• KHI: Asr 5:08pm Maghrib 7:09pm
  • LHR: Asr 4:49pm Maghrib 6:51pm
  • ISB: Asr 4:57pm Maghrib 7:01pm
  • KHI: Asr 5:08pm Maghrib 7:09pm
  • LHR: Asr 4:49pm Maghrib 6:51pm
  • ISB: Asr 4:57pm Maghrib 7:01pm

فن و ثقافت کے محاذ پر بھارتی جارحیت کا کھیل پھر شروع

اب مغل اعظم اور جودھا اکبر جیسی فلمیں نہیں بلکہ چھاوا اور پدماوت جیسی فلمیں بھارتی سنیما کا چلن ہیں جہاں پاکستانی فنکاروں کی کوئی گنجائش نہیں۔
شائع April 29, 2025

فن و ثقافت کو سرحدوں کے درمیان پُل تصور کیا جاتا ہے مگر بھارتی سرکار کی ہٹ دھرمی نے امن کی اس اکلوتی شاہراہ پر ایک بار پھر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔

ایک عہد خانہ خراب میں جب بھارت کا گودی میڈیا پہلگام واقعے کی آزادانہ تحقیقات کے بجائے پاکستان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے میں مصروف ہے، بھارتی سرکار نے حسبِ روایت آرٹ کے راستوں پر بندشیں کھڑی کرنی شروع کردیں۔ یوں تو اس نفرت انگیز مہم کا آغاز پہلگام سے پہلے ہی ہوگیا تھا لیکن اس واقعے کے بعد اس میں شدت آگئی۔

اس جائزے میں معروف پاکستانی اسٹار فواد خان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جنہیں بیک وقت خوش قسمت اور بدقسمت ترین آرٹسٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ خوش قسمت ان معنوں میں کہ بھارت میں جو شہرت اور مقبولیت فواد خان کے حصے میں آئی، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ گو علی ظفر نے بھی خود کو منوایا مگر فواد نے نہ صرف ناقدین کو متوجہ کیا بلکہ ناظرین کو بھی اپنی گرویدہ بنا لیا۔

  فواد خان کو جو شہرت اور مقبولیت بھارت میں ملی کسی پاکستانی اداکار کو نہ ملی—تصویر: پن ٹرسٹ
فواد خان کو جو شہرت اور مقبولیت بھارت میں ملی کسی پاکستانی اداکار کو نہ ملی—تصویر: پن ٹرسٹ

’کپور اینڈ سنز‘ کے بعد انہیں کرن جوہر کے ڈریم پروجیکٹ ’اے دل ہے مشکل‘ میں اپنے فن کا جادو جگانے کا موقع ملا۔ توقع کی جارہی تھی کہ میگا اسٹار کاسٹ پر مبنی اس فلم سے فواد خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا مگر شومئی قسمت! اچانک حالات کشیدہ ہوگئے اور پاکستانی اداکاروں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع ہوگئی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ’اے دل ہے مشکل‘ کی ریلیز اکتوبر 2016ء میں متوقع تھی لیکن ستمبر 2016ء میں جموں وکشمیر میں اُڑی حملہ ہوگیا۔ بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا اور پاکستانی اداکاروں کے خلاف مہم شروع ہوگئی۔

شدت پسند اور قوم پرست تنظیموں نے ’اے دل ہے مشکل‘ کو اپنا ہدف بناتے ہوئے فلم میں فواد خان کی موجودگی پر اعتراض اٹھا دیے۔ سنیما گھروں کے مالکان کو دھمکیاں دی گئیں۔ کرن جوہر کو شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر شدت پسند غالب آئے اور بہ حالت مجبوری کرن جوہر کو بیان جاری کرنا پڑا کہ وہ آئندہ پاکستانی فن کاروں کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔ فلم کے آغاز میں وہ بھارتی فوجیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر بھی راضی ہوگئے۔ فواد خان کے کئی مناظر ایڈیٹنگ کی نذر ہوئے۔ ان اقدامات کے بعد ہی فلم کو ریلیز کی اجازت ملی۔

چند ماہ بعد جب آسکر انعام یافتہ پاکستانی ہدایت کار شرمین عبید چنائے نے ایک بین الاقوامی سمٹ میں کرن جوہر سے فواد خان کو دوبارہ کاسٹ کرنے سے متعلق سوال کیا تو کرن جوہر کے جواب میں اُس کربناک صورت حال کی واضح عکاسی موجود تھی جس سے وہ گزرے۔

ثقافتی شدت پسندی سے بولی وڈ کی ایک اور بڑی فلم ’رئیس‘ بھی متاثر ہوئی۔ فلم میں معروف پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان سپر اسٹار شاہ رخ خان کے مدمقابل مرکزی کردار نبھا رہی تھیں۔ 25 جنوری 2017ء کو ریلیز ہونے والی یہ فلم انتہا پسند تنظیموں کے نشانے پر آگئی۔ فلم سے ماہرہ خان کے سین نکالنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ آخر فلم کے پروڈیوسرز نے گھٹنے ٹیک دیے۔ شاہ رخ خان نے مہاراشٹرا نو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے سے ملاقات کی۔ یوں تنازع کی شدت کچھ کم ہوئی اور فلم جیسے تیسے ریلیز کی گئی۔

  رئیس کی ریلیز سے قبل شاہ رخ خان نے راج ٹھاکرے سے ملاقات کی—تصویر: فیس بُک
رئیس کی ریلیز سے قبل شاہ رخ خان نے راج ٹھاکرے سے ملاقات کی—تصویر: فیس بُک

