اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
وہ 9 مئی 1809ء منگل کا دن تھا جب فجر کے وقت جہازوں میں سب سے آگے موجود پرنس آف ویلس کے کیپٹن نے زمین نظر آنے کا اشارہ کیا مگر یہ اندازہ غلط تھا۔ سمندر میں پہاڑیوں کے سلسلے کو دیکھ کر اندازہ لگایا گیا تھا کہ سمندر کا کنارا آچکا ہے جبکہ وہ صرف پہاڑیاں تھیں۔
سمندر میں سفر کرتے ہوئے صبح کے 10 بجے بھی کمپنی سرکار کے یہ تین جہاز کراچی کے سمندری کنارے سے 6 کلومیٹر دور تھے۔ منوڑا کی ایک پہاڑی پر انہیں چورس بنا ہوا قلعہ نظر آیا اور ساتھ میں پہاڑیاں بھی تھیں۔ اسی دن دوپہر کو سمندر کنارے سے کچھ دور کمپنی سرکار کے ان جہازوں نے گہرے پانی میں لنگر گرادیے۔
کیپٹن میکسویل چھوٹی کشتی پر سمندر کنارے پر پہنچا تاکہ وہ کراچی کے گورنر کو اپنے وفد کے پہنچنے کی اطلاع دے سکے اور جہازوں کو بندرگاہ کے کنارے کے قریب آنے کی اجازت حاصل کر سکے مگر گورنر نے یہ کہہ کر اجازت نہیں دی کہ جب تک مرکز (حیدرآباد) سے سندھ کے امیروں کا کوئی جواب نہیں آتا تب تک وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ گورنر کے اس جواب نے میکسویل پر کوئی خاص اثر نہیں کیا اور جہازوں کو ہدایات دی گئیں کہ لنگر اٹھائے جائیں اور جتنا ممکن ہوسکے سمندر کنارے کے نزدیک لنگر گرا دیے جائیں۔

مئی سے اگست تک بارشوں کا موسم ہوتا ہے اور ان مہینوں میں سمندر کنارے تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ 10 مئی بدھ کا دن تھا اور ہر برس کی طرح جنوب مغرب سے تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ اسی دن کراچی کے قلعے اور قلعے سے باہر بنی ماہی گیروں کی چھوٹی بستیوں میں رہنے والوں کے کانوں نے بندرگاہ کی طرف سے توپیں چلنے کی آوازیں سنیں۔ بارود کسی بھی صورت میں ہو، اس کے وجود میں کبھی ہنسی کے ڈھول تاشے نہیں بجتے۔
مسلسل 16 توپوں میں بھرے بارود کے پھٹنے کی آوازوں اور بارود کی بو نے کراچی کے آسمان پر خوف کی ایک چادر سی تان دی۔ انسان کی چھٹی حس ضرور ہوتی ہے اور توپوں کی ان خوفناک آوازوں سے ڈر کا ایک سنپولا کراچی کے لوگوں کے شعور میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا کیونکہ وقت اور حالات خوف کی پرورش کرتے ہیں۔
یہ آوازیں ایسٹ انڈیا کمپنی سرکار کے جہازوں ’ماریہ‘ اور ’پرنس آف ویلس‘ سے چلی ہوئی توپوں کی تھیں جو ایک دوسرے کو سلامی دینے کے لیے چلائی گئی تھیں۔ ایک دوسرے کے جہازوں کو سلامی دینا ایک ڈرامے اور نفسیاتی طور پر خوف پھیلانے کے سوا اور کچھ نہیں تھا کیونکہ کمپنی سرکار سمجھتی ہے کہ خوف کی بنیاد پر ممالک پر قبضہ کیا جاتا ہے، اس اژدھے کی طرح جو پہلے اپنے شکار کو زور سے کستا ہے اور جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ شکار کے جسم کی ساری ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں اور وہ کچھ کرنے کے لائق نہیں رہا تب وہ اپنے شکار کو بڑے سکون سے دھیرے دھیرے نگل جاتا ہے۔
