Dawnnews Television Logo

سی پیک سیاحت: شاہراہِ قراقرم اور دریائے سندھ (دوسری قسط)

’جب آپ ایک مرتبہ سوات جاچکے ہیں تو دوبارہ جانے کی کیا ضرورت ہے؟ گلگت بہت کم لوگوں نے دیکھا ہے۔ آپ گلگت کیوں نہیں جاتے؟‘
اپ ڈیٹ 30 جون 2022 05:05pm

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


سڑک کے دائیں طرف پہاڑ اور بائیں طرف کھائی تھی جس میں یقیناً کوئی پہاڑی ندی بہہ رہی ہوگی۔ حویلیاں سے چلے ہوئے ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ ہم پھر ایک گنجان آبادی میں داخل ہوتے چلے گئے۔ یہ ایبٹ آباد تھا۔

ہم راولپنڈی سے چلے تھے تو وہاں سطح سمندر سے 2 ہزار فٹ کی بلندی پر تھے مگر یہاں ایبٹ آباد تک چڑھائیاں چڑھتے چڑھتے 4 ہزار فٹ کی بلندی تک آپہنچے تھے۔ اس لیے آب و ہوا میں خاصی تبدیلی بھی محسوس ہو رہی تھی اور بس کی کھڑکیوں سے آتی ہوا میں ایک خوشگوار ٹھنڈ شامل تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایبٹ آباد کے مختصر سے بس اسٹینڈ میں داخل ہو رہے تھے۔

19ویں صدی کے وسط میں انگریز میجر جیمز ایبٹ کا آباد کردہ یہ شہر اس دور میں بھی فوجی چھاؤنی تھا اور آج بھی ایک فوجی چھاؤنی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ تعلیمی اداروں کا مرکز بھی ہے۔ برطانوی دور سے قائم آرمی برن ہال کالج اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول خصوصاً معروف تعلیمی ادارے ہیں جو فوجی اور سول تعلیم کے لیے ملک بھر میں مشہور ہیں۔

ایبٹ آباد اسٹینڈ پر کچھ دیر رک کر بس دوبارہ چلی اور شہر کے درمیان سے گزرتی سرسبز درختوں سے گھری شاہراہِ قراقرم پر خراماں خراماں آگے بڑھی تو اطراف کے سرسبز پہاڑوں سے چمٹے شہر کا خوبصورت منظر آنکھوں کے سامنے آگیا۔ اہلیانِ جیکب آباد کی طرح اہلیانِ ایبٹ آباد کو بھی اپنے شہر کے بانی میجر جیمز ایبٹ سے اتنی محبت ہے کہ انہوں نے آج تک اس شہر کا نام بدلنے کی ہر تجویز کو مسترد کیا ہے۔

ایبٹ آباد شہر کا طائرانہ منظر
ایبٹ آباد شہر کا طائرانہ منظر

ایبٹ آباد کا ایک تعلیمی ادارہ
ایبٹ آباد کا ایک تعلیمی ادارہ

ایبٹ آباد کا ایک اسکول
ایبٹ آباد کا ایک اسکول

بس شہر سے آگے نکلتی ہوئی منڈیاں، مانگل اور قلندر آباد وغیرہ قصبوں میں سے گزرتی، سرسبز پہاڑی ڈھلوانوں پر بل کھاتی لہراتی گھنٹہ بھر میں مانسہرہ پہنچ گئی۔ راجہ مان سنگھ کا آباد کردہ مانسہرہ پاکستان کا ایک طویل ضلع ہے۔ جہاں اس کی حدیں ایک طرف ایبٹ آباد سے ملتی ہیں وہاں دوسری طرف گلگت بلتستان سے مل جاتی ہیں۔ بالاکوٹ، شوگران، کاغان، ناران اور بابوسر ٹاپ کی بلندی پر گلگت بلتستان کی حدود تک سارے کا سارا علاقہ مانسہرہ میں شامل ہے۔

