’انڈیا، بھارت یا ہندوستان؟‘ کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا
شعر ’رگھوپتی سہائے‘ کا ہے جنہیں دنیائے ادب ’فراق گورکھپوری‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ شعر جس رعایت سے یاد آیا اس کا تعلق گزشتہ دنوں پڑوسی ملک ’انڈیا‘ میں جاری رہنے والی اُس بحث سے ہے جس میں ملک کا موجودہ نام بدل کر ’بھارت‘ رکھنے کی بات کی جارہی تھی۔
اس قضیے میں ہماری دلچسپی ’انڈیا اور بھارت‘ کے لفظی معنی کے علاوہ ’ہندوستان‘ سے بھی ہے کہ یہ بھی مذکورہ ناموں کے متوازی استعمال ہوتا ہے۔
یوں تو نام کی تبدیلی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ دنیا میں کئی شہر اور ملک ایسے ہیں جو ماضی میں کسی اور نام سے پکارے جاتے تھے اور آج کسی اور نام سے جانے جاتے ہیں۔ مثلاً آج کا ’میانمار‘ ابھی کل تک ’برما‘ پکارا جاتا تھا اور جسے ہم سری لنکا کے نام سے جانتے ہیں وہ 1972ء تک ’سیلون‘ کہلاتا تھا جبکہ قدیم تذکرہ نگاروں کے ہاں سیلون کا نام ’سراندیپ‘ ملتا ہے۔
اگر شہروں کی بات کریں تو چین کا شہر ’بیجنگ‘ کبھی ’پیکنگ‘ تھا جبکہ ہمارا فیصل آباد کبھی ’لائل پور‘ تھا اور ساہیوال کو ’منٹگمری‘ کہا جاتا تھا۔
زمانہ قدیم ہی سے قریوں، شہروں اور ملکوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ میں اساطیری، جغرافیائی، تاریخی، شخصی یا قبائلی نسبت، مظاہر فطرت کی رعایت اور سیاسی عوامل کی اثر پذیری کارفرما رہی ہے۔
بغداد اور بعلبک
اساطیری عوامل کی مثال عراق کا قدیم شہر ’بغداد‘ اور لبنان کا تاریخی شہر ’بعلبک‘ ہے۔ اول الذکر نام لفظ ’بَغ‘ اور ’داد‘ سے مرکب ہے اور معنی ہیں ’بَغ دیوتا کا عطیہ‘۔ چونکہ اس نام کو ایک بُت سے نسبت تھی چنانچہ بنوعباس کے دور خلافت میں ’بغداد‘ کو ’مدینۃ السلام‘ پکارا گیا اور اس نام نے سرکاری دستاویزات اور سکّوں پر جگہ پائی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تبدیل شدہ نام تاریخ کے اوراق ہی میں لکھا رہ گیا، دنیا آج بھی اس تاریخی شہر کو ’بغداد‘ کے نام سے جانتی ہے۔ دیکھیں راحت اندوری کیا کہہ گئے ہیں،
لبنانی ’بعلبک‘ کا نام بھی دو لفظوں کا مرکب ہے، پہلا لفظ ’بعل‘ ہے جو ’سورج دیوتا‘ کا نام ہے، جبکہ جُز ثانی ’بَک‘ کے معنی شہر کے ہیں۔ یوں ’بعلبک‘ کا مطلب ہوا ’بعل کا شہر‘۔
’یمن و شام‘ جغرافیائی نام
اگر شہروں یا ملکوں کے ناموں میں جغرافیائی کردار کے دخل کی بات کریں تو بلامبالغہ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ یہ نام سَمتوں کے تعلق اور نشیب و فراز کی نسبت سے تشکیل پائے ہیں۔ اس کی ایک خوبصورت مثال سرزمین عرب ہے۔
اگر آپ جزیرۃ العرب میں اس طرح کھڑے ہوں کہ آپ کا رُخ مشرق کی جانب ہو تو آپ کے دائیں جانب جو خطہ ہوگا وہ ’یمن‘ کہلاتا ہے اور بائیں جانب کا علاقہ ’شام‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’یمن‘ کے لفظی معنی ’دائیں‘ اور ’شام‘ کے معنی ’بائیں‘ کے ہیں یوں ان دونوں خطوں کا نام ان کی جغرافیائی وقوع کی عطا ہے۔
نجد، حجاز اور تہامہ