سندھ پر قبضہ کرنے کے لیے گوری سرکار نے ابتدا کردی تھی۔ اس وفد کا بظاہر مقصد سندھ کے امیروں سے ملاقات کرنا تھا اور سیٹن کے کیے گئے عہدنامے پر بات کرنا تھی اور وہ سندھ کے امیروں سے نیا عہد نامہ کرنے آئے تھے۔ اگر صرف بات ہی کرنا تھی تو ’پرنس آف ویلس‘ کو کراچی کے ساحل تک لانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ نہ کراچی کے کناروں پر کوئی جنگ چل رہی تھی اور نہ ہی کسی جنگ کی ابتدا کرنا تھی۔ پرنس آف ویلس، ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک بہت بڑا جنگی بحری جہاز تھا۔ یہ خوف کے بیج بونے کا ایک کامیاب نفسیاتی حربہ تھا جو گوری سرکار ہر جگہ استعمال کرتی تھی۔

10 مئی کو کراچی کے گورنر (نواب) نے اپنے چند محافظوں کے ہمراہ جہاز پر آکر اس وفد سے ملاقات کی۔ ساتھ میں کچھ بھیڑیں اور سبزیاں بھی ان گورے مہمانوں کے لیے لائی گئی تھیں جو انہیں پیش کی گئی مگر 30 منٹ دورانیے کی یہ ملاقات خوشگوار ثابت نہ ہوئی۔ پوٹنجر لکھتا ہے کہ ’کراچی کے گورنر کو فارسی اور نہ اردو بولنی آتی تھی اور نہ وہ یہ زبانیں سمجھتا تھا‘۔
ممکن ہے یہ زبانیں اسے سمجھ میں آتی ہوں اور بول بھی سکتا ہو مگر مرکز سے جو ہدایات موصول ہوئی تھیں، ان میں گورنر کو یہی ظاہر کرنا تھا کہ وہ ان زبانوں کو بالکل نہیں سمجھتا۔ اس طرح کی ملاقاتیں تقریباً روزانہ ہوتی تھیں۔ آخر 14 مئی اتوار کے دن کراچی کے گورنر نے اس وفد کو خیمہ لگانے کے لیے کراچی کے سمندری کنارے پر جگہ دی جہاں پر انہوں نے چھاؤنی قائم کی مگر انہیں سختی سے یہ تاکید کی گئی کہ ان کا کوئی آدمی کراچی کے قلعے کی طرف نہیں آئے گا۔
ساتھ ہی چھاؤنی کے اطراف میں چوکیاں قائم کردی گئیں تاکہ اس پر نظر رکھی جا سکے۔ یہ رویہ سندھ کے امیروں کے احکامات کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے جن میں سختی کا عنصر نمایاں ہے کیونکہ کراچی کے گورنر کو ساری ہدایات حیدرآباد سے ملتی تھیں جس پر وہ عمل کرتا تھا۔
کمپنی بہادر کے سفیر نے سندھ کے امیروں کو اس سختی کے متعلق ایک شکایتی خط تحریر کیا اور ساتھ ہی حیدرآباد آکر ملنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔ اس خط کے بعد امیروں نے ’آخوند محمد بقا‘ کو اپنی طرف سے وفد سے بات کرنے کے لیے کراچی بھیجا جس کی مقرر سفیر نکولس اسمتھ سے ایک طویل ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں آخوند محمد بقا نے سفیر کو اپنے اعتراضات سے آگاہ کیا۔ سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ کراچی کے کنارے کمپنی کے جنگی جہاز کیوں موجود ہیں؟ انہیں یا تو واپس بھیجا جائے یا کم سے کم سندھ کی سرحدوں سے باہر سمندر میں کھڑا کیا جائے۔ اس کے بعد ہی امیروں سے ملاقات کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔

جب تک بات ایک طرف ہوتی تب تک چھاؤنی پر سختی کو اور بڑھا دیا گیا۔ پوٹنجر تحریر کرتے ہیں کہ ’ہمارے یہاں چھاؤنی میں آنے سے سخت نگرانی کی جا رہی ہے اور اتنی سخت قسم کی نگرانی ہے کہ ہم اگر چھاؤنی سے باہر نکلنے کی کوشش کریں تو یہ باہر نکلنا ایک بدمزہ بات ہوجائے گی۔ گورنر اور آخوند محمد بقا کے رویوں کی وجہ سے دشمنی والا ماحول بن گیا ہے۔
