حالیہ عام ٹیسٹ سے امراض قلب کی تشخیص میں غلطیوں کا انکشاف
ایک مختصر مگر انتہائی اہم تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں اور خصوصی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں امراض قلب کی بیماریوں کی تشخیص کے حالیہ کیے جانے والے ایک عام ٹیسٹ سے مرض کی تشخیص نہیں ہوپاتی یا پھر غلط تشخیص ہوجاتی ہے۔
طبی ویب سائٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق کنگز کالج لندن کے ماہرین قلب کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ موجودہ طبی رہنما اصول (کلینیکل گائیڈلائنز) کی بنیاد پر دل کی اہم شریان لیفٹ مین کورونری آرٹری (ایل ایم سی اے) میں بیماری کی تشخیص میں 28 فیصد مریض نظر انداز ہوجاتے ہیں، یعنی ان میں بیماری کی درست تشخیص نہیں کی جاتی۔
تحقیق کے مطابق ایل ایم سی اے دل کی سب سے بڑی شریان ہے جو دل کے زیادہ تر حصے کو خون فراہم کرتی ہے، اگر وہ بند ہو جائے یا شدید تنگ ہو جائے تو اس سے جان لیوا دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ ڈاکٹرز عام طور پر دل کی شریانوں کا معائنہ ایک باریک تار کے ذریعے کرتے ہیں جو کلائی سے داخل کی جاتی ہے اور دل تک پہنچتی ہے، ایل ایم سی اے کی تشخیص کے لیے دل کی دونوں ذیلی شاخوں میں خون کے دباؤ (بلڈ پریشر) کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فی الحال عالمی رہنما اصول یہ کہتے ہیں کہ اگر دباؤ کی شرح 0.8 سے کم ہو تو یہ خطرناک ہے اور فوری علاج (اسٹنٹ یا بائی پاس) کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نئی تحقیق کے مطابق اگر ایک شاخ میں بلڈ پریشر کم ہو اور دوسری میں معمول کے مطابق ہو تو ڈاکٹروں کی اکثریت بیماری کو نظر انداز کر دیتی ہے، یعنی ماہرین نے اس وقت کے مروجہ ٹیسٹ اور اصولوں کو تشخیص کے لیے بہت ہی اچھا قرار نہیں دیا۔
ماہرین کے مطابق اس وقت کے مروجہ اصولوں کے تحت کم سے کم 28 فیصد مریضوں میں ایل ایم سی اے مرض کی تشخیص نہیں ہوپاتی یا ان میں غلط تشخیص ہوتی ہے، جس وجہ سے ایسے افراد کے لیے خطرہ برقرار ہے۔
ماہرین نے تجویز دی کہ ڈاکٹروں کو چاہیے کہ جب دونوں شاخوں کے بلڈ پریشر کے نتائج مختلف ہوں، تو وہ فوری طور پرایل ایم سی اے بیماری کو مسترد نہ کریں بلکہ الٹراساؤنڈ یا جدید امیجنگ ٹیکنالوجی جیسے نئیر انفرا ریڈ کیمرہ کا استعمال بھی کریں۔











لائیو ٹی وی