پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کا جائزہ
تقسیمِ ہند کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات سفارتی روابط سے لے کر ثقافتی منصوبوں تک، تقریباً ہر محاذ پر اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آئے جبکہ دو طرفہ معاہدے بھی اس کا حصہ رہے ہیں۔
22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام واقعے کے بعد نئی دہلی نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر اس واقعے کا الزام عائد کیا۔
بھارت نے فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے سمیت دیگر اقدامات کا اعلان کیا جس میں پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا حکم، واہگہ بارڈرکی بندش اور اسلام باد میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات اپنے ملٹری اتاشی کو وطن واپس بلانے کے علاوہ پاکستان میں تعینات سفارتی عملے کی تعداد میں بھی کمی کر دی۔
پاکستان نے جوابی اقدام کے طور پر آج قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت تمام دو طرفہ معاہدوں کو معطل رکھنے کا حق استعمال کر سکتا ہے۔
قومی سلامتی اجلاس میں بھارت کے اٹاری بارڈر کو بند کرنے کے جواب میں واہگہ بارڈر بند کرنے اور نئی دہلی کے ساتھ تمام تجارتی سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا جب کہ بھارت سے براہ راست تجارت کے ساتھ ساتھ کسی تیسرے ملک کے ذریعے ہونے والی تجارت بھی معطل کرنے کا اعلان کیا گیا۔
ڈان ڈاٹ کام نے 1947 سے اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے بڑے معاہدوں اور ان کی موجودہ حیثیت کا جائزہ پیش کیا ہے۔
لیاقت نہرو معاہدہ
یہ معاہدہ اپریل 1950 میں اُس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کے درمیان نئی دہلی میں ہونے والی ملاقات کے دوران طے پایا۔
اس میں اعلان کیا گیا کہ دونوں ممالک اور ان کی حکومتیں اپنی اپنی سرزمین پر اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کریں گی، جبکہ معاہدے کے مطابق دونوں حکومتیں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے معاملے پر ایک دوسرے کے سامنے جوابدہ ہوں گی۔
اس معاہدے کی شقوں میں نقل و حرکت کی آزادی، ملازمتوں میں امتیاز نہ برتنا اور ایک اقلیتی کمیشن کا قیام شامل تھا تاکہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔
یہ معاہدہ تقسیمِ ہند کے بعد اُس وقت کیا گیا جب دونوں ممالک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔
سندھ طاس معاہدہ
پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960 کو دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پایا تھا، جس میں عالمی بینک نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔
اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور اُس وقت کے پاکستانی صدر ایوب خان نے 6 سالہ مذاکرات کے بعد اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
معاہدے کے تحت مغربی دریا (سندھ، جہلم اور چناب) پاکستان کو دیے گئے جبکہ مشرقی دریا (راوی، بیاس اور ستلج) بھارت کے سپرد کیے گئے، اس میں ڈیمز، لنک کینالز، بیراجز اور ٹیوب ویلز (جیسے تربیلا اور منگلا ڈیم) کی تعمیر و مالی معاونت کا بندوبست بھی شامل تھا۔
معاہدے کے تحت ایک مستقل سندھ طاس کمیشن کا قیام بھی لازم قرار دیا گیا، جس کی قیادت دونوں ممالک سے ایک ایک کمشنر کرتے ہیں جب کہ وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے تنازعات اسی کمیشن کے ذریعے پُرامن طور پر حل کیے گئے۔
یہ معاہدہ تقریباً 65 سال سے مؤثر ہے، جسے بھارت کی جانب سے گزشتہ رات معطل کرنے کا اعلان کیا گیا، تاہم حکومت پاکستان کو مؤقف ہے کہ اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کیا جاسکتا۔
شملہ معاہدہ
یہ معاہدہ 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا، جس پر سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی نے دستخط کیے تھے۔
معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ دونوں فریقین کوئی بھی اقدام یکطرفہ طور پر نہیں اٹھائیں گے بلکہ تمام تنازعات دو طرفہ بنیادوں پر حل کیے جائیں گے اور سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) میں تبدیل کیا جائے گا۔
کشمیر کے حوالے سے معاہدے میں کہا گیا کہ’ان بنیادی مسائل اور تنازعات کو جو گزشتہ 25 برسوں سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنے ہیں، پرامن ذرائع سے حل کیا جائے گا’۔