’اب مناسب یہی لگ رہا ہے کہ سرکاری چیزوں اور قیمتی سامان کو فوری طور پر جہاز پر بھیجا جائے۔ سامان کی منتقلی کے لیے ہم نے گورنر کو کچھ کشتیاں دینے کی گزارش کی کہ ہمیں سامان جہاز تک پہنچانا ہے۔ مگر اس نے سختی سے انکار کردیا اور ساتھ ہی کشتیاں رکھنے والے ملاحوں کو بھی سخت الفاظ میں تاکید کی گئی کہ ہمیں کشتیاں نہ دی جائیں اور اگر کسی مچھیرے نے کشتی دی تو وہ ضبط کر لی جائے گی۔ حقیقت میں ہم آزاد گھومنے والے قیدیوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھے۔ ہماری چھاؤنی کے خیموں کے گرد چوبداروں (ایسے چوکیدار جن کے ہاتھ میں لکڑی کا ایک 7 فٹ کا ڈندا ہوتا ہے) کو مقرر کیا گیا کہ وہ ہمیں یہ احساس دلا سکیں کہ ہم ان کی قید میں ہیں اور وہ یہ احساس دلانے میں بالکل کامیاب رہے۔
’ایک ہفتے تک اسی قید والی کیفیت میں گزارنے کے بعد سندھ کے امیروں کا خط پہنچا جس کی تحریر کا لہجہ کچھ نرم تھا جبکہ اس میں جہاز کھڑے کرنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ گُھٹتی سانس اور سکڑتے ہوئے راستوں والی کیفیت میں یہ بڑی آزادی تھی۔ کمپنی بہادر کا وفد مایوسی کے کہرے سے نکل آیا اور خود کو دلاسہ دیا کہ سندھ کے امیر جھک گئے اور ہم نے حیدرآباد جانے کا پکا ارادہ کرلیا۔
’ہم نے جیسے اپنے حیدرآباد کے سفر کے لیے گھوڑے خریدنے شروع کیے اور یہ خبر بازار میں پھیلی تو گھوڑوں کے قیمتیں فوری طور پر بڑھا دی گئیں۔ پہلے جو گھوڑا 100 روپے کا ملتا تھا، اس کی قیمت اچانک 200، 250 بلکہ 300 تک پہنچ گئی۔ چونکہ اس مہم کے حوالے سے بجٹ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا تو بڑی فراخدلی سے گھوڑوں کی خریداری شروع ہوئی‘۔

اب چونکہ یہ وفد حیدرآباد جائے گا تو اس کی واپسی کراچی سے نہیں ہوگی، اس لیے اس وقت کی کراچی کے متعلق پوٹنجر جو کہتے ہیں وہ ہمیں بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں وہ ضرور سن لینا چاہیے جو وہ لکھتے ہیں، ’کراچی کے قلعہ کے اندر 3 ہزار 250 گھر تھے۔ ان گھروں کے تعداد کے متعلق 1813ء میں سندھ حکومت نے گھر اور مردم شماری کرکے معلوم کیا تھا۔ البتہ قلعہ سے باہر جو جھونپڑیاں تھیں انہیں ان میں شمار نہیں کیا گیا تھا۔
’قلعے کے اندر مستقل اور عارضی رہنے والوں کی تعداد 13 ہزار کے قریب تھی۔ یہاں مستقل رہنے والے باشندوں کی اکثریت ہندوؤں تھی جو بھاری محصول اور بھاری کسٹم ڈیوٹی ادا کرتے ہیں جو ہندوؤں سے انہیں کا آدمی وصول کرتا تھا۔ ان کی ہی قوم بیوپار کرتی ہے اور کراچی کی سرکاری آمدنی کا وسیلہ یہ ہندو کمیونٹی ہی ہے۔ 1809ء میں کراچی سے وصول ہونے والی آمدنی 99 ہزار روپے (12375 پاؤنڈ اسٹرلنگ) تھی۔ یہ رقم وصول کرنے والا اپنی محنت کے بدلے 12 ہزار اس رقم سے اجارہ داری لیتا ہے اور ٹیکس کی اس رقم میں تقریباً ہر برس اضافہ ہو رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر مستقل طور پر ترقی کر رہا ہے۔
