17ویں صدی، بکھرتی مغل سلطنت اور نیکولاؤ منوچی (آٹھواں حصہ)

اس سلسلے کی مزید اقساط یہاں پڑھیے


دارا شکوہ کے خون سے اورنگزیب کی تلوار سرخ ہوئی تو وہ پھر اس کے بیٹے سلیمان شکوہ کی سانسوں کو چھیننے کے لیے سرگرم ہوا۔

دارا کا ایک بیٹا سپہر شکوہ پہلے ہی گوالیار کے قلعے میں قید تھا۔ 27 برس کوئی اتنی بڑی عمر نہیں ہوتی کہ باپ اپنے بیٹوں کو جنگ کے میدان میں بھیجے۔ ایسا تو فقط 2 صورتوں میں ممکن ہوسکتا ہے۔ یعنی یا تو تخت و تاج کی حوس کے لیے ایسا کیا جائے یا پھر بھوک اور بدحالی سے بچنے کے لیے اس عمر میں اپنے بچوں کو جنگ کے میدانوں میں جھونک دیا جائے۔

ایک حوس ہے اور ایک مجبوری۔ تو اس چھوٹی سی عمر میں جب سلیمان شکوہ محلات سے نکلا تو آپ کو یاد ہوگا کہ اس نے ایک جنگ کا میدان بھی جیتا۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جنگ جیتنے کا انحصار نہ عمر پر ہے اور نہ مرکزی کردار کی صحتمندی اور طاقت پر، جنگ کا میدان وہ جیتے گا جو زیادہ شاطر ہوگا، دھوکا دینے میں زیادہ ماہر ہوگا اور زیادہ فریب دے سکے گا۔ اس لیے جنگ کسی کے ذہین ہونے کی سند نہیں ہے البتہ شاطر ہونے کی سند ضرور ہے۔

اورنگزیب نے اپنے بھائی کے لڑکے کو زمانے میں رسوا اور ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا، یہاں تک کہ جب سپہر شکوہ کو دارا کے قتل کے بعد گوالیار کے قلعے میں قید کرنے کا حکم دیا گیا تھا تب اس کی عمر 15 برس کے قریب تھی مگر چونکہ نفرت کی آنکھیں نہیں ہوتیں اور وہ کچھ نہیں دیکھتی اس لیے سپہر شکوہ کو ہاتھی پر بٹھا کر دہلی کی گلیوں میں پھرایا گیا تھا کہ اسے ذلیل کیا جاسکے، محض اس لیے کہ وہ دارا کا بیٹا تھا۔

اورنگزیب کو ایسی حرکتوں سے یقیناً ذہنی سکون ملتا ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو 15 برس کے بچے کو وہ دہلی میں ذلیل و خوار کیوں کرتا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ آگے چل کر اس کی اورنگزیب کی بیٹی سے شادی ہوئی، 1680ء میں اوڑیسہ کا گورنر مقرر ہوا اور اس کے بعد وہ دہلی کے لال قلعے کا قلعہ دار بھی مقرر ہوا اور اس کی موت اورنگزیب کے بعد ہوئی۔

   دارا شکوہ کی قبر
دارا شکوہ کی قبر

    سپہر شکوہ
سپہر شکوہ

    سلیمان شکوہ
سلیمان شکوہ

دہلی کے لال قلعے کا دیوان عام لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ 27 برس کا سلیمان شکوہ جس کو اورنگزیب نے گرفتار کروایا تھا، اسے ذہنی عذاب دینے کے لیے پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ سلیمان شکوہ رحم کی درخواست کرے، میں آپ کو منوچی اور برنس کی مدد سے وہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں کہ سلیمان شکوہ کو سری نگر سے کیسے گرفتار کیا گیا۔

برنیئر لکھتا ہے کہ ’جب دارا کو قتل کیا گیا تو ان دنوں سلیمان شکوہ سری نگر کے ’راجہ‘ کے ہاں تھا۔ اگر راجہ کو اپنے وفائے عہد اور ایمانداری کا خیال ہوتا تو سلیمان کا وہاں سے نکلنا مشکل ضرور تھا مگر ناممکن نہیں۔ لیکن جے سنگھ کے منصوبوں اور اورنگزیب کے وعدوں اور دھمکیوں، دارا شکوہ کے قتل اور قرب و جوار میں جنگی تیاریوں نے راجہ کو ڈرا دیا۔ جب سلیمان شکوہ نے یہ سب کچھ دیکھا اور محسوس کیا کہ اب وہ یہاں محفوظ نہیں ہے تو اس نے یہاں سے چلے جانا مناسب سمجھا اور تبت کی طرف جانے کا قصد کیا، مگر راجہ کے بیٹے کی لالچی طبیعت نے اسے پکڑ لیا اور دہلی کے حوالے کردیا‘۔

منوچی رقم طراز ہیں کہ ’غریب شہزادے کو قید کرکے رات کے وقت دہلی پہنچایا گیا۔ جب اورنگزیب کو یہ خبر ملی تو اس نے حکم دیا کہ قلعہ سلیم گڑھ (آج کل اس قلعے کے آثار ’نور گڑھ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں) میں بند کیا جائے۔ اگلے روز اس کے پاؤں سے بیڑیاں اُتروائیں گئیں اور پیتل کی ہتھکڑیوں میں دربار میں پیش کیا گیا (ان ہتھکڑیوں کو کئی لوگوں نے سونے کا خیال کیا تھا)۔ ایسا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ وہ دارا کا فرزند سلیمان شکوہ ہی ہے اور کوئی دوسرا شخص نہیں۔ نیز یہ آخری کانٹا تھا جو اورنگزیب کے پہلو میں کھٹک رہا تھا کیونکہ باقی سب کے سب یا تو مارے جاچکے تھے یا قید میں پڑے سڑ رہے تھے۔ اس لیے اسے اس حالت میں آتے دیکھ کر اورنگزیب کو بہت خوشی ہوئی۔

’اورنگزیب کو دیکھ کر اس غریب نے رو رو کر جان بخشی کی درخواست کرنا اور اسے یاد دلانا شروع کیا کہ وہ بھی شاہی خون ہے۔ مگر بادشاہ کا ایسا نرم دل نہیں تھا کہ آنسوؤں سے پگھل جاتا۔ سب جانتے ہوئے بھی اس نے تمام امرا سے دریافت کیا کہ یہ شخص سلیمان ہی ہے یا کوئی اور؟ اور جب سب نے اس کی تصدیق کی تو بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ اسے قلعہ گوالیار میں قید کرکے مراد بخش اور سلطان محمد کی طرح پینے کو پوست کا پانی دیا جائے۔ گوالیار بھیجنے کے ایک ماہ بعد بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ سلیمان شکوہ کو زہر سے ہلاک کردیا جائے۔‘

محمد صالح کمبوہ لکھتے ہیں کہ ’سلیمان شکوہ 19 شوال 1072ھ (6 جون 1662ء بروز منگل) کو قید خانے سے رہائی پاکر ملک عدم میں جا پہنچا، اور اسے بھی گوالیار کے قلعہ میں مراد بخش کے پاس دو گز زمین ملی‘۔

   لال قلعے کا دیوان عام— تصویر: فلکر
لال قلعے کا دیوان عام— تصویر: فلکر

   لال قلعے کے دیوان عام میں موجود بادشاہ کا تخت— تصویر: این اینڈ برے پیرلس آڑکائیو
لال قلعے کے دیوان عام میں موجود بادشاہ کا تخت— تصویر: این اینڈ برے پیرلس آڑکائیو

   قلعہ گوالیار
قلعہ گوالیار

    سلیمان شکوہ
سلیمان شکوہ

میرے پاس 2 اور نام ہیں۔ اب میں جس انسان سے متعلق آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ شاہجہاں کے خاندان کے 8 مہروں سے بالکل الگ ہے۔ مگر یہ اتنی بڑی شخصیت ہے کہ ماضی کے پنوں پر اگر اس کا ذکر نہیں کیا تو 17ویں صدی کے واقعات کا جو تسلسل ہے اس کی روانی میں فرق آئے گا۔ اس کردار کا مغلیہ سلطنت کے تخت و تاج سے کوئی واسطہ نہیں ہے مگر وہ کردار دارا شکوہ سے وابستہ تھا اس لیے اس کو زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا اور چونکہ وہ صوفی تھا اور اس کی اپنی ایک الگ دنیا تھی، یہ دونوں اسباب تھے جس کی وجہ سے اورنگزیب نہیں چاہتا تھا کہ اس کو زندہ رہنا چاہیے۔ میں مختصراً آپ کو اس کی زندگی کی کتھا سناتا ہوں۔