خاص عرب کے تعلق سے علاقہ نجد، تہامہ اور حجاز کے ناموں پر غور کریں تو بات اور آسان ہو جاتی ہے، اس لیے کہ ’نجد‘ کے معنی ’بلندی‘ اور ’تہامہ‘ کے معنی نشیب کے ہیں۔ ان دونوں خطوں کے یہ نام طبعی نشیب و فراز کے مطابق ہیں۔ پھر ان دونوں علاقوں کے درمیان جو علاقہ آڑ کا کردار ادا کرتا ہے وہ ’حجاز‘ کہلاتا ہے اور ’حجاز‘ کے معنی ہی ’آڑ، روک اور فاصل‘ کے ہیں۔
’آسٹریلیا‘ جنوبی زمین
نیز شمالی کوریا اور جنوبی کوریا، مشرقی بنگال (موجودہ بنگلا دیش) اور مغربی بنگال سمیت متعدد مثالیں ہیں جو بہت سے خطوں کا جغرافیائی وقوع واضح کرتی ہیں۔ جبکہ ’آسٹریلیا‘ کا مطلب ہی ’جنوبی زمین‘ ہے۔
مختلف اقوام سے منسوب خطے
دنیا میں ممالک اور علاقوں کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جن کے نام وہاں آباد اقوام کی نسبت سے تشکیل پائے ہیں۔ مثلاً افغانستان (افغانوں کی سرزمین)، ایران (آریاؤں کی سرزمین)، منگولیا (سرزمین منگول)، انگلینڈ (انگلش قوم کا ملک)، پولینڈ (پولش قوم کا ملک) وغیرہ۔
دنیا میں بعض خطوں کے نام کسی نہ کسی شخص کی نسبت سے رکھے گئے ہیں۔ مثلاً امریکا کو ’امریگو وسپوچی‘ کے نام سے نسبت ہے تو کولمبیا کو ’کولمبس‘ کے تعلق سے یہ نام ملا ہے۔ خود پاکستان میں حیدرآباد، فیصل آباد، رحیم یار خان، ڈیرہ اسمعٰیل خان اور ڈیرہ غازی خان وغیرہ مختلف اشخاص کے ناموں سے نسبت رکھتے ہیں۔
ترکی سے تُرکیہ کیوں ہوا؟
تبدیلی نام کی ایک مثال ’تُرکیہ‘ ہے جو کچھ عرصہ قبل تک ’تُرکی‘ کہلاتا تھا۔ نام کی اس تبدیلی میں سیاسی سے زیادہ نفسیاتی عوامل کار فرما ہیں۔ کہنے کو تو ’تُرکی‘ کو تُرک قوم سے نسبت ہے۔ مگر جب اس تُرکی کو انگریزی میں ’Turkey/ٹرکی‘ لکھا اور پکارا جاتا ہے تو اس میں استہزاء اور تحقیر کا پہلو نکلتا تھا۔
استہزا کا پہلو یہ کہ ’Turkey / ٹرکی‘ ایک معروف پرندہ بھی ہے جو امریکا میں تھینکس گیونگ ڈے کے موقع پر بڑے اہتمام سے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ ( اس بڑے اور فربہ پرندے کو عربی میں ’الديك الرومی‘ اور ’الدَّجَاجُ الرُّومِی‘، فارسی میں ’بوقلمون‘ اور ’فیل مرغ‘ جبکہ اردو میں ’تُرکی مرغی‘ کہتے ہیں)۔
جہاں تک تحقیر کی بات ہے تو انگریزی ڈکشنریز لفظ ’Turkey‘ کے ضمن میں جو معنی بیان کرتی ہیں ان میں ’احمق اور بے وقوف شخص‘ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ’Turkey‘ سے مرکب کئی تراکیب ایسی ہیں جن میں ذَم یا ہجو کا پہلو پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان معنی و مفاہیم میں یورپ کے خبث باطن کا بھی دخل ہے کہ ایک عہد میں یورپ کا وسیع علاقہ عثمانی ترکوں کے زیرِ اثر تھا۔
چونکہ ’Turkey‘ کے یہ مفاہیم ترکوں کے وقار کے خلاف تھے، چنانچہ سال 2021ء میں تُرک قیادت نے اقوام متحدہ میں باقاعدہ درخواست دی کہ اُن کے وطن کا نام تمام دستاویزی کارروائیوں میں ’Turkey / ٹرکی‘ کے بجائے ’Türkiye/تُرکیہ‘ درج کیا جائے۔
