— فوٹو: ڈان نیوز

امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کی تاریخ

واشنگٹن کی قیادت میں ایران کی جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کی ایک نئی انتہا کی علامت ہیں۔
شائع June 23, 2025 اپ ڈیٹ June 24, 2025

امریکا نے ہفتے کے روز ایران کی اہم جوہری تنصیبات کو براہِ راست فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا، جس کے ساتھ ہی امریکا، اسرائیل کی ایران کے خلاف جنگ میں براہ راست شامل ہوگیا، یہ ایک ایسا لمحہ جو مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی انتہا ثابت ہوا، یہ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد پہلا موقع تھا، جب امریکا نے ایران کی سرزمین پر اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے اپنی عسکری قوت استعمال کی۔

ایران نے ان امریکی حملوں کو ’ غیر قانونی اور مجرمانہ’ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اس کے ’ دیرپا نتائج’ ہوں گے، جن کی مکمل ذمہ داری امریکا پر عائد ہوگی۔

جوابی اقدام کے طور پر ایران کی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے، آبنائے ہرمز ایک اہم بحری راستہ ہے جس کے ذریعے دنیا کی تقریباً 20 فیصد تیل اور گیس کی سپلائی ہوتی ہے۔

اب دنیا کی نظریں ایران پر مرکوز ہو گئی ہیں، اور تجزیہ کار یہ سوال کر رہے ہیں کہ آیا ایران اس تنازع کو مزید بڑھائے گا اور امریکی مفادات کو نشانہ بنائے گا، یا صدر ٹرمپ کی مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرے گا، جو درحقیقت ایران سے اس کے تمام جوہری افزودگی کے منصوبے ترک کرنے کا مطالبہ ہے۔

پاکستان میں ایران کے سفیر، ڈاکٹر رضا امیری مقدم نے خبردار کیا کہ تہران، امریکا کی جانب سے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملوں کے جواب میں خطے میں امریکی تنصیبات اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

اتوار کے روز نیشنل پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران پہلے ہی اسرائیل کے خلاف ایک ’ طویل جنگ’ کے لیے تیار ہے۔

واشنگٹن کی ہدایت پر کیے گئے یہ حملے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کی نئی انتہا کو ظاہر کرتے ہیں، جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے بڑھتی چلی آ رہی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات کی جڑیں کئی دیرینہ تنازعات میں پیوست ہیں، جن میں ایران میں امریکی سیاسی مداخلت، تیل کے ذخائر پر کنٹرول، ایران کا جوہری توانائی کا حصول، اور مشرقِ وسطیٰ میں دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ شامل ہیں۔

درج ذیل ٹائم لائن 1950 کی دہائی سے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کی تاریخ کو بیان کرتی ہے:

1951

ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی کا آغاز 1951 میں اس وقت ہوا جب محمد مصدق کو ایران کا وزیرِاعظم مقرر کیا گیا، 1900 کی دہائی کے اوائل سے برطانیہ نے اینگلو-ایرانی آئل کمپنی کے ذریعے ایران کے تیل پر کنٹرول حاصل کیا ہوا تھا، جب محمد مصدق برسراقتدار آئے تو ایرانی عوام میں اپنے وسائل پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آواز بلند ہونے لگی، محمد مصدق کی عوامی حمایت سے اینگلو ایرانی کمپنی کو قومیانے کی کوشش برطانیہ کو سخت ناگوار گزری۔

1953

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے برطانیہ کے ساتھ مل کر ایران کے جمہوری طور پر منتخب وزیرِاعظم محمد مصدق کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ایک خفیہ سازش کی جس کے نتیجے میں ایرانی فوج نے امریکا و برطانیہ کی مدد سے محمد مصدق کا تختہ الٹ دیا ، اور مغرب نواز سابق بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کو دوبارہ اقتدار میں لا بٹھایا، اس غیر ملکی مداخلت نے ایرانی عوام میں شدید نفرت اور مستقل امریکی مخالف جذبات کو جنم دیا۔

1954

امریکا اور برطانیہ کے دباؤ پر، رضا شاہ پہلوی نے 1954 کے کنسورشیم معاہدہ پر دستخط کیے، جس کے تحت امریکی، برطانوی اور فرانسیسی تیل کمپنیوں کو ایران کی قومی تیل صنعت میں 25 سال کے لیے 40 فیصد حصہ دیا گیا۔