مغرب سے ہندوستان میں بیوپار کے لیے آنے والے اکثر بیوپاری پہلے ٹھٹہ کے بازاروں میں آتے۔ یہاں لین دین ہوتی، اگر سارا مال بک گیا تو وہیں سے واپسی ہوجاتی اگر ساتھ لایا ہوا مال زیادہ ہوتا تو پھر ہندوستان کی راہ لیتے۔ ایسا ہی ایک سرمد نامی بیوپاری ایران کے صوبے اصفہان کے شہر کاشان سے نوادرات لے کر، بیوپار کی نیت سے نکل پڑا۔ مولانا ابوالکلام آزاد تحریر کرتے ہیں کہ ’اس زمانے میں ایرانی سیاح عموماً سندھ سے ہوکر ہندوستان آتے تھے، سندھ کے شہروں میں ٹھٹہ ایک مشہور شہر تھا، جس کو اب نئے جغرافیہ میں گمنامی کا خانہ نصیب ہوا ہے‘۔

یہ تاجر یہودی تھا اور پرانی قیمتی نوادراتوں کا بیوپار کرتا تھا۔ اسی زمانہ میں ایران اور ہندوستان میں صوفیوں کا بڑا غلبہ تھا تو اس تاجر نے ہندوستان کے صوفیوں اور خانقاہوں سے متعلق معلومات اکٹھی کی۔ ایک دفعہ وہ خانقاہ سے آرہا تھا تو اسے پیر مغاں مل گئے۔ سرمد کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا ’تمہارے ماتھے پر کچھ تحریر ہے۔ دو مخمور آنکھیں، ان پر سب قربان اور تم جذبوں کی تجارت کروگے‘۔ بہرحال بات آئی گئی ہوگئی۔ سرمد نے فارسی اور عبرانی زبانوں پر قدرت حاصل کی اور ایک بلند مقام یہودی عالم ’ربی‘ کا رتبہ حاصل کیا۔ دنیا کے تمام مذاہب کے گہرے مطالعہ کے بعد ملا صدر الدین شیرازی اور مرزا عبدالقاسم فرونسکی کی سرپرستی میں اسلام قبول کر لیا۔

سرمد نے تجارت کے لیے چیزیں اکٹھی کیں اور ٹھٹہ کے لیے نکل پڑا۔ کچھ دنوں کے بعد سمندری جہاز ٹھٹہ کی بندرگاہ آپنہچا۔ اس نے ایک سرائے میں رہائش کا کمرہ لیا، سامان رکھا اور مارکیٹ دیکھنے کے لیے ٹھٹہ کے بازاروں میں نکل پڑا۔ آزاد صاحب کیا خوب لکھتے ہیں کہ ’یہی ٹھٹہ وہ سینائے مقدس تھا جو سرمد کے لیے تجلی گاہ ایمن بنا اور لیلائے حسن نے اوّل اوّل اپنے چہرے سے نقاب الٹی، کہتے ہیں کہ ایک ہندو لڑکا تھا جس کے چشم کافر نے یہ افسوں طرازی کی‘۔

عبدالقادر حسین تحریر کرتے ہیں کہ ’ایران کا ایک خوشحال تاجر اس شہر میں پہنچا تو وہ یہاں ایک چہرے کو دیکھ کر دنگ رہ گیا، یکسر بدل گیا، بے خودی کی ایسی جذب و مستی کی کیفیت طاری ہوئی کہ سرمد دنیا جہان کو بھول گیا سوائے اپنے محبوب کے۔ اس لڑکے کا نام ’ابھے چند‘ تھا جو خوش رو اور خوش گلو بھی تھا۔ وہ جب کلام پڑھتا تو یہ شاعر بے خود ہوجاتا‘۔

