کراچی: دوران حراست بیٹے کی موت کے 32 برس بعد شہری کو 2 کروڑ روپے معاوضہ ادا

26 اکتوبر 2022
عدالتی عہدیداروں نے رسمی کارروائیوں کے بعد شہری کو 2 کروڑ 8 لاکھ روپے سے زائد کا چیک ادا کیا—فائل فوٹو: وکی میڈیا کومنز
عدالتی عہدیداروں نے رسمی کارروائیوں کے بعد شہری کو 2 کروڑ 8 لاکھ روپے سے زائد کا چیک ادا کیا—فائل فوٹو: وکی میڈیا کومنز

کراچی کے 86 سالہ شہری محمد سرور اپنے بیٹے کی دوران حراست موت میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف فوجداری کارروائی میں مقدمہ ہارنے کے بعد 3 دہائیوں پر محیط قانونی جنگ جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عمر رسیدہ شخص کو اپنے 24 سالہ بیٹے کی دوران حراست موت کے تقریباً 32 برس بعد معاوضے کا چیک وصول کرنے کے لیے ایک وین میں سندھ ہائی کورٹ کے احاطے میں لایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمری میں سزائے موت پانے والا قیدی 21 سال بعد رہا

محمد سرور کو انصاف کے حصول کے لیے 1990 سے کئی دروازے کھٹکھٹانے پڑے، وہ کہتے ہیں کہ انھیں 30 برس سے زائد عرصے کے بعد بالآخر کچھ سکون ملا ہے کیونکہ قانون بالآخر اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا، تاہم ان کا ماننا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ انصاف کبھی نہیں ہوتا جو اپنے پیارے کو کھو دیتے ہیں۔

کئی برس قبل فالج کا دورہ پڑنے کے بعد مفلوج ہونے والے محمد سرور ایس ایچ سی نذیر کے دفتر کے باہر کھڑی وین میں بیٹھے رہے، عدالتی عہدیداروں نے رسمی کارروائیاں پوری کرنے کے بعد انہیں 2 کروڑ 8 لاکھ روپے سے زائد کا چیک ادا کیا۔

محمد سرور کے وکیل کا خیال ہے کہ ملکی تاریخ میں یہ دوران حراست موت کے مقدمے کا پہلا کیس تھا جس کا اب ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا ہے۔

اگرچہ تمام پولیس اہلکاروں کو فوجداری کارروائی کے دوران بری کر دیا گیا تھا تاہم محمد سرور نے 1991 میں سندھ ہائی کورٹ میں ہرجانے اور معاوضے کے لیے دیوانی مقدمہ دائر کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’15 سال‘ کی عمر میں قتل، مجرم کو پھانسی

مقدمہ کا فیصلہ 2017 میں ہوا تھا، سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ مدعی کو رقم ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مقدمہ قائم کرنے کی تاریخ سے رقم کی وصولی تک 10 فیصد مارک اپ ادا کیا جائے، بعدازاں مدعی نے 2018 میں ملزمان کی پھانسی کی درخواست دائر کی تاہم صوبائی حکام نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جسے رواں سال اپریل میں خارج کر دیا گیا۔

بعدازاں عدالت نے معاوضے کی ادائیگی کے لیے صوبائی حکومت کو بار بار ہدایات جاری کیں تاہم صوبائی حکومت نے رقم سندھ ہائی کورٹ کے نذیر کے پاس جمع نہیں کرائی۔

لہٰذا عدالت نے حکم نامے کے مطابق مارک اپ کے ساتھ مطلوبہ رقم سرکاری اکاؤنٹ سے منسلک کرکے ادا کرنے کا حکم دیا، بعدازاں اسٹیٹ بینک نے سندھ حکومت کے اکاؤنٹ سے منسلک کرکے 2 کروڑ 8 لاکھ 65 ہزار 294 روپے کی رقم سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرادی۔

بیرسٹر ناصر مقصود کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ میں مدعی کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ فرخ عثمان کہا کہ یہ برصغیر کی عدالتی تاریخ کا ایک منفرد فیصلہ ہے جس میں ہائی کورٹ نے دوران حراست موت کے مقدمے میں معاوضے کے کیس کی اجازت دی۔

یہ بھی پڑھیں: 'ذہنی بیمار' شخص کی سزائے موت پر عمل روکنے کا حکم

صوبائی حکومت کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں مبینہ طور پر دائر کی گئی اپیل کے بارے میں سوال پر ایڈووکیٹ فرخ عثمان نے کہا کہ انہیں اس کا علم نہیں اور ابھی تک اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کی جانب سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

اپریل 1990 میں اس وقت کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے ایس ایس پی سمیع اللہ خان مروت، انسپیکٹر چوہدری محمد لطیف، اے ایس آئی الطاف حسین سمیت دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف محمد شکیل کو جوڑیا بازار سے گرفتار کرنے، دوران حراست تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا۔

عدالتی انکوائری میں پتہ چلا کہ سی آئی اے حکام/ مدعا علیہان نے جھوٹے شواہد گھڑ کر اپنے مجرمانہ فعل کو چھپانے کی کوششیں کیں، جھوٹی انکوائری رپورٹیں تیار کیں اور متعلقہ حکام کے سامنے جھوٹا بیان دیا، تاہم پولیس اہلکاروں کو اس حقیقت کے باوجود بری کر دیا گیا، مقدمے کی کارروائی کے دوران سی آئی اے کے زیادہ تر اہلکار/ مدعا علیہان وفات پاگئے۔

محمد سرور نے 1991 میں سندھ ہائی کورٹ میں ہرجانے اور معاوضے کا مقدمہ دائر کیا تھا جو تقریباً 26 برس تک زیر التوا رہا۔

مزید پڑھیں: عمر قید کا ملزم 11سال جیل کاٹنے کے بعد بےگناہ قرار

جون 2017 میں جسٹس محمد فیصل کمال عالم کی سربراہی میں سنگل جج بینچ نے مدعا علیہان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سنایا تھا اور کہا تھا کہ مدعی کے بیٹے کی دوران حراست موت اب ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے اور یہ درحقیقت متعلقہ پولیس حکام کی جانب سے ایک سنگین غلط فعل ہے، لہٰذا یہ ’فیٹل ایکسیڈنٹ ایکٹ 1855‘ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’مقدمہ کی منفرد نوعیت، مدعا علیہان کا ضروت سے زیادہ طاقت کا استعمال، ریکارڈ پر آنے والے حتمی شواہد اور مدعا علیہان [حکومت سندھ، آئی جی ، ڈی آئی جی] کے مطمئن رویہ کو دیکھتے ہوئے،

میں یہ مشاہدہ کرتا ہوں کہ حکومت سندھ اور آئی جی ، ڈی آئی جی کو خاص طور پر ایک باضابطہ تشکیل شدہ جوڈیشل انکوائری کے نتائج کے بعد اس افسوسناک واقعے کے بارے میں علم ہو گیا، لہٰذا صوبائی حکومت اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کے سینیئر عہدیدار ہونے کے ناطے انہیں بہت پہلے لواحقین کو معاوضہ ادا کر دینا چاہیے تھا۔

شواہد میں مدعی نے سرکاری عہدیداروں کے ساتھ معاملات کے دوران اپنی بے بسی اور تکلیف دہ تجربے کے بارے میں بھی گواہی دی اور اس طرح کے وحشیانہ فعل کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے اسے دربدر بھاگنا پڑا لیکن وہ کبھی کامیاب نہ ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں