Dawnnews Television Logo

وزیراعظم کا انتخاب، قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر کیا ہیں؟

وزارت عظمیٰ کے لیے اگر کوئی بھی امیدوار ووٹ کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں ناکام رہا تو ایوان زیریں کی تمام کارروائی دوبارہ سے شروع کی جائے گی۔
شائع 02 مارچ 2024 09:04pm

اتحادی جماعتوں نے وزارت عظمیٰ کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے عمر ایوب کے کاغذات جمع کروائے گئے ہیں، جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شامل ہوئے ہیں۔

جاری انتخابی شیڈول کے مطابق یاد رہے کہ وزیر اعظم کا انتخاب 3 مارچ بروز اتوار کو ہوگا۔

آئین کے مطابق صدر عارف علوی، عام انتخابات ہونے کے 21 دنوں میں قومی اسمبلی کا نیا اجلاس بلانے کے پابند تھے اور یہ ڈیڈلائن 29 فروری تھی، تاہم پہلے صدر کی جانب سے سمری مسترد کرنے اور بعد ازاں رات گئے قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس طلب کرنے کی منظوری دی، اس سے قبل سبکدوش ہونے والے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے 29 فروری کو اجلاس طلب کرلیا تھا۔

افتتاحی اجلاس میں 302 اراکین اسمبلی کے حلف اٹھانے کے بعد 19ویں قومی اسمبلی وجود میں آگئی، ایوان میں کُل 336 میں سے 60 نشستیں خواتین اور 10 اقلیتوں کے لیے مختص ہیں۔

اب تک الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مختلف سیاسی جماعتوں کو خواتین کی 40 مخصوص نشستیں الاٹ کی ہیں۔ ان میں پنجاب کی 32 میں سے 20، خیبرپختونخوا کی 10 میں سے 2، سندھ کی تمام 14 اور بلوچستان کی چاروں نشستیں شامل ہیں۔

اقلیتوں کے لیے مخصوص 10 میں سے 7 نشستیں بھی مختص کردی گئی ہیں، 28 فروری کو الیکشن کمیشن نے ابھی تک سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کو اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

ایوان میں اراکین کی حلف برداری کے اگلے روز سبکدوش ہونے والے اسپیکر قومی اسمبلی نے نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا اعلان کیا، جس میں ایاز صادق 199 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے 23ویں اسپیکر منتخب ہوئے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سید غلام مصطفیٰ شاہ ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے۔

وزیراعظم کا انتخاب

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد وزیراعظم کا انتخاب کا مرحلہ آتا ہے۔

قومی اسمبلی میں رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007ء کے دوسرے شیڈول کے مطابق وزیراعظم کا انتخاب اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اسلامی جمہوریہ مملکت ہونے کی وجہ سے حکومت کے سربراہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔

وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار کو انتخاب سے ایک روز قبل دوپہر 2 بجے تک کاغذات نامزدگی جمع کروانے ہوتے ہیں جس کے بعد نئے منتخب اسپیکر قومی اسمبلی ان نامزدگیوں کی جانچ کرتے ہیں۔

اگر کوئی امیدوار انتخاب سے قبل اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینا چاہے تو وہ کس بھی لمحے واپس لے سکتا ہے۔

ملک کے 24ویں وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے شہباز شریف اور عمر ایوب نے بطور امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔

اگلا مرحلہ

وزیراعظم کے انتخاب سے قبل قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے 5 منٹ تک گھنٹی بجانے کی ہدایت دی جاتی ہے تاکہ غیرحاضر اراکین ایوان میں آسکیں۔ سب کے آنے کے بعد اسمبلی کا اسٹاف، لابی کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات ہوجاتے ہیں اور ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے تک کسی کو آنے اور جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے نامزد امیدواروں کے نام کو اسمبلی ارکان کے سامنے پکارا جاتا ہے اور پھر دوسرے شیڈول میں موجود طریقہ کار کے ذریعے انتخاب کا عمل آگے بڑھایا جاتا ہے۔

