Dawnnews Television Logo

اگر کبھی میری یاد آئے۔۔۔ امجد اسلام امجدؔ بھی جدا ہوئے

امجد صاحب، ہم سب آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور اسی طرح کرتے رہیں گے جیسا کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کو بطور شاعر یاد رکھا جائے۔
شائع 11 فروری 2023 03:31pm

پاکستان ٹیلی وژن سے 1970ء کی دہائی کے آخری برس میں نشر ہونے والا ڈراما ’وارث‘ ہو یا 1990ء کی دہائی میں خواب دیکھنے والی نوجوان نسل میں مقبول ہوتی شاعری، یا پھر انہی برسوں میں گلوکاروں کی ایک پوری صف ہو، جنہوں نے اس شاعر کے کلام کو اپنی آواز کا لباس پہنایا تھا۔

یہ خوش نصیب اور اپنی زندگی میں خراج وصول کرنے والا ایک ہی شاعر تھا، جن کا نام امجد اسلام امجد ہے۔ وہ ایک ڈراما نگار، شاعر، ناقد، گیت نگار، مدرس، کالم نویس اور بہت عمدہ شخصیت بھی تھے، جن کی رحلت نے ہمیں اداس کر دیا ہے۔

امجد اسلام امجد ایک ایسے شخص تھے جن کو زمانے نے ہمیشہ مسکراتے ہنستے اور قہقہے لگاتے ہوئے ہی دیکھا۔ وہ محفلوں میں ہوتے تو محفل کی جان ہوتے، دوستوں میں بیٹھتے تو لطیفے سناتے، زندگی سے خوشی کو کشید کرتے، مداحوں کے درمیان گھرے ہوتے تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان پر محبت نچھاور کرتے۔ ان سے مل کر کبھی یہ احساس نہ ہوتا کہ ان کے درمیان کسی طرح کی کوئی اجنبیت حائل ہے۔ وہ ہمیشہ ایک خوشگوار مسکان کے ساتھ ملاقات کیا کرتے۔ یہ خوبیاں ان کے تخلیقی پہلوؤں سے کہیں زیادہ شاندار تھیں جس کی وجہ سے ہر طبقہ فکر کا فرد ان سے اپنائیت محسوس کرتا تھا۔


زندگی کے ذاتی پہلو


امجد اسلام امجد کی تاریخ پیدائش 4 اگست 1944ء ہے جبکہ ان کی وفات 10 فروری 2023ء کو ہوئی۔ ان کی جنم بھومی لاہور ہے جس کو ہم ان کی شخصیت میں رچا بسا دیکھ سکتے تھے، البتہ ان کے خاندان کا تعلق سیالکوٹ سے تھا جس نے لاہور میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کے والد کا نام محمد اسلام تھا۔ امجد اسلام امجد جب نویں جماعت میں تھے تو آپ کو اسکول کے رسالے کا مدیر بھی منتخب کیا گیا۔ ان کو ہمیشہ سے لکھنا پڑھنا اچھا لگتا تھا۔

دور طالب علمی میں ہی ان کوکرکٹ سے بھی بے پناہ شغف ہوا۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ پیشہ ورانہ طور پر کرکٹ کے شعبے کو اپنا سکیں لیکن یہ ہونہ سکا کیونکہ ان کو کالج میں وظیفہ ملا جس کی بنیاد پر ان کا داخلہ اورینٹیل کالج میں ہوگیا اور وہیں سے انہوں نے اردو میں امتیازی نمبروں سے ماسٹرز کیا اور پھر اپنی پوری توجہ اردو شعر و ادب کی طرف مرکوز کردی۔

انہوں نے زمانہ طالب علمی ہی میں جب ریڈیو پاکستان سننا شروع کیا اور خاص طور پر وہاں سے جو ریڈیائی ڈرامے نشر ہوتے تھے، ان کو سن کر انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بھی ڈرامے لکھ سکتے ہیں۔ یہ ان کی ڈرامے کی صنف میں دلچسپی کی پہلی سیڑھی تھی جس کو وہ رفتہ رفتہ چڑھتے ہوئے شہرت کی بلندی تک جاپہنچے۔