اس درخواست کے جواب میں گزشتہ سال 2022ء اقوام متحدہ نے باقاعدہ آگاہ کیا کہ تُرکی کا تبدیل شدہ نام ’تُرکیہ‘ فوراً نافذ العمل ہوگیا ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کو اس تبدیل شدہ نام کے باب میں ’زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم‘ کی سی صورتحال کا سامنا ہے، لہٰذا اس متبادل نام (Türkiye) کو کوئی ’تُرکیہ‘ لکھا رہا ہے تو کوئی ’تُرکیے‘ پکار رہا ہے۔ بہرحال اچھی بات یہ ہے کہ اسے ’تُرکی‘ کوئی نہیں کہہ رہا۔
مودی سرکار کا ’بھارت‘ پر اصرار کیوں؟
اب آتے ہیں اصل مدعا پر کہ مودی سرکار ملک کا نام ’بھارت‘ کیونکر رکھنا چاہتی ہے اور بی جے پی ’انڈیا‘ کے نام سے بیزاری کیوں دکھا رہی ہے۔
دنیا کی حالیہ تاریخ میں شاید بھارت واحد ملک ہے جہاں بہت کم مدت میں ریاستوں، شہروں اور قصبات کے نام سب سے زیادہ تبدیل کیے گئے ہیں۔ مدراس کا ’چنئی‘، بومبے کا ’ممبئی‘، کلکتہ کا ’کولکتہ‘ اور الٰہ آباد کا نام ’پریاگ راج‘ رکھا جانا تو سامنے ہی کی بات ہے۔ علاوہ ازیں 2007ء میں شمالی ریاست اُترانچل کا نام ’اُتراکھنڈ‘ ہوا تو 2011ء میں اُڑیسا کا نام ’اوڈیشا‘ کردیا گیا۔ صرف 2001ء سے 2020ء کے درمیان بھارت میں چھوٹے بڑے درجنوں علاقوں کے نام تبدیل ہوئے اور جب اس سب سے جی بھر گیا تو اب مودی سرکار کا اصرار ہے کہ ’انڈیا‘ کا نام بدل کر ’بھارت‘ رکھ دیا جائے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ناموں کی اس تبدیلی کے پیچھے کیا جذبہ کار فرما ہے اور دوم یہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ’انڈیا‘ کا نام ’بھارت‘ سے کیوں بدلنا چاہتی ہے؟
جہاں تک سوال کے پہلے جُز کا تعلق ہے تو اس کے لیے یہ جواز بتایا گیا ہے کہ نام بدلے نہیں جا رہے بلکہ گزرتے سمے میں جو نام بگڑ کر کچھ سے کچھ ہوگئے تھے ان کی اصلاح کی جارہی ہے مثلاً ’گُڑگاؤں‘ کی اصل ’گروگام‘ ہے سو اس کا درست نام بحال کردیا گیا ہے۔ یہی معاملہ ’کولکتہ‘ کا ہے جو انگریزوں اور انگریزی کی زیرِاثر ’کلکٹا/کلکتہ‘ ہوگیا تھا۔
اب اگر ناموں کی اصلاح کا یہ فارمولہ درست مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا کہ ’الٰہ آباد‘ کو کیونکر ’پریاگ راج‘ کا نام دیا گیا؟ کیوں اورنگزیب عالمگیر سے منسوب دکن کے مشہور شہر ’اورنگ آباد‘ کا نام بدل کر ’چھتر پتی سمبھاجی نگر‘ کردیا گیا اور کیوں سابقہ ریاست حیدرآباد دکن کے فرما روا سے منسوب شہر ’عثمان آباد‘ کا نام ’دھارا شیو‘ رکھا گیا؟
بات یہ ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد خاص طور پر بی جے پی کے عروج کے ساتھ انڈیا کا ’ہندو تشخص‘ بحال کرنے کے نام پر مسلمانوں سے منسوب بیشتر شہروں اور قریوں کے ناموں کو نشانہ بنایا گیا اور مختلف حیلوں بہانوں اور غلط تاریخی حوالوں کی بنیاد پر یہ نام تبدیل کردیے گئے۔ اوپر درج مثالوں کے علاوہ یوپی کے ضلع فیض آباد کا نام ’ایودھیا‘ اور ’مغل سرائے اسٹیشن‘ کا نام بدل کر ’پنڈت دین دیال اپادھیائے‘ رکھا جانا ایسی ہی بھونڈی کوششیں ہیں۔
انڈیا یعنی بھارت