’اس ترقی کے جو اسباب ہیں ان میں کراچی بندر کی جغرافیائی حالات انتہائی اہم ہیں جو اسے ہندوستان اور کابل کے بادشاہ کے سارے علاقوں کے ساتھ ساتھ ایران، خراسان، بلخ، بخارا اور دیگر شہروں کے مرکز میں ہونے کی وجہ سے انتہائی اہم بناتا ہے۔
قلات کے محمود خان کی کمزور حکومت اور کم ہوتے ہوئے اختیارات یہاں کے سندھیوں کی آمدنی میں اضافہ کا اہم سبب بنے ہیں کیونکہ شمالی مرکزی شہروں اور ممالک کے بیوپاری جب یہ دیکھتے ہیں کہ قلات کا حاکم اپنے علاقے میں مال کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتا، اس لیے ان بیوپاریوں کے پاس سندھ کے بیچ والا راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں بچتا۔
’اس کے لیے ان کو بھاری ٹیکس دینے پڑتے ہیں لیکن اس کے بدلے انہیں تحفظ ملتا ہے۔ سندھ کا دیگر ممالک سے کاروبار اکثر کراچی کے راستے ہوتا ہے۔ اس لیے ان چیزوں کو جو یہاں سے جاتی ہیں یا باہر سے یہاں آتی ہیں، ان کی جانچ پڑتال کا یہ اچھا موقع ہے۔ یہاں جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں ان میں قلمی شورہ، نمک، چاول، کپاس، گھی، خوردنی تیل، روغنی بیج، شارک مچھلی کا تیل، چمڑے کو رنگنے کی چھال، کاسٹک سوڈا، کپڑا، کھالیں، خشک مچھلی اور دیگر چیزیں شامل ہیں اور یہاں کی مارکیٹوں کے لیے باہر سے جو چیزیں درآمد کی جاتی ہیں اُن میں گھوڑے، زعفران، صاف چمڑا، مشک، پھٹکڑی، ادویات، کشمیری شالیں، خشک میوہ، ہیرے، لعلیں، فیروزے اور دیگر قیمتی پتھر، گوند، لوہا، قلعی، تانبہ، عاج، چائے کی پتی، چینی، مصالحے شامل ہیں‘۔
پوٹنجر کے اس احوال کو اگر آپ تیز اور جائزے کی نگاہ سے دیکھیں تو ان میں کراچی کے آنے والے خوبصورت دنوں کا عکس موجود ہے۔


اس وفد کو کراچی میں آزادی ملنے کے بعد لگتا ہے کہ وہ ملیر تک گھومنے گئے تھے۔ پوٹنجر کہتا ہے کہ ہمارے آنے سے 3 برس قبل یہاں بارش نہیں ہوئی تھی اس لیے ہریالی کہیں انہیں نظر نہیں آئی، البتہ ملیر میں انہیں کچھ ایسے کنویں ضرور نظر آئے جو پیپل کے گھنے درختوں کی چھاؤں میں گھرے ہوئے تھے اور جن میں ٹھنڈا اور میٹھا پانی تھا۔ آس پاس کی بستیوں کے لیے یہ کنویں بڑی نعمت تھے۔ البتہ انہیں کہیں کہیں کانڈیرو (Alhagi maurorum) کی جھاڑیاں (یہ جھاڑی شوریدہ زمین پر نہیں اُگتی بلکہ جہاں زمین ریتیلی اور زرخیز ہو وہاں اگتی ہے۔ اونٹ اس جھاڑی کو شوق سے کھاتے ہیں یہ جھاڑی حکمت میں کچھ بیماریوں میں بھی استعمال ہوتی ہے) ضرور نظر آئی تھیں۔
جن لوگوں سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں، انہوں نے بتایا کہ اگر اچھی بارش ہوجائے تو تین دنوں میں حدِنظر تک ہریالی نظر آئے گی۔ انہیں ایک سیار بھی اچانک نظر آگیا تھا جنہیں ان گوروں نے خوب دوڑایا اور آخر اس نے کنویں میں چھلانگ لگا کر پیچھا چھڑوایا۔