مانسہرہ شہر سے کچھ آگے بڑھیں تو وہ دوراہا آتا ہے جہاں شاہراہِ قراقرم سے کاغان روڈ الگ ہوجاتی ہے۔ مانسہرہ سے عطرشیشہ، گڑھی حبیب اللہ، بالا کوٹ، پارس، کیوائی، مہانڈری، کاغان، ناران، بٹہ کنڈی، بوڑاوائی، جل کھڈ، بیسل اور لولوسر سے ہوتی ہوئی تقریباً 200 کلومیٹر طے کرکے یہ سڑک درّہ بابوسر کی 14 ہزار فٹ بلندی تک پہنچنے کے بعد گلگت بلتستان کی حدود میں داخل ہوتی ہے اور پھر تیزی سے خطرناک ڈھلوانوں پر اترتی ہوئی تقریباً 50 کلومیٹر دُور چلاس کے قریب دریائے سندھ کے کنارے پہنچ کر دوبارہ شاہراہِ قراقرم سے مل جاتی ہے۔

لیکن ہم مانسہرہ میں کاغان روڈ پر نہیں مڑے بلکہ شاہراہِ قراقرم پر بٹگرام اور بشام کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ وادئ کاغان جانے والی سڑک دائیں طرف کو نکل گئی۔ کالج دوراہا، بفہ دوراہا اور ڈھوڈیال سے ہوتے ہوئے ہم کچھ دیر میں شنکیاری پہنچ گئے۔ شنکیاری کا خوبصورت قصبہ موسیٰ کا مصلہ نامی برف پوش چوٹی سے بہہ کر آنے والے دلکش و دلفریب دریا 'سرن' کے کنارے آباد ہے۔ یہ مانسہرہ کا ایک چھوٹا سا معصوم سا قصبہ ہے۔ اصل میں یہ ایک چوراہا ہے۔ شاہراہِ قراقرم تو یہاں سے سیدھی گزر جاتی ہے، البتہ مانسہرہ کے قصبے بفہ سے آنے والی سڑک یہاں شنکیاری میں شاہراہِ قراقرم کو قطع کرتی ہوئی دریائے سرن کے کنارے کنارے وادی ڈاڈر کی طرف چلی جاتی ہے۔ ڈاڈر ویلی، جو اپنے ٹی بی سینی ٹوریم، چیڑ کے جنگلات اور برف پوش چوٹی ’موسیٰ کا مصلہ‘ کی وجہ سے مشہور ہے۔ شنکیاری میں ایک مختصر سی مارکیٹ بھی ہے جو یہاں کی رونق کا باعث ہے۔

کاغان روڈ مانسہرہ
کاغان روڈ مانسہرہ

موسیٰ کا مصلیٰ چوٹی
موسیٰ کا مصلیٰ چوٹی

دریائے سرن
دریائے سرن

شنکیاری کی شہرت کی ایک اور وجہ چائے کے باغات بھی ہیں۔ ہماری بس شنکیاری کے بازار سے چند کلومیٹر ہی باہر آئی ہوگی کہ سڑک کے دونوں طرف چائے کے باغات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک دلفریب ترتیب میں کاشت کیے گئے چائے کے ہرے بھرے پودے اونچی نیچی زمین کو ایک سبز قالین کی طرح ڈھانپے ہوئے نظر آتے تھے۔

شنکیاری کے بعد بٹگرام تک راستہ زیادہ تر ویران ہی تھا۔ چاروں طرف خاموش اور سرسبز نشیب و فراز تھے۔ بائیں ہاتھ کی ڈھلوان کے آخر میں دُور نیچے کبھی کبھی ایک پہاڑی ندی کا جھاگ اڑاتا پانی جھلک دکھا جاتا تھا۔ وقفے وقفے سے چھوٹے چھوٹے گاؤں گزر رہے تھے یا کہیں چند گھروں کی مٹیالی چھتیں نظر آتی تھیں۔ سڑک کے کنارے پر کوئی اسکول کہ جس کی کلاس اوپن ایئر ہے، ملیشیا یونیفارم میں بچے زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھے کتابوں اور آپس میں الجھے ہوئے اور استاد کرسی پر بیٹھا دُور خلاؤں میں گھورتا۔ بچے پڑھ کیا رہے ہیں پتہ نہیں لیکن یہ سارا ماحول اتنا اچھوتا، اتنا منفرد اور ایسا غیر آلودہ تھا کہ جسے دیکھ کر دل میں شدید خواہش ابھرتی تھی کہ کاش یہ سب ہمیشہ اسی طرح رہے اور ہم اسے چھوئے بغیر صرف اس کے معصوم اثر کو سمیٹ کر چپکے سے آگے بڑھ جائیں تاکہ ہمارے بعد آنے والا کوئی اور دیوانہ بھی اسے اچھوتا کہہ سکے۔