خیر ذکر تھا ملک کا نام ’انڈیا‘ سے ’بھارت‘ رکھنے کا تو سچی بات یہ ہے کہ مودی سرکار اس بحث میں اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نیا نہیں کر رہی۔ وہ اس لیے کہ آزادی کے بعد تشکیل پانے والے انڈین آئین کے آغاز ہی میں یعنی آرٹیکل 1.1 میں واضح کردیا گیا تھا کہ India, that is Bharat, shall be a Union of States یعنیٰ انڈیا یعنی بھارت، ریاستوں کا اتحاد ہوگا۔
نیز یہ کہ ڈاکٹر امیبڈکر کی کوششوں سے تخلیق پانے والے اس آئین میں 900 سے زیادہ بار لفظ ’انڈیا‘ آیا ہے اور ہر بار یہ وضاحت کی گئی ہے کہ انڈیا سے مراد بھارت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر خود انڈین آئین میں ملک کا نام ’بھارت‘ موجود ہے تو پھر مودی سرکار یہ ناٹک کیوں رچا رہی ہے؟ تو عرض ہے کہ 2024ء بھارت میں الیکشن کا سال ہے۔ ایسے میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف 28 پارٹیوں پر مشتمل جو وسیع اتحاد بنا ہے اسے ’انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس‘ کا نام دیا گیا اور اس الائنس کا مخفف ’انڈیا‘ ہے۔ جبکہ اس اتحاد کا نعرہ ہے ’جُڑے گا بھارت جیتے گا انڈیا‘۔
کیا ’انڈیا‘ لفظ گالی ہے؟
اب ظاہر ہے کہ ایسی قوم جو دھرتی کو ماں کا درجہ دیتی اور وندے ماترم (ماں تجھے سلام) کا گیت گاتی ہو، اس قوم کی ’انڈیا‘ نام کے ساتھ جذباتی وابستگی ایک فطری امر ہے۔ اپوزیشن جذبات کی اسی لہر کو ایک نفسیاتی حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مگر بی جے پی بھی کائیاں پارٹی ہے، اس نے ہندوتوا کی آڑ میں ’بھارت‘ کو ملک کا حقیقی نام بتاتے ہوئے لفظ ’انڈیا‘ کو غلامی کی علامت کہنا شروع کردیا ہے۔ جبکہ بی جے پی کے ایک مہاشے نے تو لفظ ’انڈیا‘ کو گالی بھی قرار دے دیا ہے۔ اس مشق کا مقصد یہ ہے کہ جب لفظ ’انڈیا‘ ہی قابلِ نفرت بن جائے گا تو اپوزیشن ازخود قابل ملامت قرار پائے گی۔
تبدیلی نام کیخلاف ایک کمزور دلیل
اب یہ تو ظاہر ہے کہ مودی سرکار اپنے عوام کو بیوقوف بنا رہی ہے اور اس کی اس مشق کے نتیجے میں انڈیا ایک نئی بحث کی لپیٹ میں ہے۔ نام کی تبدیلی کے مخالفین ایک دلیل یہ دے رہے ہیں کہ ’انڈیا‘ قومی اداروں کے علاوہ سیکڑوں نجی اداروں کے نام کا جُز بھی ہے۔ پھر ملک کی کرنسی ہی نہیں تمام قانونی دستاویزات بھی ’انڈیا‘ کا نام لیے ہوئے ہیں، ایسے میں کیا یہ سب کچھ بھی تبدیل ہوگا؟
ہمارے مطابق اپوزیشن کا یہ اعتراض اس لیے لائق التفات نہیں کہ وہ ملک جن کے نام تبدیل ہوئے ہیں مثلاً ہولینڈ سے نیدرلینڈز، سیام سے تھائی لینڈ، جمہوریہ کمپوچیا سے کمبوڈیا یا اپروولٹا سے برکینا فاسو، یا وہ تمام ممالک جو مختلف وقتوں میں آزاد ہوئے ہیں، ان سب کو اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا تھا ایسے میں انہوں نے تمام اداروں اور سرکاری دستاویزات وغیرہ میں نئے نام کو رواج دیا اور تبدیلی نام کا یہ عمل ان ملکوں کے عوام ہی نہیں بلکہ دنیا نے بھی قبول کیا۔
اپوزیشن کے نزدیک اصل چیلنج بی جے پی کے جھوٹ کا پردہ چاک کرنا ہے کہ وہ آئین میں درج ’انڈیا یعنی بھارت‘ کی وضاحت کے باوجود اپنے لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے۔
ایک ملک دو نام