مولانا آزاد تحریر کرتے ہیں کہ ’عشق کی شورش انگیزیاں ہر جگہ یکساں ہیں، ہر عاشق گو قیس نہ ہو مگر مجنوں ضرور ہوتا ہے اور جب عشق آتا ہے تو عقل و حواس کو کہتا ہے کہ میرے لیے جگہ خالی کردو۔ سرمد پر بھی یہی کیفیت طاری ہوئی اور جذب و جنوں اس طرح چھایا کہ ہوش و حواس کے ساتھ تمام مال و متاع تجارت بھی غارت کردیا۔ دنیاوی تعلقات میں سے جسم پوشی کی بیڑی باقی رہ گئی تھی، بالآخر اس بوجھ سے بھی پاؤں ہلکا ہوگیا‘۔

ٹھٹہ کی گلیاں سرمد کے لیے وہ مقام ٹھہریں جہاں کایا پلٹ ہوتی ہے۔ کچھ روایتوں میں ہے کہ سرمد نے اسلام یہیں پر قبول کیا اور ’سعید‘ کا نام بھی یہیں ملا۔ ٹھٹہ کے بعد سرمد لاہور پہنچے۔ لاہور میں وہ 11 برس کے قریب رہے۔ یہیں پر تورات کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ آپ کو عربی، فارسی اور دوسری زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ سرمد نے ایک اندازے کے مطابق جو 334 رباعیاں تخلیق کیں اور وہ یہیں لاہور میں ہی تخلیق ہوئیں۔

اس حوالے سے ایک محقق لکھتے ہیں کہ ’آخرکار ابھے چند اپنے باپ کی قید سے آزاد ہو ر سرمد سے ملا۔ اس کے بعد 1634ء میں دونوں لاہور چلے گئے جہاں سے سرمد کی شہرت دُور دُور تک پھیلی۔ لاہور میں 12 برس گزارنے کے بعد انہوں نے حیدرآباد دکن کو اپنا مرکز بنایا۔

’1656ء میں، سرمد گولکنڈہ میں نظر آتے ہیں، جہاں بادشاہ عبداللہ قطب شاہ اور اس کے زیرک وزیر شیخ محمد خان اس کے آگے تعظیم سے جھکے جا رہے ہیں۔ عقیدت مندوں کا حلقہ ہر وقت اس کے گرد جمع رہتا ہے اور جہل کے پردے چاک ہونے لگتے ہیں۔ مگر ایک بے قراری کی بیل تھی جو تحت الشعور میں کہیں اگتی تھی اور جس کی جڑیں روح میں تشنگی کے ریگستان بناتی جاتی، یہ ساری کیفیتیں دہلی کی گلیوں کی خاک سے اگتی تھیں اور سرمد کو بلاتی تھیں۔ دہلی اس سفر کی آخری منزل تھی جس کی ابتدا 1590ء میں کاشان سے ہوئی تھی۔‘

ڈاکٹر مبارک علی تحریر کرتے ہیں کہ ’دارا شکوہ صوفی منش اور آزاد خیال انسان تھا اور وہ شہزادے سے زیادہ عالم تھا۔ صوفی خیالات اور مسلک کے لحاظ سے قادری سلسلے سے بیعت تھا۔ قادری سلسلے نے ہندوستان میں ہندو مسلم اشتراک پر زور دیا۔ مُلا شاہ قادر جس سے دارا شکوہ بیعت تھا کے آزادانہ خیالات کی بنا پر علما نے ان کے قتل کا فتویٰ دے دیا تھا، لیکن دارا شکوہ کی وجہ سے وہ بچ گئے۔