10 جون کو یہ وفد کراچی سے نکلا ملیر، لانڈھی، بنبھور، گھارو سے ہوتا ہوا 16 جون کو صبح سویرے مکلی پہنچا۔ پوٹنجر کراچی سے ٹھٹہ کے بیچ میں کچھ اہم مقامات کا ذکر کرتا ہے۔ ’کراچی سے ٹھٹہ کے راستے پر جو چند کارواں سرائے حاکموں نے بنائے تھے جہاں پانی وغیرہ کی سہولیات ابھی تک موجود ہیں اور وہ ان حاکموں کے ناموں سے ہی یاد رکھی جاتی ہیں۔ ٹھٹہ سے پہلے ہماری آخری دو منازل گھارو اور گُجو تھیں۔ گجو ایک چھوٹی سی نہر پر آباد بستی ہے۔ یہ نہر یقیناً دریائے سندھ کے بہاؤ سے جڑی ہے۔ اس راستے سے سفر کرتے ہم نے کئی نئیوں (بارشی پانی کے بہاؤ) جیسے باکران، گنگارا، گورلکی، پیپل اور کواکنی کو پار کیا۔
’بارش نہ ہونے کی وجہ سے یہ بالکل خشک پڑی تھیں، ان میں سے کچھ کا پاٹ 50 گز اور کچھ کا 100 گز تک تھا۔ اس کے بعد ہم گھارو سے چار میل جنوب میں اس قبرستان پر گئے جو ایک بہاؤ کے جنوبی کنارے پر ہے جہاں دو قبائل کے لوگوں کی آپس میں جنگ ہوئی تھی (ہم گزشتہ کسی قسط میں راج ملک نامی قبرستان کا ذکر کر چکے ہیں)۔ یہاں اس قبرستان میں تیز ہرے رنگ کی گھاس ہے اور سارا قبرستان گھنے اور سایہ دار درختوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں اس بہاؤ کی وجہ سے ہریالی ہر جگہ نظر آتی ہے‘۔

پوٹنجر ٹھٹہ کے متعلق تحریر کرتا ہے کہ ’مکلی پہاڑی کی اونچائی سے اگر آپ ٹھٹہ کے شہر کو دیکھیں تو ٹھٹہ ایک بڑے اور گنجان آبادی والے شہر کی تصویر پیش کرتا ہے۔ مگر آپ جیسے جیسے اس منظرنامے کے قریب ہوتے جائیں گے آپ کے سامنے حقیقت عیاں ہوجائے گی۔ شہر کسی زمانے میں یقیناً بڑا رہا ہوگا مگر اب لمبی اداس گلیوں کے دونوں اطراف ٹوٹے پھوٹے اور ویران گھر نظر آتے ہیں۔
’راستے کے آخری دو میلوں میں 7 یا 8 فٹ اونچا ایک پُل بنا ہوا ہے جو بارش کے دنوں میں جب دریا کے بہاؤ میں زیادہ پانی آتا اور شہر کو پانی سے گھیر لیتا تو ٹھٹہ شہر اور مکلی کے بیچ میں رابطے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر کچھ برسوں سے اتنی زوردار بارشیں نہیں ہوئیں کہ جس کی وجہ سے پل والا یہ شاندار راستہ بھی کام کا نہ رہا‘۔

شہر کی گلیوں سے سفر کرکے وہ شہر میں بنی ہوئی ایسٹ انڈیا کے شاندار آفس میں پہنچے اور وہاں پر ہی رہائش اختیار کی۔ میری نظر سے اس ٹھٹہ والی کمپنی کے آفس کے اسکیچ گزرے ہیں، وہ انتہائی شاندار اور خوبصورت آفس تھا اور ننگر ٹھٹہ شہر کے بیچوں بیچ تھا۔ البتہ جب رچرڈ برٹن 1845ء میں اس آفس میں آیا تھا تب اس آفس کی حالت اچھی نہیں تھی۔
بہرحال پوٹنجر اور ان کا وفد یہاں کم سے کم 15 سے 20 دن ضرور رہا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ یہ جان سکیں کہ ان 20 دنوں میں پوٹنجر نے کمال سے زوال میں ڈھلتے ننگر ٹھٹہ کو کیسے دیکھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’ماضی میں شاندار تاریخ رکھنے والے ٹھٹہ کو اب ویران اور بیابان کا نام دیا جا سکتا ہے‘۔

جب تک سندھ کے امیر اس وفد کے لیے کوئی کشتی یا سواری بھیجیں تب تک اس وفد نے ٹھٹہ اور اس کے قریبی علاقے کو خوب دیکھا اور وقت گزارنے کے لیے خرگوشوں اور تیتروں کا خوب شکار کیا۔ مگر ان کی اس تفریح پر تب تالا لگ گیا کہ جب سندھ سرکار کا ایک کارندہ ولی محمد خان سرکاری کام سے ٹھٹہ آیا۔
