نور مقدم کیس میں سیکیورٹی گارڈ کا کیا کردار تھا، فیصلہ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر کریں گے، عدالت

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2022
سیشن عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی گارڈ محمد افتخار اور مالی جان محمد کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی — فائل فوٹو
سیشن عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی گارڈ محمد افتخار اور مالی جان محمد کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی — فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر سے کہا ہے کہ وہ عدالت میں سی سی ٹی وی فوٹیج چلائیں تاکہ اس تمام واقعے میں سیکیورٹی گارڈ کے کردار کا تعین کیا جاسکے جس نے نور مقدم کو گھر سے باہر جانے سے روکا تھا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 24 فروری کو سیشن عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی گارڈ محمد افتخار اور مالی جان محمد کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اسحٰق خان نے سزاؤں کے خلاف ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کی۔

افتخار کی نمائندگی کرنے والے وکیل ایڈووکیٹ راجا شفاعت نے عدالت میں جرح کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی گارڈ ہونے کے ناطے ان کے مؤکل کا گھر کے اندر پیش آنے والے واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، پراسیکیوشن نے مذکورہ قتل میں افتخار کی بدنیتی کو ثابت نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک گھریلو ملازم ہونے کے ناطے وہ ظاہر جعفر کو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، نور مقدم دراصل ظاہر کی دوست تھیں اور اکثر وہاں آتی رہتی تھیں اس لیے انہیں لگا یہ کوئی معمول کا جھگڑا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے افتخار پر خصوصی طور پر عائد الزامات کے حوالے سے دریافت کیا، عدالت کو بتایا گیا کہ 19 جولائی 2021 کو نور مقدم اپنی مرضی سے ظاہر جعفر کے گھر آئیں، جھگڑے کے بعد انہوں نے جان بچانے کے لیے گھر سے باہر جانے کی کوشش کی لیکن چوکیدار نے انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی، اس کے نتیجے میں ظاہر ان کو دبوچنے اور پھر زبردستی اپنے کمرے میں لے جانے میں کامیاب رہا۔

اس کے بعد انہوں نے 20 جولائی کو گھر کی پہلی منزل پر واقع باتھ کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جان بچانے کی کوشش کی اور اپنا موبائل ہاتھ میں تھامے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن افتخار اور جان محمد نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا، ایک مرتبہ پھر ظاہر انہیں زبردستی اپنے کمرے میں لے گیا۔

ٹرائل کورٹ جج نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ دونوں گھریلو ملازمین نور مقدم کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتا دیکھتے رہے لیکن انہوں نے اس کے باوجود پولیس کو مطلع نہ کیا۔

اس پر وکیل نے کہا کہ افتخار نے نور مقدم اور ظاہر کے درمیان جھگڑے سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور انہیں روکنے کے بجائے وہ گھر کے زیر زمین حصے میں چلے گئے تھے۔

جسٹس عامر فاروق نے وکیل سے استفسار کیا کہ جب ظاہر نے نور کو کمرے میں یرغمال بنا کر رکھا ہوا تھا تو افتخار نے انہیں آزاد کرانے کی کوئی کوشش کیوں نہ کی، اس پر وکیل نے جواب دیا کہ 19 جولائی کی رات نور مقدم اور ظاہر دونوں رات گئے گھر سے باہر گئے تھے جس سے انہیں یہ تاثر ملا کہ دونوں کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے ہیں۔

عدالت نے اس کے بعد واقعے کی ٹائم لائن دریافت کی اور مشاہدہ کیا کہ دونوں کے درمیان دوستانہ مراسم وقت کے ساتھ ساتھ متاثر ہوتے رہے اور اس وقت ابتر شکل اختیار کر گئے جب نور مقدم نے عمارت کی پہلی منزل سے چھلانگ لگا کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن ان کی اس کوشش کو سیکیورٹی گارڈ اور مالی نے ناکام بنا دیا۔

ادھر سزا یافتہ مجرم کے وکیل اس بات پر مصر ہیں کہ دونوں کے درمیان تعلقات نارمل ہو گئے تھے کیونکہ دونوں اکٹھے گھر سے باہر گئے تھے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر سیکیورٹی گارڈ کے کردار کا تعین کرے گی۔

انہوں نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی کہ مقدمے کی جرح کے دوران واقعے کی فوٹیج چلانے کے انتظامات کریں اور واقعے کی مزید سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں