُور سے گزرتے سمندری یا ہوائی جہازوں کو متوجہ کرنے کے لیے امدادی شعلے (Flares) بھی موجود ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں تو لوگ اس حد تک لائف جیکٹ کا ادراک رکھتے ہیں کہ جہاز سے نکال کر چھپا لیتے ہیں اور گاؤں جاکر ٹیوب ویل میں دوستوں کے سامنے ٹشن دکھاتے ہیں۔ اُدھر سائیں نہا رہا ہوتا ہے اور اِدھر عملہ غرا رہا ہوتا ہے۔

عملے کا ہر رکن 2 یا 3 سال میں ایک مرتبہ اس ساری تربیت کا ریفریشر کورس ضرور کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک کورس میں ایک سینئر جو پانی سے کافی ڈرتے تھے، لائف جیکٹ کا اسٹریپ صحیح سے بند کیے بغیر پانی میں کود گئے کہ جلدی سے باہر نکل آؤں گا۔ اس وقت میں اپنے آپ کو ایک مردانہ ڈولفن سمجھتے ہوئے پول میں تیرنے کے مختلف تجربات کر رہا تھا کہ مثلاً بوقت ضرورت صرف ایک ہاتھ یا ایک ٹانگ استعمال کرتے ہوئے تیرا جاسکتا ہے یا نہیں۔ یہ شہاب ثاقب جب میرے اوپر گرا تو ہم دونوں ہی دریائے کلورین میں غوطہ کھا گئے۔

عملے کا ہر رکن 2 یا 3 سال میں ایک مرتبہ اس ساری تربیت کا ریفریشر کورس ضرور کرتا ہے
عملے کا ہر رکن 2 یا 3 سال میں ایک مرتبہ اس ساری تربیت کا ریفریشر کورس ضرور کرتا ہے

میں واپس اوپر آیا تو ان کی جیکٹ بھی آ چکی تھی۔ جیکٹ اور میں نے ایک دوسرے کو گھبرائی ہوئی نظروں سے دیکھا ہی تھا کہ اچانک ان کا سر نمودار ہوا اور منہ میں پانی کی زیادتی کی وجہ سے کچھ کلمات نکلے جن کا لب لباب یہ تھا کہ اب میں مرجاؤں گا کیونکہ میری جیکٹ کھل گئی ہے۔ روٹی کھلنے پر بھاگ دوڑ دیکھنے کے بعد میں نے پہلی بار جیکٹ کھلنے پر بھاگ دوڑ دیکھی۔

سینئر کے ایک دوست نے ان کی جان بچانے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی اور پاس پہنچنے ہی والے تھے کہ ان کی پانی سے ہوتی ہوئی 'ہاتھا پائی' کے نتیجے میں ان کا ایک پاؤں دوست کے وہاں لگ گیا کہ جس سے وہ پائی پائی کو محتاج ہوکر پیچھے ہٹ گئے اور ہاتھوں کے بغیر تیرتے ہوئے واپس ہو لیے۔ خدا کا شکر ہوا کہ وہ اس جدوجہد کے نتیجے میں کنارے تک پہنچ گئے۔

کچھ دیر بعد ان کی حالت سنبھل گئی اور خدا خدا کرکے تربیتی کورس ختم ہوا۔ شکر ہے میں نے اس کار خیر میں حصہ نہیں ڈالا اور اپنی پائی پائی صحیح سلامت واپس لے کر گھر آگیا۔

تبصرے (3) بند ہیں

Mumtaz Ahmed Shah May 21, 2022 02:58am
A marvelous write- up and we in overseas enjoyed to read such good article by writer.(Texas)
Salazar May 22, 2022 07:59pm
This one was very informative and I did not know that "Sully" was based upon a true story. I will watch it now, I was avoiding it because I thought it was just another airplane crash landing story. Thank you again sir.
خاور جمال May 23, 2022 12:31pm
Thank you Mr. Mumtaz. So kind of you :) Welcome Mr. Salazar. It is a great movie