شاعری ان کے لیے اظہار کاسب سے بہترین وسیلہ تھا۔ انہوں نے جامعہ پنجاب کے دنوں میں اس اظہار کو اپنا لیا تھا اور کالج کے میگزین میں ان کے لکھے ہوئے ڈرامے اشاعت پذیر ہوئے اور انہی دنوں میں ان کی نظمیں اورغزلیں بھی تخلیق پانے لگیں۔ ان کی شادی 23 مارچ 1975ء کو ہوئی۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، بڑی بیٹی معروف مزاح گو شاعر انور مسعود کی بہو بھی ہیں۔


پیشہ ورانہ حیات کے چند اوراق


پی ٹی وی کا ایک سنہری دور گزرا ہے، اس دور میں جب وہاں سے کوئی ڈراما نشر ہوتا تو گلیوں میں سناٹا ہو جایا کرتا تھا۔ وہ ڈرامے جن کی وجہ سے پاکستان کی سڑکیں سنسان ہوجایا کرتی تھیں، ان میں سے ہی ایک ڈراما ’وارث‘ تھا، جس کو لکھنے سے پہلے امجد صاحب کو لگتا تھا کہ شاید بطور ڈراما نگار ان کو کامیابی نہ ملے کیونکہ وہ 1970ء کی دہائی میں کئی ڈرامے لکھ چکے تھے، جن میں ’برزخ‘ جیسا ڈراما بھی شامل ہے مگر انہیں توجہ نہ ملی۔

ساحرہ کاظمی ان کو پاکستان ٹیلی وژن پر لائی تھیں مگر وہ کئی برسوں تک باوجود کوشش کے کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ پھر 1979ء میں ان کا لکھا ہوا ڈراما ’وارث‘ نشر ہوا اور ان کی زندگی کا پورا منظرنامہ بدل گیا، اس کے بعد وہ گمنام نہ رہے۔

یہ الگ بات ہے کہ امجد صاحب کہتے تھے کہ ’میں تاریخ کے اوراق میں بطور شاعر زندہ رہنا چاہتا ہوں، میری شہرت ڈرامانگاری سے زیادہ ہوئی، مگر میں ایک شاعر کے طور پر یاد رہنا چاہتا ہوں کیونکہ شاعری اصل اور خالص ہے، جو میرے اندر سے نمودار ہوتی ہے، مجھے بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ میں شاعری کیسے لکھ لیتا ہوں، یہ خود وارد ہوتی ہے، اس میں کوشش کا عمل دخل نہیں ہوتا اور یہی شاعری پھر احساسات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کے کتھارسز کا باعث بھی بنتی ہے‘۔

امجد اسلام امجد نے پیشہ ورانہ زندگی کی باقاعدہ ابتدا تدریس سے کی، ایم اے اوکالج لاہور سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ رہے۔ اس وابستگی کے کئی ادوار ہیں جن میں 1968ء سے لے کر 1997ء تک دو مختلف ادوار ہیں۔ آپ 1975ء سے 1979ء تک پنجاب کونسل آف آرٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈراما اینڈ لٹریچر بھی رہے اور 1997ء سے 1999ء تک ڈائریکٹر جنرل سائنس بورڈ بھی رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے پروجیکٹ ڈائریکٹر ، چلڈرن لائبریری کمپلیکس کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔

آپ مختلف ادبی و ثقافتی اداروں اور جامعات میں بھی فعال رہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ شاعری کا سلسلہ بھی جاری رکھا، اپنی تمام تخلیقی اصناف میں یہ صنف ان کو مرغوب تھی۔ وہ اس سے تادم مرگ جڑے رہے کیونکہ ’دیوان غالب‘ وہ کتاب تھی، جس کو انہوں نے اپنی شعری زندگی کے منظرنامے میں ہمیشہ اولین ترجیح دی اور غالب کو اپنا آدرش مانا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق امجد اسلام امجد نے 60 یا 70 سے زیادہ کتابیں لکھیں یا مرتب کیں جو سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سمیت دیگر ناشرین نے شائع کیں۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعے اور ڈرامے اشاعت پذیر ہوئے اور انہوں نے سفرنامے بھی لکھے۔ وہ اپنے کالموں میں بھی ان تجربات کا تفصیلی ذکر کرتے تھے۔ ان کے کالم بھی اگر کتابی صورت میں شائع ہو جائیں تو ان کی کتابوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوجائے گی۔ ان کی اپنی فنی اور شعری زندگی پر کئی کتابیں لکھی گئیں، اس تناظر میں 2018ء میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کی کتاب ’امجد فہمی‘ ایک اہم حوالہ ہے۔ اس سے ان کی زندگی اور فن کے گوشوں کو مفصل طور سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے گیتوں کی تعداد بھی 150 سے زائد ہے، جو انہوں نے ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلموں کے لیے لکھے یا پھر جو مختلف گلوکاروں نے گائے۔ ان گلوکاروں میں میڈم نورجہاں، ناہید اختر، نصرت فتح علی خان، مہناز، جگجیت سنگھ، راحت فتح علی خان، عدنان سمیع خان اور ابرار الحق سمیت دیگر شامل ہیں۔


راحت فتح علی خان کا کیریئر اور امجد اسلام امجد


کئی لوگوں کو شاید یہ بات معلوم نہ ہوکہ جب راحت فتح علی خان نے اپنے استاد اور تایا استاد نصرت فتح علی خان کی رحلت کے بعد قوالی میں اپنا نام بنانے کی کوشش کی تو ابتدا میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نہ ملی، پھر انہوں نے پلے بیک سنگر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کو جمانے کی کوششیں کیں۔ اس موقع پر ان کے جو چند گیت سامعین کو متوجہ کرنے کا باعث بنے ان میں سے ہی ایک ’میں نے اسے دیکھا ہے‘ تھا جس نے ان کی ابتدائی شہرت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس گیت کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جس کو امجداسلام امجد نے لکھا تھا۔

یہ گیت ان کی البم ’کسی روز ملو ہمیں شام ڈھلے‘ میں شامل تھا۔ اس گیت کو پہلی مرتبہ ایک بھارتی فلم ’عشق قیامت‘ میں شامل کیا گیا جو 2004ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ گیت دراصل بولی وڈ میں راحت فتح علی خان کا تعارف بنا اور اس کے بعد ان کو اگلے ہی سال 2005ء میں، مہیش بھٹ کی فلم ’کلیوگ‘ میں اپنی آواز جگانے کاموقع ملا، یوں وہ ’جیا دھڑک دھڑک جائے‘ سے ہندوستان اور پاکستان بھر میں مقبول ہوگئے۔


امجد اسلام امجد کے لکھے ہوئے چند مقبول ترین گیت


راحت فتح علی خان کے کیریئر کی ابتدائی البم کے گیت ہوں یا ابرار الحق کی پہلی البم کے نغمے، امجد اسلام امجد نے انہیں لکھ کر امر کیا۔ ابرار الحق کی پہلی البم میں شامل امجد اسلام امجد کی نظم ’اگر کبھی میری یاد آئے‘ ایک دلفریب یاد ہے۔ انہوں نے ہی ان کے دیگر کلام ’محبت ایسا دریا ہے‘ اور ’تیرے رنگ رنگ‘ کو بھی گایا اور خوب شہرت سمیٹی۔ استاد نصرت فتح علی خان نے ’بھیڑ میں اک اجنبی کا ساتھ اچھا لگا‘ گایا تو کمال کردیا۔ اسی طرح ایک ماہیا ’میں اس کی باندی ہوں‘ بھی ان کا گایا ہوا ایک یادگار کلام ہے۔