سڑک کے دونوں طرف گھنا جنگل تھا۔ پتلے پتلے تنوں والے خدا جانے کون کون سے درخت سیکڑوں کی تعداد میں سڑک کو گھیرے ہوئے تھے اور ہم اس سبز راہ کے بیچوں بیچ پھسلے چلے جارہے تھے۔ سفر کے دوران ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں آتے تو ہیں مگر ان درختوں کے نام ناجانے کہاں سے معلوم ہوتے ہیں کہ یہ دیودار تھا، وہ سفیدہ تھا، یہ چنار تھا تو وہ بید مجنوں کی ڈال وغیرہ تھی۔ ہمارے لیے تو وہ سب بس درخت ہی تھے، پیارے پیارے سرسبز گھنیرے درخت جن کی سب سے مناسب تعریف یہ تھی کہ یہ ہم نے نہیں، خالقِ کائنات نے بنائے تھے اور ان کا دیکھنا باعثِ مسرت و سکون تھا۔

سڑک کی بلندی میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ بٹل نامی قصبہ انہی بلندیوں میں کہیں گم تھا جس کے قریب سے گزرتے ہوئے شاہراہِ قراقرم نے ڈھلواں ہوتے ہوئے چند آڑے ترچھے موڑ لیے اور پھر نیچے گہرائی میں پہنچ کر ہمیں بڑی دیر سے اپنی جھلک دکھانے والی ایک چمکتی ندی کو عبور کرکے دوسری طرف کے پہاڑوں کی رفاقت اختیار کرلی۔ پہاڑوں پر اگی ہوئی جھاڑیاں کسی سیاہ فام کے بالوں کی طرح تھیں۔ گھنڈی دار بال مگر سبز رنگ کے۔ ایک موڑ پر سبز اندھیرے میں سے پھوٹتا ہوا ایک جھرنا نیچے سڑک پر آکر پھیل رہا تھا۔

شنکیاری میں دریائے سرن کا منظر
شنکیاری میں دریائے سرن کا منظر

شنکیاری میں دریائے سرن کے پل پر
شنکیاری میں دریائے سرن کے پل پر

شنکیاری
شنکیاری

شنکیاری میں چائے کا ایک باغ
شنکیاری میں چائے کا ایک باغ

چائے کے باغات زمین کو قالین کی طرح ڈھانپے ہوئے تھے
چائے کے باغات زمین کو قالین کی طرح ڈھانپے ہوئے تھے

پانی کے چھینٹے اڑاتی ہوئی بس ذرا اور آگے آئی تو بٹگرام آگیا۔ دیکھنے میں شنکیاری جیسا مگر اس سے رونق میں کچھ زیادہ۔یہاں ہمارے ہمسفروں میں کچھ اضافہ ہوگیا۔ بس جیسے ہی بٹگرام سے باہر آئی، اس کی چھت میں پوشیدہ اسپیکر بھی نغمہ سرا ہوگئے۔ صوبہ سرحد کا معروف گلوکار جاوید اختر والہانہ گائے چلا جارہا تھا:

مسافر گائے چلا جا ، مسافر گائے چلا جا

کہیں کچھ لینا نہیں دینا نہیں گائے چلا جا

کہیں کچھ لینا نہیں دینا نہیں گائے چلا جا

مسافر گائے چلا جا، مسافر گائے چلا جا

اب شاہراہِ قراقرم دریائے سندھ کے قریب پہنچ گئی تھی۔ میں نے بائیں طرف سڑک سے نیچے جھانکا تو گہرائی میں ایک مختصر سے پہاڑی نالے کو دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ کیا یہی ہے دریائے سندھ؟ ایک ہمسفر سے پوچھا کہ کیا یہ دریائے سندھ ہے؟ تو اس کا جواب سن کر دل کو اطمینان ہوا کہ یہ دریائے سندھ نہیں تھا۔