اس سے قبل کہ لفظ ’انڈیا، بھارت اور ہندوستان‘ کے لفظی معنی کی بات کی جائے ایک ضروری بات اور ذہن نشین کر لیں اور وہ یہ کہ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جو بیک وقت اپنے دو ناموں کے ساتھ کاروبار مملکت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مثلاً ’مصر‘ کو بیرونی دنیا بالخصوص مغرب ’Egypt / ایجپٹ‘ اور اردن کو ’Jordan/جورڈن‘ پکارتی ہے۔ پھر ان دونوں ممالک کی سرکاری دستاویزات پر بھی ان کے ہر دو نام درج ہوتے ہیں۔ نیز عرب مؤرخین کے یہاں جو خطہ ’بلاد الشّام‘ سے موسوم ہے اُس کا ایک حصہ آج بھی یونانی نام ’Syria/ سیریہ‘ کے ساتھ موجود ہے۔ واضح رہے کہ ’بلاد الشّام‘ کا وسیع خطہ آج کے شام یعنی سیریہ، اردن، لبنان، فلسطین اور اسرائیل پر مشتمل ہے۔
’جاپان‘ ابھرتے سورج کی سرزمین
اگر جاپان کی بات کریں تو اس ملک کا یہ نام بیرونی دنیا کی عطا ہے ورنہ جزائر پر مشتمل اس عظیم ملک کا سرکاری نام نیپون (Nippon) ہے جبکہ عوامی لہجے میں اسے نیہون (Nihon) کہا جاتا ہے۔ اور ان دونوں الفاظ کا مطلب ’ابھرتے سورج کی سرزمین‘ ہے، اس بات کا عکس اس ملک کے پرچم میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
چین، چائنا اور ’چونگ گوا‘
ایسے ہی جس ملک کو عرب ’الصین‘، ہم ’چین‘ اور یورپ ’چائنا‘ کہتا ہے وہ حقیقتاً ’Zhōngguó/چونگ گوا‘ ہے۔ مصر ہو یا اُردن، جاپان ہو یا چین، ان میں کسی ملک کو کوئی پریشانی نہیں کہ ہمارا نام تو یہ اور یہ ہے اور دنیا ہمیں فلاں اور فلاں نام سے کیوں پکار رہی ہے۔
’جمہوریہ بھارت‘
یوں تو بی جے پی قیادت اکثر اشاروں کنایوں میں اور کبھی ببانگ دہل ’انڈیا‘ کا نام ’بھارت‘ رکھنے کا شوشا چھوڑتی رہی ہے، تاہم حالیہ دنوں میں یہ بحث اس وقت تقویت پکڑ گئی جب بھارتی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا کہ مودی سرکار آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ملک کا نام صرف ’جمہوریہ بھارت‘ رکھنے جا رہی ہے۔ نیز انڈیا کی میزبانی میں ہونے والے جی 20 کے سربراہی اجلاس کے شرکا کے لیے انڈین صدر کی جانب سے عشائیہ کا جو دعوت نامہ جاری کیا گیا اس میں جلی طور پر The President of Bharat درج تھا۔
ناموں پر غور
یہاں یہ امر لائق توجہ ہے کہ ملک کا نام ’انڈیا‘ انگریزوں سے ملے ورثے کے طور پر آنکھ بند کرکے قبول نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کے لیے بھارتی دستور ساز اسمبلی میں باقاعدہ بحث ہوئی اور اس موقع پر چند ناموں اور ترکیبوں پر غور کیا گیا جیسا کہ بھارت، بھارت بھومی، بھارت ورش، انڈیا یعنی بھارت، اور بھارت یعنی انڈیا۔ اس غور و خوض کے بعد ہی ’انڈیا یعنی بھارت‘ پر اتفاق ہوا تھا۔
’انڈیا‘ کو ’ہندوستان‘ نہ کہا جائے
یہاں ایک دلچسپ بات کا تذکرہ ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ 2015ء میں بی جے پی کی قیادت میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ ملک کا نام ’انڈیا‘ ہے اور اسے ’ہندوستان‘ کے نام سے نہ پکارا جائے۔
بی جے پی کو ’ہندوستان‘ کے نام سے کیا بیر ہے؟ اس پر آگے بات کریں گے فی الحال یہ تماشا ملاحظہ کریں کہ چند سال قبل تک جو مودی سرکار ’انڈیا‘ نام پر اصرار کر رہی تھی اب وہی ’انڈیا‘ کو غلامی کی ’بچی کھچی نشانی‘ بتا رہی ہے۔