پوٹنجر ہمیں بتاتا ہے کہ ’وہ رات کو پہنچا تھا دوسری صبح اس نے فوج کا رسالہ بھیجا اور ان سارے سندھیوں کو گرفتار کرلیا جنہوں نے ہمارے ہاں نوکری حاصل کی تھی۔ ایلچی کی ملی ہدایات کے تحت مسٹر ایلس فوری طور پر اس سے ملاقات کرنے کے لیے گیا اور اس غیردوستانہ عمل پر سخت الفاظ میں احتجاج کیا۔ پھر بات کا بتنگڑ بن گیا۔ نہ انگریز اپنی بات سے ہٹنے کو تیار تھے جبکہ ولی محمد خان لغاری بھی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ مگر دوسرے دن اس نے ان سندھیوں کو رہا کردیا جنہیں ہماری نوکری کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بہرحال محمد خان لغاری کچھ دن رہنے کے بعد جب حیدرآباد روانہ ہوا تو وہ ہمارے وفد سے فیکٹری کے آفس میں ملنے آیا۔ اس عمل سے معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ ہم حیدرآباد سے سواری کے آنے کا انتظار کرنے لگے‘۔

حالات کے مطالعے سے لگتا ہے کہ سندھ کے امیر اس وفد سے دل سے ملنے کو تیار نہیں تھے لیکن سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے وہ ملنے پر مجبور تھے۔ پہلے حاکموں نے کہا کہ وہ اس وفد کے لیے کشتیاں بھیجتے ہیں۔ پھر ایک جھمپٹی بھیجی جس میں وفد کا اکٹھے جانا ممکن نہیں تھا۔ جون جولائی کے سخت تیز دھوپ اور مٹی کے طوفانوں والے دن تھے جن میں خشکی کے راستے سے سفر کرنا انتہائی مشکل اور کٹھن ہوتا ہے۔ تالپوروں کا خیال یہ تھا کہ اس طرح ہم ان گوروں کو زیادہ پریشان کر سکیں گے لیکن گورے سندھ کے امیروں سے دو قدم آگے تھے۔
پوٹنجر لکھتا ہے کہ، ’ہم نے حیدرآباد جانے سے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ٹھٹہ سے حیدرآباد جانے کے لیے وفد کو دو حصوں میں سفر کرنا ہوگا ایک پانی کے راستے اور دوسرا خشکی کے راستے تاکہ اس طرح معروضی حالات کا تفصیل سے جائزہ لیا جا سکے۔ ماڑیوالا لکھتے ہیں، ’اصل میں انگریزوں کا یہ وفد سندھ کی جغرافیائی حقائق کا تجزیہ کرنے آیا تھا، نیا معاہدہ کرنا تو بس ایک بہانہ تھا اور ساتھ میں تالپور حکومت کو نفسیاتی طور پر ڈرانے آئے تھے‘۔
چلیے جھکڑ سے بھرے گرم دنوں میں یہ وفد دو حصوں میں حیدرآباد کی طرف نکل پڑا ہے۔ یہاں سے گوری سرکار کا وفد تالپوروں کو زیادہ سے زیادہ کوفت اور خوف میں مبتلا کرنے کے متعلق سوچ رہا ہے جبکہ سندھ کے امیر اس وفد کو زیادہ سے زیادہ پریشان کرنے کے لیے حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں۔
ہم یہ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے لیے جلد ملتے ہیں۔ حیدرآباد میں جس کے مشرق میں پھلیلی کا شاندار بہاؤ ہے اور مغرب کی طرف بھی پانی اور جھیلوں کی ایک دنیا آباد ہے کیونکہ حیدرآباد کو ہواؤں کا شہر ایسے ہی نہیں کہتے۔
حوالہ جات
- Travels in Balochistan and Sinde. By: L.Hanry Pottinger. 1800.
- British Policy Towards Sindh. C.L. Mariwalla. 1947.
- ’کتھائیں جادوگر بستیوں کی‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
