ہمارے ملکی دستور کی دفعہ 243 کے تحت وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہوتا ہے، مزید برآں قبل الذکر کی عمومیت پر اثر انداز ہوئے بغیر مسلح افواج کی اعلیٰ کمان صدر کے ہاتھ میں ہوگی۔

صدر کو قانون کے تابع یہ اختیار ہوگا کہ پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج اور مذکورہ افواج کے محفوظ رشتے قائم اور ان کی دیکھ بھال کرے گا اور مذکورہ افواج میں کمیشن عطا کرے گا مگر صدر، وزیرِاعظم کے مشورہ کے ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف نیول اسٹاف اور چیف آف ایئر اسٹاف کا تقرر کرے گا اور ان کی تنخواہوں اور الاؤنسوں کا بھی تعین کرے گا۔

یہ بات کسی بھی ذی شعور کو بغیر کسی بحث و مباحثہ کے سمجھ آسکتی ہے، مگر اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ آئین کی شق 48 (1) کے مطابق ‘صدرِ مملکت اپنے کارہائے منصبی کی انجام دہی وزیرِاعظم اور کابینہ کے مشورہ کے ساتھ کرے گا۔ کابینہ یا (وزیرِاعظم) کی جانب سے پیش کی گئی تجویز پر صدر عمل کرے گا لیکن اگر صدر کو کسی بات پر اعتراض ہو تو 15 دن کے اندر اندر وہ کابینہ کو اس سے مطلع کرے گا۔ کابینہ اس تجویز پر غور کرے گی اور صدر کے لیے یہ لازم ہوگا کہ وہ کابینہ کی جانب سے بھیجی گئی نظرثانی شدہ تجویز پر 10 دن کے اندر عمل کرے’۔

حکومت کیا ہوتی ہے اس بارے میں بھی ہمارا آئین اپنی دفعہ 90 میں یوں تعریف کرتا ہے کہ دستور کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے وفاق کا عاملانہ اختیار صدر کے نام سے استعمال کیا جائے گا جو وزیرِاعظم اور وفاقی کابینہ پر مشتمل ہوگا، یعنی یہ نظام وزیرِاعظم کے ذریعہ چلایا جائے گا اور وہی وفاق کا چیف ایگزیکٹو ہوگا۔ دستور کے مطابق اپنے کارہائے منصبی کو وزیرِاعظم خواہ بلاواسطہ یا وفاقی وزرا کے ذریعے بجا لائے گا اور مزید تحریر کیا گیا کہ شق 91 کے تحت صدر کو اس کے کارہائے منصبی کی انجام دہی میں مدد اور مشورے کے لیے وزرا کی ایک کابینہ ہوگی جس کا سربراہ وزیرِاعظم ہوگا۔

مزید پڑھیے: کون بنے گا اگلا آرمی چیف؟

ہمارے ملکی دستور کے مطابق پاکستان میں ملازمت کے لیے افراد کا تقرر اور ملازمت کی شرائط کا بھی تعین موجود ہے، مثلاً وفاق کی ملازمتوں، وفاقی امور کے سلسلے میں اسامیوں اور کُل پاکستان ملازمتوں کی صورت میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے تحت یا اس کے ذریعے ہوگا اور کسی بھی صوبے کی ملازمتوں اور کسی صوبے کے امور کے سلسلے میں اسامیوں کی صورت میں اس صوبائی ایکٹ کے تحت یا اس کے ذریعے ہوگا۔

ان آئینی دفعات کی واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص خواہ کتنا ہی کمزور یا طاقتور کیوں نہ ہو اس کے مطابق ہی عمل کرے گا اور پھر ایسا کرنے والے کو آئین کی دفعہ 5 کا ادراک ہونا ضروری ہے جس کے مطابق مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے اور دستور اور قانون کی اطاعت پاکستان میں موجود ہر شخص اور دنیا میں موجود ہر پاکستانی شہری پر واجب التعمیل ذمہ داری ہے اور ایسا نہ کرنے والے کے احکامات غیر قانونی، غیر آئینی قرار دیے جاسکتے ہیں۔

اس کی مثال سابق ڈپٹی قومی اسمبلی اسپیکر قاسم سوری، سابق وزیرِاعظم عمران خان اور صدرِ مملکت عارف علوی کی دی جاسکتی ہے۔

