عمران خان کی پرول پر رہائی کی درخواست اعتراضات کیساتھ سماعت کیلئے مقرر
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی پرول پر رہائی کے لیے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی دائر درخواست کل اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کردی گئی۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر علی امین گنڈاپور کی درخواست پر کل اعتراضات کے ساتھ سماعت کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں ملک کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی کو پرول رہا کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
تاہم، رجسٹرار آفس نے علی امین گنڈاپور کی جانب سے دائر درخواست پر متعدد اعتراضات عائد کر رکھے ہیں۔
رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کیا کہ پرول پر رہائی کی درخواست متاثرہ شخص کی جانب سے خود دائر نہیں کی گئی، کسی دوسرے شخص کے لیے ایسا ریلیف کیسے مانگا جاسکتا ہے؟
رجسٹرار آفس کا اعتراض ہے کہ جس شخص کی پرول پر رہائی مانگی جا رہی ہے اسے درخواست میں فریق ہی نہیں بنایا گیا، نیب کیس میں سزا یافتہ مجرم کی پرول پر رہائی کی درخواست میں نیب کو فریق ہی نہیں بنایا گیا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے لطیف کھوسہ اور شہباز کھوسہ کے ذریعے دائر درخواست میں بانی پی ٹی آئی کی پرول پر رہائی کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان کو بھارتی حکومت کی جانب سے جارحیت کا سامنا ہے، مختلف شہروں پر ڈرون حملوں سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جان کو جیل میں خطرہ ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ مودی سینٹرل جیل اڈیالہ کا بھی ڈرون حملے کے لیے اہم ٹارگٹ کے طور پر دیکھ سکتا ہے، بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے تو نریندر مودی کو عالمی سطح پر شرمندگی اٹھانا پڑی تھی۔
مزید کہا کہ سیاسی طور پر بنائے گئے مقدمات میں طویل قید سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، اس طرح کی قید سے بچنے کے لیے آئین میں پرول پر رہائی کی ریمیڈی موجود ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان یقین دہانی کراتے ہیں کہ پرول پر رہائی کی شرائط پر عمل کریں گے، طویل قید سے صحت خراب ہونے کا بھی خطرہ موجود ہے، سیکریٹری داخلہ پنجاب کو اس حوالے سے درخواست دی مگر کئی کارروائی نہیں ہوئی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے جیل میں قید کے دوران پرزن رولز کی خلاف ورزی نہیں کی، لہٰذا استدعا ہے کہ انہیں پرول پر رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں وفاقی حکومت، حکومت پنجاب، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اور پرول کمیٹی کو فریق بنایا گیا ہے۔
پس منظر
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 190 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا۔
رقم (190 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا تھا۔












لائیو ٹی وی