اسی طرح نصرت کی آواز میں ’اُسے بھول جا‘ کو کون بھول سکتا ہے، ایک ایسا کلام اور دھن جس کی وجہ سے دونوں موسیقی اور شاعری کی تاریخ میں زندہ رہیں گے۔ میڈم نور جہاں کی آواز میں ’میں تیرے سنگ کیسے چلوں‘ کی ٹھنڈک آج بھی سامعین محسوس کرتے ہیں۔ عدنان سمیع خان کی آواز میں ’اے خدا‘ اور دیگر گلوکاروں کی آواز میں سیکڑوں گیت امجد اسلام امجد کو ہمارے دلوں میں زندہ رکھیں گے۔


ایک خصوصی مکالمے کی جھلکیاں


ایک صحافی کے طور پر میری ان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ وہ ہربار جس گرم جوشی سے ملتے، اسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ لاہور میں ان کے گھر پر ہونے والی ملاقاتیں ہوں یا پھر کراچی میں ان کی آمد پر ملاقاتوں کا سلسلہ، سب میری حسین یادوں کا حصہ ہے۔

ایک بار کراچی میں وہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے زیرِاہتمام تقریب کے لیے تشریف لائے۔ میں اپنے پسندیدہ ادیب اور ادبی استاد مظہر الاسلام کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ اس وقت مظہر صاحب اس ادارے کے سربراہ تھے اور انہوں نے امجد صاحب کو مدعو کیا تھا۔ تقریب شروع ہونے میں کافی وقت تھا اور اس موقع پر ہم تینوں گفتگو کر رہے تھے تو انہوں نے مظہر صاحب سے اپنی کتاب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ’آپ کا ادارہ یہ کتاب شائع کرسکتا ہے کیونکہ وہ ایک اچھی کتاب ہے اور اس کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ خاصی ضخیم ہے، اگر آپ کسی کے سر پر مارنا چاہیں تو نتیجہ مایوس کن نہیں ہوگا۔‘

اس طرح کی خوشگوار رفاقت کی یادیں آج بھی ان کے عمدہ شخص ہونے کا ثبوت ہیں۔ راقم نے ان سے ایک تفصیلی اور خصوصی گفتگو کی تھی، جو میری کتاب ’سُرمایا‘ میں شامل ہے۔ اس مکالمے کی بازگشت آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے۔ اس کتاب کی اشاعت 2011ء میں ہوئی تھی۔

اس مکالمے میں جب میں نے امجد صاحب سے پوچھا کہ آپ کی غزلیں اور نظمیں تو اپنے اندر دکھ سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں لیکن آپ خود تو بہت زندہ دل ہیں، یہ کیا راز ہے؟ اس کے جواب میں مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ ’ہمیں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ میں اگر ادیب اور شاعر ہوں توکیا منہ بنا کر بیٹھا رہوں، اگر میں کچھ تخلیق کررہا ہوں توکسی پر احسان تھوڑی کیاہے، اصل میں یہ گرمجوشی میرے اندر موجود اسپورٹس مین شپ ہے۔ میں نے زندگی میں کھیل کو اہمیت دی، خاص طورپر کرکٹ کو، کھیل سے میں نے ہارنا اور جیتنا سیکھا۔ کوئی بھی کھیل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ خود کو چاق و چوبند کیسے رکھا جائے۔ شکست کیسے تسلیم کی جاتی ہے اور فتح کا جذبہ کیا ہوتا ہے، یہ ہر کھیل ہمیں سکھاتا ہے‘۔

اس موقع پر میں نے ان سے پوچھا کہ نجی محفلوں میں آپ جو لطیفے سناتے ہیں وہ بہت مشہور ہیں، کیا کبھی ان لطیفوں کی کوئی کتاب آئے گی؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ہمارا معاشرہ برداشت کرنے کے معاملے میں صفر ہے۔ ہم جب تک خود پر ہنسنا نہیں سیکھیں گے دوسرے پر بھی نہیں ہنس سکتے۔ میں نے ایک دو مزاحیہ ڈرامے بھی لکھے جن میں سے ایک ڈراما ڈاکٹروں کے حوالے سے تھا اور اس پر کئی ڈاکٹر بُرا مان گئے اور کہنے لگے کہ آپ نے ہم پر طنز کیا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ طنز آپ پر نہیں طب کے حوالے سے ناقص نظام پر تھا۔ اس لیے میں نے مزاح کو زیادہ قلم بند نہیں کیا کیونکہ ہمارے لوگوں میں برداشت کا مادہ نہیں ہے‘۔

