Dawnnews Television Logo

‘ملکہ الزبتھ کے لیے قدم جمانا آسان تھے نہ کنگ چارلس کے لیے ہوں گے’

ملکہ الزبتھ دوم نے چارلس کو اس دن کے لیے طویل عرصے سے تیار کرنا شروع کیا تھا اور انہیں دولت مشترکہ کی سربراہی سونپی تھی۔
شائع 09 ستمبر 2022 05:03pm

96 برس کی عمر میں انتقال کرنے والی ملکہ الزبتھ دوم نے 70 سال سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کی اور ایسے وقت میں تخت و تاج سنبھالا جب دنیا کے مختلف خطوں میں بادشاہ اور ملکہ بظاہر سیاسی طور پر بہت بااختیار تھے لیکن اقتدار پر ان کی گرفت کمزور پڑنا شروع ہوچکی تھی۔

الزبتھ دوم نے جب تاج پہنا تو بادشاہت کو کئی طرح کے خطرات درپیش تھے، میڈیا زور پکڑ رہا تھا اور کبھی بھی قابلِ گرفت نہ سمجھے جانے والے ادارے اور بادشاہتیں دباؤ کا شکار ہورہی تھیں۔ عوام کی بڑی تعداد بھی بادشاہت کے ساتھ پہلے والا لگاؤ اور انسیت ظاہر نہیں کرتی تھی۔ لہٰذا یہ وہ وقت تھا جب برطانوی سلطنت سکڑ رہی تھی اور سماج بدل رہا تھا۔

ملکہ الزبتھ دوم میں خطرات کو مواقع میں بدلنے کی ایک خداداد صلاحیت تھی جس نے ان کے اقتدار کو نہ صرف دوام بخشا بلکہ وہ بادشاہت کے ادارے کو بھی بچانے میں کامیاب رہیں۔ جو میڈیا بادشاہت سے متعلق زیادہ اچھا رویہ نہیں رکھتا تھا ملکہ الزبتھ دوم نے اسی میڈیا کو شاہی خاندان کا امیچ بہتر کرنے پر لگا دیا۔

ملکہ الزبتھ دوم کی تاج پوشی کی تقریب وزیرِاعظم ونسٹن چرچل کی مخالفت کے باوجود ٹی وی پر براہِ راست نشر کی گئی اور کروڑوں لوگوں نے اسے دیکھا۔ ملکہ الزبتھ دوم ہی پہلی شاہی شخصیت ہیں جن کا کرسمس کا پیغام ٹی وی پر نشر ہوا اور جنہوں نے بی بی سی کی ٹیم کو خود بلا کر اپنے معمولات پر ڈاکومنٹری بنوائی اور شاہی خاندان کو برطانوی عوام کے قریب لے گئیں۔ یہ ملکہ الزبتھ دوم ہی تھیں جنہوں نے اپنے پوتوں سے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنوائے۔

دوسرا بڑا چیلنج سکڑتی ہوئی سلطنت تھی کیونکہ تیزی سے ریاستیں آزاد ہو رہی تھیں اور مختلف ریاستوں اور ملکوں کی آزادی کے ساتھ بادشاہت پر بھی سوال اٹھ رہے تھے۔

تاج برطانیہ کے زیر نگیں علاقے سکڑ کر 8 ملکوں تک رہ گئے تھے۔ ملکہ الزبتھ دوم نے دولت مشترکہ کو اپنا اوّلین ہدف بنایا اور آج جب وہ ملکہ نہیں رہیں تو دولت مشترکہ کے ملکوں کی تعداد 8 سے بڑھ کر 54 ہوچکی ہے۔ دولت مشترکہ کے رکن ممالک کی تعداد بڑھنا اس لیے اہمیت رکھتا ہے کہ جب بادشاہت پر سوال اٹھ رہے تھے اور اس کی سیاسی بنیاد کمزور پڑ رہی تھی تو ملکہ الزبتھ نے دولت مشترکہ کو آزاد ملکوں کا ایک دوست گروپ بنا دیا اور اس گروپ کو مضبوط کرکے انہوں نے برطانیہ میں بادشاہت کے جواز کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس ادارے کو بھی جدید بنا دیا۔

  ملکہ الزبتھ دوم کی دولت مشترکہ ممالک کے نمائندوں کے ساتھ گروپ فوٹو (3 دسمبر 1953ء)— تصویر: اے پی
ملکہ الزبتھ دوم کی دولت مشترکہ ممالک کے نمائندوں کے ساتھ گروپ فوٹو (3 دسمبر 1953ء)— تصویر: اے پی

عام تاثر یہ ہے کہ ملکہ یا شاہی خاندان کا ملکی سیاسی معاملات میں کوئی دخل نہیں لیکن سوئز بحران میں یہ کردار دیکھنے کو ملا۔ 26 اکتوبر 1956ء کو برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ذریعے مصر پر حملہ کرایا جس کی وجہ یہ تھی کہ صدر جمال عبدالناصر نے سوئز کینال کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا جس پر اس سے پہلے برطانیہ اور فرانس کا قبضہ تھا۔ اگلے ہفتے برطانیہ اور فرانس نے بھی اسرائیل کی مدد کے لیے فوجیں اتار دیں، اسرائیل نے جزیرہ نمائے سینا پر قبضہ کرلیا لیکن بین الاقوامی رائے عامہ اور امریکی دباؤ پر برطانیہ اور فرانس کو فوجیں واپس بلانا پڑیں اور اسرائیل نے جزیرہ نمائے سینا خالی کردیا۔

اس سوئز آپریشن کے لیے برطانوی وزیرِاعظم ہیرالڈ میکملن نے ملکہ کو اعتماد میں نہیں لیا تھا اور ان کی پارٹی میں بھی اس آپریشن پر بغاوت ہوگئی اور انہیں 1963ء میں استعفیٰ دینا پڑا۔ ان کے بعد کنزرویٹو پارٹی کسی کے نام پر متفق نہ ہوسکی اور حکومت کی تشکیل کا بحران پیدا ہوگیا۔ اس وقت ملکہ الزبتھ نے آئینی طور پر بادشاہت کو باخبر رکھے جانے کا معاملہ بھی اٹھایا اور نئے وزیرِاعظم کے چناؤ کا میکنزم نہ ہونے پر بھی بات کی، یوں ملکہ نے سیاسی کردار ادا کیا اور نئے وزیرِاعظم کے لیے انتھنی ایڈن کی نامزدگی ملکہ الزبتھ کی مداخلت پر ممکن ہوئی اور سیاسی بحران کا خاتمہ ہوا۔

ملکہ الزبتھ کی زندگی کے ساتھ مزید کئی سیاسی تنازعات جوڑے جاتے ہیں اور یہ سب فلموں اور ڈراموں میں دکھائے جاچکے ہیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا بینک آف انگلینڈ اور کئی بااثر شخصیات کے ساتھ مل کر حکومت گرانے کا منصوبہ اور ملکہ الزبتھ دوم کی طرف سے ان کی سرزنش کا واقعہ نیٹ فلکس پر دکھائی گئی ڈرامہ سیریز دی کوئین کی وجہ سے مشہور ہوا، لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں۔

اسی طرح سر ونسٹن چرچل کی طرف سے ملکہ پر حاوی ہونے کی کوشش کا قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے لیکن ملکہ اور چرچل کی دوستی اس سے زیادہ مشہور ہے اور چرچل کے جنازے کے لیے ملکہ الزبتھ دوم کا پروٹوکول کو بالائے طاق رکھنا تاریخ کا حصہ ہے۔ برطانوی شاہی روایات کے مطابق ملکہ یا بادشاہ کسی بھی تقریب میں پہنچنے والا آخری فرد ہوتا ہے لیکن ملکہ الزبتھ دوم چرچل کے جنازے میں اس روایت کو توڑ کر پہلے پہنچیں تاکہ اس کے خاندان کو تسلی دے سکیں۔

ملکہ کے بعد ان کے بڑے بیٹے چارلس بادشاہ بن گئے ہیں اور انہوں نے چارلس سوم کا لقب اختیار کیا ہے۔ وہ اگلے چند ہفتوں میں تاج پوشی کی تقریب بھی سجائیں گے اور 1661ء میں چارلس دوم کے لیے بنایا گیا وہی تاج پہنیں گے جو سونے اور جواہرات سے جڑا لیکن اس قدر بھاری ہے کہ اسے پہن کر سر اٹھانا بھی ایک مرحلہ ہے۔ یہ تاج ملکہ الزبتھ دوم نے بھی پہنا اور الزبتھ دوم کے والد بادشاہ جارج ششم نے بھی پہنا۔