’دارا کو سرمد سے بھی بڑا لگاؤ تھا، وہ بھی مذہبی تفرقات سے بلند ہوکر سوچتے تھے۔ اس زمانے میں وحدت الوجود کے خیالات تقویت پاچکے تھے، دونوں طرف سے لوگ مشترکہ مذہبی بنیادوں کی تلاش میں تھے۔ دارا شکوہ، مُلا شاہ، سرمد اور محسن فانی (’دبستان مذاہب‘ کے مصنف) وہ آزاد خیال علما تھے جنہوں نے برِصغیر میں مذہبی آزاد خیالی اور رواداری کی تحریک کو پروان چڑھایا۔ دارا شکوہ ’سفینۃ الاولیا‘، ’سکینۃ الاولیا‘، ’رسالہ حق نما‘، ’مکالمۂ بابا لال و شکوہ‘، ’مجمع البحرین‘، ’حسنات العارفین‘ نامی کتابوں کا مصنف بھی تھا۔‘

    دارا شکوہ، سرمد کے ساتھ
دارا شکوہ، سرمد کے ساتھ

    سرمد اپنے معتقدین کے ساتھ
سرمد اپنے معتقدین کے ساتھ

جامع مسجد جہاں نما، جو اب جامع مسجد کے نام سے مشہور ہے، اس مسجد کا کام 1650ء میں 6 اکتوبر کو شاہجہاں نے شروع کروایا، 6 برس کے بعد یہ مسجد 1656ء میں مکمل ہوئی۔ اس زمانے میں اس شاندار مسجد پر 10 لاکھ روپے خرچ آیا تھا اور اس پر 6 ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ اسی برس سرمد ہمیں دہلی کی گلیوں میں ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ جب گولکنڈہ سے دہلی آیا تو شاہجہان آباد میں ڈیرا ڈالا، یہاں آپ کا قیام قادری سلسلے کے صوفی خواجہ سید ابو القاسم سبزواری کے یہاں رہا، جہاں سرمد کی دوستی داراشکوہ سے ہوئی اور یہی دوستی سرمد کے قتل کی بنیادی وجہ بنی۔

مولانا ابولکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیات سرمد‘ میں لکھتے ہیں کہ ’دنیا میں ایسے ترازو بھی ہیں جن کے ایک پلڑے میں اگر دیوانگی رکھ دی جائے تو دوسرا پلڑا تمام عالم کی ہوشیاری رکھ دینے سے بھی نہیں جھک سکتا۔ پھر ایسے خریدار بھی ہیں جن کو اگر ہوش و حواس کا تمام سرمایہ دے دینے سے ایک ذرہ جنون مل سکتا ہو تو بازار یوسف کی طرح ہر طرف سے ہجوم کریں‘۔

بہرکیف خواہ کچھ ہو، عالمگیر کی ہوشیاری سے تو ہمیں دارا شکوہ کی دیوانگی اور دوستی پسند آتی ہے کہ وہاں تو تیغ ہوشیاری کشتگان حسرت کے خون سے رنگین ہے اور یہاں خود اپنے جسم کی گردن سے خون کی نالیاں بہہ رہی ہیں۔

شاید دارا شکوہ بھی عالمگیر جیسے ہوشیاروں کی ہوشیاری سے تنگ آگیا تھا۔ اسی لیے اس نے سرمد جیسے مجنوں کی صحبت کو ہوش والوں کی مجلس پر ترجیح دی۔ غرض کہ سرمد، دارا شکوہ کی صحبت میں رہنے لگا اور اسے بھی سرمد سے کمال عقیدت تھی۔ اس زمانے میں عشق کی شورش انگیزیاں کبھی کبھی اسے باہر نکلنے پر مجبور کرتیں، لیکن چونکہ معلوم ہوچکا تھا کہ آخری امتحان گاہ یہی ہے اس لیے شاہجہان آباد سے نکل نہیں سکتا تھا۔ یہاں تک کہ، شاہجہاں کی علالت اور دارا شکوہ کی نیابت نے عالمگیری ارادوں کے ظہور کا سامان کردیا۔ پھر عرصے کی شورش و خونریزی کے بعد اورنگزیب عالمگیر تخت نشین حکومت ہوا۔

یہ زمانہ داراشکوہ کے ساتھیوں، ہم نشینوں اور خود دارا شکوہ کے لیے کم مصیبت انگیز نہ تھا۔ بہت سے لوگ تو دارا شکوہ کے ساتھ نکل گئے اور جو رہ گئے انہوں نے اپنے آپ کو طوفان میں پایا۔ لیکن اس بے خبر کو اپنے استغراق میں اس کی فرصت کہاں ملتی تھی کہ دنیا کو نظر اٹھا کر دیکھے اور اگر دیکھتا بھی تو، وہاں سے کیوں کر نکلتا کیونکہ بایں ہمہ بے خبری اس سے بے خبر نہ تھا کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ عشق کی ابتدائی منزلیں تھیں اور آخری منزل طے کرنا باقی ہے اور وہ یہیں پیش آنے والی ہے۔

یہ واقعہ 1661 کا ہے جب عالمگیر کی حکومت کو ایک سال سے کچھ زیادہ وقت گزرا تھا۔ جب سرمد کو شہادت گاہ (جامع مسجد کے آگے) کی طرف لے جایا گیا تو تمام شہر ٹوٹ پڑا۔ راستہ چلنا دشوار ہوگیا۔ جب جلاد تلوار چمکاتا ہوا آگے بڑھا تو سرمد نے مسکرا کر اس سے نظر ملائی اور کہا ’تجھ پر قربان آؤ آؤ جس صورت میں بھی آؤ میں تمہیں خوب پہچانتا ہوں‘۔ ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ اس جملے کے بعد سرمد نے ایک شعر پڑھا اور مردانہ وار سر تلوار کے نیچے رکھ دیا اور جان دے دی۔ اس شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ:

’ایک شور برپا ہوا اور اس میں خواب عدم سے میں نے آنکھ کھولی،

لیکن جب دیکھا کہ شب فتنہ باقی ہے تو پھر آنکھیں موند کر سو گیا’۔

   سرمد کی درگاہ
سرمد کی درگاہ

   سرمد کی درگاہ
سرمد کی درگاہ

   سرمد کی درگاہ
سرمد کی درگاہ

اب ہم شاہجہاں سے متعلق بات کریں گے جس کے نصیب کے آخری برس انتہائی بے کسی کی کیفیت میں آگرے کے قلعہ میں گزرے۔ اورنگزیب کو جتنی نفرت دارا اور شاہجہاں سے تھی اس نے پوری کوشش کی کہ وہ اپنے باپ کو اتنی ہی ذہنی اذیتیں دے کر اپنی نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرسکے۔ شاہجہاں اور جہاں آرا کے پاس یہ سب سہنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ قلعہ میں نظربندی کے دوران اورنگزیب نے ان ہیروں اور جواہرات کو حاصل کرنے کے لیے بھی بہت کوشش کیں جو شاہجہاں کے پاس تھے۔ مگر شاہجہاں مسلسل انکار کرتا رہا اور ایک دفعہ بہت تنگ آکر اس نے اورنگزیب کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر اس حوالے سے وہ زیادہ تنگ کرے گا تو وہ ان جواہرات کو کُوٹ کر چُورا کردے گا۔

رقعات عالمگیر کے مصنف شمس بریلوی تحریر کرتے ہیں کہ ’سموگڑھ کے مقام پر جو جنگ لڑی گئی اس نے کئی قسمتوں کا فیصلہ کر ڈالا۔ دارا شکوہ، سلیمان شکوہ، شاہ شجاع، مراد بخش کا انجام تو تاریخ آپ کے سامنے دہرا چکی، شاہجہاں تخت سے معزول کردیے گئے، ہرچند کہ انہوں نے ان لاکھوں احسانات کو جتایا اور انعامات کو گنوایا جن کی بارش ایام شہزادگی سے اب تک محی الدین اورنگزیب پر ہوتی رہی تھی لیکن اورنگزیب دوسری بار باپ پر اعتبار کرنا نہیں چاہتے تھے اس لیے بوڑھے شہنشاہ آگرے کے قلعہ میں بقیہ زندگی پوری کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کی قسمت میں جواں سال شہزادوں کا غم دیکھنا لکھا تھا‘۔