1957

امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کے ’ ایٹمز فار پیس’ منصوبے کے تحت، رضا شاہ پہلوی نے امریکا کے ساتھ ایک جوہری معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے ساتھ جوہری ٹیکنالوجی کا تبادلہ تھا، اس معاہدے نے ایران کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی، جس کے تحت امریکا نے 1979 کے ایرانی انقلاب تک ایران کو ایک ری ایکٹر اور ہتھیاروں کے معیار کا افزودہ یورینیم فراہم کیا۔

  محمد رضا پہلوی (بائیں سے دوسرے) اور فرح دیبا (دائیں سے دوسری) 1962 میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی جانب سے ان کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں شریک ہیں— فوٹو: اے ایف پی
محمد رضا پہلوی (بائیں سے دوسرے) اور فرح دیبا (دائیں سے دوسری) 1962 میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی جانب سے ان کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں شریک ہیں— فوٹو: اے ایف پی

1960

ایران، عراق، کویت، سعودی عرب اور وینزویلا نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک - OPEC) قائم کی تاکہ عالمی تیل پر مغربی تسلط کو چیلنج کیا جا سکے اور اپنے وسائل پر کنٹرول واپس حاصل کیا جا سکے، 1970 کی دہائی تک اوپیک کے زبردست منافع نے اسے مغربی معیشتوں پر اثرانداز ہونے والی بڑی طاقت بنا دیا، اور ایران امریکا کا ایک اہم اتحادی بن کر ابھرا۔

1972

صدر رچرڈ نکسن ایران آئے اور رضا شاہ پہلوی سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے مدد مانگی، خاص طور پر سوویت حمایت یافتہ عراق کے خلاف، اس کے بدلے نکسن نے وعدہ کیا کہ ایران جو چاہے غیر جوہری ہتھیار خرید سکتا ہے۔

1979

اگرچہ امریکا اور ایران کے تعلقات مضبوط ہو رہے تھے، لیکن کئی ایرانی مغربی اثر و رسوخ کی مزاحمت کر رہے تھے، سیکولر مظاہرین شاہ کی آمرانہ حکومت کے مخالف تھے جبکہ اسلام پسند ان کی جدیدیت کی پالیسیوں کو مسترد کرتے تھے، ملک گیر بدامنی کے بعد رضا شاہ پہلوی کو امریکا فرار ہونا پڑا، جس نے آیت اللہ روح اللہ خمینی کی جلاوطنی سے واپسی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کی راہ ہموار کی۔

  1979 کے انقلاب سے قبل شاہ مخالف مظاہرے— فوٹو: اے ایف پی
1979 کے انقلاب سے قبل شاہ مخالف مظاہرے— فوٹو: اے ایف پی

1980

رضا شاہ پہلوی کی رخصتی کے بعد، ایرانی طلبہ نے تہران میں امریکی سفارتخانے پر قبضہ کر لیا اور 52 امریکیوں کو 444 دن تک یرغمال بنائے رکھا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ شاہ کو واپس لا کر ’ ایرانی عوام کے خلاف جرائم’ پر مقدمہ چلایا جائے۔

یرغمالیوں کو الجزائر معاہدے کے تحت رہا کیا گیا، جو رونالڈ ریگن کی صدارت کے حلف اٹھانے کے چند لمحوں بعد دستخط ہوا، اس معاہدے کے تحت امریکا نے ایرانی سیاست میں عدم مداخلت کا وعدہ کیا، جس کے بعد امریکا نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے اور پابندیاں عائد کر دیں، رضا شاہ پہلوی جلاوطنی میں چل بسے۔

1980 – 1988

دونوں ممالک کے تعلقات اس وقت مزید خراب ہو گئے جب امریکا نے عراق کو اقتصادی امداد، تربیت اور دہری استعمال کی ٹیکنالوجی فراہم کی، کیونکہ عراق کے صدام حسین نے آیت اللہ خمینی کے نظریات کو روکنے کے لیے ایران پر حملہ کر دیا تھا، جنرل قاسم سلیمانی، جو اس وقت ایران کی پاسداران انقلاب میں شامل ہو چکے تھے، اس جنگ میں محاذِ جنگ پر لڑے۔