ان کے مشہور ڈرامے ’وارث‘ کو لکھنے کا خیال کیسے آیا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میں کم عمر تھا، ہر چیز کو ایسے دیکھتا تھا جیسے کولمبس نے امریکا کو دیکھا تھا۔ ہر شے مجھے حیران کرتی تھی، ایک کیفیت میں مبتلا ہوجایا کرتا تھا، یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ لڑکے اس عمر میں کبھی نمازی بن جاتے ہیں اور کبھی دہریے، اصل میں ان کے اندر موجود توانائی راستہ تلاش کررہی ہوتی ہے اور توانائی کا اصل محرک تلاش ہوتی ہے۔ میرے اندر بھی ایک تلاش کا سفر تھا۔ میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں جو کچھ دیکھا، معاشرتی طور پر جو کچھ محسوس کیا وہ سب کچھ اس ڈرامے میں انڈیل دیا‘۔

میں نے ایک اہم سوال کے بارے میں پوچھا کہ اپنے آپ سے کیا بات کرتے ہیں؟ اس کا جواب انہوں نے جو دیا وہ آج بہت زیادہ متعلق لگ رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’میری خواہش ہے کہ میں جب بھی اس دنیا سے جاؤں تو اگر میں اس دنیا کو اپنی کوشش سے دو انچ بھی آگے بڑھاسکا، اپنے کام سے، کوشش اور تخلیق سے، تو میں سمجھوں گا کہ یہ میری کامیابی تھی‘۔


امجد صاحب! آپ کو بطور شاعر یاد رکھا جائےگا


امجد صاحب، یقین جانیے، ہم سب آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور اسی طرح کرتے رہیں گے۔ جیسا کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کو بطور شاعر یاد رکھا جائے، ہم آپ کو ہمیشہ اسی کلیدی حوالے سے یاد رکھیں گے۔ آپ کے لفظوں کے سائے میں اپنے جذبات کو تسکین کی ٹھنڈک فراہم کیا کریں گے۔ ہم اپنے جذبات کے اظہار کے لیے، آپ کے لکھے حروف کو مشعل راہ بنایا کریں گے۔

امجد صاحب آپ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، ہماری دنیا کو بہت وسعت دی اور آگے بڑھایا ہے، ہمارے بچپن کے دن، جذبات کے دھارے آپ کی شاعری کے شکرگزار ہیں۔ ہم سے کوئی پوچھے گا کہ محبت کی زبان کیا ہوتی ہے، تو ہم آپ کی نظمیں، غزلیں اور گیت ان کے سامنے رکھ دیا کریں گے اور ہم آپ کی موجودگی کو ویسے ہی محسوس کریں گے، جس کے لیے آپ نے اپنی مشہور زمانہ نظم لکھتے ہوئے کہا تھا کہ۔۔۔

اگر کبھی میری یاد آئے

تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں

کسی ستارے کو دیکھ لینا

اگر وہ نخلِ فلک سے اڑ کر

تمہارے قدموں میں آگرے

تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا

اگر نہ آئے

مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے

کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو

تو اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے

وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے

اگر کبھی میری یاد آئے

گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا

میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا

مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا

میں اوس کے قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا

اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں، خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو

تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی ہوئی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا

کہیں پہ روشن چراغ دیکھو

تو جان لینا کہ ہرپتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں

تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا

میں خاک بن کر سمندوں میں سفر کروں گا

کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ

رک کے تم کو صدائیں دوں گا

سمندوں کے سفر پر نکلو

تو اس جزیرے پر بھی اترنا


بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