اس کے علاوہ، دونوں ممالک نے دیرپا امن اور معمول کے تعلقات کی بحالی کے لیے طریقہ کار پر بات چیت کرنے پر اتفاق کیا۔
تاہم، پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت نے 2019 میں شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی، جب اس نے یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا، جس کے ذریعے بھارت کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر دی تھی۔
اس تبدیلی نے بیرونی افراد کو کشمیر میں رہائش اور جائیداد خریدنے کی اجازت دی، جسے وادی کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا گیا اور شملہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی بتایا گیا۔
بھارتی وکیل اے جی نورانی نے 2019 میں ڈان کے ایک مضمون میں لکھا تھا ’مودی حکومت نے اب ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے مذاکرات کے تصور ہی کو مسترد کر دیا، یہی وجہ ہے کہ 2014 میں خارجہ سیکریٹریوں کی بات چیت کو معمولی بہانے سے منسوخ کر دیا گیا تھا جبکہ بھارت کشمیر کو تباہ کرکے اور اقوام متحدہ کو نظرانداز کرکے اس تنازع کو ’ختم شد‘ قرار دینا چاہتا ہے‘۔
مذہبی زیارتوں کے پروٹوکول پر معاہدہ
یہ ایک دو طرفہ معاہدہ ہے جو 1974 میں طے پایا تھا، اس کا مقصد پاکستان اور بھارت کے زائرین کو ایک دوسرے کے ممالک میں موجود مذہبی مقامات پر جانے کی سہولت فراہم کرنا تھا، 2018 تک یہ معاہدہ پاکستان میں 15 اور بھارت میں 5 مقامات کا احاطہ کرتا ہے۔
پاکستان میں شادانی دربار (حیات پٹافی، سندھ)، کٹاس راج دھام (چکوال)، گردوارہ ننکانہ صاحب اور گردوارہ پنجہ صاحب شامل ہیں۔
اسی طرح، بھارت میں درگاہ خواجہ معین الدین چشتی (اجمیر شریف)، نظام الدین اولیا کی درگاہ اور امیر خسرو کا مزار قابلِ ذکر ہیں۔
اس پروٹوکول کے تحت ہر مذہبی تہوار پر بھارت سے 3 ہزار سکھ زائرین کو پاکستان آنے کی اجازت دی جاتی ہے، تاہم اس سال حکومتِ پاکستان نے ریکارڈ 6 ہزار 751 ویزے جاری کیے تھے۔
اس کے برعکس، بھارت نے اس سال صرف 100 پاکستانی زائرین کو اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے سالانہ عرس کے لیے ویزے جاری کیے، جو کہ 500 کے مختص کوٹے سے بھی کم ہے۔
جوہری تنصیبات اور سہولیات پر حملے نہ کرنے کا معاہدہ
پاکستان اور بھارت کے درمیان 31 دسمبر 1988 کو طے پانے والے معاہدے میں شامل شقوں کے مطابق دونوں ممالک ہر سال یکم جنوری کو اپنی ایٹمی تنصیبات اور سہولیات کی معلومات فراہم کریں گے۔
معاہدے کے تحت دونوں ممالک بالواسطہ یا براہ راست کسی ایسی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے اور نہ ہی کسی کو اس کی ترغیب دیں گے، جس کا مقصد دوسرے ملک کی ایٹمی تنصیبات یا سہولیات کو تباہ یا نقصان پہنچانا ہو۔
وزارت خارجہ کے مطابق یہ معاہدہ 27 جنوری 1991 سے نافذ العمل ہوا اور اس کے بعد سے دونوں ممالک ہر سال جوہری معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔
رواں سال بھی معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان نے یکم جنوری کو ایٹمی تنصیبات کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا تھا۔
فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کی روک تھام سے متعلق معاہدہ
6 اپریل 1991 کو نئی دہلی میں طے پانے والے اس معاہدے کا مقصد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان حادثاتی یا غیر ارادی طور پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔
معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے فوجی طیارے ایک دوسرے کی فضائی حدود کے 10 کلومیٹر کے دائرے میں پرواز نہیں کریں گے، جس میں ایئر ڈیفنس آئیڈینٹیفیکیشن زون (اے ڈی آئی زیڈ) بھی شامل ہے یعنی وہ مخصوص فضائی علاقہ جہاں قومی سلامتی کے لیے ہوائی جہازوں کی شناخت لازمی ہوتی ہے۔
معاہدے کے مطابق کسی بھی ملک کا کوئی بھی طیارہ دوسرے ملک کی سمندری حدود کے اوپر سے پیشگی اجازت کے بغیر اس کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا۔
یہ معاہدہ عمومی طور پر احترام کا حامل رہا ہے، حالانکہ وقتاً فوقتاً کچھ خلاف ورزیاں بھی ہوئیں تاہم، پہلگام حملے کے بعد بھارت کے جارحانہ اقدامات کے ردعمل میں پاکستان نے فوری طور پر بھارت کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کردیا۔
لاہور ڈیکلریشن
سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف نے فرورری 1999 میں واجپائی کے دورہ پاکستان کے دوران اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا تھا کہ ’امن اور سلامتی کا ماحول دونوں ممالک کے اعلیٰ قومی مفاد میں ہے اور اس مقصد کے لیے مسئلہ کشمیر سمیت تمام زیرِ التوا مسائل کا حل ناگزیر ہے‘۔
دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھا کہ وہ اپنے جامع اور مربوط مذاکراتی عمل کو تیز کرتے ہوئے، جموں کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کی کوششوں کو مزید بڑھائیں گے۔
معاہدے کے تحت اس نئی ذمہ داری کی پیچیدگی کو بھی تسلیم کیا تھا جو انہیں ’ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک‘ کی حیثیت سے ملی تھی، جب کہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے سیکیورٹی تصورات اور ایٹمی نظریات پر باقاعدہ دوطرفہ مشاورت کریں گے، تاکہ ایٹمی اور روایتی سطح پر اعتماد سازی کے اقدامات کو فروغ دیا جا سکے اور تنازع سے بچاؤ ممکن ہو۔
دونوں ممالک نے اس بات پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی کہ وہ بیلسٹک میزائل کے تجربات کے بارے میں ایک دوسرے کو پیشگی اطلاع فراہم کریں گے اور اس سلسلے میں ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
تاہم،کارگل بحران کے باعث یہ عمل متاثر ہوا اور پھر 2004 میں دوبارہ شروع ہوا، جب دونوں ممالک نے بات چیت کے لیے ماہرین کے گروپ تشکیل دیے۔
تاہم، سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے ڈان کے ایک مضمون میں نشاندہی کی تھی ’نہ تو پاکستان اور نہ ہی بھارت نے اس معاہدے پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے کوئی باقاعدہ نظام وضع کیا‘۔
بیلسٹک میزائل کے تجربات سے قبل پیشگی اطلاع دینے کا معاہدہ
پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ معاہدہ 2005 میں طے پایا تھا جس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کم از کم 3 دن پہلے کسی بھی زمین یا سمندر سے زمین سے زمین تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کے تجربے کی اطلاع دیں گے۔
معاہدے میں درج ہے کہ ہر فریق یہ یقینی بنائے گا کہ میزائل تجربے کا مقام بین الاقوامی سرحد یا لائن آف کنٹرول سے کم از کم 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہو اور میزائل کے گرنے کا متوقع مقام 75 کلومیٹر کے اندر نہ ہو۔
یہ معاہدہ تاحال نافذ العمل ہے، تاہم گزشتہ سال پاکستان نے بھارت پر الزام عائد کیا تھا کہ بھارت نے اس معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کی جب اُس نے ایک ایسا میزائل تجربہ کیا جو متعدد وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرات میں کمی کا معاہدہ
ایٹمی حادثات سے متعلق یہ معاہدہ 21 فروری 2007 کو 5 سال کے لیے نافذ العمل ہوا تھا۔
اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی سلامتی اور حفاظت کو بہتر بنائیں گے ، کسی بھی ایٹمی حادثے کی اطلاع ایک دوسرے کو فوری طور پر دیں گے۔
معاہدے میں طے کیا گیا کہ ایسے کسی حادثے کے تابکاری اثرات کو کم کرنے کے اقدامات کریں گے، مزید یہ کہ دونوں ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ کسی ایٹمی حادثے کی صورت میں ایسے اقدامات کریں جن سے ان کی کارروائی کو دوسرا ملک غلط نہ سمجھے۔
اس معاہدے میں 2012 اور پھر 2017 میں مزید 5، 5 سال کے لیے توسیع کی گئی تھی۔
لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ
نومبر 2003 میں پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔
ایل او سی ایک ایسی سرحد ہے، جو کشمیر کو دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کرتی ہے، جبکہ ورکنگ باؤنڈری پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر علاقوں کو جدا کرتی ہے۔
یہ معاہدہ کچھ برسوں تک مؤثر رہا، تاہم 2008 کے بعد اس کی مسلسل خلاف ورزیاں کی گئیں، خاص طور پر نریندری مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد 2014 کے بعد جنگ بندی کی ان خلاف ورزیوں میں تیزی آئی۔
2021 میں دونوں ممالک نے اس معاہدے پر دوبارہ عمل درآمد کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا، پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق دونوں فریقین نے موجودہ طریقہ کار (ہاٹ لائن رابطہ اور فلیگ میٹنگز) کو کسی بھی غیر متوقع صورتحال یا غلط فہمی سے نمٹنے کے لیے دوبارہ فعال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