  اس فائل فوٹو میں قاسم سلیمانی کو تہران میں ایرانی رہنما کے دفتر کے ارکان کے ساتھ انٹرویو کے دوران ان کی مخصوص انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی
اس فائل فوٹو میں قاسم سلیمانی کو تہران میں ایرانی رہنما کے دفتر کے ارکان کے ساتھ انٹرویو کے دوران ان کی مخصوص انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی

1983

لبنان میں امریکی فوجی بیرکوں پر حملہ ہوا جس میں 241 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے، اس کے نتیجے میں امریکا نے لبنان سے اپنی میرین فوج واپس بلا لی، حزب اللہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

1984

صدر ریگن نے ایران کو باضابطہ طور پر ’ دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک’ قرار دیا، اس کے باوجود ریگن حکومت نے خفیہ طور پر ایران کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے امکانات تلاش کیے تاکہ لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے امریکیوں کی واپسی ممکن ہو سکے۔

1988

ایرانی بارودی سرنگ کے باعث ایک امریکی جنگی جہاز کو نقصان پہنچا تو امریکی بحریہ نے جوابی آپریشن ’ آپریشن پریئنگ مینٹس’ شروع کیا، جس میں دو ایرانی تیل کے پلیٹ فارمز تباہ کیے گئے اور ایک ایرانی جنگی جہاز ڈبو دیا گیا۔

جولائی میں، ایک امریکی بحری جہاز نے ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران ایئر کی پرواز (IR655) کو نشانہ بنایا جو دبئی جا رہی تھی، اس حملے میں تمام 290 مسافر ہلاک ہو گئے، امریکا نے اسے ’ غلطی’ قرار دیا، مگر باقاعدہ معذرت یا ذمہ داری قبول نہ کی، تاہم متاثرہ خاندانوں کو 61.8 ملین ڈالر معاوضہ دیا۔

1992 – 1996

امریکا نے ایران پر پابندیاں مزید سخت کر دیں، 1992 میں ’ ایران-عراق آرمز نان پرولیفریشن ایکٹ’ منظور ہوا، جو ایسی اشیاء کی برآمد پر پابندی لگاتا ہے جو جدید ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہو سکتی ہیں، 1995 میں امریکا نے ایران پر مکمل تیل اور تجارتی پابندیاں لگا دیں، 1996 میں ’ ایران اور لیبیا پابندی ایکٹ’ کے تحت غیر امریکی کمپنیوں پر بھی پابندیاں لگائی گئیں جو ایران کے تیل اور گیس کے شعبے میں سالانہ 20 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرتی تھیں۔

2002

نائن الیون حملوں کے بعد صدر جارج بش نے ایران کو ’ بدی کے محور’ (Axis of Evil) میں شامل قرار دیا، حالانکہ ایران نے افغانستان میں مشترکہ دشمن طالبان کے خلاف امریکا کی مدد کی تھی۔

2003

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے ایران کے ایک جوہری پلانٹ میں انتہائی افزودہ یورینیم کے آثار دریافت کیے, تہران نے یورینیم کی افزودگی معطل کرنے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں یہ دوبارہ شروع کر دی گئی۔

2006

احمدی نژاد نے امریکی صدر بش کو 18 صفحات پر مشتمل ایک خط لکھا تاکہ جوہری کشیدگی کم کی جا سکے، لیکن ایران نے اپنی افزودگی کی سرگرمیوں کو سست نہیں کیا ، اس کا دعویٰ تھا کہ یہ صرف شہری توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔

2013

2013 سے 2015 کے درمیان امریکی صدر باراک اوباما اور ایران کے نومنتخب صدر حسن روحانی کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات ہوئے، جن کے نتیجے میں ’ جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن’ طے پایا، اس معاہدے کے تحت ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بدلے میں اس پر عائد کچھ پابندیاں نرم کر دی گئیں۔

2017

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں، جن میں ایران بھی شامل تھا ، کے امریکا میں داخلے پر 90 دن کی پابندی عائد کر دی، ایران نے اس پابندی کو ’ اسلامی دنیا کی کھلی توہین’ قرار دیا اور جواباً ایک بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی دوبارہ بڑھ گئی۔