ہم اس وقت ہزارہ میں تھے، جس کی حدود دریائے سندھ پر ختم ہوتی ہیں اور دوسرے کنارے سے ضلع سوات کی حدیں شروع ہوتی ہیں۔ بس اب دریائے سندھ کے پُرشکوہ جلوے کا انتظار تھا۔ بس میں ہمارے ہم سفر زیادہ تر مقامی لوگ ہی تھے۔ ایک بزرگ جو چلاس کے رہنے والے تھے، ان سے ہماری دوستی ہوگئی۔ وہ ضلع دیامر میں چند پہاڑی جنگلات کے مالک تھے اور انہی جنگلات کی لکڑی کا کاروبار کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں، تو میں نے انہیں بتایا کہ ہم بشام میں اتریں گے۔

'بشام میں آپ کو کیا کرنا ہے۔ وہ تو کوئی خاص جگہ نہیں،' وہ کچھ حیران ہو کر بولے۔

'ہم بشام میں اتر کر سوات جائیں گے، شانگلہ کے راستے،' میں نے انہیں بتایا۔

'سوات آپ پہلی مرتبہ جارہے ہیں؟،' انہوں نے پوچھا۔

'نہیں پہلے بھی جاچکے ہیں مگر مردان کے راستے۔ اب یہ نیا راستہ بھی دیکھ لیں،' میں بولا۔

’جب آپ ایک مرتبہ سوات جاچکے ہیں تو دوبارہ جانے کی کیا ضرورت ہے؟،' وہ بولے۔ 'اور پھر سوات تو ہر کوئی جاتا ہے۔ گلگت بہت کم لوگوں نے دیکھا ہے۔ آپ گلگت کیوں نہیں جاتے؟‘

ان کی اس بات پر ہم چاروں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

'لیکن گلگت تو ابھی بہت دُور ہے،' باسط بولا۔

'کتنا دُور ہے؟ آدھا راستہ تو آپ نے ویسے ہی طے کرلیا ہے۔ باقی آدھا راستہ رہتا ہے وہ بھی رات تک پورا ہوجائے گا۔ گلگت جائیں، ہنزہ دیکھیں، نانگا پربت اور راکاپوشی پہاڑ کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کریں۔ سوات میں کیا رکھا ہے۔'

انہوں نے ہمیں قائل کرنے کے لیے پورا زور لگا دیا۔

'لیکن ہم نے تو صرف بشام تک کا ٹکٹ لیا ہے،' میں بولا۔

'تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔ کنڈکٹر کو ابھی گلگت تک کا باقی کرایہ دے دو اور انہی سیٹوں پر بیٹھے رہو۔'

انہوں نے اسی وقت کنڈکٹر کو آواز دے کر بلا لیا۔

اب تو ہم پھنس گئے۔

'گلگت کب تک پہنچیں گے؟'، میں نے کنڈکٹر سے پوچھا۔

'جی رات تک پہنچ جائیں گے اب تو قریب ہے،' وہ دانت نکال کر بولا۔

ہم بدستور تذبذب میں تھے۔

'بشام سے آگے گلگت تک کتنے اور پیسے لگیں گے؟،' میں نے کنڈکٹر سے پوچھا۔

بٹگرام کا منظر
بٹگرام کا منظر

اس نے پیسے بتائے تو چلاسی بزرگ فوراً اپنی جیب سے پیسے نکال کر اسے دینے لگے۔ ہم نے ارے ارے کا شور مچا دیا اور میں نے فوراً اپنی جیب سے پیسے نکال کر کنڈکٹر کو دے دیے۔ چلاسی بزرگ کے چہرے پر اب ایک فاتحانہ اطمینان تھا۔ ہم بالآخر سوات کے بجائے گلگت جارہے تھے، لیکن ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ آگے شاہراہِ قراقرم کس قدر خوفناک روپ دھارنے والی ہے۔