ووٹنگ کا عمل

ووٹنگ کا عمل خفیہ نہیں ہوتا۔ اسپیکر کی جانب سے اراکین اسمبلی سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے مرضی کے مطابق امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے ایک داخلی مقام سے جاکر شمار کنندہ کے پاس اپنا ووٹ ریکارڈ کروائیں۔

جیسے مثال کے طور پر اگر دو امیدوار ہوں تو اسپیکر کہے گا کہ ’جو امیدوار الف کو ووٹ دینا چاہتا ہے وہ لابی الف میں جا سکتا ہے‘ جبکہ ’جو امیدوار ب کو ووٹ دینا چاہتا ہے وہ ب لابی میں جا سکتا ہے‘، اگر تین امیدوار ہیں تو ایک لابی سی بھی ہوسکتی ہے۔

اس کے بعد متعلقہ لابی میں داخلے کے بعد شمار کنندہ کی ڈیسک پر پہنچ کر ہر رکن اسمبلی اپنا ڈویژن نمبر پکارتا ہے جو اسے قانون کے تحت دیا گیا ہوگا جس کے بعد شمار کنندہ ڈویژن فہرست میں اس رکن اسمبلی کے نمبر پر نشان لگائے گا اور ساتھ ہی اس کا نام پکارے گا۔

یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ووٹ درست طریقے سے رجسٹر ہوا ہے، رکن اسمبلی تب تک اس جگہ سے واپس نہیں آسکے گا جب تک وہ شمار کنندہ کی جانب سے پکارے گئے اپنے نام کو واضح طور پر سن نہیں لیتا۔

اپنا ووٹ ریکارڈ کروانے کے بعد وہ رکن اسمبلی تب تک چیمبر میں داخل نہیں ہوسکے گا جب تک دوبارہ گھنٹی نہیں بجائی جاتی۔

ووٹنگ کا اختتام

مندرجہ بالا عمل مکمل ہونے اور اسپیکر اسمبلی کی جانب سے اس بات پر اطمینان کرنے کے بعد کہ تمام اراکین نے ووٹ ڈال دیا ہے، وہ ووٹنگ کے عمل کے اختتام کا اعلان کریں گے۔

اس کے ساتھ ہی سیکریٹری ڈویژن فہرست حاصل کرکے ووٹوں کی گنتی کریں گے اور نتائج اسپیکر کے سامنے پیش کیے جائیں گے، پھر اسپیکر کی جانب سے ہدایت دی جائے گی کہ 2 منٹ تک گھنٹی بجائی جائے تاکہ تمام ارکان چیمبر میں آسکیں، اس کے بعد گھنٹی روک دی جائے گی اور اسپیکر کی جانب سے نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

اگر کوئی ایک امیدوار مطلوبہ تعداد کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اسپیکر کی جانب سے اس کے منتخب ہونے کا اعلان کردیا جائے گا۔

لیکن اگر کوئی امیدوار ووٹ کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں ناکام رہا تو تمام کارروائی دوبارہ سے شروع کی جائے گی۔

واضح رہے کہ 336 رکنی ایوان میں قائد ایوان منتخب ہونے کےلیے 169 ووٹوں کا حصول لازمی ہے، اگر وزیراعظم کے عہدے کے لیے 2 یا اس سے زائد امیدوار ہوں گے اور کوئی امیدوار پہلی مرتبہ پولنگ میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے تو دوسرے انتخاب میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے 2 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا اور جو رکن قومی اسمبلی زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا اسے وزیراعظم منتخب کرلیا جائے گا۔

اگر کسی پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن اپنی پارٹی کی ہدایات کے خلاف جاکر ووٹ ڈالتا ہے تو نہ صرف اس کا ووٹ شمار نہیں ہوگا بلکہ اس پر جرمانہ عائد ہوگا اور اسے اسمبلی سے نکالا بھی جاسکتا ہے۔