گزشتہ برس 2022ء میں یوم آزادی کی تقریر میں وزیراعظم مودی نے بھارتی شہریوں سے کہا تھا کہ وہ غلامی کی بچی کھچی نشانیاں مٹا دیں گے کیونکہ ملک کا نام ’بھارت‘ رکھنا قومی شناخت اپنائے جانے کی علامت ہوگا۔
ہندو سے انڈوس
اس طول طویل پس منظر کے بعد اب بات ہوجائے ’انڈیا، بھارت اور ہندوستان‘ کے لفظی معنی کی۔ محقیقین کے نزدیک اس بات پر اتفاق ہے کہ لفظ ’ہندو‘ قدیم ایرانیوں کی دین ہے۔ لفظ ’ہندو‘ یونانی میں ’انڈوس‘ ہوکر لاطینی میں ’انڈس‘ ہوا اور پھر اس سے لفظ ’انڈیا‘ وجود میں آیا۔
دوسری طرف فارسی یا قدیم پہلوی کا ’ہندو‘ جب سرزمین عرب پہنچا تو ’ہند‘ ہوا اور پھر برصغیر کے عہد اسلامی، بالخصوص مغل عہد میں ’ہندوستان‘ کہلایا۔
’سپت سندھو‘
یہاں سوال یہ ہے کہ خود لفظ ’ہندو‘ کا پس منظر کیا ہے؟ تو اس حوالے سے عرض ہے کہ سنسکرت میں دریا کو ’سندھو‘ کہتے ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ آریائی قبائل جب قافلہ در قافلہ برصغیر میں داخل ہوئے تو انہیں اٹک سے لےکر پنجاب کے وسیع میدانوں تک پے در پے 7 دریاؤں کو عبور کرنا پڑا۔ یہ سات دریا بالترتیب دریائے کابل، دریائے سندھ، دریائے جہلم، دریائے چناب، دریائے روای، دریائے ستلج اور دریائے بیاس برصغیر کے شمال مغرب سے آنے والوں کی راہ میں آئے تھے۔ یہ سب کچھ ان کے لیے خاصا حیران کُن تھا لہٰذا انہوں نے اس وسیع خطے کو ’سپت سندھو‘ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین کا نام دیا۔
رہا یہ سوال کہ ’سندھو‘ بدل کر ’ہندو‘ کیسے ہوا؟ تو عرض ہے کہ صوتی تبادل میں بیشتر حروف کی طرح گاہے حرف ’س/ سین‘ اور ’ہ / ہائے ہوز‘ باہم بدل جاتے ہیں۔ مثلاً سنسکرت کا ’ماس‘ یعنی مہینہ فارسی میں ’ماہ‘ ہے۔ ’دس‘ فارسی میں ’دہ‘ ہے۔ ایسی ہی ’کپاس‘ کی دوسری صورت ’کپاہ‘ ہے۔ اب اگر ’س/ سین‘ اور ’ہ / ہائے ہوز‘ کا یہ تبادلہ پیش نظر ہو تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ سنسکرت کا ’سندھو‘ فارسی میں ’ہندو‘ کیونکر ہوگیا۔
کوؤں کا حملہ
اہلِ ہند، افریقی باشندوں کی طرح سیاہ فام تو نہیں تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا رنگ صاف بھی نہیں تھا۔ یوں اہل ایران رنگت کی مناسبت سے دونوں کو ایک ہی زمرے میں شمار کرتے تھے۔ یہی سبب تھا کہ یمن پر حبشہ کے قبضے کے بعد بے دخل ہونے والے حکمران خاندان کا فرد ’سیف بن ذی یزن‘ امداد کے لیے جب کسریٰ ایران کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ اس کے ملک پر کوّوں (کالوں) نے حملہ کردیا ہے تو کسریٰ نے استفسار کیا ’کون سے کوّے، ہندوستان کے یا حبشہ کے؟‘
محبوب کا سیاہ تِل
ہند کے باشندوں کی قدیم رنگت کی نسبت ہی سے فارسی میں ہر سیاہ چیز کو ’ہندو‘ کہا گیا۔ دیکھیں حافظ شیرازی اپنے محبوب کے سیاہ تِل کا ذکر کیسے کر رہے ہیں،
’اے شیرازی محبوب اگر تُو میرا نذرانہ دل قبول کرلے تو میں ترے رخسار پر موجود کالے تل کے بدلے سمرقند و بخارا بخش دوں‘۔
حُسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو
چونکہ زلفیں بھی سیاہ ہوتی ہیں اس لیے فارسی اور اس کی رعایت سے اردو میں بھی زلفوں کو مجازاً ہندو کہتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو استاد ابراہیم ذوق کا شعر ملاحظہ کریں جو کہہ گئے ہیں،
بات یہیں تمام نہیں ہوئی بلکہ سیاہی کی نسبت سے ’ہندو‘ نے فارسی میں کئی ایک تراکیب کو جنم دیا مثلاً سیاہ آنکھیں اگر ’ہندوی چشم‘ کہلائیں تو ستارہ زُحَل (جو نحس تصور کیا جاتا ہے) اپنی نحوست کے سبب ’ہندوی چرخ‘ کہلایا۔
ہندو بمعنی غلام اور پاسبان
یہ معلوم و معروف بات ہے کہ سلطنت ایران ایک طاقتور حکومت تھی اور اس زمانے کے دستور کے مطابق ایران میں بھی مختلف خطوں کے باشندے بطور غلام خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان غلاموں کو کالے اور گورے دو اقسام میں تقسیم سمجھا جاتا تھا۔ سیاہ فام غلاموں کا تعلق ہندوستان اور افریقی سرزمین سے تھا جو ترک، رومی اور بابلی غلاموں کے مقابل اپنی سیاہ رنگت کی نسبت سے ’ہندو‘ کہلاتے تھے۔ چونکہ غلاموں سے چوکیداری یا پاسبانی کا کام بھی لیا جاتا تھا یوں ’ہندو‘ کے مفہوم میں مجازاً غلام اور پاسبان بھی داخل ہوگئے۔
لفظ ’ہندو‘ کے مفاہیم
اب اگر ہم فارسی میں ’ہندو‘ کے دیگر معنی و مفاہیم سے صرف نظر کرتے ہوئے ہندوستان کے تعلق سے فارسی لفظ ’ہندو‘ کا جائزہ لیں تو اس کے درج ذیل تین بنیادی معنی سامنے آتے ہیں۔
اول یہ کہ ہندو کے معنی میں ہر وہ شخص داخل ہے جو ’ہندو مت‘ کا پیرو ہو۔ دوم یہ کہ ہندو کی تعریف میں ہر وہ شخص داخل ہے جو ہندوستان کا باشندہ ہو جبکہ سوم یہ کہ ہندو کے معنی سیاہ کے ہیں۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ ایران کے دیے گئے نام ’ہندو‘ ہی سے ترکیب ’ہندوستان‘ وضع ہوئی جو مغل اقتدار کے زوال تک باقاعدہ استعمال ہوتی رہی۔
’ہندوستان‘ کی حدود
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ انگریز دور میں کشمیر سے کنیا کماری تک جو خطہ ’انڈیا‘ کہلاتا تھا اس پورے خطے پر لفظ ’ہندوستان‘ کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ پنجاب و سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) اور خاص طور پر دکن کا علاقہ ’ہندوستان‘ سے باہر سمجھا جاتا تھا۔ ایسا اس لیے تھا کیونکہ ’ہندوستان‘ کی حدود سرہند سے جنوب کی طرف ست پُڑا کے پہاڑی سلسلے تک محسوب ہوتی تھیں۔
’ہندوستان‘ کی حدود اور علامہ اقبالؒ
اب اس بات کو علامہ اقبالؒ کے ایک خط سے سمجھیں جو ’شاطرمدراسی‘ کو ان کے خط کے جواب میں لکھا گیا۔ 16 مارچ 1905ء کو تحریر کیے گئے خط میں علامہ اقبال رقمطراز ہیں، ’آپ کا اسلوب بیان واقعی نرالا ہے۔ اور آپ کی صفائی زبان آپ کے ہم وطنوں کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ میرا خود خیال تھا کہ آپ اصل میں ہندوستان کے رہنے والے ہوں گے۔ مگر یہ معلوم کرکے کہ آپ کی پرورش مدراس میں ہوئی، مجھے تعجب ہوا‘۔
باالفاظ دیگر مدراس جو دکن میں ہے ’ہندوستان‘ میں شامل نہیں تھا۔ یہی وجہ رہی کہ فانی بدایونی کو کہنا پڑا،