کبھی کبھی سیاحوں کے جنون پر بڑی حیرت ہوتی ہے۔ سیاح دیوانے اور بے صبرے تو ہوتے ہی ہیں، ناشکرے اور بے قدرے بھی ہوتے ہیں۔ برسوں منصوبے بناتے ہیں کہ جہاں بھی جائیں گے وہاں سے پھر 'وہاں' بھی ضرور جائیں گے، یہ تو دیکھیں گے ہی، مگر وہ اور 'وہ' بھی ضرور دیکھیں گے، مگر یہ ساری آرزوئیں صرف اس وقت تک بدن میں سنسنی دوڑائے رکھتی ہیں جب تک سفر کا آخری لمحہ نہ آجائے۔ جب ہم ہر نئے آنے والے منظر کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں تو شاید اسی لمحے شدت سے اس منظر کی ہوس پیدا ہوجاتی ہے جو ابھی نہیں دیکھا اور یہی وہ جنون ہے جو جذبہ سیاحت کو آخر تک جوان رکھتا ہے۔

سیاحت کا وہی لمحہ بہترین ہوتا ہے جو سیاح کے دل میں نئے منظر کی خواہش کو بیدار کرنے میں کچھ دیر لگا دے اور اس منظر کے سہانے ہونے کا انحصار بھی خود اس منظر پر نہیں بلکہ سیاح کی آنکھ اور دل پر ہوتا ہے۔ یہاں بھی ہمارے اطراف میں جنگلات سے ڈھکی اونچائیاں تھیں، سر سبز ڈھلوانیں تھیں، رنگا رنگ خودرو پھول تھے، نیچے ایک ندی بھی تھی جس کے کنارے چھوٹے چھوٹے گھروندے تھے اور اس ندی پر کھلونوں جیسے پُل بھی معلق نظر آتے تھے۔ سڑک تک آتی ڈھلوانوں سے لاتعداد جھرنے بھی جلترنگ بجاتے ہوئے ندی میں گر رہے تھے۔ شاہراہِ قراقرم بھی تھی اور ہم بھی یہیں موجود تھے۔ مگر ان سارے مناظر کے باوجود ہمارے دل میں عین اسی وقت کسی نئے منظر کی خواہش بھی بیدار ہورہی تھی۔ ھل من مزید۔ یہ دیکھ لیا، اب نیا۔ سیاحت کی معراج ناجانے کون سا منظر ہوتا ہے؟

بٹگرام گزر چکا تھا اور شاہراہِ قراقرم ایک سرسبز وادی کے درمیان میں چل رہی تھی۔ دائیں ہاتھ کے پہاڑ چوٹیوں تک گھنے جنگلوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ بائیں طرف کی ڈھلوانوں پر گہرے سبز رنگ کا ایک قالین نظر کی آخری حدوں تک بچھا ہوا تھا۔ فضا میں گرمی بتدریج کم ہو رہی تھی، اور غالباً یہ علامت تھی دریائے سندھ کی قربت کی۔

شاہراہِ قراقرم کی اصل جولان گاہ، دریائے سندھ۔ وہ دریا کہ پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں جس کی وسعت ایک کنارے سے دوسرا کنارہ اوجھل کر دیتی ہے، یہاں پہاڑوں کے درمیان اپنے مختصر پاٹ میں پھنسا شیر کی طرح دہاڑتا رہتا ہے اور اس کی گونج دُور دُور تک فضا کا حصہ بنی رہتی ہے۔

تھاکوٹ سے کچھ پہلے شاہراہِ قراقرم نے زاویہ قائمہ پر ایک موڑ لیا اور بائیں طرف نیچے گہرائی میں دریائے سندھ کا مٹیالے پانیوں والا پُرجلال وجود ہماری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ یہاں دریا کا ایک کنارہ ہزارہ ہے اور دوسرا سوات۔ ہم نے دریائے سندھ پر بنے شاہراہِ قراقرم کے تین پُلوں میں سے پہلا عبور کیا اور ضلع سوات کی حدو میں داخل ہوگئے۔

اب ہمارے دائیں طرف دریائے سندھ، ہماری مخالف سمت میں بہتا ہوا تربیلا ڈیم کی طرف جارہا تھا۔ دوپہر کے ذرا بعد اور شام سے ذرا پہلے، جب دھوپ میں ایک بے اختیار سی تیزی اور ایک غیر آمیز سی زردی شامل ہورہی تھی، احساس ہوا کہ کوئی نئی بات ہونے والی ہے۔ ہوا میں ایسی تازگی بھری نمی جو یہ محسوس کرواتی تھی کہ جیسے میں ابھی ابھی نہا کر اور تولیے سے بدن پونچھ کر غسل خانے سے باہر نکلا ہوں۔ دھوپ میں تیزی کے باوجود ایسی ٹھنڈک جیسے ہم کسی شیشے کے ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں ہوں۔