  ایک بچ اپنے مسلمان اہلِ خانہ کی حمایت میں پلے کارڈ تھامے کھڑی ہے جبکہ لوگ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمان اکثریتی ممالک پر سفری پابندی کے خلاف لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئرپورٹ  کے بین الاقوامی ٹرمینل پر احتجاج کر رہے ہیں—فوٹو: رائٹرز
ایک بچ اپنے مسلمان اہلِ خانہ کی حمایت میں پلے کارڈ تھامے کھڑی ہے جبکہ لوگ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمان اکثریتی ممالک پر سفری پابندی کے خلاف لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بین الاقوامی ٹرمینل پر احتجاج کر رہے ہیں—فوٹو: رائٹرز

2018

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران، امریکا نے یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے (JCPOA) سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں تاکہ اس پر ’ زیادہ سے زیادہ دباؤ’ ڈالا جا سکے، جواباً، ایران نے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کر دیا۔

2020

2019 میں صدر ٹرمپ نے ایرانی پاسداران انقلاب کو ایک ’ غیر ملکی دہشت گرد تنظیم’ قرار دے دیا، 2020 میں، امریکا نے بغداد میں ڈرون حملے کے ذریعے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا، جو پاسداران انقلاب کی ایلیٹ قدس فورس کے سربراہ تھے۔

2021

صدر جو بائیڈن کے دور میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں کے تحت مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے, اسی دوران ایران کے نطنز جوہری پلانٹ میں ایک دھماکا ہوا، جس کا الزام ایران نے اسرائیل پر عائد کیا اور اعلان کیا کہ وہ یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کرے گا۔

اسی سال، ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے جوہری مذاکرات کو روک دیا اور اپنے پیش روؤں کی نسبت کہیں زیادہ سخت مؤقف اختیار کیا۔

2023

ایران میں قید پانچ امریکیوں کو ایک معاہدے کے تحت رہا کیا گیا، جس میں امریکا نے جنوبی کوریا میں منجمد ایرانی اثاثوں میں سے 6 ارب ڈالر کی رقم کو غیر منجمد کیا اور پانچ ایرانیوں کو امریکی حراست سے رہا کیا گیا۔

  خاندان کے افراد 19 ستمبر 2023 کو فورٹ بیل وائر میں رہا ہونے والے امریکیوں سیامک نمازی، مراد طہباز اور عماد شرقی کے ساتھ ساتھ دو دیگر واپس آنے والوں کو گلے لگا رہے ہیں جن کے نام امریکی حکومت کی جانب سے ابھی جاری نہیں کیے گئے—فوٹو: رائٹرز
خاندان کے افراد 19 ستمبر 2023 کو فورٹ بیل وائر میں رہا ہونے والے امریکیوں سیامک نمازی، مراد طہباز اور عماد شرقی کے ساتھ ساتھ دو دیگر واپس آنے والوں کو گلے لگا رہے ہیں جن کے نام امریکی حکومت کی جانب سے ابھی جاری نہیں کیے گئے—فوٹو: رائٹرز

امریکی شہری باب لیونسن کی گمشدگی پر پابندیاں

امریکی شہری باب لیونسن، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایران میں حراست کے دوران وفات پا گئے، کی بابت معلومات کی کمی پر امریکا نے ایران کی وزارتِ انٹیلیجنس اور سابق صدر محمود احمدی نژاد پر پابندیاں عائد کر دیں۔

2025

ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے اور اپنی ’ زیادہ سے زیادہ دباؤ’ کی مہم کو بحال کر دیا، مارچ میں، انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا، جس میں جوہری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کی تجویز دی گئی اور اس کے لیے 60 دن کی ڈیڈ لائن دی گئی۔

خامنہ ای نے یہ خط مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا مذاکرات نہیں بلکہ دھمکیاں دے رہا ہے اور دباؤ ڈال کر شرائط منوانا چاہتا ہے، انہوں نے واضح کیا کہ تہران کسی ’ غنڈہ گردی’ کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔

مذاکرات اور اسرائیلی حملے

اس کے بعد عمان اور اٹلی میں مذاکرات ہوئے، جن میں عمان (مسقط) ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا, ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم ایک معاہدے کے’ انتہائی قریب’ ہے, تہران نے بھی امید ظاہر کی، لیکن یورینیم کی افزودگی کے حق پر اصرار کیا، جو مذاکرات میں ایک متنازع نکتہ رہا۔

چھٹے دور کے مذاکرات سے ایک دن پہلے، اسرائیل نے ایران کے مختلف علاقوں میں فضائی حملے کیے۔

22 جون کو امریکا نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر براہ راست فضائی حملے کیے۔