دارا شکوہ کے قتل کے بعد شاہجہاں 6 برس 5 ماہ تک زندہ رہا۔ نظربندی کی کیفیت میں یہ بہت بڑا عرصہ ہے جہاں وقت بڑی سست روی سے ایک ایک پل کرکے گزرتا ہے۔ 31 جنوری 1666ء میں شاہجہاں کی سانس کی ڈوری ٹوٹی مگر اورنگزیب کے اندر انتقام، نفرت اور خوف کی آگ اب بھی شعلے دیتی تھی۔ میں آپ کو آخری بار ’شاہجہاں نامہ‘ کے صفحات کی تحریر پڑھنے کے لیے لے چلتا ہوں۔ دیکھیے کہ 1666ء کے جاڑوں کے ٹھنڈے دنوں میں جب شاہجہاں کا جسم بھی ٹھنڈا ہوا تو وہاں کیا ہوا۔

’17 جنوری سے بادشاہ کی طبیعت بگڑنے لگی، روزبروز حالت بگڑنے لگی، کرب بڑھتا گیا، وقت قریب دیکھ کر اپنی تجہیز و تکفین کا سامان خود ترتیب دیا اور جہاں آرا بیگم کو خاندان کے افراد سے متعلق ہدایات دیں، جہاں آرا بیگم ہر پل ان کے ساتھ تھیں۔ 31 جنوری اتوار اور پیر کی درمیانی شب جہان فانی سے انتقال فرمایا۔ جہاں آرا بیگم نے پورا انتظام کیا تھا کہ حضرت کا جنازہ شاہانہ شان کے ساتھ صبح کے وقت دن چڑھے کمال عزت و وقار کے ساتھ روضہ تاج محل میں دفن کیا جائے۔ لیکن جہاں آرا کی خواہش پوری نہ ہوسکی کہ اورنگزیب اس وقت اکبرآباد سے دُور دہلی میں تھے اور نواب جہاں آرا بیگم صاحبہ کا کوئی اختیار نہ چلتا تھا۔ سارا نظام سرکاری ملازموں کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے پچھلے پہر شاہ برج کے زینے سے اعلیٰ حضرت کی نعش کو روضہ تاج محل پہنچا دیا اور نماز کے بعد دفن کردیا گیا۔‘

    شاہجہاں کے آخری وقت جہاں آرا اس کے پاس موجود ہے
شاہجہاں کے آخری وقت جہاں آرا اس کے پاس موجود ہے

   تاج محل
تاج محل

   تاج محل میں ممتاز محل کے ساتھ شاہجہاں کی قبر
تاج محل میں ممتاز محل کے ساتھ شاہجہاں کی قبر

تاج محل میں شاہجہاں کے وجود کے ساتھ اور بہت کچھ دفن ہوگیا تھا۔ یہ ایک زمانے کا اختتام تھا۔ اب تخت اور تاج کا مالک اورنگزیب تھا۔ جس کی سوچ کی اپنی نہج تھی۔ جس کے پاس طاقت کے وحشی گھوڑوں کی باگیں ہوتی ہیں وہ جہاں سے بھی اپنا راستہ چُنے وہ اس وقت درست مان لیا جاتا ہے کہ یہ خلق جو اپنی سوچ کے جوان ہونے کے راستے پر سفر کر رہی ہے اس کے لیے بادشاہ کا فرمان آخری ہوتا ہے۔ وہ مثبت یا منفی میں فرق نہیں کر پاتی۔ ہمارا سفر اب بہت مختصر رہ گیا ہے۔ ہمارا آخری پڑاؤ بس اب ایک منزل دُور رہ گیا ہے۔


حوالہ جات:

  • ’ہندوستان عہد مُغلیہ میں‘۔ نیکولاؤ منوچی۔ ملک راج شرما۔ لاہور
  • ’شاہجہاں نامہ‘۔ ملا محمد صالح کمبوہ۔ 2013ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
  • ’تاریخ کے مسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ 2020ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
  • ’حیات سرمد‘۔ مولانا ابوالکلام آزاد۔1910ء۔ تنویر پبلشرز، لکھنؤ
  • ’المیہ تاریخ‘۔ ڈاکٹر مبارک علی۔ 2012ء۔ تاریخ پبلیکیشنز، لاہور
  • ’سرمد ایک سمندر‘۔ آرٹیکل: عبدالقادر حسین۔ 2012ء۔ ایکسپریس نیوز