ان تلخ واقعات کے بعد پاکستانی اداکار بولی وڈ سے دور ہوگئے۔ اگرچہ بھارتی کمپنیز نے گلوکار راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم کی صلاحیتوں سے کچھ حد تک استفادہ کیا لیکن اس سرگرمی کو لوپروفائل رکھا گیا اور احتیاطاً دبئی اور یورپ جیسے پلیٹ فارمز استعمال کیے گئے۔

اس تناؤ میں کمی کا کچھ امکان تب پیدا ہوا جب بلال لاشاری کی بلاک بسٹر فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی بازگشت بھارت پہنچی۔ فلم میں فواد خان اور ماہرہ خان کی موجودگی نے عالمی توجہ حاصل کی۔ برطانوی اور امریکی سنیما گھروں میں بھارتی آرٹسٹوں نے بھی یہ فلم دیکھی۔ دھیرے دھیرے یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ فلم کو بھارت میں بھی ریلیز کیا جائے۔

دسمبر 2022ء میں ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کو بھارت میں ریلیز کرنےکا اعلان کیا گیا لیکن بدبختی نے تاحال فواد خان کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ ریلیز کے اعلان کے ساتھ ہی فلم کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا ہوگیا۔ انتہا پسند ایک بار پھر میدان میں کود پڑے۔ دباؤ کے باعث بھارتی ڈسٹری بیوٹرز نے عین وقت پر ریلیز منسوخ کردی۔ اس فیصلے کی کوئی سرکاری وجہ نہیں بتائی گئی لیکن یہ اقدام پاکستانی فن کاروں پر عائد غیر رسمی پابندیوں کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ یوں ناظرین کی امیدوں پر ایک بار پھر اوس پڑ گئی۔

فلم کو ایک موقع اور ملا۔ اس بار ریلیز کے لیے 2 اکتوبر 2024ء کی تاریخ طے کی گئی۔ فلم کو بھارتی پنجاب کے سنیما گھروں تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کیونکہ پنجاب بی جے پی کی سیاست کے زیرِ اثر نہیں، اس لیے امید ہوچلی تھی کہ اس بار یہ بیل منڈھے چڑھ جائےگی۔ بدقسمتی سے ریلیز سے چند روز قبل بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے فلم کی نمائش کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

ان واقعات کے باوجود فواد خان کو بولی وڈ کے پردے پر دیکھنے کی چاہ کم نہیں ہوئی تھی۔ اسی لیے جب وانی کپور کے ساتھ فواد خان کی فلم ’ابیر گلال‘ کا ٹیرز ریلیز ہوا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ریلیز کے لیے 9 مئی 2025ء کی تاریخ مقرر ہوئی۔ گو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا مگر ناظرین امید کر رہے تھے کہ اس بار یہ بیل منڈھے چڑھ ہی جائے گی۔ البتہ پہلگام واقعے کے بعد ان امیدوں پر پانی پھر گیا۔ گو چند آوازیں فواد خان اور فلم کے حق میں بلند ہوئیں لیکن حالات کے جبر میں وہ بے کار گئیں۔ فلم کے گیتوں کو بھی یوٹیوب سے ہٹا لیا گیا ہے۔

اس ثقافتی جبر سے فقط فواد خان نہیں بلکہ ہانیہ عامر کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ برس نشر ہونے والے فہد مصطفی اور ہانیہ عامر کے ڈرامے ’کبھی میں، کبھی تم‘ نے پاکستان میں تو کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہی بلکہ ساتھ ہی یوٹیوب کے ذریعے اس نے بھارتی ناظرین کو بھی گرویدہ بنا لیا تھا۔

اس ڈرامے سے ہانیہ عامر کی شہرت سرحدوں کے پار پہنچ گئی۔ چند ماہ بعد انہوں نے بھارت کے مقبول ترین پنجابی آرٹسٹ، دلجیت دوسانج کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا۔ یہ ویڈیو بہت مقبول ہوئی۔ ساتھ ہی یہ بازگشت سنائی دینے لگی کہ ہانیہ دلجیت کی اگلی فلم میں نظر آئیں گی۔ گو اس فلم کا کبھی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا لیکن پہلگام واقعے کے بعد بھارتی میڈیا نے یہ خبر دینا ضروری جانا کہ ہانیہ عامر اب اس پروجیکٹ کا حصہ نہیں ہوں گی۔

المیہ یہ ہے کہ بھارت میں انتہاپسند سوچ اتنی بڑھ چکی ہے کہ فن و ثقافت سے وابستہ روشن خیال افراد کی آوازیں دب چکی ہیں۔ سیاسی فائدے کے لیے کنگنا رناوت، انوپم کھیر اور پریش راول سمیت بہت سے فن کار مودی سرکار کے ہم نوا بن گئے۔ ماضی میں جن فن کاروں کو معتدل خیال کیا جاتا تھا، انہوں نے یا تو خاموشی اختیار کرلی یا مودی کیمپ میں پناہ حاصل کرلی۔

اس وقت بھارتی سنیما بالخصوص بولی وڈ جس جانبدارانہ سوچ کا شکار ہے اس کی موجودگی میں پاکستانی فن کاروں کے لیے فی الحال کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ اب ’مغل اعظم‘ یا ’جودھا اکبر‘ جیسی فلموں کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ اب ’پدماوت‘ اور ’چھاوا‘ جیسی فلمیں سنیما کا چلن ہے جہاں ہندو سورماؤں کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر اکتفا نہیں کیاجاتا بلکہ مسلم کرداروں کی کردار کشی بھی ضروری تصور کی جاتی ہے۔

جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے، بھارتی سرکار نے 16 پاکستان یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ اقدامات مودی سرکار کے ثقافتی راہداریوں کو جنگی محاذ میں ڈھالنے کی پہلی کوشش ہے۔

صائمہ اقبال

لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