انڈیا
ایران کے تعلق سے ’ہندو‘ اور ’ہندوستان‘ کا ذکر تمام ہوا، اب یونانیوں کی نسبت سے ’انڈیا‘ کا قصہ ملاحظہ کریں۔ جب یونانیوں نے اس خطے میں قدم رکھا تو ’دریائے سندھ‘ کو اپنے لہجے میں ’Indos / انڈوس‘ اور اس کے پار سرزمین کو ’انڈیکا / Indica‘ کا نام دیا۔ بعد میں دونوں الفاظ لاطینی زبان میں پہنچ کر بالترتیب ’انڈس‘ اور ’انڈیا‘ ہوگئے۔
انڈیگو
اس ’انڈیا‘ کی نسبت سے یہاں کی اہم برآمدت میں سے ایک ’نیل‘ نے ’indigo / انڈیگو‘ نام پایا۔ اور آج بھی انگریزی میں مخصوص سبزی مائل گہرا نیلا رنگ ’indigo / انڈیگو‘ کہلاتا ہے۔
ہند
ایرانیوں اور یونانیوں کے بعد یہاں عربوں نے قدم رکھا اور مفتوحہ علاقے کو ’سِند‘ اور غیر مفتوح خطے کو ’ہند‘ کے نام سے پکارا۔ بہت سے الفاظ اور ناموں کی طرح لفظ ’ہند‘ کے ساتھ عجب اتفاق یہ ہے کہ اگر یہ ایران میں ’سیاہ/کالے‘ کے معنی دیتا ہے تو عرب میں یہ خوبصورتی اور کاملیت (Perfection) کا مفہوم رکھتا ہے۔ ہند کی تلواروں کو عرب میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ علاوہ ازیں قدیم زمانے ہی سے عرب میں لڑکیوں کا نام ’ہند‘ رکھا جاتا رہا ہے۔
بھارت
لفظ ’بھارت‘ کو دراصل کس سے نسبت ہے اس بارے میں ابہام موجود ہے۔ تاہم جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ اس نام کی جڑیں قدیم ہندو روایات میں پیوست ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ’بھارت‘ بھرتوں کے ایک ایسے ویدک قبیلے سے ماخوذ ہے جس کا تذکرہ ’رگ وید‘ میں آریاورت کی اہم ریاستوں میں سے ایک کے طور پر کیا گیا ہے۔
دوسری روایت کے مطابق ’بھارت‘ لفظ ’بھرت‘ سے ماخوذ ہے جو ’مہابھارت‘ کے ایک کردار دشینت اور شکنتلا کے بیٹے کا نام تھا۔
جبکہ پرانوں کی ایک اور روایت کے مطابق یہ ملک رشبھا کے بیٹے بھرت کے بعد ’بھارت ورش‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بھرت سوریا ونشی خاندان میں پیدا ہونے والا کھشتری تھا۔
بھارت کی حدود
جس طرح اصطلاح ’ہندوستان‘ کا اطلاق کُل برصغیر پر نہیں ہوتا تھا، ایسے ہی ’بھارت ورش‘ کی سرحدیں بھی محدود تھیں۔
ہندوؤں کی مذہبی کتاب پُران کے مطابق ’وہ ملک (ورشم) جو سمندر کے شمال میں اور برفیلے پہاڑوں کے جنوب میں واقع ہے اسے بھرت کہتے ہیں، وہاں بھارت کی اولاد رہتی ہے‘۔
مذہبی کارڈ
چونکہ ’ہند، ہندوستان اور انڈیا‘ کے نام بدیسیوں کی دین ہیں اور ’بھارت‘ نام صرف مقامی نام ہے بلکہ اس کی جڑیں مذہبی روایات میں بھی موجود ہیں اس لیے انتہا پسند ہندوؤں اور ان کی سرخیل جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ نام کی اس تبدیلی کو آنے والے انتخابات میں مذہبی کارڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مگر مسئلہ وہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے کہ بھارتی آئین جو ملک کا نام ’انڈیا‘ بتاتا ہے وہیں ’بھارت‘ کو بھی آفیشل نام قرار دیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’انڈیا‘ کو دیس نکالا ملتا ہے یا پھر اپوزیشن اتحاد مودی سرکار کے اس فریب کو ناکام بناتا ہے۔