اس تاج کا وزن اپنی جگہ، مگر اس کے ساتھ بادشاہت کا بھاری بوجھ بھی کنگ چارلس سوم کے سر اور کندھوں پر ہوگا۔ لوگ ملکہ الزبتھ دوم کے طویل اقتدار کے عادی ہوچکے ہیں اور کیا کنگ چارلس سوم ملکہ الزبتھ دوم کی طرح ذمہ داریاں نبھا پائیں گے؟ یہ اہم سوال ہے جس پر سب کی نظریں ہیں۔

  ملکہ الزبتھ کو تاج پوشی کے وقت یہ تاج پہنایا گیا تھا— تصویر: وکی پیڈیا
ملکہ الزبتھ کو تاج پوشی کے وقت یہ تاج پہنایا گیا تھا— تصویر: وکی پیڈیا

یہ سوال بھی بنتا ہے کہ ملکہ الزبتھ دوم کو برطانیہ اور دولت مشترکہ ممالک میں جو پیار اور احترام حاصل تھا کیا ویسا کنگ چارلس کے لیے بھی ہوگا؟ کنگ چارلس نے پہلے شاہی فرمان میں اسی کی توقع کی ہے۔

ملکہ الزبتھ دوم نے چارلس کو اس دن کے لیے طویل عرصے سے تیار کرنا شروع کیا تھا اور انہیں دولت مشترکہ کی سربراہی سونپی تھی۔ شہزادہ چارلس بھی اپنے دورِ اقتدار کے لیے دولت مشترکہ کو اوّلین ترجیح بنائے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ماحولیات ان کا دوسرا بڑا مشن ہے اور انہوں نے چھوٹے جزائر پر مشتمل ملکوں کے طلبہ کے لیے کلائمیٹ ایکشن اسکالر شپ کا ایک سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے۔

  شاہ چارلس سوم 22 مئی 2022ء کو پارلیمنٹ کے آغاز پر اپنی والدہ ملکہ الزبتھ کا خط پڑھنے کے بعد— تصویر: اے ایف پی
شاہ چارلس سوم 22 مئی 2022ء کو پارلیمنٹ کے آغاز پر اپنی والدہ ملکہ الزبتھ کا خط پڑھنے کے بعد— تصویر: اے ایف پی

کنگ چارلس سوم نے ماحولیات سے متعلق مہم 1968ء سے شروع کر رکھی ہے۔ دنیا بھر میں انہوں نے مختلف مقامات پر خطابات کیے اور ان کا لہجہ اور جملے ایک ولی عہد یا بادشاہ جیسے نہیں بلکہ مہم جو جیسے تھے۔ ان کی اس مہم کو کچھ لوگ سیاسی انداز سے دیکھتے ہیں۔ کئی ملکوں میں ماحولیات ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ کنگ چارلس سوم 2015ء کے پیرس معاہدے کے سب سے بڑے حامی تھے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے کے خلاف تھے، لیکن اس کے باوجود شہزادہ چارلس نے دسمبر 2019ء میں ٹرمپ سے اس معاہدے کو برقرار رکھنے کی بات بھی کی تھی۔

2020ء کے اکنامک فورم میں انہوں نے ایک جذباتی تقریر بھی کی تھی کہ ‘کیا ہم تاریخ میں اپنا نام اس حوالے سے لکھوانا پسند کریں گے کہ جب دنیا تباہی کے دہانے پر تھی اور ہم اس تباہی کو روکنے کے قابل تھے لیکن ہم نے کچھ نہیں کیا۔ میں تو کم از کم ایسا نہیں چاہوں گا’۔

تنقید اور کئی بار تضحیک کے باوجود شہزادہ چارلس سوم نے ماحولیات سے متعلق مہم کو جاری رکھا۔ 2021ء کی گلاسگو کانفرنس میں بھی انہوں نے ممالک پر زور دیا کہ وہ صنعتوں کو ماحولیاتی مسائل کے حل پر راغب کریں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ‘مجھے علم ہے کہ اس مقصد پر اربوں نہیں کھربوں خرچ ہوں گے لیکن ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا’۔

کنگ چارلس سوم ماحولیات کے علاوہ جینیاتی طور پر موڈیفائیڈ فصلوں سے لے کر ہومیوپیتھک ادویات تک کئی طرح کے موضوعات پر کُھل کر بولتے رہے ہیں اور ملکہ الزبتھ دوم کے برعکس فیصلہ کن انداز اپناتے ہیں۔ الزبتھ تو تاثرات تک چھپانے کی کوشش کرتی تھیں مگر شہزادہ چارلس کہہ چکے ہیں جب وہ بادشاہ بنے تو وہ اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عدم مداخلت کو اپنائیں گے۔


آصف شاہد دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