امریکا نے چین میں تیار کردہ بحری جہازوں پر عائد پورٹ فیس سے استثنیٰ دے دیا
ٹرمپ انتظامیہ نے گریٹ لیکس، کیریبین اور امریکی علاقوں میں خدمات انجام دینے والے ملکی برآمد کنندگان اور بحری جہازوں کے مالکان کو چین میں تیار کردہ بحری جہازوں پر عائد کی جانے والی پورٹ فیس سے استثنیٰ دے دیا، اس اقدام کا مقصد امریکی جہاز سازی کو بحال کرنا ہے۔
امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریز کی جانب سے جاری کردہ وفاقی رجسٹر نوٹس فروری کی اس تجویز کے مقابلے میں نرم کر دیا گیا ہے جس میں چین میں تیار کردہ بحری جہازوں پر فی پورٹ کال 1.5 ملین ڈالر تک فیس عائد کرنے کی بات کی گئی تھی اور جس نے عالمی جہاز رانی کی صنعت میں تشویش کی لہر دوڑا دی تھی۔
جہاز رانی عالمی تجارت کا تقریباً 80 فیصد حصہ منتقل کرتی ہے جس میں خوراک اور فرنیچر سے لے کر سیمنٹ اور کوئلے تک متعدد اشیا شامل ہیں، جہاز رانی کی صنعت کے کرتا دھرتا کو خدشہ تھا کہ تقریباً ہر مال بردار بحری جہاز کو بھاری فیسوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے امریکی اشیا کی برآمدی قیمتیں غیر پرکشش ہو جائیں گی اور امریکی صارفین پر سالانہ 30 ارب ڈالر کا درآمدی بوجھ پڑے گا۔
امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریر نے ایک بیان میں کہا کہ بحری جہاز اور شپنگ امریکی اقتصادی سلامتی اور تجارت کے آزادانہ بہاؤ کے لیے اہم ہیں، ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات سے چینی غلہ کم ہونے لگے گا، اور امریکی سپلائی چین کو درپیش خطرات کا بھی تدارک ہوسکے گا، اور امریکا میں تیار کردہ بحری جہازوں کی طلب میں بھی اضافہ ہوگا۔
اس کے باوجود، چین میں تیار کردہ بحری جہازوں پر فیسیں دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی میں ایک اور پریشان کن عنصر کا اضافہ کرتی ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی بہت سی اشیا پر 145 فیصد کے نئے ٹیرف پر چین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان ترامیم میں عالمی سمندری صنعت، بشمول ملکی بندرگاہ اور بحری جہاز آپریٹرز کے ساتھ ساتھ کوئلے اور مکئی سے لے کر کیلے اور سیمنٹ تک ہر چیز کے امریکی برآمدکنندگان کی جانب سے اٹھائے گئے بڑے خدشات کو دور کیا گیا ہے۔
ان ترامیم میں کچھ درخواست کردہ چھوٹ دی گئی ہیں، جبکہ فیسیں مرحلہ وار لاگو کی جائیں گی جو اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں کہ امریکی جہاز ساز، جو سالانہ تقریباً پانچ بحری جہاز تیار کرتے ہیں، کو چین کی سالانہ 1700 سے زائد کی پیداوار کا مقابلہ کرنے میں سالوں لگیں گے۔
امریکی تجارتی نمائندے نے ان بحری جہازوں کو مستثنیٰ قرار دیا جو ملکی بندرگاہوں کے درمیان اور ان بندرگاہوں سے کیریبین جزائر اور امریکی علاقوں تک سامان لے جاتے ہیں، گریٹ لیکس کی بندرگاہوں پر آنے والے امریکی اور کینیڈین دونوں بحری جہازوں کو بھی ریلیف ملا ہے۔
نتیجے کے طور پر، امریکا میں مقیم کیریئرز میٹسن اور سی بورڈ میرین جیسی کمپنیاں فیسوں سے بچ جائیں گی، جبکہ گندم اور سویابین جیسی برآمدات لوڈ کرنے کے لیے امریکی بندرگاہوں پر پہنچنے والے خالی بحری جہاز بھی مستثنیٰ ہیں۔
غیر ملکی رول آن/رول آف آٹو کیریئرز، جنہیں رو-روز کہا جاتا ہے، اس صورت میں فیسوں کی واپسی کے اہل ہوں گے اگر وہ اگلے تین سالوں میں مساوی گنجائش کا امریکی ساختہ بحری جہاز آرڈر کرتے ہیں یا وصول کرتے ہیں۔
امریکی تجارتی نمائندے نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیریئرز کے لیے ایک طویل ٹائم لائن مقرر کی ہے۔ انہیں چار سال کے اندر امریکا کی ایل این جی برآمدات کا 1% امریکی ساختہ، چلائے جانے والے اور امریکی پرچم والے بحری جہازوں پر منتقل کرنا ہوگا، یہ شرح 2035 تک 4 فیصد اور 2047 تک 15 فیصد تک بڑھ جائے گی۔
ایجنسی، جو 180 دنوں میں لیویز نافذ کرے گی، نے بحری بیڑے میں چین میں تیار کردہ بحری جہازوں کے فیصد یا چین کے بحری جہازوں کے متوقع آرڈرز کی بنیاد پر فیس عائد کرنے سے بھی انکار کر دیا، جیسا کہ اصل میں تجویز کیا گیا تھا۔
متاثرہ بحری جہازوں پر ہر سفر پر سال میں زیادہ سے زیادہ چھ بار فیسیں لاگو ہوں گی۔
عالمی کنٹینر شپ آپریٹرز، جیسے MSC اور Maersk کے حکام ، جو امریکا کے لیے ہر سفر کے دوران متعدد بندرگاہوں کا دورہ کرتے ہیں، نے خبردار کیا تھا کہ فیسیں بہت تیزی سے واجب الادا ہوں گی اور ان کا حجم بڑھتا چلا جائے گا۔
بڑے بحری جہازوں پر ایک یکساں انفرادی فیس کے بجائے، امریکی تجارتی نمائندے نے اس کے بجائے ہر ٹن یا اتارے گئے ہر کنٹینر کی بنیاد پر فیس عائد کرنے کا انتخاب کیا، جیسا کہ چھوٹے بحری جہازوں کے آپریٹرز اور لوہے جیسی بھاری اجناس کے ٹرانسپورٹرز نے مطالبہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ برطانوی میڈیا کے مطابق امریکا نے چینی بحری صنعت کے غلبے کو چیلنج کرنے اور ملک میں جہاز سازی کے شعبے کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے امریکی بندرگاہوں پر آنے والے چینی بحری جہازوں پر فیس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ فیس 14 اکتوبر 2025 سے لاگو ہوگی جس کے تحت چینی ملکیت اور آپریٹ کردہ جہازوں سے فی نیٹ ٹن 50 ڈالر وصول کیے جائیں گے، اور اگلے تین سالوں تک ہر سال فیس میں 30 ڈالر فی نیٹ ٹن اضافہ ہوگا۔
اس کے ردعمل میں چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ فیس عائد کرنے سے امریکی صارفین کے لیے قیمتیں بڑھ جائیں گی اور اس اقدام سے امریکی جہاز سازی کی صنعت بحال نہیں ہوگی۔












لائیو ٹی وی