تھاکوٹ سے کچھ پہلے شاہراہ نے ایک موڑ لیا تو مجھے اپنے ہمسفر پہاڑوں اور سامنے نظر آنے والے پہاڑوں کے بیچ ایک فاصلہ سا حائل محسوس ہوا۔ میں اس فاصلے کو اچنبھے سے دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے ہمسفر نے اشارہ کیا۔

’وہ دیکھو، دریائے سندھ آگیا۔‘

میں نے چونک کر ذرا نیچے کی طرف دیکھا۔ انڈس، اباسین، شیر دریا، دریائے سندھ۔ ہمالیہ سے لے کر قراقرم تک اور اب میرے سامنے۔ سنگلاخ پہاڑوں کو چیرتا ہوا، غرور اور فتح مندی سے اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا، اپنی عظمت کا سکہ بٹھاتا ہوا، خراماں خراماں بہہ رہا تھا۔ اسے اپنی رنگت پر بھی اس قدر اختیار تھا کہ اس نے اپنے پانی میں آسمان کی نیلاہٹ تک شامل نہیں ہونے دی تھی۔ وہ ایک مٹیالا دریا ہے، جہاں سے نکلتا ہے وہاں بھی اور جہاں سے گزرتا ہے وہاں بھی، یہاں تک کہ اپنے ڈیلٹا پر بحیرہ عرب کے نیلے پانیوں کو بھی مٹیالا کردیتا ہے۔

تھاکوٹ کے مقام پر دریا کو عبور کرنے کے لیے ایک شاندار پُل ہے جو آہنی رسوں کی موٹی موٹی کمانوں سے لٹکا ہوا ہے۔ پُل کے شروع میں ایک بہت بڑے بورڈ پر ’ویلکم ٹُو قراقرم ہائی وے‘ کیوں لکھا ہے؟ اس لیے کہ شاہراہِ قراقرم کی اصل حدیں یہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ ٹائروں کا ایک اور چکر اور ہم دریائے سندھ کے گرج دار وجود کے اوپر معلق تھے۔ پُل کے کمان دار رسے جھکے اور یکبارگی بس کے شیشوں سے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہوئے بے بسی سے دوبارہ واپس اوپر چلے گئے۔ پُل کی ریلنگ پر چین کے علامتی نشان، شیروں کے چھوٹے چھوٹے مجسمے بنے ہوئے تھے جو اپنی نسبت ’لائن ریور انڈس‘ کے ساتھ ملاتے ہوئے ایک تاریخ دہرا رہے تھے۔

تھاکوٹ میں دریائے سندھ کا منظر
تھاکوٹ میں دریائے سندھ کا منظر

تھاکوٹ اور دریائے سندھ
تھاکوٹ اور دریائے سندھ

تھاکوٹ میں دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والا پُل
تھاکوٹ میں دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والا پُل

تھاکوٹ پُل اور دریائے سندھ
تھاکوٹ پُل اور دریائے سندھ

چین میں جمہوری انقلاب کے بعد جب عوام افیم کے نشے سے جاگے تو ان کی سوئی ہوئی قسمت بھی بیدار ہوگئی اور یوں بیدار ہوئی کہ ساری دنیا چین کو الہٰ دین کا جن کہنے پر مجبور ہوگئی۔ 1959ء کا سال چین کی آزادی کا 10واں سال تھا اور اس سال یومِ آزادی مناتے ہوئے چین کے بیدار عوام نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک کو 10 تحفے دیں گے، اور یہ تحفے وہ 10 عظیم الشان عمارتیں تھیں جو حیرت انگیز طور پر صرف 10 ماہ میں تعمیر کے تمام مراحل سے گزر کر مکمل ہوگئیں۔ چین کے عظیم ہال اور بیجنگ کے وسیع عجائب گھر کو دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ یہ صرف 10 ماہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ تھاکوٹ کا یہ پُل بھی انہی چینیوں نے بنایا ہے اور اپنی اسی عظیم روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صرف 10 ماہ میں مکمل کیا ہے۔


عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