آئین ایک عمرانی معاہدہ ہوا کرتا ہے جو عوام اور ریاست کے درمیان اتفاق رائے سے قائم کیا جاتا ہے اور اس میں شخصی آزادی متبرک رکھی جاتی ہے مگر قواعد کے مطابق زندگی گزارنا لازمی امر ہوا کرتا ہے، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، افراد بدلتے رہتے ہیں، ملازمتوں پر طریقہ کار کے مطابق شرائط پوری کرنے والے اپنی ذمہ داریاں ادا کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ اگر ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے تو ملک میں کبھی ہیجانی کیفیت پیدا ہی نہ ہو۔

ایک زمانہ تھا جب اعلیٰ عدلیہ میں بھی تعیناتی حکمران ہی کیا کرتے تھے اور اب بھی جو طریقہ اختیار کیا جاچکا ہے اس سے یہ تاثر عام ہے کہ اعلیٰ ترین عدلیہ اندرونی اختلافات کا شکار ہے اور یقیناً اس کے اثرات معاشرے، عدالت، سماج، ملک اور قوم پر کسی بھی صورت مثبت نہیں۔

سابق وزیرِاعظم نوازشریف کے بارے میں یہ سوال کثرت کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے جب بھی آرمی چیف آف اسٹاف کی تعیناتی مشورے کے ساتھ کی وہ اختلافات کا شکار کیوں ہوئی؟ جیسے جنرل آصف نواز، جنرل وحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت، جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل کے علاوہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار بھی پاکستان کے غیر عسکری اداروں میں بہت فعال رہا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی جتنی تعریف سابق وزیرِاعظم عمران خان کرتے رہے ہیں اتنی تو کسی نے نہیں کی تھی اور نہ شاید کوئی ایسا کرسکے گا۔

گزشتہ روز جناب عمران خان جو ہمیشہ ایک سقراطی انداز اختیار کرتے ہوئے افلاطونی فال پیش کرتے ہیں، فرما رہے تھے کہ نوازشریف اور آصف زرداری کی پوری کوشش ہے کہ اپنی پسند کا آرمی چیف لے آئیں کیونکہ انہوں نے پیسہ چوری کیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ملک کی قسمت ان دونوں کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہیے۔ آرمی چیف وہ اپنی مرضی کا لانا چاہتے ہیں اور یہ ڈرتے ہیں کہ اگر کوئی تگڑا اور محب وطن آرمی چیف آگیا تو ان کو پوچھے گا۔ سابق وزیرِاعظم کی خواہش ہے کہ آرمی چیف میرٹ پر ہونا چاہیے نہ کہ کسی کی پسند کا۔

مزید پڑھیے: عمران خان کیسے کہہ سکتے ہیں کوئی آرمی چیف محب وطن ہے یا نہیں، جسٹس اطہر من اللہ

یہ بات پوچھنے کا ہر کوئی حق رکھتا ہے کہ میر صادق اور میر جعفر کے القاب کن کے لیے تھے اور شہباز گِل نے جس فوج میں بغاوت پھیلانے کی ناکام کوشش کی تھی کیا وہ امریکا کی فوج تھی؟ اور کیا وہ سب کچھ تحریک انصاف کی پالیسی کے مطابق تھا۔ اگر تھا تو پھر کورٹ مارشل ہونا چاہیے اور اگر نہیں تھا تو شدید مذمت ہونی چاہیے۔

اب جب عمران خان محب وطن آرمی چیف کا تقاضا کررہے ہیں تو وہ یہ بھی بتادیں کہ کون سا آرمی چیف محب وطن نہیں تھا اور کونسا آرمی چیف میرٹ کے بغیر تعینات ہوا تھا۔ بس ذرا وضاحت کردیں کیونکہ ہم تو خان صاحب کو محب وطن تسلیم کرتے ہیں تا وقت کہ نئی سازش آشکار نہ ہوجائے۔ خان صاحب سپاہی کی بھی اسکروٹنی ہوتی ہے چہ جائے کہ اعلیٰ افسران کی۔

آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر عمران خان صاحب اسلام آ باد ہائی کورٹ کے فیصلے، رولنگ، تبصرے اور اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہونے والے معاملات کو ریگولیٹ ہوتا دیکھیں تو وہ شاید اپنی زبان بندی خود ہی کرلیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں